کیا پھر بھٹکل میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ !۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
بھٹکل شہر اور اس کے اطراف میں بسنے والے مسلمانوں کی دو خاصیتیں ہمیشہ فرقہ پرستوں کی آنکھ کانٹا ثابت ہوئی ہیں۔ ایک ہے ان کی مادی خوشحالی اور دوسری چیز ا ن کا دینی تشخص اور حمیت۔جس کی وجہ سے فسطائی قوتیں اسی منصوبہ بندی میں مصروف رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہاں کے مسلمانوں کو زک پہنچانے کا موقع ہاتھ آئے۔اور آج کل سوشیل میڈیا پر شدت پسند گروپ کے پیغامات اور ان کا لب ولہجہ خاصا تشویشناک لگ رہا ہے۔جس ارباب حل و عقد کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
گئے دنوں کی بات!: آج کی نوجوان نسل کو شاید اس کا احساس نہ ہولیکن گزشتہ23سال قبل یعنی 1993 ء میں جو مسلم کش فساد یہاں پر برپا کیا گیا تھا، اس کا منصوبہ اتنا زبردست تھا کہ اگر اللہ کی تائید نہ ہوتی اور اس وقت کے مسلم نوجوان سینہ سپر ہوکر کھڑے نہ ہوئے ہوتے تو آج ہمارے شہر کا نقشہ ہی کچھ الگ ہوتا۔ آج جو ہمارے علاقے کا رکن پالیمنٹ بنا پھرتا ہے اس کی قیادت میں مسلسل ۹ مہینوں تک یہاں فساد اور خون خرابے کا بازار گرم رکھا گیا تھا۔ اطراف کے شہر وں سے سمندری راستے سے ماہی گیر طبقہ اور سڑک کے راستے سے ہندتووا کے علمبردار غنڈوں نے وقفے وقفے سے یہاں پہنچ کر جو وارداتیں انجام دی تھیں ، آج ان کے بارے میں سوچو تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس کی تفصیل میں جانے کا فی الحال موقع نہیں ہے۔ لیکن حالات کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے بس ایک واقعہ کا منظر ذہن میں تازہ کرنا کافی ہے۔
دن دہاڑے تلواروں سے حملہ: اس مسلسل فساد کاانتہائی خطرناک حملہ وہ تھاجو دن دہاڑے کھلے بازار میں کیا گیا تھا۔بالکل امریکہ کے بدنام زمانہ دہشت گرد گروپKu Klux Klanکے انداز میں منصوبہ بند طریقے سے منھ پر نقاب ڈالے ہوئے 20 - 25ہندو نوجوان ننگی تلواریں لہراتے ہوئے بھرے بازار میں چن چن کر مسلمانوں پر حملے کرتا رہا۔دن کی روشنی میں پولیس سے بے خوف ہوکر تقریباً ایک کلو میٹر تک داڑھی اور لنگی والے مسلمان کو دیکھ کر تلواروں سے جان لیوا حملے کرتے گئے۔حالات پر نظر رکھنے کے لئے پولیس کے محافظ دستہ جو ایک خاص نکڑ پر تعینات تھااس نے بھی آنکھیں پھیرلیں۔ دوپہر کا وقت تھا اس لئے بازار میں قدرے کم چہل پہل تھی ، اس کے باوجوداس حملے میں 20سے زائد مسلمان زخمی ہوگئے۔ایک موقع پر ہی شہید ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر ایک اور شہید ہوگیا۔ ایک نوجوان جو اسکوٹر پر گزررہاتھا تلوار کے ایک ہی حملے میں اس کا ہاتھ کلائی تک کٹ کر سڑک پر گرگیا۔ آج بھی اس نوجوان کا کٹا ہوا معذور ہاتھ دیکھنے والوں کو وہ خوفناک منظر یاد دلا رہا ہے۔
نظر اٹھے تو بھی زخموں کی تاب لا نہ سکے
یہ آئینہ ہے کہ خنجر رواں ہے چہرے پر
