ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (چوتھی اور آخری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

03:53PM Thu 8 Mar, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی  ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ haneefshabab@gmail.com ایڈوکیٹ نوشاد اور شاہد اعظمی کی شہادتوں کے بعدقانون کے جبر وستم سے بے گناہ مسلم نوجوانوں کو رہائی دلانے کی منظم کوششیں ملک کے مختلف مقامات پرتیز سے تیز تر ہوگئیں۔ٹاڈا اور پوٹا کو کالعدم کیے جانے کے بعد اب جوبھی گرفتاریاں ہورہی ہیں وہ یاتو منصوبہ بند جرائم organised crimes کی روک تھام والے ریاستی قوانین کے تحت اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے Unlawful Activities (Prevention) Act (UAPA)کے تحت ہورہی ہیں۔ اوراس میں کوئی شک نہیں کہ ان معاملات میں قانونی امداد فراہم کرنے اور عدالت پیروی کرنے میں جمعیت العلمائے ہند سب سے آگے ہے۔ اس کے علاوہ اے پی سی آر، رہائی منچ،ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک (HRLN)،موومنٹ فار جسٹس بنگلورو، انڈین یونین مسلم لیگ کیرالہ جیسی کئی تنظیمیں ہیں جو قانونی کارروائیاں کرنے، عوامی شعور بیدار کرنے اور حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف تحریکیں چلانے میں مصروف ہیں ان میں مسلم وکلاء کے علاوہ غیر مسلم وکلاء اور کارکنان (activists) بھی اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔لہٰذاآئیے دیکھتے ہیں کہ شاہد اعظمی اور نوشاد کی شہادت نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کی مہم کو کس طرح متاثر کیا۔اور ان کی یہ فکری و عملی وراثت Legacyکس طرح جاری ہے۔ شاہد کی شہادت کے بعد: شاہد اعظمی کی شہادت کے بعد ایک طرف ملک گیر پیمانے پر پہلے سے موجود وکلاء اور تنظیموں نے حصول عدل و انصاف کی اپنی رفتار تیز کردی۔ تو دوسری طرف نوجوانوں میں پیشۂ وکالت سے جُڑنے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا داعیہ اور نیا جوش و حوصلہ بیدار ہوا۔ شاہد اعظمی پر ’دی وائر‘ میں شائع ایک آرٹیکل بعنوان’’ As It Takes More Than Guns to Kill a Man‘‘ کے مطابق شاہد کے قاتل جو یہ چاہتے تھے کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کوقانون کے جبر سے رہائی دلانے والے خوفزدہ ہوجائیں اور اپنے قدم پیچھے ہٹالیں، مگرمعاملہ اس کے برخلاف اس طرح ہوگیاکہ مسلم ہی نہیں بلکہ کچھ غیر مسلم وکلاء بھی شاہد کی راہ پر آگے بڑھنے کے لئے تیار ہوگئے۔مثال کے طور پر عاصم خان جو ایک ٹی وی جرنلسٹ تھا،کہتا ہے کہ شاہد کے قتل کے بعد اس کی زندگی کا رخ بدل گیا اور اس نے وکالت کی تعلیم پوری کرلی اور اب وہ اس مشن کا حصہ بن گیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ:’’ایڈوکیٹ شاہد کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء پرکرناممکن تو نہیں ہے۔لیکن میں نے یہ پیشہ اپناکر قاتلوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم کسی انسان کو قتل کرسکتے ہو، اس کی سوچ اورفکر کو نہیں!‘‘ بالکل اسی طرح کیرالہ کاسرگوڈکے ایک نوجوان ریاض کاکہنا ہے کہ ’’میں زندگی میں پائلٹ بننے کی تیاری کررہاتھالیکن جب شاہد اعظمی کی پہلی برسی پر میں نے ایک آرٹیکل پڑھا تو میں نے شاہدکے قتل کابدلہ اس انداز سے لینے کا فیصلہ کیا کہ خود وکیل بن گیا، تاکہ میں بھی شاہد کی طرح بے قصوروں کو انصاف دلا سکوں۔ ‘‘ یعنی ان دو نوجوان وکیلوں کی شہادت اس شعر کے مصداق ہوگئی کہ ؂

