مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین  ( 2)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:15PM Tue 25 Jul, 2023

تحریر : عبد المتین منیری

مولانا اکبرآبادیؒ  نے گولڈ زیہر کی کتابوں کے تعلق سے عربوں کے روئیے کے بارے میں لکھا ہے کہ "عرب علماء نے ان کی جملہ کتابوں کے ترجمے شائع کئے، اور ان کی قابل اعتراض  باتوں پر حاشئے میں تنقید کی اور حقائق اجاگر کئے"۔ آپ نے اس سلسلے میں مصر کے مایہ ناز عالم دین شیخ محمد یوسف موسی کا  جن کی تقریظ ماذا خسر العالم کی زینت بنی ہے ،اور جنہوں نے گولڈزیہر کی کتاب کے ترجمے  پر نوٹس لکھے ہیں قول نقل کیا ہے کہ"  کتاب اغلاط سے بھی خالی نہیں ہے، جن پر ہم نے اپنے حواشی میں تنبیہ کر دی ہے لیکن گولڈ زیہرکو بحیثیت ایک عالم اور محقق کے جو مرتبہ بلند  حاصل ہے ان چیزوں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہونچت"ا۔

یورپ کے جن علما نے اسلام اور مسلمانوں پر کسی حیثیت سے خامہ فرسائی کی ہے ان میں دو طبقے ہیں، ایک طبقہ توان لوگوں کا ہے جو اپنی خواہشات کے بندے تھے اس لئے وہ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا لیکن ان کے برخلاف ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوا جو انصاف پسند تھا، ان لوگوں کو تحقیق و تدقیق کے بعد جو بات حق نظر آئی اسے بر ملا کہا۔۔۔ اور یہ کہ" اس کتاب میں غلطیاں بھی کم نہیں ہیں اسکے وجوہ متعدد ہیں ، ان میں ایک یہ بھی  ہے کہ غیرمسلم ہونے کے باعث وہ اسلام کے مبادی اور اصول کی اصل روح تک پہونچنے سے قاصر رہا۔"

مولانا نے گولڈزیہر کے بارے میں لکھا ہے کہ" جامع ازہر قاہر ہ میں کسی غیر مسلم کا داخلہ ممنوع تھا ،لیکن گولڈزیہر نےخصوصی اجازت حاصل کر کے اس میں داخلہ لیا اور بحیثیت طالب  وہاں پڑھنا شروع کر دیا ، گولڈ زیہر نے جو زمانہ یہاں گزارا اس کو انھوں نے اپنی زندگی کی خوشگوار ترین اور مفید ترین مدت بیان کیا ہے۔( گولڈزیر کی ازہر شریف میں طلب علم کے زمانے کی ڈائری عربی میں بھی ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے)۔

مولانا مزید لکھتےہیں کہ"اسلامیات کے ساتھ فطری اور حقیقی لگاؤ تھا، ان کا مقصد زندگی صرف علم کی خدمت تھا ،ان کو غرض  نہ سیاست سے تھی اور نہ مشنریز کی طرح اسلام یا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے سے تھی اور یہ اس لیے بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مشنریز لڑائیوں کے زخم خوردہ تھے۔ اس لئے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رسوائے زمانہ کتابیں لکھ کرکھسیانی بی کھمبا نوچے کے مصداق اپنے دل کا بخار نکا لنا چاہتے تھے، ان لوگوں کے برعکس گولڈ زیہر پہودی تھے۔اور ان کے زمانہ میں یہودی خود عیسائیوں کے ستم زدہ تھے، اور یوں بھی یہودی مذہبی معاملات ومسائل میں اپنے آپ کو بہ نسبت عیسائیوں کے مسلمانوں سے زیادہ قریب سمجھتے  تھے"

