مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج(۰۲) ۔۔۔ پیشکش ۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:04PM Sun 8 Aug, 2021

            یہ مت سمجھئیے کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی کو ہم پہلے کبھی دیکھ آئے ہیں، نہیں یہ سفر ہمارا پہلا ہی سفر تھا، تخیل کے اسکرین پر جو کچھ آیا وہ یا تو ان تصویروں کا عکس تھا جو ہم نے بچپن ہی سے اپنے گھروں اور بازاروں میں دیکھتے آئے ہیں یا پھر یہ ان کتابی معلومات کے ٹیلی ویژنی سائے تھے جنھیں ہم نے اور آپ نے زندگی میں نہ جانے کتنی بار پڑھا ہے، اسی لیے ان میں واقعیت کے ساتھ ساتھ افسانویت بھی موجود تھی، افسانویت کا ادراک ہمیں اس وقت ہوا جب جدے، مکے اور مدینے کی پختہ اور نفیس سڑکوں پر اونٹوں اور بکریوں کے عوض ہمیں جدید ماڈلوں کی چمچماتی ہوئی کاریں اور بسیں نظر آئیں، ان میں شیورلیٹ کی وہ امپالا بھی تھی جو اپنی قیمت کے لحاظ سے کم و بیش دس اونٹوں اور کئی سو بکریوں کا بدل ہوسکتی تھی، ان میں وہ کیڈلاک بھی تھی جو تاریخ کے قافلے کو اونٹوں کی رفتار سے بیس پچیس گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ان تیل کے چشموں کی طرف لے جاسکتی تھی جن کے طلسماتی بہاؤ نے اونٹوں اور بکریوں کی کوکھ سے موٹریں اور ہوائی جہاز پیدا کئے ہیں۔ ان میں وہ پلے ماؤتھ بھی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا بیس سال کا سیاہ فارم لڑکا بڑے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ صرف پانچ گھنٹے میں وہ آپ کو مکے سے مدینے پہنچا دے گا۔ پاسپورت ملتے ہی جس دنیا میں پہنچنے کا تصور ہمارے خیالوں کی بستی میں اپنا ریشمی دامن پھیلا رہا تھا اس میں بازاروں کے نقشے، مکانوں کے خاکے اور معاشرے کا رنگ و روپ سراسر افسانوی ہی تھا، اس کا ادراک بھی اس وقت ہوا جب ہم نے جدے، مکے اور مدینے کی شاہراہوں پر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی ان نو تعمیر بلڈنگوں کو دیکھا جو مشرقی مزاج و مذاق پر مغربی تہذیب و تمدن کی ہمہ گیر فتح کا اعلان بالجہر ہیں، جن میں شکوہ ہم جیسے نئے اور ضعیف الاعصاب حاجیوں کے خیالی شیش محلوں پر پہاڑ بن کر ٹوٹتا ہے۔

            دفعتاً ایک زہرہ گداز اطلاع نے ہمارے خیالات کی حسین دنیا پر بجلی گرائی، کوئی کہہ رہا تھا:۔

                        ‘‘پاسپورٹ تو نہیں ملا ------ خدا جانے کہاں گیا’’

            ہم چونکے، چونکے نہیں یوں کہئیے تڑپے، تڑپنے کا لفظ بھی اس لرزہ خیز کیفیت کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کرسکتا جس کا ہزاروں من وزن اس وقت ہماری سماعت نے اور سماعت کے واسطے سے دل و دماغ نے محسوس کیا تھی، ایک نیم کش تیر تھا جو دل و جگر سے گزرتا ہوا روح میں ترازو ہوگیا۔

            ‘‘کیا کہا ---- پاسپورٹ نہیں ملا ----- !’’ ہماری آواز شاید کانپ رہی تھی، کانپ نہ رہی ہوگی تو وہ ایسی ضرور ہوگی جسے کسی نزع گرفتہ کی دردناک ہچکی کہا جاسکے۔

            ‘‘ذرا اچھی طرح دیکھو’’ ---- یہ مولانا منیری کی آواز تھی، پھر ہم نے دیکھا کہ مولانا خود بھی پاسپورٹ کی تلاش میں شامل ہوگئے ہیں، بہتیرے حاجی اپنے اپنے پاسپورٹوں کے سلسلے میں یہاں ہجوم کئے ہوئے تھے، ملی جلی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا، وہ سب غالباً  اس پر احتجاج کر رہے ہوں گے کہ ان پر توجہ دینے کے عوض سب نے کسی ایک ہی شخص کے معاملے پر توجہ کیوں منعطف کر دی ہے، غالباً ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارا دماغ کسی بھی آواز اور فقرے کا مفہوم اخذ کرنے اور پھر اسے یاد داشت کے خانے میں پہنچانے کے قابل نہیں رہا تھا، وہاں تو بس ایک ہی صدا گونج رہی تھی۔