سورج ہوں جاتے جاتے رمق چھوڑ جاؤں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

جمعیت العلماء کا کلیدی کردار: جمعیت العلمائے ہند کا ایک شعبہ صرف اسی مقصدکے لئے ملک گیر سطح پرمصروف ہے ۔ اس شعبے کی انتظامی سربراہی گلزار اعظمی کررہے ہیں۔ شہر اور ریاست کی مناسبت سے ان کے وکلاء کی ٹیمیں دہشت گردی کے بے قصورملزمین کی پیروی کیا کرتی ہیں۔ معروف وکیل یوسف مچالہ ایک عرصے تک جمعیت کی طرف سے بڑے اہم مقدمات دیکھ رہے تھے، بعد میں کچھ بدگمانیوں اور الزام تراشیوں کے بعد یوسف مچالہ کو الگ کردیا گیا۔اب پوری طرح گلزار اعظمی ان معاملات کی نگرانی کررہے ہیں اور جہاں جس طرح کی ضرورت ہووہاں مسلم و غیر مسلم وکلاء سے خدمات لیتے ہیں۔ جمعیت کے ماتحت اب تک درجنوں معاملات میں ملوث سیکڑوں ملزمین کی پیروی کی گئی ہے اور درجنوں افراد کو عدالت سے باعزت بری کروایا بھی گیا ہے۔ اوریہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ شاید اس تحریک اور خدمت کو درپردہ دھکا پہنچانے کے لئے سن 2005میں خود گلزار اعظمی کے دو فرزندان ابرار اور انور کو’ڈی کمپنی‘ کے فہیم مچ مچ کے لئے ہفتہ وصولی extortion کرنے کا الزام لگاکر ممبئی میں ’مکوکا‘ کے تحت پھنسایاگیا تھا، جنہیں 2سال کی قید کے بعد عدالت سے باعزت بری کروانے میں کامیابی ملی۔ اس کے علاوہ گلزار اعظمی کو بھی انڈر ورلڈ سے دھمکیاں ملنے اور پولیس سیکیوریٹی فراہم کیے جانے کی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔لیکن گلزار اعظمی بے تکان اور بے خوف قانونی امداد کے اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شکستِ عہدِ ستم پہ یقین رکھتے ہیں ہم انتہائے ستم کا گِلہ نہیں کرتے

