مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین  ( 3)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:29PM Wed 26 Jul, 2023

 تحریر : عبد المتین منیری

۔ ہمارے کئی ایک بزرگ ہیں جنہوں  نے مستشرقین اور استشراق کے منفی پہلؤوں ہی کو اجاگر کیا ہے، اوربس کوئی ایک سطر تعریف لکھنے پر اکتفا کی ہے، ہمارے خیال میں  اس سے وسعت مطالعہ پر قدغن لگتی ہے،  لہذا ہمیں عموما ان  دو چار مستشرقین کے نام ہی معلوم  رہ گئے ہیں جن کا ذکر سرسید احمد خانؒ، علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نےآج ستر سال قبل اپنی تحریروں میں  کیا ہے، اس سلسلے میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو فکری اور تحقیقی کتابیں لکھی جاتی ہیں، ان کی زندگی مخصوص حالات کے پیش نظر وقتی ہوتی ہے، پھر ان کا  اثر پہلے جیسا نہیں رہتا، نئی معلومات اور ذخائر کی تلاش  کے ساتھ ساتھ نئی کتابیں اور تحقیقات میدان میں آتی ہیں، لیکن جب عمومی نفرت کا بیج ذہنوں میں بویا جائے تو پھر تلاش اور طلب کا مادہ ختم ہوجاتا ہے، اور کبھی اچانک کسی بدنام زمانہ کی کوئی تحریر نظروں میں اٹک جاتی ہے،تو پھر اپنے بزرگوں کی باتوں پر سے اعتماد بھی اٹھنے لگتا ہے۔ بزرگوں سے یہی بداعتمادی  لادینیت کی طرف لے جانے والے پل کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے، اٹھارہ انیس سال کی عمر تک ہم نے اپنے بزرگوں کی کتابوں سے اثر لے کر ایک بڑے مشہور مصنف کی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، لیکن ایک موقعہ پر اس مصنف کی سب سے بدنام زمانہ کتاب نے مصنف کی دوسری کتابوں میں دلچسپی پیدا کی ، حالانکہ اس سے قبل دارالمصنفین اعظم گڑھ کی جملہ کتابیں ہماری نظر سے گذرچکی تھی، نظر سے گذرنا کیا معنی! ان کے اوراق پر آنکھیں پھیری تھیں،( ہمارے جمالیہ میں دارالمصنفین کا ایک بڑا خوبصورت سیٹ نیلی جلد کی ایک ہی سائز کی کتابوں پر مشتمل تھا،وہاں اردو کتابوں کا شوقین اور انہیں پڑھنے والا کوئی  اورنہیں تھا،  یہ سیٹ غالبا خاص خاص معطی حضرات  کو ہدیہ کیا جاتا تھا، ایسا سیٹ پھر کہیں نظر نہیں آیا)

۔ جو کتابیں تراث میں شامل ہیں اور اسلامی علوم میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، جیسے تفاسیر، شروح حدیث،اور فقہ وفتاوی کی کتابیں وغیرہ ، ان کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی، لیکن جن کتابوں کا تعلق فکر اور تحقیق سے ہوتا ہے، اپنے وقت کےساتھ  اور نئی کتابیں اور معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی، ہمارے وہ عظیم مفکریں جن کی کتابیں آج سے نصف صدی پیشتر  بڑی معرکۃ آراء سمجھی جاتی تھیں، جب کہ مختلف ممالک میں سامراجیت اور کیمونزم کا دور دورہ تھا، حالات بدلنے کے بعد اب ان کی اہمیت وہ نہیں رہی، اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، مستشرقین کی کتابوں کا بھی یہی حال ہے، آج کے دور میں جب سو سال پہلے لکھی گئی کسی کتاب پر کچھ لکھنے بیٹھیں تو  پھر اس زمانے کے پس منظر کا خیال کئے بغیر ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا ، اپنے دور میں خطبات احمدیہ از سرسید احمد خان، اور امیر علی کی اسپرٹ آف اسلام یا  کواکبی کی طبائع الاستبداد اور ام القری کا کتنا  ہی  چرچا  رہا ہو؟ کیا ان کی اہمیت آج بھی  وہی ہے؟۔ ہمارے بہت سے چوٹی کے مصنفین ایسے ہیں جن کی کتابوں کا تیس چالیس فیصد مواد روس سے کیمونزم کے خاتمے کے بعد اپنی اہمیت کھوچکا ہے، اب اس مواد کو صرف  ایک تاریخی کارنامہ کے طور پر یاد کیا جاسکتا ہے۔  اور شاید آج کی نسل کو اس کی اہمیت سمجھانا  بھی مشکل ہو۔