گولڈزیہر کی عبارتوں میں جو بے اعتدالی پائی جاتی ہے اس کے تعلق سے مولانا نے برنارڈ لوئس کی رائے نقل کی ہے کہ" ان کے برعکس گولڈ زہر اوران کے ہم عصر مصنفین کو اس کا خیال ہی نہیں تھا کہ ان کی کتابوں کے قاری مسلمان بھی ہوں گے، اس لیے یہ لوگ اپنا مخاطب مغرب کے قارئین کو بناتے تھے، چنانچہ اس عہد کے دوسرے مصنفین کی طرح گولڈ زیہر بھی قرآن کو پیغمبر اسلام کی تصنیف کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مسلمانوں کے نزدیک ایسا  کہنا اسلام کی سخت تنقیص ہے، علاوہ ازیں اسلام پر لکھنے والے عام مغربی مصنفین کی طرح گولڈ زیہر نے بھی قرآن وحدیث میں عہد جاہلیت کے اور بعض اجنبی اثرات پر بحث کی ہے، یہ موضوع بھی حساس مسلمانوں کے لیے سخت تکلیف وہ ہے، اس بحث میں گولڈ زیہر نے جو زبان استعمال کی ہےوہ اب  سے ایک سو برس پہلے تو استعمال ہوتی تھی لیکن مستشرقین اب ایسی زبان استعمال نہیں کرتے جو مسلمانوں کے لئے آزردگی کا سبب ہو"۔

مولانا کی رائے ہے کہ" ان سے قطع نظر گولڈ زیہر نے اسلامی عقائد اور مسلمانوں کے کارناموں کے ساتھ جس غیر معمولی ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ نہایت اہم ہے ، اگر ایک طرف گولڈ زیہر میں ہمارے  زمانے کے مصنفین کی محتاط روش کی کمی ہے تو دوسری طرف اس تنقیص وتہجین  کی روش سے جس کا اظہار یورپین  مصنفین مسلمانوں اور ان کے مذہب، تہذیب وتمدن اور ان کی  مقدس کتابوں کی نسبت کرتے تھے، گولڈ زیہر کا قلم اس سے بالکل آزاد اور مبرا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ بہت اہم اور غیر معمولی بات ہے، اگر چہ گولڈ زیہر اس عہد کی پیداوارہے جس میں تبلیغ عیسائیت کا بڑا چرچا تھا لیکن اس کےباوجود گولڈ زیہر کی تحریروں میں اس کا کوئی اثر  نظر نہیں آتا ، اور صرف یہی نہیں بلکہ گولڈ زیہر کے معاصرین یا ان کے پیش رومصنفین میں سے جن لوگوں نے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کر کے اور ان میں ردو بدل کر کے اسلام پر اعتراضات  کئے تھے گولڈ زیہر نے ان لوگوں کی پردہ دری کر کے اسلام کی حقانیت اور اصلیت اور  انکے استناد کو ثابت کیا ،اس سلسہ میں گولڈ زیہر عیسائیت کے ان علماء کے خلاف بھی سخت احتجاج کرتا ہےجو عیسائیت پر بحث کرتے ہیں تو اپنی یک طرفہ عقلیت پر بھروسہ کر لیتے ہیں لیکن جب وہ اسلام پر گفتگو کرتے ہیں تو اس کے لیے معیار تنقید بہت سخت کر لیتے ہیں۔ سطور بالا میں پروفیسر برناڈ لوئس نے گولڈ زیہر کے اسلام سے متعلق علمی و تحقیقی کارناموں کا بالغ نظری سے جوتحلیلی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے، ہمارے نزدیک وہ بالکل صحیح درست اور معروضی ہے "۔

مولانا اکبرآبادی نے گولڈز یہر کے سلسلے میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اور آربری اور برنارڈ لویس جیسے مستشرقین کے اقوال کی تائید کی ہے اس پس منظر میں چند باتیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں۔

