مولانا سید علیم الحق عمری بھی ہم سے جدا ہوگئے۔۔۔ از: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

05:40PM Sun 9 May, 2021

ابھی ابھی ۲۷ رمضان المبارک افطار کے وقت مولانا محمد رفیع کلوری مدیر ماہنامہ راہ اعتدال عمرآباد نے اطلاع دی ہے کہ مولانا علیم الحق عمری نے بھی اس دار فانی کوچ کیا، غم کس کس کا کیا جائے؟ کس کس کے لئے عظیم سانحہ، شدید صدمہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے جائیں، جانے والوں کی قطار اتنی دراز ہوتی جارہی ہے کہ صدموں کے بیان کے لئے لغت میں الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے، دل ہے کہ ان حادثات کے زخم جھلینے پر مجبور ہے، جس کے بھی  اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر آتی ہے، وہ جان ملت کے لئے بڑی قیمتی ہوتی ہے، مدرسے جنہیں ہم قوم کے قلعے کہتے نہیں تھک رہے تھے، کورنا کی پہلی مار میں اس کے وسائل پر نقب پڑ گیا، اور اب جن ستونوں پر یہ کھڑے تھے وہ آنکھوں کے سامنے گرتے اور مسمار ہوتے نظر آرہے ہیں، اب صرف اللہ ہی پر بھروسے کے سوا کوئی چارا نہیں، لا ملجی ولامنجی الا الیہ۔

مولانا علیم الحق، جمالیہ کالج مدراس میں ۱۹۷۳۔۱۹۷۴ء دو سال ہمارے ہم درس رہے، وہ دارالسلام عمرآباد میں تعلیم مکمل کرکے یہاں پر درجہ فضیلت میں داخل ہوئے تھے، اس زمانے میں عمرآباد اور دوسرے اداروں کے طلبہ جو مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش میں ہوتے تھے، وہ یہاں کچھ عرصہ گزارتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں یہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا جہاں عربی میڈیم میں تعلیم ہوتی تھی، اور طلبہ کو عربی زبان بولنے کا ماحول ملتا تھا،یہاں آنے کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہوتا تھا، کہ مدراس یونیورسٹی کے امتحانات افضل العلماء، ٹیچرس ٹریننگ کورس وغیرہ مکمل کرنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔

جمالیہ میں ہم دو چار ہی اردو جاننے والے احباب تھے، ورنہ زیادہ تر ساتھی ملیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، اور چند ایک بوسنہ کے بھی تھے ،جو کہ اس وقت یوگوسلاویہ کا حصہ تھا، حلقہ احباب محدود ہونے اور خوش مزاجی کی وجہ سے آپس میں خوب جمتی تھی۔ ایک عرصہ تک آپ کی  کوئی خبر نہیں ملی، البتہ چند سال بعد عمرآباد جانا ہوا تو پتہ چلا کہ  مولانا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم ہیں،یہاں سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ آپ نے جامعۃ الفلاح بلیریا گنج میں گذارا، پھر ایک طویل عرصہ بعد دبی میں ملاقات ہوئی، یہاں وہ انٹرنیشنل اور اون انگلش اسکول مین عربی کے استاد کی حیثیت سے خدمات شروع کی تھیں۔ یہاں بھٹکل کے کئی ایک احباب  بھی ان کے رفیق تھے،مولانا ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے، آپ کے والد مولانا عبد الکبیر صاحب عمرآباد میں استاذ الاساتذہ کی حیثیت رکھتے تھے، اور علم وزہد کی ایک مثال تھے، اس وقت ان سے شکایت کے انداز میں ہم نے کہا  تھا کہ یہ تو آپ کی جگہ نہیں تھی، جس کا انہیں ہم سے زیادہ احساس تھا، انسانی زندگی میں معاشی ضروریات ایسے داخل ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی خواہشوں اور تمناؤں کا خون کرنے پر مجبور کرتی ہیں، اس وقت آپ نے ہم سے کہا تھا کہ والد صاحب میرے دبی آنے پر بہت ناراض اور فکر مند ہیں، اور مسلسل واپس آنے پر اصرار کررہے ہیں، پھر کچھ ہی عرصے بعد خبر آئی کہ مولانا نے اپنے والد ماجد کی ایما پر دبی کی آسائشوں کو ترک کرکے اپنے مادر علمی کی خدمت کو زندگی کا اولین مقصد بنا دیا ہے، اور وہ اپنے والد ماجد کی رحلت کے بعد جامعہ دارالسلام عمرآباد میں بحیثیت نائب ناظم خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مولانا عمر میں ہم سے کافی بڑے تھے ،لیکن اتنے بھی نہیں کہ انتقال کی خبر ذہن پر بجلی بن کر نہ گرے۔ ابھی چند سال قبل عمرآباد جانا ہوا تھا تو بڑی محبت سے ملے تھے، دوست واحباب سے رفیق درس کی حیثیت سے ملاتے، اور دوران طالب علمی ہمارے شریرانہ الھڑ مزاج سے بھی آگاہ کرتے ۔ خواہش تھی کہ اب کی بار وطن کا سفر ہو تو آپ جیسے پرانے احباب سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے، لیکن ((تھب الریاح بما لا تشتھی السفن))

یہاں تو وطن میں وبا کے پھیلنے اور لوک ڈون کی خبریں پاؤں کی بیڑیاں مضبوط کررہی ہیں۔ اللہ نے چاہا تو پھر آئندہ زندگی میں ہی ملاقات ہوسکے گی، جانے والے پر اللہ کی رحمت ہو۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/