‘‘ پاسپورٹ نہیں ملا ----- پاسپورٹ نہیں ملا ---’’

            خالی خالی آنکھوں سے ہم مولانا منیری کی طرف دیکھا، پھر ان کارکنوں پر نگاہ ڈالی جو ہمارے پاسپورٹ کا سراغ نہ پانے پر حیرت اور بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے، وہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ پاسپورٹ کہاں گیا، کیوں گیا، اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

            مولانا منیری ہمیں ساتھ لیے نیچے اترے اور خدام النبی کے دفتر میں بٹھا کر پیہم تسلیاں دیتے رہے کہ گھبرائیے مت، میں پھر تلاش کراؤں گا، پاسپورٹ کہیں ادھر ادھر ہوگیا ہے، مل جائے گا، جائے گا کہاں۔ کوئی فکر کی بات نہیں وغیرہ۔

            لیکن ایسی تسلیاں طبیعت کے اس اندرونی ردِ عمل کو تو نہیں روک سکتی تھیں، جس کی آنچ میں شریانوں میں دوڑنے والا خون بوند بوند کر کے جلنا شروع ہوگیا تھا، کس کا قلم ہے جو اس وقت کی کیفیات کا ٹھیک ٹھیک نقشہ کھینچ سکے، زندگی میں بارہا آزمائشوں، صدموں اور دشواریوں سے واسطہ پڑا ہے، مگر یاد نہیں پڑتا کہ اندوہ اور مایوسی کی ایسی غیر معمولی کیفیت بھی کبھی دل و دماغ پر طاری ہوئی ہو، اخلاقاً مولانا سے عرض بہرحال یہی کرنا تھا کہ جی ہاں، انشاء اللہ مل ہی جائے گا، اللہ مالک ہے، اسی کی مشیت پر بندے کو راضی رہنا چاہیئے و غیر ذلک، مگر اندر ہی اندر نیچے سے اوپر تک ایک آندھی سی چل رہی تھی، ایک بھونچال سا برپا تھا، چائے نوش کی تو ایسا لگا جیسے خونِ جگر پی رہے ہوں، کوکاکولا منھ کو لگایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سینے میں بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل بن کر گرا ہو، ہم تھے یا ہماری جگہ ایک بے صبرا بچہ جو کسی خوش رنگ کھلونے کی دھن میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوگیا ہو، فرق تھا تو بس اتنا کہ بچہ تو روتا ہے، چیختا ہے، ہاتھ پیر پٹختا ہے مگر ہم بظاہر ساکت و صامت تھے، مبہوت اور مہر بلب تھے، لیکن رونے، چیخنے اور ہاتھ پیر پٹخنے کا عمل حقیقۃً ہمارے قلب و ذہن کے نہاں خانوں میں مسلسل جاری تھا، بڑی ندامت ہوئی یہ سوچ کر کہ بایں ریش و بروت ہم آج بھی بچے ہی ہیں، ایسے بچے جس کے اعصاب کچے دھاگے سے زیادہ کوئی شکیبائی نہ رکھتے ہوں!۔

            مولانا نے دلاسا دیا ---- اور اس وقت دلاسا دینے والوں میں انجمن خدام النبی کے دوسرے جوائنٹ سکریٹری جناب اسمعیل ہاشم صاحب اور صدرِ انجمن جناب محمد حسین توفیق بھی شامل تھے --- کہ آپ ہراساں نہ ہوں، اطمینان سے قیام گاہ پر تشریف لے جائیں، شام کو پاسپورٹ پھر تلاش کیا جائے گا اور نہ ملا تو دوسرا بنوایا جائے گا۔

