مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین  ( 1)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:37PM Sun 23 Jul, 2023

 تحریر : عبد المتین منیری

دو روز قبل علم وکتاب گروپ کے ایک معزز ممبر نے مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ مدیر برہان دہلی کا ایک اقتباس پوسٹ کیا ہے جس میں مولانا نے گولڈ زیہر پر ہمدردانہ انداز سے تبصرہ کیا ہے، یہ مضمون معارف اعظم گڑھ شمارہ اگسٹ ۱۹۸۲ء میں چھپا ہے، ہماری رائے میں مستشرقین اور استشراق کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے یہ ایک رہنما مضمون ہے، یہ  استشراق کو سمجھنے میں بہت ہی ممد ومعاون ہے۔ گولڈزیہر کے تعلق سے ہم نے اس مضمون کے علاوہ اور بھی  مضامین کو معارف اعظم گڑھ، برہان دہلی اور ترجمان القرآن لاہور کی فائلوں میں تلاش کیا، تو ہمیں کوئی اور مضمون دستیاب نہیں ہوا۔ مولانا کی رائے پر تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کے حالات وکوائف کے تعلق سےچند باتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مولانا سعید احمد اکبرآبادی (۱۹۰۸ء۔۱۹۸۵ء ) نے اپنے دور کی معتمد ترین دینی اور عصری جامعات میں  چوٹی کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا،یہ جان کر ہم کہ سکتے ہیں  کہ ان دونوں میدانوں میں آپ کی ٹکر کی معتبر شخصیات برصغیر میں شاید انگلیوں پر گنی جاسکیں،  آپ نے ۱۹۲۱ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں آپ کو حضرت شیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنا نصیب ہوا، ۱۹۲۵ء میں حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیریؒ سے دورہ حدیث مکمل کیا،اور پھر  جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین دابھیل میں آپ کے زیر سایہ ( ۴) سال  تدریسی خدمات انجام دیں ،  حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند، مفتی اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ اکابر کے وہ منظور نظر رہے، ۱۹۲۵ء میں پہلی موتمر عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں شرکت کے لئے جمعیت علماء اور خلافت کمیٹی کا  مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا احمد سعید دہلویؒ، اور مولانا عبد الحلیم صدیقیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ اور شعیب قریشی پر مشتمل جو وفد سعودی عرب روانہ ہورہا تھا ان کے ساتھ  اسی پانی جہاز میں آپ کو سفر حرمین کا موقع نصیب ہوا، اس سفر میں آپ کو علامہ سید رشید رضا مصریؒ اور مفتی اعظم فلسطین شیخ محمد امین الحسینیؒ جیسی  عظیم شخصیات  کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔

 اس کے بعد آپ نے عصری تعلیم کی طرف توجہ دی اور دہلی کالج سے ۱۹۳۶ء میں فرسٹ ڈیویژن سے یم اے  پاس کیا،اور اپنے  استاد شمس العلماء عبد الرحمن صاحب کی رحلت کے بعد برطانوی دور کے باوقار اسٹیفن کالج میں آپ کی بحثیت پروفیسر تقرری ہوئی، ۱۹۴۸ء میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کی ہدایت پر آپ کی  مدرسہ عالیہ کلکتہ میں تقرری ہوئی، ۱۹۵۹ء میں کرنل بشیر حسین زیدی وائس چانسلر کی ایما پر علی گڑھ یونیورسٹی میں ناظم دینیات مقرر ہوئے، اور آپ ہی کے دور نظامت میں یونیورسٹی میں اسلامیات کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کے  تحقیقی مقالات کی منظور ہوئی۔ ۱۹۷۲ء میں  آپ کی یہاں سے رٹائرمنٹ ہوئی،علی گڑھ سے آپ کو بڑی محنت تھی، ابھی چند دن پہلے" علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، اسلامیان ہند کا ایک تہذیبی ورثہ" کے عنوان سے آپ کے مضامین کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے، سرسری طور پر اسے دیکھنے پر ہمارا  تاثر ہے کہ مختار مسعود کی "حرف شوق " کا شاید یہ تکملہ ثابت ہو۔

