وقت پرنمازکی ادائیگی نے خطرناک حادثہ سے بچایا ۔۔۔از:مولانامحمد الیاس ندوی بھٹکلی

۱۹۸۷ء کازمانہ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے میری عا لمیت کاآخری سال، جامعہ میں شہر سے طلباء کولانے لے جانے کے لیے پہلی دفعہ نئی بس خریدی گئی تھی، ہمارے مربی ومحسن مرحوم منیری صاحب کی نظامت کاسنہرادورتھا، وہ طلباء سے اپنی غیرمعمولی محبت وشفقت کی وجہ سے اکثران کے نازنخرے بھی برداشت کرتے تھے، ان کی اس پرکشش طبیعت ومزاج کودیکھتے ہوئے ہم لوگوں نے ان سے ایک دن اس کامطالبہ کردیاکہ ہمیں جامعہ کی گاڑی پکنک جانے کے لیے فراہم کردیں، ان کے دوسرے رفقاء نے ان کوسختی سے منع بھی کیاکہ مدرسہ کی گاڑی کی پرمٹ صرف شہرکے لیے ہے ، باہرجانے نہ دیں لیکن ہم طلباء کے مسلسل محبت بھرے اصرارپرانہوں نے اپنی ذمہ داری پرایک دن کے لیے ہمیں گاڑی دے دی ، ہم لوگوں نے بھٹکل سے تقریباً سوکلومیٹرکے فاصلہ پرواقع مشہورعالمی آبشارجوگ فالس جانے کاپروگرام بنایاجہاں ہزاروں فٹ کی بلندی سے کوہ قامت پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرنے والے آبشارکے نظارے کے لیے ہمیشہ ملکی وغیرملکی سیاحوں کا تانتالگارہتاہے، وہاں زیر زمین ایک پوری دنیا آباد کی گئی ہے جہاںآبشارسے گرنے والے پانی سے بجلی تیار کی جاتی ہے جوخوداپنی ریاست کے علاوہ ملک کے مختلف صوبوں میں سپلائی کی جاتی ہے، اس زیرزمین بجلی کے کارخانہ میں جانے کے لیے سیاحوں کوجس ٹرین نماڈبہ اورگاڑی سے نیچے پہنچایا جاتاہے اس کاخطرناک نظارہ کسی کمزوردل انسان کے بس کی بات نہیں ہے، متعدد دفعہ اس معلق ٹرین کی لوہے کی زنجیروں کے ٹوٹ جانے سے متعددجانیں بھی جاچکی ہیں لیکن آنے والے سیاح پھر بھی اس پرسے نیچے اترنے سے نہیں چونکتے ، اس کے علاوہ حدنظرتک نظرآنے والے پانی کے ڈیم کی وسعت اوراس میں جمع ہونے والے زائدپانی کوباہرکھیتوں میں چھوڑنے کے لیے بنائے گئے کوہ قامت لوہے کے دروازے اوراس سے پانی چھوڑنے کے مناظربھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جوگ فالس کی یہی وہ خصوصیت ہے کہ ہر مرتبہ جانے پرایک نیالطف وسرورمحسوس ہوتاہے، ہم لوگ بھی اس سے قبل کئی بار اپنے گھروالوں کے ساتھ یہاں جاچکے تھے لیکن اس مرتبہ اپنے مدرسہ کے ساتھیوں کے ساتھ پکنک منانے کالطف ہی کچھ اورتھا، حسب پروگرام ہم لوگ علی الصبح فجرپڑھ کرجوگ فالس کے لیے روانہ ہوئے، دن بھروہاں رہ کراوران قدرتی مناظرسے لطف اندوزہوکر سورج ڈھلنے سے قبل ہی وہاں سے واپس روانہ ہوئے تاکہ نشیب وفرازاورپیچ وخم والی جنگلوں سے گھری ان پہاڑوں پربنی سڑکوں کے نظارے سے پھرایک بارلطف اندوزہوسکیں، گھڑی دیکھ کرمغرب کی اذان کے وقت راستہ میں ایک جگہ رک گئے، اذان دی اورمسلک شافعی کے مطابق جمع بین الصلاتین اداکرکے پھرسوئے منزل روانہ ہوئے، گاڑی پربیٹھنے کے بعدمعمول کے مطابق اپنے قومی نوائطی گیتوں کاسلسلہ شروع ہوگیاجس میں حمدونعت اوردرودوسلام کے علاوہ شادی بیاہ اورغمی وخوشی کے موقع پرپڑھے جانے والے مختلف نغمے وگیت شامل تھے، دن بھرکی تھکاوٹ سے ہمارے ساتھی ایک ایک کرکے