فساد کی جڑایک روایتی سبب: اس طرح کے مسلم کش خونریز فساد کی جڑ وہی ایک روایتی سبب تھاجوملک بھر میں عام طور پر فساد بھڑکانے کے لئے فرقہ پرست فسطائی طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔ یعنی رام نومی کے موقع پر نکالے گئے رتھ پر ایک مسلم گھر کی جانب سے پتھر اچھالے جانے کی افواہ !اور اس کے بعد شروع ہونے والا خون خرابے کاسلسلہ تقریباً ۹ مہینوں کے بعداس وقت جا کر تھم گیا تھا جب پولیس سپرنٹنڈنٹ اوم پرکاش اور ڈپٹی کمشنر سریواستو نے بالآخر سخت اقدام کرتے ہوئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے چھوٹے بڑے اور چند اہم لیڈروں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا،جس میں موجودہ ممبر پارلیمنٹ اننت کمار ہیگڈے بھی شامل تھا، اور اس وقت یہ بات عام ہوئی تھی کہ اس مسلسل فساد کا اصل انجینئر یہی شخص تھا۔
ہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت پولیس نے اپنی کارروائی کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ابھرتی ہوئی مسلم نوجوان قیادت کو بھی نشانہ بنایا تھا اور سنگھ پریوار کے لیڈروں کی جیل سے ضمانت پر رہائی کے وقت چندمسلم نوجوان لیڈروں کو بھی گرفتار کرکے سنٹرل جیل بیلگام بھیج دیا گیا تھا۔(اس قافلے میں راقم الحروف بھی شامل تھا ۔اور اس کے بعد سے اب تک فرقہ پرستوں اور پولیس کے نشانے پررہ گیا ہوں!)کیونکہ پولیس کی مسلسل ناکامی اور فسادیوں کی بے لگامی کے خلاف کسی بھی طرح کے مؤثر اقدامات کرنے میں اس وقت کی خود مسلم قیادت ناکام ہوگئی تھی۔ اور اس صورتحال کو بدلنے کے لئے نوجوان قیادت میدان میں کود پڑی تھی۔کیونکہ
جڑ کتنی بھی گہری ہو مشکل ہے کھڑے رہنا
جو پیڑ نہیں پھلتے ، کٹوا دئے جاتے ہیں
ہندو جاگرن ویدیکے کا زور: 93 ء کے فساد کی اصل کمان اس زمانے میں ہندو جاگرن(ایچ جے وی) نامی تنظیم کے ہاتھوں میں تھی، جو ہندوؤں کی شدت پسند تنظیم کے بطور تازہ تازہ سرخیوں میں آگئی تھی۔ اس کا اہم ترین کمانڈر یہی رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے تھا۔ دراصل 93 ء سے ذرا پہلے یعنی 91 ء میں جب بابری مسجد کا مسئلہ لاوے کی طرح ابل رہا تھا، اس وقت17؍دسمبر کو سادھوی رتمبرا کا اشتعال انگیز کیسیٹ نور مسجد کے قریب عین عصر کی نماز کے وقت لاؤڈ اسپیکر پر بجایاجارہا تھا۔جس میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی بھڑکاؤ بھاشن تھا۔ کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور بات دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے فساد میں بدل گئی۔ چند گھنٹوں کے اندر آتش زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ ہندو اور مسلمان پوری طرح آمنے سامنے آگئے ، ایسے وقت میں ایک پولیس سب انسپکٹر پیمّیا نے چوک بازار میں واقع برما بازار کے قریب کھڑے ہوئے مسلم نوجوانوں پر نشانہ تان کر گولیا ں چلادیں۔ موقع پر ہی دو مسلم نوجوان ہلاک ہوگئے۔رات دیر گئے تک لوٹ مار اور خونریزی کے بعد فساد تھم تو گیا۔ مگر باوجود کوشش کے مسلم نوجوانوں کے قاتل انسپکٹر کے خلاف کوئی کارروائی انجام نہیں دی جاسکی۔ الٹے کچھ عرصے بعداس کا پروموشن کردیا گیا۔اوراس کے بعد ایسالگا کہ جیسے دل گرفتہ لوگوں کے لئے ہر گزرتا ہوا لمحہ یہ کہہ رہا ہو
بہالو اپنے شہیدوں کی قبر پر آنسو
مگر یہ حکم ہے کتبے شمار مت کرنا
haneefshabab@gmail.com
(۔۔۔جاری ہے ۔۔۔ دوسری قسط ملاحظہ فرمائیں)
ضروری وضاحت: اس مضموں میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