مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج(۰۱)۔۔۔ پیشکش۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:00PM Sat 7 Aug, 2021

(۔( کورونا  کی مصبیت تو  آسمان پر اڑتے ہوئے بادل جیسی ہے،اس کا سایہ کبھی بھی  سروں پر سے ہٹ سکتاہے،  اسے دھیان میں رکھے بغیر آج کے زمانے میں دستیاب  سفر حج کی  سہولتوں  اور آسانیوں کو دیکھیں،تو محسوس کریں گے کہ  اس کا انداز ہ ۱۹۷۰ ء کی دہائی اور اس سے پہلے کے اس  زمانے سے قبل کے اسفار حج سے نہیں کیا جاسکتا، جب کہ  عازمین حج بیت اللہ کوٹہ سسٹم کے تحت قرعہ میں نام آنے کے بعد  سفر  کے قابل بن سکتے تھے ،  اس کے لئے ایک علحدہ حج پاسپورٹ ہوا کرتا تھا، اورقرعہ میں نام نکلنے کے باوجود لوگ ہفتوں ممبئی کے حاجی صابو صدیق مسافر خانے میں ڈیرہ  ٹکٹ کے انتظار میں  پڑے رہتے تھے۔ ان مشکل  دنوں میں جن شخصیات نے عازمین حج کے بے پناہ خدمت کی، انہیں آسانیاں پہنچانے کے لئے دن ورات ایک کردئے ان کا تذکرہ عموما تاریخ کے صفحات سے  گم ہوگیا ہے، ان شخصیات میں اس وقت کےجنرل سکریٹری انجمن خدام النبی ممبئی جناب احمد غریب سیٹھ مرحوم اور اور ان کے دست راست،  جوئنٹ سکریٹری جناب محی الدین منیری مرحوم   کو یاد کرتے بڑے بڑوں کو ہم نے دیکھا ہے ۔ احمد غریب کو تو اب  لوگ تقریبا بھول بھال گئے ہیں، ان کا تذکرہ پرانے چراغ کے ایک مختصر سے شذرہ کے علاوہ کہیں نظر نہیں آیا،ان کے نام کو زندہ رکھنے والی کتاب(( غریب کا حج)) بھی تلاش کے باوجود نہیں ملتی۔  ایک  زمانے میں ایجنسی تاج کمپنی ممبئی سے اس کا بہت ہی خوبصورت اور معیاری ایڈیشن نکلا تھا۔ اور عازمین حج اسے رہنما ئے سفر کی حیثت سے ساتھ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔

اس وقت مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند نے اپنے سفر حج کے سلسلے میں جو شذرہ جنوری ، فروری ۱۹۶۸ء کے شمارے میں تحریر کیا تھا ہمارے سامنے ہے، اس میں آپ نے  خاص طور پر اپنے سفرحج کی تیاری میں جو مشکلات پیش آئی تھیں ان پر روشنی ڈالی ہے، اور خادم الحجاج محی الدین منیری مرحوم کے جذبہ خدمت پر والہانہ انداز  میں روشنی ڈالی ہے۔

جناب الحاج محی الدین منیری مرحوم ( ۱۹۱۹ء۔ ۱۹۹۴ء) نے بڑی بھر پور اور ہنگامہ خیز زندگی گذاری، لیکن آپ کو بھی ان کے زندگی کے آخری پندرہ بیس سالوں کے کارناموں کے لئے یاد رکھا گیا، جب کہ    آپ نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاسیس میں حصہ لیا، جامعۃ الصالحات بھٹکل قائم کی، اور آخری بارہ سال  میں جامعہ کو اپنی نظامت کا سنہرا دور دیا۔ جبکہ آپ کی  جوانی اور حوصلوں کے تیس سالوں کی تفصیلات سے   جن کا آغاز ۱۹۴۹ء میں انجمن خدام النبی ﷺ ممبئی سے وابستگی سے ہوتا ہے، اور یہ آپ کی خدمت  کا اصل دور ہے، عموما ناواقفیت  پائی جاتی رہی ہے ۔ حالانکہ اکابر سے آپ کے تعارف اور ان کے دلوں میں آپ کی بے پناہ محبت کا اصل باعث تو یہی ماہ وسال رہے ہیں۔