عالم خواب میں پہنچ گئے یہاں تک کہ کچھ ہی دیرمیںیہ سلسلہ خودبخودبندہوگیا، ڈرائیورمحمود بھی ہماری طرح تھکاہواتھاجب تک باتوں اورنغموں کا سلسلہ جاری رہااس کوبھی اپنی تھکاوٹ کا احساس نہیں رہااوروہ بھی تیڑھی میڑھی بل کھاتی سڑک پرگاڑی چلاتارہا، اسی دوران غیرشعوری طورپراچانک نیندکے ایک جھونکے نے اس پرحملہ کردیاجس کانتیجہ یہ ہواکہ اس کے ہاتھ نے گاڑی کی اسٹیرنگ کودائیں مڑنے والی سڑک کے بجائے بائیں ایک خطرناک جنگل کی کھائی میں موڑ دیا،پھرکیاتھاجنگل کے درختوں کوکھٹاکھٹ کاٹتے ہوئے منہ کے بل ہماری گاڑی اندھیرے میں نیچے جانے لگی، گھبراہٹ میں سب کی آنکھیں کھل گئیں اورایک دوسرے پرگرتے پڑتے چندہی منٹوں میں گاڑی ایک بڑے درخت سے ٹکڑاکررک گئی، بے اختیارہرطرف سے یااﷲیااﷲاورلاالہ الااﷲ کی صدائیں بلندہونے لگیں، گھپ اندھیرا،جنگل کی گہرائی، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا ، بالآخر ایک ساتھی نے ہمت کرکے دروازہ کھولنے کی کوشش کی جوالحمدﷲکھل گیا اوراحتیاط سے سب باہرآگئے اورایک دوسرے کی خیریت پوچھنے لگے، سب کی زبان پریہی تھاکہ الحمدﷲمیں ہرطرح سے محفوظ ہوں، آپ کیسے ہیں، جب سب بسلامت باہرنکلے اورسب کے بارے میںیقین ہوگیاکہ محفوظ ہیں توکسی طرح پہلی فرصت میں اوپرسڑک پرپہنچنے کافیصلہ ہوا، سب کے جوتے چپل گاڑی ہی میں رہ گئے تھے، ننگے پیرخاردارجھاڑیوں سے ہوتے ہوئے کانٹے داردرختوں کاسہارالیے اﷲکانام لے کراوپرچڑھنے لگے اورکسی طرح سڑک پرپہنچ گئے، کھلے آسمان کے نیچے سڑک کے ایک کنارے کھڑے ہوکرسب نے اجتماعی دعاکی ، اﷲسے معافی مانگیں اوراس کے اس احسان وکرم پرروروکرشکراداکیا، اب مسئلہ آگے کاتھا، اس سنسان راستہ میں اس وقت نہ کوئی آدم تھااورنہ آدم زاد،نہ کوئی سواری تھی اورنہ دوردورتک اس کاامکان، بالآخرطویل انتظارکے بعدایک ٹرک یہاں سے واپس جوگ فالس جاتے ہوئے پہنچا، سب کایہی فیصلہ تھاکہ رات یہاں اس حالت میں بیچ سڑک پرپڑے رہنے سے اچھاہے کہ کہیںآبادی میں جاکر پناہ لی جائے، ٹرک والے کوروک کرپوری حالت بیان کی گئی، اس نے ہم سب کوجوگ فالس کے قریب کارگل نامی گاؤں میں پہنچادیاجہاں ہمارے جامعہ کے کمپاونڈسے متصل رہنے والے ماسٹر عبدالکریم صاحب کی صاحبزادی رہتی تھی ، ان کامکان تلاش کیاگیا، کسی طرح وہاں پہنچ کرپوری صورت حال ان کے سامنے رکھی گئی، انہوں نے اسی وقت اپنے مکان میں ہم سب کے قیام کا نظم کیا، رات کوحادثہ کے بعدکارگل آتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی نے ہوش وحواس کھونے والی اس کیفیت میں بھی عقلمندی کاایک کام کیاتھااوراس نے سڑک کے کنارے جس جنگل کی کھائی سے ہم اوپرآئے تھے اس جگہ ایک کپڑابدن سے نکال کرلٹکادیاتھاتاکہ دوسرے دن گاڑی واپس نکالنے کے لیے آنے پراس جگہ کی شناخت ہوسکے، علی الصبح ہم لوگوں نے منیری صاحب کوروتے روتے فون کیاکہ رات اس اس طرح کاحادثہ پیش آیاہے اورہم سب اس وقت فلاں جگہ ٹہرے ہوئے ہیں، اﷲنے ہم سب کواپنے فضل سے ہرطرح سے محفوظ رکھاہے، براہ کرم ہم سب کے گھروں میں خیریت سے ہونے اوربچ جانے کی اطلاع کردیں، جب منیری