اے پی سی آر کی جد وجہد: دوسری ایک منظم تحریک ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس (APCR)ہے جو دہشت گردی کے بے قصور ملزمین کو راحت پہنچانے کا کام کررہی ہے۔اس کے ریاستی اور علاقائی چاپٹرز ہیں۔ اسی مناسبت سے وکیلوں کی مقامی ٹیمیں کام کرہی ہیں۔مرکزی طور پر قانونی امدادی ٹیم کی سربراہی میں ایڈوکیٹ یوسف مچالہ، ایڈوکیٹ ابوبکر صباق جیسے نام شامل ہیں۔ غیر مسلم وکلاء کی خدمات بھی اس تنظیم کے تحت حاصل کی جاتی ہیں۔ کرناٹکا میں ایک عرصے تک ہائی کورٹ کے معروف وکیل اکمل رضوی اور ارشاد دیسائی کی سربراہی میں کافی سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ پھر ان دو حضرات کی جگہ اے پی سی آر کی قیادت ایڈوکیٹ سعدالدین صالح اور ایڈوکیٹ نیا ز احمد کے سپرد کردی گئی ہے۔جبکہ اکمل رضوی اور ان کی ٹیم اب موومنٹ فار جسٹس کے نام سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اے پی سی آر کرناٹکا کے ضلع شمالی کینرا کی یونٹ نے بھٹکل کے مولانا شبیر گنگاولی کادہشت گردی کے الزام والا کیس بڑی خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچایا ۔اس مقدمے میں جن وکلاء نے اپنی عملی خدمات انجام دیں ان میں پونا کے ایڈوکیٹ کوسے، بنگلورو کے ایڈوکیٹ جگدیش اور منگلورو کے شانتارام شیٹی شامل ہیں جن کے ساتھ ایڈوکیٹ ارشد بالور نے ربط و ضبط رکھتے ہوئے پوری طرح کوآرڈی نیش کیااور مولاناموصوف کو باعزت بری کروانے میں کامیاب رہے۔اس کے علاوہ اس یونٹ نے چند دوسرے معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے نپٹایا ہے۔دہشت گردی کا الزام جھیل رہے سیمی کے کچھ معاملات سپریم کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ کولین گونسالویز بھی دیکھ رہے ہیں جن کی اپنی قانونی امدادی تنظیم ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک (HRLN)اس میدان میں سرگرم ہے ۔جبکہ اجیت ساہی جیسے جرنلسٹ اپنے طور پر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف قانون کے نام پرہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کو اجاگر کرنے اور عوام میں بیداری لانے کے لئے مصروف عمل ہیں ۔دہشت گردی کے الزام میں بھٹکل سے گرفتار ڈاکٹر آفاق ، صدام او رریاض سعیدی وغیرہ کے مقدمات کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان کی پیروی نجی طور پر مقرر کردہ وکلاء کررہے ہیں جن میں غیر مسلم وکیل بھی شامل ہے۔ رہائی منچ کی سرگرمیاں: بٹلہ ہاوس اینکاونٹر معاملے میں احتجاج کے بعد سب سے زیادہ عوام کی نظروں میں آنے والے’ رہائی منچ ‘کی جد وجہد بھی انہی خطوط پر ہے۔ راجیو یادو اور شاہنواز عالم کی قیادت میں کام کررہی اس تنظیم نے مختلف علاقوں میں نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر (خاص کرکے یوگی آدتیہ ناتھ کے خطابات)کے بعد رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں دستاویزی ثبوتdocumentation اکٹھا کرنے اور اسے public domain پرعام کرنے سے شروعات کی تھی۔ پھر ’دہشت گردی‘ کے نام پر 2005میں یوپی کے مؤ میں ہوئے اینکاؤنٹر، 2007میں طارق قاسمی اور خالد مجاہد کی گرفتار اور پھر اس کے بعد پولیس حراست میں خالد مجاہد کی ہلاکت کے ساتھ ہی رہائی منچ نے دہشت گردی کے الزام میں پھنسے بے قصوروں کی عدالت میں پیروی اور قانونی امداد فراہم کا اہتمام اپنے سر لے لیا۔ایڈوکیٹ اسعد حیات کی سربراہی میں وکیلوں کا ایک پینل تشکیل دیاگیا ہے۔ منچ کا بنیادی منتر ’جبر کے خلاف مزاحمت Resistance against Persistance ‘ہے۔لکھنؤ یونیورسٹی کی وائس چانسلر روپ ریکھا ورما جیسی شخصیت رہائی منچ کی تحریک کا حصہ ہے۔حالانکہ منچ کے وکلاء محمد شعیب اور رندھیر سنگھ پر لکھنؤ کورٹ کے احاطے میں ہی ساتھی وکیلوں کی جانب سے حملے بھی ہوئے۔ اس کے باوجودمنچ کے کھاتے میں14 سے زیادہ بے قصورقیدیوں کو رہائی دلانے کا ریکارڈ موجود ہے۔ رہائی منچ کا کہنا ہے کہ شمالی ہندوستان کے یوپی ، دہلی اور مدھیہ پردیش وغیرہ میں اس کی مزاحمتی تحریک کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب دہشت گردی کے معاملے میں گرفتار کیے گئے نوجوانوں کو براہ راست’ دہشت گرد‘کہنے کے بجائے "terror suspect" کہاجانے لگاہے۔ شاہد کے بارے میں یادو کا تبصرہ: ’دی وائر‘سے بات کرتے ہوئے رہائی منچ کے ایک سربراہ راجیو یا دو کاکہناتھا کہ ملک گیر سطح پر دورے کرتے ہوئے ان کی ملاقات ایسے درجنوں نوجوان لڑکے لڑکیوں سے ہوئی ہے جو شاہد اعظمی کے مشن سے متاثر ہوئے ہیں اور اسی کی طرح حصول عدل و انصاف کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ایسے ہی نوجوانوں میں فردوس صدیقی نامی ایک لڑکی بھی شامل ہے جو کہ دینی مدرسے سے فارغ ہوئی ہے ،مگر اب اس نے وکالت کی تعلیم کے لئے کالج جوائن کرلیا ہے اور رہائی منچ کے ذریعے دہشت گردی کے ملزموں کی پیروی کرنے والے معروف ایڈوکیٹ محمد شعیب کے اسسٹنٹ کے طور پر تربیت حاصل کررہی ہے۔شعیب کی ماتحتی میں کئی اور نوجوان وکیل کام کررہے ہیں، او ریہ سب بالکل شاہد اعظمی کے نقش قدم پر کام کررہے ہیں۔راجیو یادو کا کہنا ہے کہ :’’ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی انتہائی توجہ طلب اورخاص بات یہ ہے کہ یہ لوگ بس وکیلوں کی قطار میں اضافے کے طور پر سامنے نہیں آرہے ہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک ’شاہد اعظمی‘ بننا چاہتا ہے۔اس لئے کہ ہندوستان میں یا پھر مسلم طبقے میں وکیلوں کی کمی نہیں ہے۔ہاں اس جرأت اور اہلیت کی کمی ہے، جس کا مظاہرہ شاہد اعظمی نے کیا تھا۔‘‘راجیو یادو کے اس تجزیے کی تائید مختصر مدت کے لئے شاہد اعظمی کے ساتھ کام کرنے والے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے بھی کی ، جو کہ اب ممبئی میں پریکٹس کررہے ہیں اورجمعیت العلماء کے وکیلوں کی ٹیم کے ساتھ وہی رول ادا کررہے ہیں جو کبھی شاہد اعظمی کیاکرتا تھا ۔