رٹائرمنٹ کے بعد سے  مرتے دم تک آپ علم وتحقیق اور ویزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے عالمی جامعات کو سیراب کرتے رہے، آخری زندگی  میں آپ کے ہاتھوں دیوبند میں شیخ الھند اکیڈمی کی بنیاد پڑی،

 ۱۹۳۸ء میں  آپ نے مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ  کی رفاقت میں دار المصنفین کے طرز پر ندوۃ المصنفین کی بنا ڈالی جس کا مجلہ برہان جولائی ۱۹۳۸ء میں جاری ہوا، اور جو چالیس سال تک اپنا فیض بکھیرتا  رہا، برہان کے پہلے شمارے میں علامہ محمد اقبالؒ کی رحلت پر آپ کا شذرہ چھپا تھا۔  استشراق اور مغربی مصنفین کے سلسلے میں آپ جیسی شخصیات  کی رائے سے سرسری طور پر نہیں گذرا جاسکتا، ہمارے خیال میں  اس  مضمون کے مندرجات کوسنجیدگی سے لینے اس پر غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ کوئی طالب علمانہ رائے نہیں ہے، بلکہ ایک کہنہ مشق متبحر عالم کے برسوں کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔

علم وکتاب کے مراسلے پر ہمارے بزرگ سید ذو القرنین صاحب نے علم وکتاب پر موصولہ مراسلہ پر  تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ یہاں مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ کے ساتھ ڈاکٹر مصطفی الاعظمیؒ کا ذکر کیوں نہیں کیا؟۔ ہمارے محترم کا اعتراض اپنی جگہ درست ہے، کیوںکہ انہوں نے  ڈاکٹر اعظمی مرحوم کو قریب سے دیکھا ہے، اور شاید ان  کی تحریریں بھی آپ کی نظر سے گذری ہیں، ہماری نظر میں ڈاکٹر صاحب کا علم اس بادل کی طرح تھا جو پورے کھیت کھلیانوں کو سیراب کرنے کے بجائے کہیں کہیں برستا تھا، ڈاکٹر صاحب کی تحریریں عموما برصغیر کے قارئین کی دسترس سے باہر رہیں،  اپنے موضوع پر  آپ کی اہم ترین کتابیں

The History of Quranic Text

اور

 النص القرآنی الخالد

 تو برصغیر کے سو پچاس قارئین کی نگاہوں تک بھی شاید  نہ پہینچی ہوں، اس پر مستزاد یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان میں شاذو نادر ہی لکھا،(ہمیں تلاش پر آپ کے  برہان دہلی کی  جملہ فائلوں میں  کوئی مضمون نظر نہیں آیا ، اور ترجمان القرآن لاہور  میں آپ کی کتاب پر تبصروں کو ملا کر جملہ چار مضامین نظر آئے، معارف میں آپ کی وفات پر شذرہ کے علاوہ مزید کچھ نظر نہیں آیا)،  جس کی وجہ سے آپ کا برصغیر میں خاطر خواہ تعارف نہ ہوسکا، یہاں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کی مکہ مکرمہ میں ہوئی سنہ ۱۹۸۰ کی ایک تقریر یاد آتی ہے، جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرے میزبان نورولی خاندان کے لوگوں سے میں کہتا ہوں،اللہ آپ کو برکت دے ،  آپ اس ارض مقدس میں آباد  ہوئے ہیں، آپ کے آل و اولاد کو  یہاں کی نیشنلٹی ملی ہے، میری ساری زندگی عربی زبان کے فروغ میں گذری ہے، لیکن آپ سے کہتا ہوں کہ اردو زبان کو نہ چھوڑیں،اپنے بچوں کو یہ زبان سکھائیں، کیونکہ آپ سعودی عرب کےلئے نئے ہیں، یہاں آپ کے آباء و اجداد کی خدمات کو جاننے والا اور اس کی قدر کرنے والا کوئی نہیں، اپنی اولاد کو یہ بتانے کے لئے انہیں اردو زبان سے مربوط کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کا خانوادہ سمندر میں پانی کے ایک قطرے کی طرح اپنی شناخت کھودے گا، اور آئندہ اس کی قدر جاننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ایک عشرہ قبل مدینہ منورہ میں ڈاکٹر عبد العزیز محمد نور ولی سے  ہماری ملاقات ہوئی تھی، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں، اور آپ کا تحقیقی مقالۃ  (اثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ  ) اپنے موضوع پر بڑی اہمیت کا حامل ہے، جب یہ شائع ہوئی تھی تو ہم نے بحث ونظر پھلواری شریف میں اس پر تبصرہ بھی لکھا تھا، آپ سے ملاقات پر معلوم ہوا کہ مجمع بحار الانوار کے مصنف شیخ محمد طاہر محدث پٹنی آپ کے خانوادے کے جد اعلی ہیں، تو ہم نے آپ سے حضرت مولانا کی ان کے گھر  پر ہوئی اس تقریر کا حوالہ دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ آپ جیسےاہل علم کا برصغیر میں چرچا ہونا چاہئے، اورآپ کو اپنے جد اعلی کی کتابوں کو اجاگر کرنا چاہئے، جو کہ اس وقت  نایابی  کا شکار  ہورہی ہیں۔