منیری صاحب نے عازمین حج کی جو والہانہ خدمت انجام دی ، اس کی تفصیلات بتانے والے اب دنیا میں نہیں رہے، سمندر میں قطرے کی مانند ان خدمات کی جھلک کہیں کہیں مل جاتی ہے، مثلا مولانا ثناء اللہ عمری صاحب نے اپنے استاد حضرت  مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرہ میں بتایا ہے کہ *جماعت اسلامی سے علاحدگی پر تین سا بیت گئے تھے کہ مولانا بختیاری نے سنا کی آپ کے استاد اور مرشد مولانا حسین احمد مدنی سفر حج پر روانہ ہورہے ہیں، ارادہ کرلیا کہ حضرت مدنی کی رفاقت میں حج کی سعادت سے بہرور ہوں گے، مگر اس فقیر بے نوا کے پاس وسائل کہاں؟ ماہی بے آب ہوگئے، رو رو کر دعائیں کیں*:

*تو کریم مطلق ومن گدا، چہ کنی جز ایں کہ نخوانی ام*

*در دیگرام بنما کہ من، بہ کجا روم چوں برانی ام*

*بمبئی پہنچ گئے ۔ اللہ تعالی نے مولانا منیری بھٹکلی کو مہربان کردیا، سارے دفتری کام انھی نے کئے، ابھی کسی دم میں جہاز نکلنے کو تھا کہ ٹکٹ وغیرہ لادیا، مدت العمر مولانا انھیں یاد کرتے اور دعائیں دیتے رہے۔  (کہکشان جامعہ ۔ صفحہ : ۷۴)*

اس وقت آپ کے سامنے مدیر تجلی کی جو تحریر ہے وہ  اس سلسلے کی ایک دستاویز ہے، اس میں ایسے کئی ایک  پہلؤوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کا عموما حج کے سفرناموں میں  تذکرہ نہیں ہواکرتا، ہمیں امید ہے کہ عامر عثمانی  مرحوم کی یہ چند سطور ان لوگوں کے حق میں دست دعا بلند ہونے کا باعث بنیں گی جنہوں نے خلوص کے ساتھ نام ونمود کی خواہش سے بلند ہوکر مہمانان رسول ﷺ کی خدمت کی ، اللہ ان کے درجات بلند کرے، آئے اب ہم مدیر تجلی کے اس مبارک سفر کے بارے میں احساسات و جذبات کو پڑھتے ہیں۔

۔(عبد المتین منیری) :00971555636151

*****************************************************************

*آغاز سخن*

            جب سفرِ حج کے لیے رختِ سفر باندھ رہے تھے تو ارادہ تھا کہ پورے سفر میں روزنامچہ لکھنے کا التزام کریں گے۔ روزنامچے ہی کو شاید ڈائری بھی کہتے ہیں۔ ڈائری لکھنا تو بعض لوگوں کے معمولاتِ زندگی میں شامل ہوا کرتا ہے، مگر ہماری بے توفیقی دیکھیے کہ ارادے کے باوجود سفرِ حج تک کی ڈائری نہ لکھ سکے، بے توفیقی کے سوا اسے آخر اور کیا کہیں گے کہ قلم جیب میں اور کاغذ بیگ میں موجود، فرصت اور موقع مہیا، کوئی دشواری اور رکاوٹ بھی آس پاس نہیں، مگر انگلیوں کے قلم تک اور قلم  سے کاغذ تک پہنچنے کی نوبت نہ آسکی، روزانہ کا التزام تو کجا، کسی ایک دن کی ڈائری بھی قلمبند نہ کرسکے۔ اب سفرِ حج پورا کر کے گھر لوٹے ہیں تو سوچ رہے ہیں کہ کیا کیا لکھیں اور کیسے لکھیں۔ ۱۸ ؍ فروری کو دیوبند سے چلے تھے، ۷ ؍ اپریل کو پھر دیوبند ہی میں نظر آ رہے ہیں، پچاس دنوں کی مفصل روداد یوں تو سیکڑوں صفحات پر پھیل سکتی ہے، مگر بار بار خیال آتا ہے کہ آخر ضرورت ہی کیا ہے اس داستان سرائی کی، حج کا سفر کوئی انوکھا سفر تو نہیں، ہر سال لاکھوں ہی مسلمان اس سفر کی سعادت حاصل کرتے ہیں، پھر بہتیرے ان میں ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی اپنی رودادِ سفر لکھ ڈالی ہے اور ہر روداد زیادہ سے زیادہ پانچ سات روپے خرچ کر کے بازار سے مل بھی جاتی ہے، پھر کیا خاص بات ہوئی اگر عامر عثمانی نے بھی ایک عدد سفرِ حج کر ہی ڈالا اور کیا حاصل ہوگا اگر اس سفر کے معروف و معلوم مراحل کی کہانی بہت سے صفحات کالے کر کے سنا ہی دی گئی۔