۔ مولانا نے جو رائے گولڈزیہر کے سلسلے میں قائم کی ہے وہ انہیں پڑھ کر قائم کی ہے، اور آپ نے شیخ محمد یوسف موسی کی رائے کہ " اس کتاب میں غلطیاں بھی کم نہیں ہیں اسکے وجوہ متعدد ہیں ، ان میں ایک یہ بھی  ہے کہ غیرمسلم ہونے کے باعث وہ اسلام کے مبادی اور اصول کی اصل روح تک پہونچنے سے قاصر رہا" کی تائید کرکے ایک اصولی موقف اپنایا ہے، وہ یہ کہ ایک غیر مسلم چاہے وہ اسلام سے جتنی بھی ہمدردی رکھے، جب اس کا صحیح مفاہیم دین اور توحید ورسالت جیسے ایمان کے بنیادی امور  پر عقیدہ نہیں ہوتا  تو پھر اسلام کی تشریح میں اس کا ٹھوکر کھانا یقینی ہے۔ لہذا ایمان کے بغیر اسلام اور رسول اکرم ﷺ کے بارے میں تعریفی کلمات  اپنی  قدر وقیمت کھودیتے ہیں ۔ البتہ ان کی ان دانشوروں کی تعریفوں کا فائدہ اتنا ضرور  ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے ہم مذہب لوگوں میں معتبر اور قابل عزت ہے تو اس کی باتیں اس کے مذہب والوں کی اسلام سے دشمنی اور عداوت کی حدت میں کمی لاسکتی ہیں، اور یہ بھی ایک مطلوب شئی ہے۔

۔ طلب علم اور اپنی معلومات میں پختگی اور اس میں اضافے کے لئے ایک طالب علم کا معاون درسی اور غیر درسی کتابوں کا مطالعہ کرنا نہایت ضرروری ہے، اس کے کئی مرحلے ہیں، ایک دور دودھ پیتے بچے کا ہے، جب ماں اپنے دانتوں سے نواالہ چبا کر بچے کے منہ میں ڈالتی ہے، اسی طرح استاد طالب علم کے منہ میں علم کا نوالہ ڈالے، جس طرح ماں ڈھائی ماہ کے بعد بچے کو آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانے کا عادی بناتی ہے، اسی طرح ایک استاد بھی اپنے شاگرد کو خود سے کتاب سمجھنے اور مطالعہ کا عادی بنائے، اور ہماری رائے  میں ایک استاد  اپنے شاگردوں کو سولہ سترہ سال کی عمر تک اسلام کے مبادی پر ایمان اور عقیدہ اتنا پختہ کرے کہ وہ کبھی گمراہ نہ ہوسکیں۔اس عمر کے بعد  طالب علم کو آزادی دے کر اس کی  نگرانی اور رہنمائی کرے، اور اسے کسی مسئلہ پر فوری  منفی یا مثبت رائے قائم کرنے میں جلد بازی سے رکنے کی ہدایت کرتے رہنی چاہئے، البتہ اسے تلاش اور جستجو کا کام جاری رکھنے کی ہمت افزائی کرے، اور جہاں اشکالات ہوں انہیں نوٹ کرکے  اپنے بڑوں سے بھی ان کی تحقیق کرنے کا عادی بنائے،  تاکہ وہ اپنے اساتذہ سے بھی ان کے بارے میں استفسار اور رہنمائی حاصل کرتا رہے، اور جب فارغ التحصیل ہو تو  اسے خود اعتمادی حاصل  ہو ، تو یہ اپنے استفسارات اور سوالات کا ایک معیار قائم رکھے، نہ ایسا ہو کہ چھوٹے چھوٹے اور بچکانہ  قسم کے سوالات کرکے اپنی سطحیت کا ڈھنڈورا پٹتا رہے۔

۔ کتب بینی کے سلسلے میں اللہ کا اس ناچیز پر بڑا احسان رہا، یہ اسی کی توفیق تھی کہ مطالعہ کی ایک ایسی راہ ملی جس پر زندگی میں کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی، حالانکہ بچپن سے ہمیں کوئی ایسا استاد نصیب نہیں ہوسکا جو ہماری رہنمائی کرتا، البتہ ایسا بہت بار ہوا کہ بھی تیرہ چودہ سال ہی کی کچی عمر میں دوران طالب علمی  اپنے مشفق اساتذہ کو نادر ونایاب کتابوں تک رہنمائی کا موقعہ ملا، ترجمہ شیخ الھند مع تفسیر عثمانی، فتح الملھہم، فتح الباری، المجموع شرح المہذب جیسی بہت ساری کتابیں نادر ونایاب کتابیں اس ناچیز نے اپنے اساتذہ کو ہم نے پہلی مرتبہ دکھانے کا شرف حاصل کیا تھا۔ یہ کیونکر ممکن  ہوا اس کا تذکرہ ان شاء اللہ کبھی بعد میں۔