ہمارے خیال میں اردو زبان کو اپنے فیض علمی اور تحقیقات سے محروم کرنے سےڈاکٹر اعظمیؒ  سے استفادے اور تعارف کا دائرہ بہت سکڑ گیا ہے ، اب قارئین  ان کی تحقیقات سے ناواقف رہ گئے ہوں تو اس کا بھی کچھ سبب ہے،آئے اب مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی گولڈزیہر اور مستشرقین کے سلسلے میں جو مضمون لکھا ہے،اس کی طرف چلتے ہیں۔

مولانا نے اپنے مضمون میں مشہور مستشرق اور مترجم قرآن آربری کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ،( آربری ہمارےڈاکٹر عبد اللہ عباس ندویؒ کے استاد تھے، کئی سال پہلے ہم نے ایک عظیم دانشور  ڈاکٹر عز الدین ابراہیم مرحوم  سابق وائس چانسلر امارات یونیورسٹی کی تقریر  سنی تھی جو انگریزی تراجم قرآن کے موضوع پر تھی، اس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ مستشرق دل سے مسلمان تھا)

" پروفیسرار بیری نے اپنی کتاب ( portraits of Persian Poets   کے مقدمہ میں کہاہے کہ یورپ میں اسلام پر لکھنے والوں کے تین دورہیں (۱)  پہلا دور مشنریز کا ہے یہ لوگ لکھتے ہی تھے اسلام کو رسوا اور بدنام کرنے کی غرض سے (۲) دوسرا دور استعمار  کا ہے، اس دور میں مستشرقین جوکچھ لکھتےتھے مثلا براون نکلسن اور ڈینی سن راس، وہ علمی ذوق تحقیق اور کاوش سے لکھتے تھے لیکن استعماری طاقتیں ان سے یہ فائدہ اٹھاتی تھیں کہ ان کی کتابوں کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہب وتہذیب و تمدن اور انکی تاریخ سے واقف ہوتی تھی، چنانچہ اس عہد کے مستشرقین برطانوی گورنمنٹ کے پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ سے بھی بحیثیت مشیر کار کے تعلق رکھتے تھے (۳ ) اس کے بعد جب استعمار کا دور ختم ہوگیا تو اب مستشرقین خالص علمی ذوق اور اسلامیات سے طبعی دلچسپی  کی بناپر لکھنے لگے۔۔۔۔اس پر مولانا فرماتے ہیں کہ"ہمارے نزدیک پروفیسر اربری کی تقسیم  بالکل صحیح ہے،  نمبر ۲ اور ۳ کے ماتحت  جومستشرقین آتے ہیں ان کے علمی وتحقیقی کارناموں کی قدر کرنی چاہے اور  جو روش علمائے عرب نے پروفیسر گولڈزیہر کی نسبت اختیار کی ہے دہی روش گولڈ زیر جیسے دوسرے مستشرقین کے متعلق اختیار کرنی چاہئے"۔(جاری)