            خیر، اگر ہم اپنے حج میں کوئی خصوصیت، کوئی شانِ امتیازی، کوئی ندرت و انفرادیت محسوس کرتے تو سوچ بھی سکتے تھے کہ اسی خصوصیت و انفرادیت کو نمایاں کرنے کے لیے سفرنامہ تالیف کر دیں، لیکن خصوصیت و انفرادیت تو در کنار یہاں تو یہ تک یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ ہم جو کچھ کر آئے ہیں وہ واقعۃً حج ہے یا اسے صرف ‘‘حج کی نقل’’ کہنا چاہیئے۔

            حج ایک عبادتِ شاقہ کا نام ہے، کسی نہ کسی مرحلے میں تھکن، دشواری، تعب اور سرگشتگی سے دو چار ہونا اس کے لوازمات ہی میں سمجھئیے۔ لیکن ہم اس پورے سفر میں نہ کسی دشواری اور پریشانی سے ہمکنار ہوئے، نہ کوئی منزل تعب اور خستگی کی آئی، گھر سے نکلے تھے تو ہر طرح کا سامانِ آسائش ہمرکاب تھا، یاد رہے کہ ادارے کے ناظم ہمارے چھوٹے بھائی عمر فاروق سلمہ نے دفتر کے ایک کارکن کو بمبئی تک کے لیے ہمارا ہم سفر بنا دیا تھا کہ راستے بھر وہ ہمیں اپنی خدمات سے مستفید کرتے چلے جائیں، بڑے لوگ نوکر چاکر رکھتے ہیں، شیوخ و مرشدین کا بارِ خدمت اٹھانے کے لیے خادم کی کمی نہیں، لیکن ہم نہ تو بڑے لوگوں میں شامل تھے نہ شیوخ و مرشدین میں، پھر اسے تکلف بے جا نہیں کہیں تو اور کیا کہیں گے کہ نل سے پانی بھرنے اور ناشتہ دان سے کھانا نکالنے کے بھی ایک معاون ساتھ ہو، لیکن تقدیر الہی جو کچھ ہوتی ہے اس کے اسباب و وسائل تو خود بخود ہی ظہور پذیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

            بمبئی اترے تو وہاں بھی آرام و راحت ہمارے لیے آغوش کھولے کھڑے تھے۔ کیو پریس کے منیجر جناب غلام قادر صاحب کی اسٹیشن تشریف آوری تو خیر متوقع تھی ہی لیکن بمبئی کے امیر جماعت جناب شمس پیرزادہ اور مکتبۂ اسلامی کے منیجر جناب شہاب بانکوٹی بھی اتنے سویرے بمبئی سینٹرل پہنچ جائیں گے، اس کا تصور تک نہ تھا، ان حضرات کو اپنے پروگرام کی کوئی اطلاع ہم نے نہیں دی تھی، انھیں اسٹیشن موجود پا کر ایک غیر متوقع مسرت اور اطمینان کا احساس کیسے نہ ہوتا، پھر اس حساس میں تحیر کا اضافہ بھی ہوگیا جب جناب ڈاکٹر عبد الکریم نائک کی سبک رفتار کار نے ہمیں ہمارے سامان سمیت اپنے اندر سمو لیا، تحیر کی وجہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی نہ صرف شخصیت بلکہ نام تک سے ہم  واقف نہ تھے۔ یہ سب تو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کون ہیں اور کن اوصاف کے مالک ہیں۔ سفر نامہ لکھ رہے ہوتے تو ہم تفصیل سے ان کا تعارف کراتے لیکن بحالتِ موجودہ بس اتنا ہی کافی سمجھئیے کہ وہ ایک اچھے ڈاکٹر ہیں، جن کی ڈسپنسری میں مریضوں کا ہجوم رہتا ہے، ان کی بڑی خوبی ہی ہے کہ ایک مصروف اور کامیاب ڈاکٹر ہونے کے باوجود ان کے قلب و ذہن کا رشتہ قوم و ملت کی فلاح اور علمی و معاشرتی خدمات کے تصور اور جذبے سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ بڑا درد مند دل اور بہت فیاض طبیعت رکھتے ہیں، ان کے ذہن میں شاید ہر وقت ہی یہ تڑپ کسی نہ کسی درجے میں موجود رہتی ہے کہ کونسا طریقہ ہو جس سے ملی مسائل کی گرہیں کھل سکیں اور مسلمانوں کی پس ماندگی اصلاح و ترقی کے رخ پر چل سکے۔