۔ پتہ نہیں یہ اچھا ہوایا برا، لیکن اس ناچیز کی اسلام سے وابستہ موضوعات پر غیر مسلمین اور مستشرقین کی کتابوں میں دلچسپی کبھی نہیں رہی، ملازمت کے تقاضوں کے تحت  کوئی کتاب سامنے آئی تو دیکھ لی، یہ بات پھانس  کی طرح ہمشہ دل میں ترازو بن کر رہی کہ جس شخص کا توحید ورسالت پر ایمان نہ ہو تو اسلام اور پیغمبر برحقﷺ  کے بارے میں اس کی تعریفیں پڑھنے کا کیا فائدہ؟ ہمارا ایمان تو پہلے سے ان باتوں پر ہے، اب کوئی جس کا ایمان ان پر نہیں ہے ہمارے ایمان کو کیا مضبوط کرے گا؟۔ اس کے باوجود ہمیں  ان محترم مصنفین کی بات دل کو نہیں لگی جن کی تصانیف میں عموما ایک ہی رخ پیش ہوتا ہے، انہیں مستشرقین کی جانفشانی سے کی گئی ان علمی وتحقیقی خدمات کا تعارف اپنے قارئین سے کرنا چاہئے تھا ، مستشرقین کی کتابوں میں ہماری دلچسپی اسی حد تک ہے۔

یہی دیکھئے سیرت البنیﷺ علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا کتنا بڑا علمی کارنامہ شمار ہوتا ہے، کیا کلکتہ ، لائیڈن اور گوٹمبرگ  سے مستشرقین کے تحقیق کردہ ہمارے اپنے علمی سرمائے  کی دستیابی کے بغیر  یہ کام ممکن ہوسکتا تھا؟، شیخ محمد اکرام نے  لکھا ہے کہ بر صغیر میں سرسید احمد خان واحد شخص تھے جو مستشرقین کی تحقیق کردہ ان قیمتی کتابوں کو یورپ سے منگوانے کا اہتمام کرتے تھے، اور علامہ شبلیؒ کو  اس ذخیرے کو دیکھنے اور اس سے استفادے کی سہولت علی گڑھ کے قیام  میں حاصل تھی، جس کے بعد ہی سیرت کے موضوع پر  آپ کو لکھنے کا حوصلہ ملا، حافظ ابن حجرؒ کی الاصابۃ، ابن سعدؒ کی الطبقات الکبری اور حافظ ابن کثیرؒ کی البدایۃ والنھایۃ کو پہلے پہل مستشرقین ہی نے ایڈٹ کرکے سے شائع کیا تھا۔

۔ یوں تو اس زمانے میں نولکشور، مجتبائی، نظامی جیسے ناشرین موجود تھے جو لیتھو پر کتابیں شائع کیا کرتے تھے، ان کے یہاں عموما درسیات یا فتاوی سے متعلق کتابیں چھپتی  تھیں، مختلف قلمی نسخوں کے موازنے کا رواج ان کے یہاں عام  نہیں تھا، عموما کتابیں ایک ہی قلمی نسخے کو بنیاد بنا کر شائع ہوتی تھیں، یہی حال بولاق مصر کا  بھی تھا،جہاں  کتابیں ٹائپ پر سستےقسم کے  پیلے کاغذ پر چھپتی تھیں، جوموسموں کی تبدیلی سے سوکھ کر کٹ پٹ جاتیں یا بھوسا بن جاتیں ،مستشرقین نے مختلف قلمی کتابوں کے موازنے، اور حاشئے میں ہر ایک مخطوطے کو علامت دے کر مختلف مخطوطات میں عبارتوں کے فرق اور موازنے کا طریقہ   رائج کیا، شیخ عبد الصمد شرف الدین کی تحقیق کردہ تحفۃ الاشراف اور اے اے فیضی کی تحقیق کردہ قاضی ابوحنیفۃ النعمان کی کتاب دعائم الاسلام اگر دستیاب ہوتو اس کا نمونہ  وہاں دیکھ سکتے ہیں، کتاب کے آخر میں فہرست اعلام، کتابیات ، موضوعات کو رواج دینے میں بھی انہی کا ہاتھ رہا ہے۔  شیخ احمد محمد شاکر نے ۱۹۴۰ء میں اس منھج کو ترقی دے کر امام شافعی کے الرسالۃ کو ایڈیٹ کرکے شائع  کیا، جو بعد میں مخطوطات کی تحقیق کا معیار بن گیا۔

۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی قلمی کتابوں اور مخطوطات کو یورپ میں دیکھ کر ماتم کیا تھا، اور ہمیں بھی ان پر ہمارے قومی ورثہ کو  چرا لے جانے پر بڑا غصہ آتا ہے، لیکن ہمارے یہاں جس طرح ان کتابوں کی بے قدری ہوئی ہے، اور جس طرح مصر وغیرہ کی لائبریریوں میں ان کی حفاظت میں بے احتیاطی برتی گئی ہے، اور ان  کتابوں کے مسلمان قارئین نے حسب خواہش درمیان سے صفحات کو کاٹ کاٹ کر ان کتابوں کی  قدر وقیمت کو ملیامیٹ کردیا ہے، اور  جس طرح ہمارے کتب خانوں میں  بھی بد انتظامی اور رشوتوں کا بازار گرم رہا ہے ، تو مغرب میں انہیں محفوظ دیکھ کر  بلا ارادہ زبان پر نکل آتا  ہے کہ اللہ کا کرم ہوا، کم از کم اغیار کے ہاتھوں  تو یہ سرمایہ بچ گیا۔

۔ مسلمانوں کے علمی مخطوطات اور ان تک رسائی کے لئے فہرست سازی مستشرقین کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جسے بھلایا نہیں جاسکتا ، جن کتب خانوں میں بھی قلمی نسخے جمع ہوئے انہوں نے ان کی تفصیلی فہرستیں شائع کیں، ایک سو جلدوں میں قلمی کتابوں کی فہرستوں کا مجموعہ نصف صدی پیشتر شائع ہو چکا ہے، اسے یا تو  انہوں نے تیار کی  گیا تھا، یا پھر ان کے زیر اثر  انگریزی داں  اشاریہ سازوں نے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ کونسا قلمی نسخہ یورپ اور دنیا کے کس کتب خانے  میں کس نمبر پر محفوظ ہے، ان میں ایک فہرست برلین میں جرمنی کے شاہی کتب خانہ کی  بھی ہے جو ۱۸۹۷ء میں  دس ضخیم جلدوں میں  شائع ہوئی تھی ، اسے مستشرق الوورد نے بڑی جانفشانی سے تیار کیا تھا، فنی طور پر اس ٹکر کی کوئی اور قلمی کتابوں کی فہرست نہیں پائی جاتی، یہ اپنے منھج میں سب فہارس مخطوطات کی اماں ہے۔

۔ عالم عرب کے ایک چوٹی کے محقق ڈاکٹر محمود احمد طناحی مرحوم سے بارہا ملاقات  اور  ان کے بڑے پیارے خطبات سننے کا ہمیں موقعہ ملا، وہ بڑے درد سے کہا کرتے تھے کہ فوٹو آفسٹ پرنٹنگ کی ترویج کے بعد بغداد کے مکتبۃ المثنی  ( رجب علی) اور بیروت کے دار صادر ( سلیمان صادر مسیحی) نے ہم پر بڑا احسان کیا کہ یورپ میں طبع  شدہ  کتابوں کو بڑی بڑی قیمتیں دے کر یہاں لے آئے، اور سستے داموں میں مسلمانوں کی ان تک رسائی کو آسان کردیا، جس سے عالم عرب اپنے قیمتی علمی ورثہ سے آگاہ ہوا، وہ کہا کرتے تھے کہ دارالکتب العلمیۃ اور اس قسم کے دوسرےناشرین نے  ان کتابوں کا بیڑا غرق کردیا ہے، وہ مکتبۃ المثنی اور دار صادر کی طرح کتابوں کے فوٹو ہی چھاپ دیتے تو ان کا  بڑا احسان ہوتا، ان  نئی کتابوں میں اتنی غلطیاں نہ ہوتیں کہ کتابوں کی صورت ہی بگڑ جاتی اور وہ قابل بھروسہ ہی نہیں رہتیں۔

۔نائن الیون کے بعد  علمی دنیا بھی کافی کچھ بد ل چکی ہے، اسلامی موضوعات  پرجس طرح مستشرقین اور غیر مسلم مصنفین کی نئی  کتابیں دنیا بھر سے چھپ کریورپین زبانوں میں آرہی ہیں  انہیں دیکھ کر تو ایسا لگتا   ہے کہ اردو کتابوں میں تحقیق کا معیار ویسے بھی کوئی اونچا نہیں ،اب تعداد میں بھی اردو کہیں پس پشت  میں جارہی ہے،کبھی دبی آنا ہو تو یہاں دبی مال میں جاپانی کتابوں  کے شو روم  کینوکنیا  کو ضرور دیکھیں، میٹرو سے آتے ہوئے سامنے ہی دوسری منزل  پر  اس  کے شو روم پر  سامنے ہی  نظر پڑتی ہے۔اسلامی موضوعات پر انگریزی میں  جتنی کتابیں وہاں  الماریوں میں موجود ہیں ان سے کئی گنا زیادہ کتابیں انہوں نے آرڈر دے رکھی ہوئی  ہیں۔