صاحب نے صبح صبح سب کے گھروں میں اس کی اطلاع کردی توپورے شہرمیں کہرام مچ گیااوربہت بڑی تعدادمیں شہرکے نوجوان اورہمارے رشتہ دارودوست احباب اسکوٹروں اورکاروں پربذات خودہم سب کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جوگ فالس نکل پڑے، ادھرسے ہم لوگ بھی علی الصبح فجرپڑھ کر گھر آنے کے لیے ایک ٹرک کے ذریعہ نکل چکے تھے، راستہ ہی میں اس نشان زدہ جنگل کے کنارے اترے، کچھ ہی دیرمیں منیری صاحب بھی شرالی محمدعلی صاحب ودیگرساتھیوں کے ساتھ کارسے پہنچ گئے اورشہرکے دوسرے نوجوان اورذمہ داران بھی، ہم منیری صاحب سے مل کرلپٹ کررونے لگے وہ بارباراﷲکاشکراداکرنے لگے کہ اس نے محض اپنے فضل سے جامعہ کی لاج رکھی اوراس کوبدنامی سے بچایا، ورنہ یہ حادثہ کوئی اوررنگ دکھاتاتومیں شہر میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، پھرشہرسے آنے والے نوجوانوں نے ہم سے دریافت کیاکہ حادثہ والی گاڑی کہاں ہے، ہم لوگوں نے کہااس جگہ بہت نیچے پھنسی ہوئی ہے، کچھ لوگوں نے نیچے اترنے کی کوشش کی لیکن ہمت ہارکریہ کہتے ہوئے واپس آئے کہ پوری کھائی جوغیرمعمولی ڈھلوان والی ہے خاردارجھاڑیوں سے بھری ہوئی ہے، اس میں چلتے ہوئے نیچے اترناہمارے لیے نہ صرف دشواربلکہ ناممکن ہے ، وہ لوگ باربارہم سے دریافت کرتے رہے کہ رات کے گھپ اندھیرے میں وہ بھی ننگے پیر آپ لوگ کیسے اوپرآئے، ہم میں سے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے اﷲہی نے ہم کوپہنچایاورنہ ان حالات میں اوپرآناکسی کے بس میں نہیں تھا ، بڑی کوشش سے کچھ ساتھی کچھ دیرکے بعدنیچے جاکرواپس آئے ،انہوں نے گاڑی کی جوصورت حال بیان کی وہ حیرت انگیزہی نہیں اﷲکی کمال قدرت کی عجیب نشانی تھی،ان کاکہناتھاکہ گاڑی کم ازکم اسّی فٹ گہرائی میں ڈھلوان پرپھیلے ہوئے تمام درختوں کو کاٹتے ہوئے بہت نیچے ایک بہت بڑے درخت کے سہارے منہ کے بل گری ہوئی ہے اورعین اس درخت کے نیچے ایک ندی ہے، اگریہ درخت نہ ہوتو گاڑی کو ندی میں ڈوبنے سے روکنے والی کوئی چیزنہیں ہے یعنی خدانخواستہ گاڑی ندی کے اندرگرجاتی توکسی کے بچنے کے امکانات تودرکنارکسی لاش کا دوردورتک پتہ بھی نہیں لگتا اور ہمارے ورثاء ومتعلقین کوزندگی بھرکسی حادثہ میں ہمارے جاں بحق ہونے کاعلم بھی نہیں ہوتا اور وہ یہی سمجھتے رہتے کہ زمین نے ہم سب کونگل لیاہے، گاڑی کاپورہ حصہ سامنے کاناقابل شناخت ہوکرچپک کرایک دوسرے میں گھس گیاتھا، ہم سب ساتھیوں کایہ یقین تھاکہ اﷲنے محض اپنے فضل سے ہم سب کوراستہ میں وقت پرمغرب وعشاء کی نمازکی ادائیگی کی برکت سے بچایاورنہ ہم اپنی بداعمالیوں اورگناہوں کی بدولت اﷲکی طرف سے اس رحم وکرم کے مستحق نہیں تھے ، ہم سب کے لیے آئندہ کی زندگی میں سنبھل سنبھل کرقدم رکھنے کے لیے یہ ایک تنبیہ بھی تھی۔ زبان حال سے ہم سب گویاتھے:
رَبَّنَاظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن
کہ ائے اﷲہمیں اس کااقراربھی اوراعتراف بھی کہ خودہم نے اپنی جانوں پربہت ظلم کیاہے، اگرآپ کی طرف سے بخشش اورحم کامعاملہ نہ ہواتوہم یقیناً خسارہ والوں میں ہوں گے۔