            انھوں نے سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ پیشکش کی کہ میرے ہی گھر قیام کیا جائے، لیکن ہم چونکہ تجلی میں کیو پریس کا اعلان کرچکے تھے، اس لیے شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی گئی اور پھر ان کی خوش خرام گاڑی نے چند ہی منٹ میں ہمیں کیو پریس پہنچا دیا۔

            جہاز جدے کے لیے ۲۴ ؍ فروری کو اڑنا تھا اور بمبئی ہم ۲۰ ؍ کو اترے، ان پانچ دنوں میں پاسپورٹ وغیرہ کے مراحل طے ہونے تھے، یہ پانچ دن کیسے گزرے، اس کے متعلق بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ پھولوں کی سیج پر گزرے، ضیافتیں، تحفے، علمی و ادبی نشستیں، سیر و تفریح، ڈاکٹر نائک صاحب تو ایک روز رات کے ایک بجے تک اپنی گاڑی میں نہ جانے کہاں کہاں گھماتے پھرے، وہ از راہِ مہمان نوازی مختلف مقامات کے نام بتاتے جا رہے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اب ہمیں ان میں سے ایک بھی نام یاد نہ ہو، یاد نہ رہنے کی وجہ حافظے کی خرابی نہیں، حافظہ بے چارہ کیا کرتا جب دل و دماغ دونوں کسی اور ہی دنیا میں گم تھے، حقیقت یہ ہے کہ ان پانچ دنوں میں حصہ ہم نے بظاہر سارے ہی مشاغل میں لیا لیکن قلب و ذہن کی تمام تر توجہ ان آنے والی ساعتوں کی طرف مرکوز رہی، جب ہمارا جہاز اڑ کر سر زمیں حجاز پر اترے گا اور آنکھیں ان مقاماتِ محبوبہ کے نظارے سے شرف یاب ہوں گی، جن کے دھندلے تصوراتی خاکے نہ جانے کب سے ہماری روح کے نہاں خانے میں قوس و قزح کے حسین رنگوں کا تانا بانا پھیلائے ہوئے ہیں۔

            یہ تصور کی دنیا بھی عجیب ہے، بمبئی کی سر بفلک عمارتیں اور دل کش تفریح گاہیں سامنے تھیں مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان سب پر دبیز کہرے کے غلاف چڑھے ہوئے ہوں، جیسے یہ بہت دور ---- ہزاروں میل دور واقع ہوں اور ہم بس عالمِ خواب میں ان کا نظارہ کر رہے ہوں، اگر طائرِ تخیل ہم سے پہلے دیارِ حبیب کی طرف نہ اڑ گیا ہوتا تو ظاہر ہے کہ عروس البلاد بمبئی کی تفریحات سے کس کافر کو دل بیزاری کی حد تک بے تعلقی محسوس کرسکتا تھا، دور نہ جائیے، ابھی واپسی میں جب چھ دن ہم بمبئی میں ٹھیرے ہیں تو کیفیت یکسر بدلی ہوئی تھی، اب ہر چیز اپنی عام شکل میں نظر آئی، وہی رعنائیاں، وہی جذب و کشش، وہی کافر ادائیاں جو عروسِ دنیا کا طرۂ امتیاز ہیں، خشوع و وارفتگی، زہد و تقوی اور سوز و گداز کی ساری کیفیتیں شاید ہزاروں فٹ کی ان بلندیوں سے گر کر چکنا چور ہو چکی تھیں، جن کے دوش پر ہوائی جہاز ہمیں اڑا کر جدے سے بمبئی لایا تھا، دبیز کہرے کے وہ غلاف جنھیں ابھی ایک ماہ قبل ہم نے بمبئی کی ہر عمارت اور ہر تفریح گاہ پر چڑھا ہوا دیکھا تھا اب کہیں نظر نہ آتے تھے۔

