مولانا نذر الحفیظ ندوی۔۔۔ایک مخلص مربی، و معلم کی جدائی (۰۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
جامعہ آباد کے مہمان خانے کے پاس ہی ملاقات ہوگئی، بہت خوش ہوئے اور شکایتی لہجے میں کہنے لگے ’’مولانا آپ کا کالم ’رہنمائے کتب کئی دنوں سے نظر نہیں آرہا ہے، ہمیں آپ کے ان مضامین کا انتظار رہتا ہے‘‘ تو تھوڑی سی سبکی محسوس کرتے ہوئے ہم نے جواب دیا کہ ’’آپ تو ہمارے استاد کے درجے میں ہیں، یہ مضامین آپ کے لیے نہیں ہوا کرتے، اور جن کے لیے لکھے جاتے ہیں، انہیں ان کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، انہیں ان کا پتا بھی نہیں چلتا‘‘، توکہنے لگے کہ ’’آپ تو دور بیٹھے ہیں، ان مضامین سے طلبہ و اساتذہ کو جو فائدہ ملتا ہے، اس کا آپ اندازہ نہیں کرسکتے، اسے جاری رکھیے۔‘‘۔ پھر کہنے لگے ’’آپ کے یہاں سیمینار ہورہا ہے، آپ نے اس کے لیے کیا لکھا ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ ’’ہمارے مضامین سیمیناروں کے مزاج کے نہیں ہوا کرتے، یہ کسی اندرونی تحریک سے بے ترتیب انداز سے نکلتے ہیں‘‘۔ مولانا کی محبت کا اثر تھا کہ اسی رات حضرت مولانا علیہ الرحمۃ پر ایک قلم برداشتہ تحریر ہمارے قلم سے نکلی، جو ۱۹۶۷ء سے۱۹۹۹ء میں آپ کی رحلت تک کے مشاہدات اور تاثرات کا احاطہ کرتی تھی۔ صبح مولانا سے ملاقات ہوئی تو یہ تحریر ان کے سپرد کی، تاکہ ایک نظر اس پر ڈال لیں۔ عصر میں مولانا ہمارا انتظار کررہے تھے، ملاقات پر کہنے لگے کہ ’’آپ نے تو ہمیں رلا دیا، اس میں حضرت مولانا ؒ کے بارے میں ایسی باتیں آپ نے لکھی ہیں جو پہلی مرتبہ ہماری نظر سے گزری ہیں‘‘۔ اور پھر آپ نے اہتمام سے اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کا تذکرہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم اور مولانا سید محمد واضح رشید ندوی علیہ الرحمۃ سے کیا اور انہیں یہ تحریر پڑھنے کی تحریک دی، جس پر ان دونوں حضرات نے اسے منگواکر سنا، اور بہت پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ آپ کی چھوٹوں پر شفقت اور ان کی ہمت افزائی کا ایک انداز تھا۔ ایسا ایک بار نہیں ہوا، کئی بار اس کا سابقہ پیش آیا۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہماری تحریروں کو طلب کرتے، اورکہتے کہ آپ ایسی شخصیات پر لکھتے ہیں، جن پر دوسروں کے قلم نہیں چلتے، اور یہ شخصیات عموماً غیر معروف ہوتی ہیں۔ ایک بار آپ کو کہیں ’’زندگی‘‘ رامپور کا وہ شمارہ مل گیا جس میں مولانا شہباز اصلاحی ؒپر ہمارا تعزیتی مضمون شائع ہوا تھا، اسے دیکھ کرشکایت کی کہ اس پر تو ’’تعمیر حیات‘‘ کا پہلا حق تھا۔ ہم نے کہا کہ انہیں تو ہم نے بھیج دیا تھا، لیکن ہمیں وہاں لوگ نہیں جانتے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمت افزائی کا جذبہ آپ میں کس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ اپنے خوردوں کے ساتھ آپ کا یہی والہانہ رویہ رہا۔ جس میں کچھ صلاحیت پاتے اسے آگے بڑھانے اور ہمت افزائی کی فکر کرتے۔ اب مولانا کے اس طرح اچانک اٹھ جانے کے بعد ایسی کسی شخصیت کی کمی کا احساس شدت سے محسوس ہورہا ہے۔ مولانا کو بھٹکل سے بہت انس اور محبت تھی، اور آپ کا یہ تعلق ۱۹۵۵ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کے داخلے سے شروع ہوا تھا۔ جامعہ کی تاسیس کے بعد جو مدرسین اس کے اوّلین دنوں میں اس سے وابستہ ہوئے اُن میں سے مولانا حافظ اقبال مولوی ندوی، مولوی عبدالرزاق قافشے، مولانا حافظ رمضان ندوی، وغیرہ ندوہ میں آپ کے ابتدائی ساتھیوں میں تھے، ان کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، اور کھیلنا ہوتا تھا۔ سنہ۱۹۸۲ ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے الحاق کے بعد جب درجہ عالمیت کے امتحانات جامعہ آباد ہی میں ہونے لگے، اور ان کی نگرانی کے لیے ندوہ سے اساتذہ کرام یہاں تشریف لانے لگے، تو جو اساتذہ اس ذمہ داری پر خاص طور پر مامور کیے جاتے تھے، ان میں آپ کا نام نمایاں تھا۔ اُن دنوں طلبہ کو آپ سے استفادے کا بہترین موقع ملا کرتا تھا۔ ہفتہ دس روز مولانا کا جامعہ آباد میں قیام ہوا کرتا، وہ طلبہ سے گھل مل جاتے تھے۔ مولانا کی طلبہ کے خارجی مطالعے پر خصوصی توجہ رہاکرتی تھی، اور اس کا امتحان وہ خود لیتے تھے۔ خصوصی پروگراموں اور سیمیناروں کے لیے آپ کا دوسرے دنوں میں بھی بھٹکل آنا ہوتا تھا۔ جامعہ آباد میں فراغت کے اوقات میں آپ کی مستقل بیٹھک کتب خانے میں ہوا کرتی تھی، جہاں ناظر کتب خانہ مولانا ناصر الاسلام ندوی صاحب سے آپ کو خاص انس تھا، وہ بھی آپ کا خاص خیال رکھتے اور آپ کے ذوق کی کتابیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر لا دیتے تھے۔ مولانا مطالعے اور کتب بینی کے رسیا تھے، لہٰذا امتحانات کے دنوں میں جامعہ آباد جب اکثر اوقات میں طلبہ سے خالی ہونے لگتا تو اس سے آپ کو تنہائی اور بوریت کا احساس نہیں ہوا کرتا تھا، کیونکہ کتاب کی شکل میں آپ کا ساتھی ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ اس ناچیز سے محبت میں کتابوں کے ساتھ گزرے ان لمحات کا بڑا اثر تھا۔ ہمارے رفیقِ درس مولانا ناصر الاسلام ندوی جہاں آپ کے شاگردِ رشید تھے، وہیں آپ کی ۱۹۷۱ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل آمد کے وقت پر میزبان بھی تھے۔ دراصل آپ پہلی مرتبہ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی رفاقت میں بھٹکل تشریف لائے تھے۔ اُس وقت حضرت کا قیام بھٹکل سے چند کلومیٹر دور چھوٹی سی بستی شرالی میں، مولانا ناصر الاسلام صاحب کے والدِ ماجد جناب محمد باشا شرالی مرحوم کے مکان پر ہوا تھا، جسے احضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے ’’کاروانِ زندگی‘‘ کے صفحات پراس طرح قلم بند کیا ہے:۔ ’’اسی زمانے میں اپنے عزیز دوست محمد پاشا شرالی مرحوم نے اپنے وطن بھٹکل کی دعوت دی، عزیزی نذرالحفیظ بھی ساتھ تھے۔ ان کے مکان پر جو شہر سے الگ تھلگ اس کی نواحی بستی شرالی میں واقع تھا، اسی کام میں مشغول رہا۔ الحمدللہ کچھ عرصے کے بعد کام مکمل ہوگیا۔‘‘ ۔(کاروان زندگی۔ ۲۔۲۹)۔ جس کام کا یہاں پر تذکرہ ہے، وہ مولانا عبدالحئی حسنیؒ کی کتاب ’’الھند فی العہد الاسلامی‘‘ کی ایڈیٹنگ کا کام تھا، جو بعد میں دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ باشا شرالی مرحوم کو تو اب لوگ بھول بھال چکے ہیں، بڑے ہی مرنجاں مرنج اور بااخلاق اور نرم خو انسان تھے، بزرگوں سے بڑی نیازمندی کے تعلقات رکھتے تھے۔ شرالی میں ہائی وے پر ان کی شرالی اسٹور کے نام سے کپڑوں کی دکان تھی، جو غیر مسلموں میں خاص طور پر دور دور تک مشہور تھی۔ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں، بارش کے کمبل ،چھتریوں، شادی بیاہ کے جوڑوں اور جملہ سامان کی فراہمی کا یہ منفرد مرکز ہوا کرتی تھی۔ آج کے لحاظ سے تو دکان کوئی بہت بڑی نہیں تھی، لیکن اللہ نے کاروبار میں خوب برکت دی تھی، اس کی مقبولیت میں مالک کے اخلاقِ حسنہ اور نرم روی کا بڑا عمل دخل تھا۔ حضرت مولانا بھٹکل بارہا تشریف لائے، اور ہمیشہ جامعہ کی دعوت پر آئے، لیکن بھٹکل کے کسی فرد کی دعوت پر، اور اتنا طویل قیام شاید اُس وقت اور ایک ہی بار ہوا۔ مہمان نوازی تو سبھی کرتے ہیں، لیکن مہمان کے مزاج کے مطابق میزبانی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے، یہ شرف خاص نیازمندوں ہی کو ملتا ہے۔ اللہ تعالی نے مولانا ناصر الاسلام صاحب کو اپنے محترم والدِ ماجد کا نمونہ بنایا ہے۔ نذر الحفیظ مرحوم نے بھی وضع داری خوب نبھائی، روزِ اول سے جو تعلق قائم ہوا، اس میں سرمو فرق نہیں آنے دیا، ناصر صاحب کی نظارت کتب خانہ نے اس ربط و تعلق کو مزید پختہ کردیا۔