            عقل اگر ٹھکانے ہوتی تو ان تینوں حضرات کی اخلاص بھری تسلیاں اتنی مؤثر تو بہرحال ثابت ہونی چاہئیں تھیں کہ اگلی صبح تک ہم اندیشوں کی پیہم جراحت کاریوں سے مامون رہتے مگر عقل جب جذبۂ شوق کی گرفت میں آ جاتی ہے تو وہ ایک عضوِ معطل سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی ، شاید اسی حالت کا نام شاعروں نے جنوں اور ڈاکٹروں نے مالیخولیا رکھا ہے، شوقِ فراواں کی مثال بہتے ہوئے دریا کی سی ہوتی ہے، اس کے آگے دفعتاً دیوار اٹھا دیجیے تو موجوں کا سکون خروش میں تبدیل ہوجائے گا اور یہ پر جوش موجیں کسی زخمی درندے کی طرح دیوار سے سر ٹکرائیں گی، اسی طرح کی کیفیت اگر کسی جیتے جاگتے انسان کے اندروں میں برپا ہوجائے تو خود سوچ لیجیے کہ اس سے شکیب و تحمل اور فراست و دانش مندی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔

            وہاں سے اٹھ کر ہم قیام گاہ تک پہنچ تو گئے اور پہنچنے کے بعد رات کے بارہ بجے تک مہمان نوازیوں کے گوناگوں مراحل سے بھی گزرتے رہے، لیکن حالت بس ایسی ہی تھی جیسے سوتے میں چل پھر رہے ہوں، جگ مگ کرتی ہوئی بمبئی سوگوار نظر آ رہی تھی، ٹریفک کے غیر منقطع شور کا زیر و بم کسی غم انگیز نغمے کی دھن بن کر سماعت پر سوز و گداز کی بارش کر رہا تھا۔

            شام کو مولانا منیری سے پھر ملاقات ہوئی، ہوئی کیا یوں کہیئے ہم خود دوڑے گئے، انھوں نے پورے وثوق سے بتایا کہ پاسپورٹ کے متعلق جہاں تک تمھارے اندیشوں کا تعلق ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں تفتیش کر چکا ہوں، پاسپورٹ اگرچہ بعد کی تلاش میں بھی نہیں مل سکا ہے اور یہ بھی پتا نہیں لگا کہ وہ ناپید کہاں ہوگیا، مگر پریشانی کی ضرورت نہیں، صبح بھی اگر نہ مل سکا تو نیا بنوا دیا جائے گا۔

            ‘‘جزاک اللہ’’ ---- جواب میں ایسا ہی کوئی فقرہ ہماری زبان سے نکلا ہوگا، یقین سے اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ان چند ایام کی یادیں یاد داشت کی لوح پر کچھ ایسی گڈ مڈ ہوگئی ہیں جیسے کسی بچے نے کرم کانٹے بنادیئے ہوں! بھرا ہوا اگر کوئی نقش ہے تو بس یہ کہ پاسپورٹ کی طلسمی گم گشتگی نے ہمارا حال پتلا کر دیا تھا، ہم ایسے دل گرفتہ تھے جیسے ساری عمر کی کمائی کسی نے لوٹ لی ہو۔

            رات ایسے عالم میں گزری کہ نہ بیداری نی خواب، عقل – جسے شوقِ فراواں نے بری طرح کچل کر رکھ دیا تھا --- کسمسا کر کہہ رہی تھی کہ نادان، اگر پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے تمھارا سفر منسوخ ہی ہوگیا تو رنج و ملال کی اس میں کیا بات ہے، یہ تو نفع کا سودا ہے، بہت سے پیسے بھی بچے اور حج نہ کرنے کی باز پرس کا خطرہ بھی نہ رہا، باز پرس تو استطاعت کی شرط سے ہے، استطاعت کہاں پائی گئی، جب سفر کا اجازت نامہ ہی اربابِ اختیار نے عطا نہیں فرمایا۔

            مگر دلِ پر شوق کہہ رہا تھا کہ اے بد نصیب! تم سیاہ بخت ہو، راندۂ درگاہ ہو، رو سکتے ہو تو اتنا رو کہ دل خون ہو کر آنکھوں سے بہہ جائے، بین کرو، سینہ پیٹو، حرمین کی بارگاہِ قدس میں تمھاری حاضری مالک الملک کو پسند نہیں۔

            آدمی کتنا جلد باز ہے، کتنا بے صبرا اور ناشکرا۔

            خیالات کی یہ کشمکش تمام ہی رات جاری رہی، اس میں شک نہیں کہ نیند کچھ نہ کچھ آ ہی گئی تھی لیکن نیند میں بھی یہ احساس کسی نہ کسی درجے میں موجود رہا کہ گرم بگولوں جیسی کوئی چیز قلب و دماغ کے نہاں خانوں میں پیہم گردش کر رہی ہے۔

