آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنا چھوڑیں (از:۔عالم نقوی)

Bhatkallys

Published in - Other

02:33PM Fri 16 Oct, 2015
بے جرم و قصور چھ سال تک سلاخوں کے پیچھے رہنے ا ور با لآ خر عدالت سے با عزت بری ہوجانے والوں کے اس احساس میں مبالغہ نہیں ہے کہ ملک عملا ً ایک پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے اوراب عدالتوں پر بھی سوچ سمجھ کر ہی بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ معیشت نیوز ڈاٹ اِن کے مطابق مراٹھی پتر کار سنگھ ممبئی کے دفتر میں 6اکتوبر کو منعقدہ ایک پروگرام میں اُن لوگوں کو آپ بیتی بیان کرنے کی دعوت دی گئی تھی جو ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کے مظالم اور نچلی عدالتوں کی چشم پوشی کے شکار ہو کر برسوں جیل میں رہنے کے بعد اعلی عدالتوں سے با عزت بری ہوئے ہیں ۔ایسے ہی ایک نوجوان عبد الواحد نے غلط نہیں کہا کہ نچلی اور خصوصی عدالتیں با لعموم پولیس کی کہانیوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرتے ہوئے فیصلے سنا رہی ہیں ۔پولیس اور اے ٹی ایس نوجوانوں کو دھمکا کر اُن کے عزیزوں کو فرضی اور خطرناک مقدمات میںپھنسانے کی دھمکی دےکراعتراف جرم پرمجبورکرتی ہیں۔اس جلسے میں شرکا کی تعدادتوقع سےکافی کم تھی۔ اسی روز دہلی میں بھی دادری دہشت گردی کے خلاف احتجاج درج کرانے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک پروگرام ہوا ، جس میں ،ایشیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، مظاہرین کی تعداد افسوسناک حد تک کم رہی۔جماعت اسلامی ہند ممبئی نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،مرکزی جمیعت اہل حدیث ،جمعیت علمائے ہند ، مسلم پولیٹیکل کونسل ، آل انڈیا ملی کونسل ،لوک راج سنگھٹن، ایس آئی او ،اے پی سی آر ،پیو پلس یونین آف سول لبرٹیز اور پیو پلس یونین آف ڈیموکریٹک رائیٹس سمیت ایک درجن سے زائد سماجی ،ملی اور حقوق انسانی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن دیگر تنظیموں نے ایک عدد مقرر بھیج کر یا تنظیم کے کسی مرکزی ذمہ دار نے بذات خود شرکت کرنے سے زیادہ ، بظاہر ،اور کوئی تعاون نہیں کیا ۔ ایک درجن سے زائدتنظیمیں ڈیڑھ ، دو سو سے زائد افراد جمع نہیں کر سکیں ! اگر جماعت اسلامی نے بھی دو بسوں کا انتظام نہ کیا ہوتا تو شاید جلسے میں مقررین کے سوا اور کوئی بھی نہ ہوتا ! سوال یہ ہے کہ دیگر بڑی بڑی تنظیموں نے جن کے لیے سیکڑوں تو درکنار ،ہزاروں کا مجمع کر لینا عام حالات میں بھی معمولی بات ہوتی ہے ، ان مخصوص سنگین حالات میں اس درجہ سرد مہری کا مظاہرہ کیوں کیا ؟ یا پھر اس کامطلب، خدانخواستہ یہ نکا لا جائے کہ عوام خوف کا شکار ہو چکے ہیں ! یا خواص کو اب خود اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے ؟ اگر خدا نخواستہ ایسا ہے تو اس کی ذمہ دار ی بھی قائدین کے سوا اورکس کے سر جاتی ہے ؟ ممبئی پتر کار سنگھ والے جلسے میں ممبئی بم دھماکہ کیس سے باعزت بری ہونے والے ایک نوجوان عبد ا لواحد شیخ ،اکشر دھام حملہ کیس سے پھانسی کی سزا ہو جانے کے باوجود سپریم کورٹ سے با عزت رہائی پانے والے مفتی عبد ا لقیوم ،مکہ مسجد بم بلاسٹ کیس سے بری ہونے والے شعیب جاگیر دار ، اور،پولیس اور اے ٹی ایس کے مذمو،م اور سخت نا روا دباؤ میں حمایت بیگ کے خلاف جھوٹی گواہی دینے والے دو گواہوں نے عوام اور میڈیا کے لوگوں کے سامنے علی ا لا علان تفتیشی ایجنسیوں کے سیاہ کارنامے پیش کیے ۔ عبد ا لواحد شیخ نے کہا کہ جس طرح میں بے گناہ ہوں اور جس طرح مجھے عدالت نے باعزت بری کیا ہے اسی طرح وہ بارہ نوجوان بھی ناکردہ گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔پولیس ،اے ٹی ایس اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے پاس پہلے سے مقدمے کی پوری اسکرپٹ تیار تھی ،انہیں تو بس ،اُس میں خالی جگہوں پر نام بھرنا تھے جس کے لیے وہ ٹارچر کر کے مجبور کرتے تھے کہ فلاں جرم قبول کر لو ورنہ ۔۔۔! اسی سلسلے میں حمایت بیگ کے خلاف گواہی دینے والے گواہوں نے بتایا کہ پولیس اور اے ٹی ایس نے کس طرح جج کے سامنے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا اور جج نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور پوری طرح پولیس کی ما ورائے قانون کارروائیوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی۔ ایک گواہ نے بتایا کہ ۔۔