الحاج محی الدین منیری ؒ کا ذکر خیر

            ہوسکتا ہے کہ اس میں ہماری اعصابی کمزوری کو بھی دخل ہو، حقیقت بہرحال یہی تھی کہ جسم بمبئی میں تھا اور دل و دماغ کہیں اور۔ پاسپورٹ اور دیگر متعلقہ امور کی آئینی تکمیل کے سلسلے میں مسافر خانہ صابو صدیق پہنچے تو وہاں حجاج کا اتنا ہجوم تھا کہ ہچکولے کھائے بغیر راہداری سے گزرنا مشکل تھا، شور، ہلچل، ہنگامہ، اب شاید ہمارے لیے بھی تعجب اور ابتلا کی منزل آ پہنچی تھی، مگر نہیں، ابھی چند منٹ بھی تو نہ گزرے ہوں گے کہ ایک ایسے بندۂ خدا سے ملاقات ہوگئی جس کی مخلصانہ نوازشات نے ہمارا سارا غم دور کر دیا، یہ تھے مولانا محی الدین منیری، جوائنٹ سکریٹری مجلس خدام النبی، انھوں نے جس تپاک، سرگرمی اور محبت سے ہمارے سارے کام خود چل پھر کر کرا دئیے، اس کی یاد زندگی بھر دل سے محو نہ ہوگی، محاورے میں یوں سمجھئیے کہ ہم تو نوابی کرتے رہے اور ضابطے کے تمام مراحل مولانا موصوف کی خاص توجہ سے آناً  فاناً طے ہوتے چلے گئے، ہزاروں ہزار حاجیوں کی بھیڑ میں کون ہے جسے متعلقہ مراحل طے کرنے میں تھوڑے بہت انتظار، تعب، صبر اور جسمانی و ذہنی جھٹکوں سے سابقہ نہ پیش آتا ہو، فقط بحری جہاز والوں کو ہی کی بات نہیں، ہوائی جہاز والے حجاج کو بھی ہم نے بعض مراحل میں لائن میں کھڑا دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ باوجود موسم گرم نہ ہونے کے وہ رومال سے ماتھے اور گردن کا پسینہ پونچھ رہے ہیں، لیکن مولانا منیری کے حسنِ اخلاق نے ہمارے لئے وہ مسیحائی کی کہ کسی بھی مرحلے پر ہمیں ادنی درجے میں بھی نہ صبر و انتظار کی کلفت اٹھانی پڑی، نہ لائن میں لگنا پڑا، نہ دوڑ دھوپ کی نوبت آئی۔ یوں سمجھیئے کہ جیسے اور سب حاجی تو حاجی تھے اور ہم محض تماشائی، جو کسی آسودہ حال امیر کی طرح آرام کرسی پر نیم دراز فقط لطفِ تماشا اٹھا رہا ہو۔

            مگر ٹھہرئیے، یہاں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا، جس نے ہمارا کم سے کم پانچ تولے خون خشک کر ہی دیا ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جس رحیم و کریم آقا نے ہمارے لیے اس پورے سفر میں آسانیاں ہی آسانیاں اور راحتیں ہی راحتیں مقسوم فرما دی تھیں، اس کی حیرت ناک کار سازی نے عین اسی وقت ایک ایسا واقعہ بھی رونما کر دیا جس کی وجہ سے اس خشک شدہ خون کی فوری پیدائش میں دیر نہیں لگی، دونوں واقعات آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے حاضر خدمت ہیں۔

            قرنطینہ اور ٹیکوں وغیرہ کے مراحل طے ہوگئے تھے، ابتدائی ضوابط کا پیٹ بھر چکا تھا، اب مرحلہ تھا تو فقط یہ کہ پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں آ جائے اور اطمینان حاصل ہو کہ اب ہم حج کے لیے روانہ ہوسکیں گے،  مولانا منیری کی یقین دہانی کے مطابق یہ مرحلہ بھی اب منٹوں میں طے ہو جانا تھا، چنانچہ ان ہی کی معیت میں خراماں خراماں اوپر پہنچے، تیار شدہ پاسپورٹ جو حضرات تقسیم کر رہے تھے، ان سے مولانا منیری کی نہ صرف جان پہچان تھی بلکہ خاصی بے تکلفی بھی تھی، بلکہ جہاں تک یاد پڑتا ہے ایک صاحب ان کے قرابت دار بھی تھے، دفتر پہنچتے ہی مولانا نے ہمارا پاسپورٹ طلب اور متعلقہ کارکن نے ان کے الفاظ سنتے ہی پاسپورٹوں کے ڈھیر کی طرف توجہ دی۔