۔ گولڈ زیہر کے تعلق سے مولانا اکبرآبادیؒ اور دوسرے بعض محققین کی رائے میں اتنا فرق ہے کہ مولانا گولڈ زیہر کی غلطیوں کو مانتے ہیں، لیکں اسے مستشرقین کے تیسرے درجے میں شمار کرتے ہیں، صلیبی دور کے پہلے درجے کے متعصب  نہیں سمجھتے ، اور  آپ نے اس کی جو توجیہ کی ہے وہ قابل توجہ ہے۔

۔ دراصل ہمارے ذہن میں کسی دانشور کے  یہود کی طرف نسبت ہوتے ہی نفرت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، اور جب نفرت کسی بحث مین شامل ہوجاتی ہے تو موضوع سے انصاف نہیں ہوپاتا،  دراصل یہودیت اور صیہونیت  میں ہم فرق نہیں کرپاتے، اس فرق کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ، جنوبی ہند، حیدرآباد، چنئی ، ارکاٹ، کرناٹک، اور ملبار میں بہت سارے لوگ ایسی بدعات کو اپنائے ہوئے ہیں جو شرک تک پہنچتی ہیں، لیکن ان اعتقادات اور رسومات کے باوجود ان  میں اپنے مخالفین کے خلاف نفرت  پھیلانے اور ان کی تکفیر کرنے کا عنصر  ان میں نہیں پایا جاتا، اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر ہے جس میں نفرت اور تکفیر  میں شدت کے روئے نے انہیں کریلا نیم چڑھا بنا دیا ہے، اب بریلوی مکتب فکر سے ہٹ کر جو بدعتی ہیں ان کے تعلق سے ہمارا رویہ ہمدردانہ ہوگا، یہی حال ہندوستان میں ہندؤوں کے ساتھ  معاملہ  کا ہے، آٹھ سو سال تک یہاں مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود حاکم رہے،مذہب کی بنیاد پر ہندو اکثریت کے ساتھ ناچاقی کے واقعات سے ان کی  تاریخ خالی رہی ، یہاں کا ماحول تو  گذشتہ صدی میں شدھی سنگھٹن ، ہندو مہاسبھا، اور آر یس یس کی تحریکات نے بدلا ہے۔کرناٹک میں دو سو سال تک وجے نگر کی ہندوسلطنت کی حکمرانی رہی ہے، اور اس سلطنت کے علاقوں میں بسنے والے ہندو آج بھی کٹر مذہبی ہیں، کہا جاتا ہے کہ کرناٹک کے ہندو  اپنے گھروں میں سب سے زیادہ اپنے مذیب ہی پابندی کرتے ہیں ۔گزشتہ انتخابات نے بتادیا اتنے مذہبی ہونے  کے باوجود  یہ سب سے زیادہ پرامن باہمی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔

یہود یوں کے ساتھ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، خیبر او رنجران کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں میں نفرتوں کے واقعات تاریخ میں  نظر نہیں آتے، لیکن انیسویں صدی کے اواخر میں جب صیہونیت کی تحریک نے جنم لیا  تو روئیے بدلنے لگے، اس وقت بھی ان کی لڑائی براہ راست مسلمانوں سے نہیں تھی، یہ بات کم لوگوں کو یاد ہے کہ فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے چھین کرمسلمانوں نے ہی  انگریزوں کو سونپا تھا، اور انگریزوں سے یہودیوں نے لڑ کر اسے حاصل کیا تھا،  پھر اس کے بعد جو نفرتیں بڑھنے لگیں تو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، اس کے باوجود ہم نے ہندوستان کے کوچین میں جو یہودی کیمونیٹی پائی جاتی ہے، ان کے اور مسلمانوں میں نفرت کی دیوار نہیں دیکھی، ان تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں،  ان حالات سے پہلے جو یہودی دانشور اور محققین گذرے ہیں  ان سبھوں کو صیہونیت کے دائرے میں لاکر فیصلہ صادر کرنا ہمین  درست نہیں لگتا ، مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ  بھی شاید یہی کہنا چاہتے ہیں۔