ریحان نام کے ایک نوجوان کو اے ٹی ایس نے ٹارچر کر کے جھوٹی گواہی کے لیے مجبور کیا ۔دوسرے دن جب عدالت میں اسے پیش کیا گیا تو اس نے جج سے پوچھا کہ ۔۔کون سی کہانی سناؤں ؟ وہ جو پولیس نے سکھائی ہے یا وہ جو سچ ہے ۔ ؟ ۔۔ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ پولیس نے جج کے سامنے ہی اسے کالر پکڑ کر گھسیٹ لیا اور باہر لے آئی اور فون پر اس کی ماں اور بہن سے اس کی بات کروائی جنہوں نے روتے ہوئے اس سے کہا کہ ہم لوگ خطرے میں ہیں ،تم وہی کہو جو پولیس والے تم سے کہہ رہے ہیں ۔ ۔ !عبد الواحد نے عوام سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جائز حقوق کی لڑائی جاری رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو سبھی بے گناہوں کے ساتھ وہی ہوگا جو یعقوب میمن کے ساتھ ہوچکا ہے۔ مفتی عبد ا لقیوم نے ،جو اپنی مکمل روداد، اپنی کتاب ۔گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے ۔میں تحریر کر چکے ہیں ، بتایا کہ ۔۔گجرات میں تین سو مسلمانوں کو حراست میں لے کر انہیں جرم کا آپشن دیا جاتا تھا کہ کہ وہ خود اپنے بارے میں یہ طے کریں کہ انہیں کس جرم کے تحت جیل میں رہنا ہے ! ۔ معیشت ڈاٹ اِن کے نمائندے نے راقم ا لحروف کوفون پر بتا یا کہ پٹنہ ،سیوان اور چھپرا میں وکلا کی ٹیمیں پہلی مجوزہ کمیٹی والے کاموں کے لیے بن چکی ہیں ! اور جمیعت علماے ہند (ارشد مدنی گروپ ) کی ایک ٹیم بہت پہلے سے یہ کام انجام دے رہی ہے ۔ مفتی عبد ا لقیوم کی رہائی بھی اسی کی بدولت ممکن ہوسکی تھی اور اب مذکورہ قانونی امددا کمیٹی یہ اعلان کر چکی ہے کہ ممبئی بم بلاسٹ کیس میں جن نوجوانوں کو پھانسی اور عمر قید کی سزائیں ہوئی ہیں اُن کے مقدمات بھی ہائی کورٹ میں وہی لڑے گی ۔ کہنے کا م،مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی قانونی امداد کمیٹیاں تو پہلے سے موجود ہیں ۔ دوسری طرف دہلی میں منعقدہ جلسے کوجس میں شرکا کی تعداد شرمناک حد تک کم تھی ، جن اہم شخصیات نے خطاب کیا اُن میں ڈاکٹر ظفر ا لا سلام خان ، انجینیر محمد سلیم ،ڈاکٹر تسلیم رحمانی ،ڈاکٹر منظور عالَم ،سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن ،گروپریت سنگھ ،روی نایر اور ڈاکٹر قاسم رسول الیاس بھی شامل ہیں ۔ ایشیا ٹائمز کے مطابق تنظیموں نے اپنی نمائندگی درج کرانے کے لیے بمشکل ایک عدد مقرر کی اعانت کی ۔شاید یہی سب دیکھ کر پرشانت بھوشن نے کہا کہ اب سڑکوں پر آنے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اپنی توانائی اور اپنے وسائل کا استعمال ایسے کاموں میں کریں جن سے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکے ۔ دھرنے اور مظاہرے کی اِس جیسی خانہ پری کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ کیجئے ورنہ کل شاید آپ کو اس کی مہلت بھی نہ مل سکے ! لہذا سنجیدگی سے سوچیں ،غور کریں اور ٹھوس عمل کے لیے کمر بستہ ہو جائیں ۔ عبد ا لواسع نام کے ایک بزرگ نے نہایت کربناک لہجے میں کہا کہ محمد اخلاق تو اب اس دنیا ،میں نہیں رہے لیکن اب آئندہ کوئی اور اخلاق اس درندگی کا شکار نہ ہو اس کے لیے سبھی مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے لہذا اس معاملے میں فوری طور پر تین کام کروانے کی ہر ممکن کوشش کیجیے ۔ ایک تو یہ کہ جن آٹھ لوگوں کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ،اُن کے نام پتے ،اور پہچان ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ پولیس بعد میں ان کی جگہ غیر متعلق افراد کو کھڑا کرکے مقدمے کو کمزور اور مجہول نہ بنا سکے ۔ دوسرے یہ کہ اخلاق کی ایف آئی آر میں دفعہ 154بی کو بھی شامل کروایا جائے ۔ یہ دفعہ گھر میں گھس کر قتل کرنے کے معاملے میں لگائی جاتی ہے جو شاید ابھی تک پولیس نے اس مقدمے میں شامل نہیں کی ہے ۔ تیسرے یہ کہ محمد اخلاق کی پوسٹ مارٹم رپورٹ فوری طور پر ایف آئی آر کے ساتھ منسلک کرا دی جائے ۔ اگر ابھی ایسا نہیں ہو سکا تو عدالت میں یہ معاملہ کمزور ہو جائے گا ۔ عبد ا لواسع نام کے ان بزرگ نے بتایا تو نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں ضرور فوجداری کے کوئی ماہر وکیل رہے ہوں گے ۔ ہمیں امید ہے کہ محمد شعیب ایڈوکیٹ ،یا جو لوگ بھی دادری دہشت گردی مقدمے کو دیکھ رہے ہوں گے انہوں نے احتیاط کا کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑا ہوگا ۔ پھر بھی بہتر ہوگا کہ عبد ا لواسع صاحب کا یہ مشورہ،ضرور اُن کے گوش گزار کر دیا جائے ۔