بات بہت آگے نکل گئی، خلاصہ بحث  یہ ہے کہ  موبائل اور انٹرنٹ نے تمام چہاردیواریوں کو توڑدیا ہے، تمام جنگلے نیست ونابود کردئے ہیں، اگر آپ اپنے طلبہ کو راہ مستقیم پر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر تربیت کے طریقوں میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ اس کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، انفرادی سوچ سے کوئی موثر نتیجہ نہیں نکل سکے گا، اور اس کا آغاز طلبہ کے مفاہیم دین اور عقیدے کو ابتدا ہی میں مستحکم کرنے کی طرف توجہ دینے سے  ہوگا، تاکہ سن رشد کو پہنچنے کے بعد کوئی انہیں بہلا پھسلا نہ سکے، یہ کام زور زبردستی کرنے والا کام نہیں ہے،اس کے لئے طلبہ کی نفیسات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ بند طور پر کرنے کا کام ہے۔صرف پابندیوں سے اصلاح ممکن نہیں،زیادہ  پابندیاں منافقت کو جنم دیتی ہیں ، اور پس پردہ برائیوں کے بڑھاوے کا سبب بنتی ہیں، وہ دن ہمارے دیکھے ہوئے ہیں جب اندرا گاندھی نے  (۱۹۷۵۔۱۹۷۷ ) کے دوران ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آر یس یس پر پابندی عائد کی تھی ، اور اسکے ہزاروں کارکنان کو جیل میں ڈال دیا تھا، کہتے ہیں یہیں سے آر یس یس کی نشات ثانیہ شروع ہوئی تھی ، اب تک ان کی جملہ حرکات  حکومت کی نظر میں رہتی تھی، اب انہیں انڈر گراؤنڈ خفیہ تحریک چلانے کا تجربہ حاصل ہوگیا، اندرا گاندھی کا خیال تھا کہ وہ آئندہ الیکش آسانی سے جیت جائے گی، عموما مسلم لیڈران کا بھی یہی خیال تھا، لہذا جنتاپارٹی کو ساتھ دینے والی معتبر مسلم لیڈر شپ نہ مل سکی تھی، کانگریس بری طرح ہار گئی، اڈوانی وزیر اطلاعات بنے، مسلم نمائندگی کے لئے جن سنگھ کے سکندر بخت ملے، کہا جاتا ہے کہ  اس صورت حال کو بھانپ کر اندر گاندھی اور اس کے دست راست نرائن تیواری نے ہندو کارڈ  پر آر یس یس کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے  وی ہیچ پی کے قیام میں دلچسپی لی تھی،اور بات یہاں تک آگے بڑھی کہ اس کے فرزند کے دور حکومت میں بابری مسجد کا تالا کھولا گیا ، جس سے بابری مسجد کا کارڈ پسندیدہ پریشد کے ہاتھ لگ گیا،  اگر اس وقت اس طرح  قید وبند اور زباں بندی نہ  ہوئی ہوتی تو شاید صورت حال یہاں تک نہ پہونچ پاتی ۔ اللہ کو یہی منظور تھا، لہذا اعمال وافعال میں  شفافیت بہت لازم ہیں، اپنے زیر تربیت طلبہ میں اتنی اخلاقی ہمت پیدا کرنی چاہئے کہ وہ سچ بول سکیں، انہیں سچ بولنے پر سزا کا خوف نہ ہو۔  ایسی تربیت وہی اساتذہ کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ان کے شاگردان تاثر لے کر اٹھیں کہ ان کے ہمدرد اور مخلص ہے۔ یہ یاد رہے کہ قوموں کا زوال ایک دو دن میں نہیں آتا ، آج کی غلطیاں پروان چڑھتے چڑھتے آتش فشان بن جاتی ہیں، تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کی داغ بیل سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی وفات  (۳ مارچ ۱۷۰۷ء  ) کے وقت پڑی تھی، اور سلطنت عثمانی کی سلطان سلیمان قانونی کی وفات  (ستمبر ۱۵۷۷ء  )سے، لیکن زوال کو اپنی انتہاء تک پہنچنے میں کتنی صدیاں لگ گئیں۔ تاریخ سے سبق سیکھ کر ، عروج وزوال کے قوانین کو جان کر اور  ان کا خیال رکھ کر آگے بڑھنا دانشمندی ہے، واللہ ولی التوفیق۔

2023-07-23