            صبح نماز تو جیسے تیسے پڑھ لی تھی اور ایک پیالی چائے بھی زہر مار کی تھی، مگر پھر وہی ہم تھے اور وہی مولانا منیری، صابو صدیق مسافر خانہ ہماری قیام گاہ سے دور نہین تھا، پیدل چلیں تو مشکل سے پندرہ منٹ کا راستہ، پیدل چلنے کی ہمیں مشق بھی بہت ہے مگر عجلت کا بھوت تو سر پر سوار تھا، ٹیکسی پکڑی اور مسافرخانے جا پہنچے، حالانکہ بس فقط دس پیسے میں پہنچا دیتی اور بس میں بیٹھنا ہم جیسے چھوٹے آدمی کے لیے کوئی توہین کی بھی بات نہیں، مگر ایسے نکات اس وقت سوجھ ہی کسے رہے تھے، مولانا منیری کا حسنِ اخلاق کہیئے کہ اتنے سویرے پہنچے پر انھوں نے ماتھے پر بل نہیں ڈالے، ورنہ اتنے سویرے کسی کے دفتر کھلنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا تھا۔

            ‘‘پاسپورٹ رات بھی ڈھونڈا مگر نہیں ملا’’ وہ گویا ہوئے ‘‘اب آفس کھل جائے تو پھر ڈھونڈتے ہیں --- اور اگر اب بھی نہ ملا تو دوسرا بنوائیں گے’’۔

            اب ہمیں تقریباً دو گھنٹے انتظار کرنا تھا، چائے بمبئی کے ہوٹلوں کی ہمیں یوں بھی پسند نہیں، کریلا اور نیم چڑھا، ایک تو وہ جوشاندے کی طرح مسلسل اونٹتی رہتی ہے، دوسرے دودھ کی جگہ پاؤڈر، تلخابے کے علاوہ اسے کچھ کہنا مشکل ہی ہے، پھر لیجیے ہم چائے سامنے رکھ کر بیٹھ ہی گئے مگر کہاں تک، ایک پیالی سے سر ماریں گے، بسکٹ یا سلیس منھ میں رکھتے ہیں تو وہ حلق سے نیچے اترنے کا نام نہیں لیتے، معدہ غالباً گہری نیند سو رہا ہے، اشتہا کا دور دور پتہ نہیں، مولانا منیری دوسرے کاموں میں لگ گئے، وہ یہاں تنہا ہمارے لئے تو مقیم ہیں ہی نہیں، بیشمار دوسرے حجاج کی گوناگوں خدمات انھیں انجام دینی ہیں، ہم تقریباً نصف گھنٹہ چائے کی میز پر برباد کر کے مسافر خانے کی راہداریوں میں ٹہل رہے ہیں، ٹہل کیا رہے ہیں دھکے کھا رہے ہیں، بھیڑ بہت ہے، شور بہت ہے، کبھی ہم دفاتر کے بند دروازوں پر بے معنی سی نگاہیں ڈال کر چند ثانیے پیروں کی حرکت روک دیتے ہیں، کبھی زینوں پر چڑھتے اور اترتے ہیں، کبھی سیڑھیاں گنتے ہیں کہ شاید اس طرح دل پٹ جائے، کلائی کی گھڑی اور مسافر خانے کا کلاک --- دونوں چل تو رہے ہیں مگر نہ چلنے کے برابر، سوئیاں آگے کو کھسکتی ہی نظر نہیں آتیں، اکتا کر پھر قریب کے ہوٹل میں جا بیٹھتے ہیں، اب چائے کے تو تصور ہی سے طبیعت بیزار ہے، کوکاکولا پینے کے لیے پیاس چاہیئے، پیاس کا برائے نام بھی احساس نہیں، حالانکہ ہونٹ خشک ہیں، سر جل رہا ہے، شاید بخار ہوگیا ہے، پورے جسم میں گرم گرم سی لہر اٹھ رہی ہیں مگر برف پینے کی طرف طبیعت مائل نہیں، پھر ہوٹل کی کرسی گھیرنے کا جواز کیا ہو، مجبوراً کوکاکولا ہی منگایا، پھر کمال بے دلی کے ساتھاس کی چسکیاں لینے لگے۔