ایک اک برگ پہ شبنم کے نگینے چمکے باغ کا باغ بنا آئینہ خانہ گُل کا

نوشاد کے قتل کے بعد: چونکہ فسطائی طاقتیں اور ان کا پٹھو میڈیا ساحلی علاقے کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قراردیتا ہے۔ اور خاص کرکے بھٹکل کو انڈین مجاہدین کی جنم بھومی قرار دیتے ہوئے مرکزی تحقیقاتی ایجنسی آئی بی کے توسط سے میڈیا نے بھٹکل کے تمام مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتّھی کیا ہے، اور ایک درجن سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو ’مطلوبہ مجرمین‘ کی فہرست میں رکھنے کے علاوہ چند ایک کو گرفتار بھی کررکھا ہے،اس لئے یہاں پر بے جگری کے ساتھ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے والے بہترین وکیلوں کی شدید ضرورت ہے۔ نوشاد نے ٹیرر لنک والا پہلا معاملہ احمد باوا اور سید نوشاد کا لیاتھا کہ اس کا قتل ہوگیا۔ایڈوکیٹ نوشاد کے قتل کے بعد بھٹکل کے نوجوانوں میں وکالت کی تعلیم پانے کا جذبہ ابھرا۔ خود نوشاد کی بیوی اور بھائی سمیر نے وکالت کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے علاوہ دیگر کئی بھٹکلی نوجوانوں نے وکالت کی تعلیم مکمل تو کرلی ہے ، مگریہ سب ابھی عام جرائم کے معاملات دیکھ رہے ہیں اورنوشاد کی طرح خطرات سے نمٹنے کے لئے ابھی ابھرکر سامنے نہیںآئے ہیں ۔دو ایک فارغین سے امید کی جارہی ہے کہ وہ سرکاری استبدادی قوانین کے خلاف ہمت و جرأت کے ساتھ آئندہ دنوں میں اس محاذ پر جم جائیں گے۔ ہم نے بھی کوشش کی تھی ۔۔۔مگر!: نوشادقاسمجی کے قتل کے خلاف احتجاج کے موقع پر میں نے بھی ایک فیصلہ کیاتھا کہ دوسروں کو ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ عملی مثال قائم کرنے کے لئے مجھے اپنے بھی ایک بیٹے کو اس میدان میں اتارنا ہے اور قوم و ملت کی اس ضرورت کو پوراکرنا ہے جس کا سلسلہ شاہد اور نوشاد نے شروع کیاتھا۔ خیر سے لاء کالج میں داخلہ دلوایابھی گیا۔ دوسال تک تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مجھے وہ پل نہیں بھولتا جب ایس ڈی ایم لاء کالج منگلورو (نوشاد قاسمجی اسی کالج سے فارغ ہواتھا)کے ایک پروفیسر نے پہلے سال میں ہی کالج کے ورانڈے میں مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارے بیٹے کی شکل میں شاید ہمارے کالج کو دوسرا نوشادمل گیا ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ کچھ ’خیر خواہان ‘ نے اور کچھ’ حالات‘ نے ساتھ نہیں دیا۔ اوربحالت مجبوری درمیان میں ہی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہونا پڑا اورہمارا یہ خواب ادھورارہ گیا۔جس کا افسوس بہرحال ہمیشہ رہے گا۔

