’مودی کی حکومت ہندوستانیت کے لیے خطرناک‘

Bhatkallys

Published in - Other

12:35PM Mon 19 Oct, 2015
شیو وشوناتھن(ماہرِ سماجیات( مخالفت علامتی بھی ہوتی ہے اور جب کوئی مصنف کسی معاملے کی مخالفت کرتا ہے تو اس سے اس کے سیاسی رجحانات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ نين تارا سہگل کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور اعزاز واپس کرنا ایک طرح سے ان کا سیاسی بیان ہی ہے۔ حقیقت میں انھوں نے ایک بحث کو پھر سے ہوا دی ہے جو اب تک پراثر نظر آرہی ہے۔ اس بحث نے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ان کے بنیادی نظریات پر لا کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کی لڑائی دو سیاسی نظریات کی جنگ ہے۔ اگر سنجیدگی سے دیکھیں تو سہگل کا مودی کی مخالفت کرنا دراصل ان کے خیالات کی مخالفت ہے۔ جب نين تارا سہگل نے اپنا ایوارڈ واپس کیا تو یہ صرف ایک اعزاز کی واپسی تک کا مسئلہ نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بھارتی ہیں۔ وہ ایسی مصنفہ ہیں جسے بھارت نے نوازا ہے اور اب وہ بھارت کے مستقبل اور مودی کی حکومت میں ہندوستانیت کے خیال کو لے کر فکر مند ہیں۔ ان کی مخالفت کی ایک فوری وجہ بھی ہے لیکن اس کی اصل وجوہات کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اکثریت کے غصہ کو مطمئن کرنے کے لیے ایک شہری کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آخر اخلاق جیسے ایک غریب لوہار کو گائے کاگوشت کھانے کے شک میں قتل کر دیا گیا، یہ صرف انتظامی امور میں بھول چوک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ خطرے میں آ گیا ہے۔ ہندوستانیت کا ویژن اور اس کی قدریں دونوں اچانک تار تار ہوگئی ہیں۔ ہندوستانیت خطرے میں ين تارا سہگل کو حقیقت میں یہ معلوم ہوگا کہ وہ حکومت کے معیار پر بحث نہیں کر رہی ہیں، نہ ہی ترقی کے پیمانے کی درست ہونے پر بلکہ سیکولر، سوشلسٹ اور تنوع سے پر بھارت کے ختم ہونے کے معاملے پر بحث کر رہی ہیں۔ جب تک اکیڈمی کے سربرہان نے انعام کی رقم پر سوال اٹھاتے تب تک سہگل نے اکیڈمی کے ایک لاکھ روپے واپس کر کے یہ بتایا کہ حساب کتاب اور جواب دہی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ لکھنا ایک طرح سے ذمہ داری اور تحفظ کا کام ہے اور ادیب تو ہندوستانیت کو تحفظ فراہم کرنے والی ایک جماعت ہے۔ یہی اصل ہندوستانیت اور آئینی بھارت ہے۔ سہگل مخالفت اور ڈرامہ بازی کے فرق کو سمجھتی ہیں لہٰذا انھوں نے اس معاملے پر بہت کچھ نہیں کہا، لیکن ان کا پیغام بالکل واضح ہے کہ كلبرگي سے لے کر اخلاق تک، ہندوستانیت پر خطرہ بڑھا ہے۔ بےحسی ان تمام معاملات پر مودی کی خاموشی نے اس بھونڈے پن کو اور بڑھا دیا ہے۔ بھارت کے حوالے سے ان کے نظریات پر سوال اٹھ رہے ہیں اور وہ خاموش بیٹھے ہیں گویا خفیہ جلاوطنی پر ہوں۔ اور جب مودی نے بیان دیا بھی تو وہ لیپا پوتی جیسا بیان تھا جبکہ تاخیر نے ان سے امیدیں بڑھا دی تھیں۔ کم از کم كلبرگي اور دادری کے معاملے میں وہ ایسے وزیر اعظم ثابت ہوئے جو موجود بھی ہے اور غائب بھی ہے۔ اس معاملے میں ان کے بیان نے تو مایوسی میں اور اضافہ کر دیا۔ انھوں نے اس واقعہ پر نہ تو صدمے کا اظہار کیا، نہ ہی معافی مانگی۔ ہاں تھوڑا افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے اسے بدقسمتی سے تعمبیر کیا اور اس کا الزام بھی انھوں نے اپوزیشن جماعتوں پر پرڈال دیا۔ انھوں نے اس واقعے کو کمتر بتانے کی کوشش کی اور انکار والا احساس ان پر غالب رہا۔ انھوں نے اس واقعے پر حساس طریقے سے پیش آنے کا موقع کھو دیا۔ اس سے ظاہر تو یہی ہوا کہ وزیر اعظم خود بھارت اور ہندوستانیت کو لے کر بہت پریشان نہیں ہیں۔ وہ علامتی جنگ ہار چکے ہیں۔ لیکن پیغام واضح ہے۔ اگر بی جے پی بہار میں انتخابات جیتتی ہے تو كلبرگي اور اخلاق کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ قوانین اور اقدار کے حوالے سے ہونے والے تنازعات سے انتخابی جیت زیادہ مؤثر ہوتے ہے۔ نين تارا سہگل کا اندیشہ درست ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ مودی کی حکومت میں مختلف النوع جمہوری اقدار کی حامل عظیم ہندوستانیت خطرے میں ہے۔ ایک مصنف نے اقتدار کی سیاست کے خالی پن کو سب کے سامنے بے نقاب کر دیا۔  

مودی کی حکومت ہندوستانیت کے لیے خطرناک