            ہمیں مولانا نے اس دفتر کی ایک کرسی پر بٹھا دیا تھا، بیٹھنے کو ان کے حکم سے بیٹھ تو گئے لیکن اضطراب شوق کا یہ عالم تھا کہ کرسی جیسے چٹکیاں بھر رہی ہو، کارکن موصوف نے پاسپورٹوں کی ایک دو گڈیاں الٹیں پلٹیں اور ہم غیر ارادی طور پر اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے کہ اب ہمارا پاسپورٹ ڈھیر سے جدا ہوا اور اب ہم نے اسے بہ ہزار شوق سینے سے لگایا۔

            باقاعدہ نام زدگی کے بعد پاسپورٹ کا مسئلہ حجاج کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا، حج کمیٹی سے اجازت مل چکی ہو تو پاسپورٹ بھی بے چوں و چرا مل ہی جاتا ہے، مگر ہماری ذہنی حالت نارمل نہیں تھی، وفورِ شوق کہیئے یا ضعفِ اعصاب، ہم بہرحال اندیشہ ہائے دور و دراز کا شکار تھے، ہمارا اندرونی اضطراب رہ رہ کر ہمیں اس وسوسے کا خوفناک چہرہ دکھا رہا تھا کہ کیا عجب ہے جس سرکار والا تبار نے ہمیں پاکستان کا پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا ہے وہ ہمارے حج کو بھی کسی وطن دشمن سازش کی کڑی تصور کر کے حکم امتناعی کی دیوار کھڑی کر دے۔

            کارکن موصوف نے پاسپورٹوں کے کئی ڈھیر الٹ پلٹ کر الماری میں رکھ دیئے، پھر الماری کے دوسرے خانوں کی طرف توجہ دی، اس کا مطلب یہ تھا کہ متوقع ڈھیروں میں ہمارا پاسپورٹ نہیں مل سکا ہے، یہ محسوس کرتے ہی ہم پھر کرسی پر بیٹھ گئے، مولانا منیری رہ رہ کر ہماری طرف دیکھ لیتے تھے اور ہماری حالتِ زار کا اندازہ کر کے کچھ تسلیاں بھی دیتے جاتے تھے، ان تسلیوں ہی کے صدقے کئی بار ہم نے اس خوشگوار تصور کا لطف اٹھایا کہ ہمارا پاسپورٹ الماری سے پھدک کر ہمارے ہاتھ میں آگیا ہے اور ہم اسے مضبوطی کے ساتھ سینے سے لگائے دیارِ حبیب میں جا اترے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے تصور کی یہ دنیا پھیلتی چلی گئی، یہاں تک کہ بمبئی اور یہ دفتر جہاں  ہم اس وقت بیٹھے تھے اس کی وسعتوں میں اس طرح گم ہوگئے جیسے ریت کے ڈھیر میں رائی، افق سے افق تک اگر کوئی چیز پھیلی ہوئی تھی تو وہ تھی خیالی دنیا کی وہ ہفت رنگی دھنک جس کے پیش منظر میں بیت اللہ کی چوکور عمارت اور مسجدِ نبوی کے پہلو میں نظر آنے والے سبز گنبد کا ہیولی ایسا نظر آ رہا تھا کہ جیسے خواب کی حالت میں کوئی فراق زدہ عاشق اپنے محبوب کی جھلکیاں دیکھ رہا ہو، جدے سے مکے اور مکے سے مدینے کا سفر آن کی آن میں طے ہو رہا تھا، پہاڑ اور وادیاں، صحرا اور نخلستان، اونٹوں کی قطاریں اور بکریوں کے گلے برقی سرعت سے تخیل کے اسکرین پر دوڑے جا رہے تھے اور خیالی دنیا کی قوسِ قزح ان پر اپنے سات رنگوں کی پرچھائیاں اس طرح ڈال رہی تھی جیسے کوئی ہفت رنگا گلوب مسلسل گھوم رہا ہو۔