ایک لمحے میں زمانے مرے ہاتھوں سے گئے اس قدر تیز ہوئی وقت کی رفتار کہ بس!

سرکاری طور پر ممنوعہ تنظیمیں: شاہد اور نوشاد کی زندگی اور مشن کا احاطہ کرتے اس مضمون کے اختتام پر اسلامی ناموں والی ان تنظیموں پر ایک نظر ڈالتے چلیں جن کے ساتھ مسلم نوجوانوں کے نام دہشت گردی کے الزام میں گھیرنے کے لئے جوڑے جاتے رہے ہیں اور جن پرملک میں پابندی لگی ہوئی ہے۔ اس فہرست کا جائزہ بتاتا ہے کہ ان میں سے کچھ بیرون ہند کی تنظیمیں ہیں اور کچھ مبینہ طور پر اندرون ہندتشکیل پانے والی ہیں۔ ملکی سطح پر ممنوعہ تنظیموں کی فہرست بہت لمبی ہے مگریہاں صرف مسلم ناموں والی تنظیموں کے ذکر پر اکتفا کیاجاتا ہے جن سے رشتہ جوڑکر مسلم نوجوانوں کو پابندسلاسل کردیا جاتا ہے۔ ان میں بھی زیادہ تر تنظیمیں جموں وکشمیر سے تعلق رکھتی ہیں:۔ ۱۔ البدر(جموں وکشمیر)، ۲۔القاعدہ،۳۔العمر مجاہدین، ۴۔دیندار انجمن،۵۔دختران ملّت ،۶۔حرکت المجاہدین ، ۷۔حرکت الانصار،۸۔حرکت الجہاد اسلامی ،۹۔حزب المجاہدین، ۱۰۔ حزب المجاہدین پیر پنجال ریجمنٹ، ۱۱۔انڈین مجاہدین اور اس سے وابستہ اسی طرز کی ذیلی تنظیمیں، ۱۲۔اسلامک اسٹیٹ، داعش او راسی طرز کی تمام تنظمیں، ۱۳۔جیش محمد، ۱۴۔ تحریک فرقان، ۱۵۔جمعیت المجاہدین، ۱۶۔جموں اینڈ کشمیر اسلامک فرنٹ، ۱۷۔لشکر طیبہ، ۱۸۔ پاسبانِ اہلِ حدیث، ۱۹۔اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا(سیمی)، ۲۰۔اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آ ر ایف،ڈاکٹرذاکر نائک کا ادارہ) فہرست میں جلد اضافہ ہوسکتا ہے: یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ملک میں اور بطور خاص جنوبی ریاست کیرالہ اور کرناٹکا میں زعفرانی بریگیڈ کی طرف سے حالات کچھ ایسے بنائے جارہے ہیں کہ ممنوعہ تنظیموں کی اس فہرست میں جلدہی پاپولر فرنٹ اور ایس ڈی پی آئی کا نام بھی شامل ہوجائے۔ اور اس کے امکانات بھی قوی ہوتے جارہے ہیں ،کیونکہ جھارکنڈ میں پی ایف آئی پر(ذاکرنائک کے آئی آر ایف کی حمایت کا بہانہ بناتے ہوئے) پابندی لگاکر اس سلسلے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ جبکہ ریاست کیرالہ میں پی ایف آئی کے رشتے(ISIS) ’اسلامک اسٹیٹ آف سیریا‘ سے جوڑنے کی رپورٹیں میڈیا میں گردش کررہی ہیں۔اسی طرح کرناٹکا میں درپیش اسمبلی انتخابات کے لئے زعفرانی تنظیم کا سب سے بڑا ایشو ہندو نوجوانوں اور سنگھ پریوار کے24 کارکنان کا قتل ہے جس کے لئے وہ پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اوروزیرا علیٰ سدارامیا پر ان مسلم تنظیموں کی پشت پناہی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا الزام لگاتے ہوئے انہیں گدی سے اتارنے کی مہم چلارہی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس فہرست میں خود کشی کرنے ، گھریلو اور نجی معاملات میں قتل ہونے اور خود سنگھ پریوار کی تنظیموں کی طرف سے انجام دی گئی قتل کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔ صرف دو ایک معاملات میں پی ایف آئی سے وابستہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس کے باوجود بی جے پی کا یہ انتخابی وعدہ بن گیا ہے کہ وہ کرناٹک کا الیکشن جیتنے کے ساتھ ترجیحی طور پر ان دو تنظیموں کو ممنوعہ قرار دینے کااقدام کرے گی۔ نوجوان محتاط رہیں: ان تفصیلات اور فہرست کو پیش کرنے کا مقصد ہمارے نوجوانوں کو اس بات سے باخبر کرنا ہے کہ کن اداروں اور تنظیموں سے قربت یا وابستگی انہیں حکومت کی نظرمیں مجرم بناسکتی ہے یا وابستگی کے بغیر بھی کسی سازش کے تحت وہ سیکیوریٹی ایجنسیوں کے جال میں پھنس سکتے ہیں ۔کیونکہ زمینی حقیقت یہی ہے کہ قانون کا سہارا لے کرعدالتوں میں بے جا ظلم اور جبر و استبداد کا پنجہ مروڑنے کی جتنی بھی کوششیں مختلف تنظیموں اور افراد کی طرف سے ہورہی ہیں، جن کا اجمالی جائزہ اس عنوان کے تحت لیا گیا ہے ، وہ پہاڑ کے مقابلے میں رائی کے برابر ہے۔ ورنہ فسطائی عزائم اور منصوبوں کا جال اس قدر وسیع اور مضبوط ہے کہ اس میں ایک بار قید ہوجانے والے کواگر قسمت سے کبھی رہائی مل بھی جاتی ہے ، تب بھی وہ زندگی کے سنہرے دن جیل کے پنجروں میں گنواکر خالی ہاتھ ہی لوٹتا ہے۔اس کے علاوہ رہائی کے لئے چاہے جتنی بھی کوششیں کسی بھی سطح پر کیوں نہ کی جاتی ہوں، قید و بند کی صعوبتیں تو بہر حال گرفتار ملزمین کو ہی جھیلنی پڑتی ہیں اور انہیں جس عذاب سے گزارا جاتا ہے ،اس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کرنے اور خون کے آنسو رلانے والی ہوتی ہیں۔موجودہ صورتحال کا اب تک جوتجزیہ کیا گیا ہے،اس سے محسوس ہوتا ہے کہ: ؂

کچھ احتیاط پرندے بھی رکھنا بھول گئے کچھ انتقام بھی آندھی نے بدترین لیے

لہٰذا بدلتے موسم کی گرم ہوا کو محسوس کرتے ہوئے نوجوانوں کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ : ؂

زمیں پہ پاؤں ذرا احتیاط سے رکھنا اکھڑ گئے تو قدم پھر کہاں سنبھلتے ہیں *******

(نوٹ: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)