            لیجیے اسی وقت یہ بھی یاد آیا کہ آج تو فلاں صاحب کے یہاں چائے کی دعوت تھی، رات انھوں نے کہا تھا کہ علی الصباح وہ گاڑی لے کر آئیں گے، غالباً فورٹ کی طرف کہیں رہتے ہیں نام یاد نہیں، یاد کیسے رہتا، ملاقات کل پہلی ہی بار ہوئی تھی، اپنے بیان کے مطابق وہ تجلی کے بہت پرانے شیدائیوں میں سے ہیں، کل شام چائے کے ساتھ انھوں نے اتنا کھلا دیا تھا کہ رات کا کھانا بغیر بھوک ہی کے کھایا، کھانا اس لیے پڑا کی کھلانے والے صاحب نے بڑے شوق اور اہتمام سے وسیع و عریض دسترخوان بچھایا تھا۔

            خدا خدا کر کے دفاتر کھلے، مولانا منیری نے فوراً ہی متعلقہ افراد سے ہمارے پاسپورٹ کے بارے میں استفسار کیا، جواب کل سے مختلف نہیں ملا ---- وہی ڈھاک کے تین پات ---- ‘‘پاسپورٹ نہیں ملا----’’۔

            اب مولانا منیری نے ہم سے دریافت کیا کہ آیا آپ کے پاس اپنے کچھ فوٹو ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ فوٹو تو نہیں، البتہ وہ نگیٹیو موجود ہے جس کی چھاپی ہوئی کاپیاں درخواست کے ساتھ بھیجی گئی تھیں، وہ کہنے لگے کہ پھر آپ فوراً فلاں فوٹو گرافر کی دکان پر جایئے اور میر احوالہ دے کر کہیے کہ جلد سے جلد چار پانچ کاپیاں چھاپ دے، ہم نے کہا بہت بہتر، لیکن فوراً ہی مولانا نے فرمایا کہ ذرا ٹھہریئے میں خود آپ کے ساتھ چلتا ہوں، پھر وہ ہمیں لے کر مسافر خانے سے باہر نکلے اور ٹیکسی پکڑی، کچھ دیر بعد ہم ایک فوٹو اسٹڈیو میں تھے، جہاں ہم نے اپنے نگیٹیو کے کئی پرنٹس پندرہ بیس ہی منٹ میں حاصل کر لیے۔

            یہاں یہ وضاحت نہ کرنا ناشکری کے مرادف ہوگا کہ مولانا منیری نے ہماری خاطر یہی نہیں کہ صرف اپنا قیمتی وقت ہی خرچ کیا بلکہ ٹیکسی کا کرایہ بھی ہمیں نہیں دینے دیا، یہ بظاہر ایک معمولی سی بات ہے لیکن اس سے مولانا کے ظرف عالی اور جذبۂ خدمت کا اندازہ ہوتا ہے، تصویر کی کاپیوں کے انتظار میں پندرہ بیس منٹ کا جو عرصہ گزرا اس میں ہمارے ما بین ملکی و ملی مسائل پر گفتگو ہوئی، یہ گفتگو اگرچہ مختصر تھی اور اپنی موجودہ ذہنی حالت میں ہم اس کے پوری طرح اہل بھی نہ تھے، لیکن بہرحال اس گفتگو سے معلوم ہوگیا کہ مولانا کا جذبۂ خدمت صرف حجاج تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ پوری ملتِ مسلمہ کی خدمت کا بھی قوی جذبہ رکھتے ہیں، مسلمانوں کے رنجیدہ حالات پر انھیں بڑی تشویش تھی اور مسلمانوں کے قائدین و ائمہ میں جو افتراق و نزاع ہے اس کے لیے وہ بے حد فکر مند تھے، انھوں نے ہمارے اس خیال پر صاد کیا کہ بنیادی چیز افراد ملت کا اتحاد و اشتراک ہی ہے، اور یہ نعمت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہمارے عمائدین ہی اتحاد و اشتراک کی راہ نہ چلیں۔

            فوٹو اسٹڈیو سے باہر آ کر مولانا نے فرمایا کہ آپ بے فکری سے جہاں چاہے تشریف لے جائیں، ظہر کے وقت تک انشاء اللہ نیا پاسپورٹ تیار ہوجائے گا، پھر آپ چاہے مسافر خانے آ کر اسے وصول کرلیں یا مجھ پر چھوڑیں کہ میں شام تک آپ کو پہنچا دوں گا۔

            ہم نے کہا آپ کی نوازشوں کا بہت بہت شکریہ، ہم خود ہی حاضر ہو کر پاسپورٹ لے لیں گے، آپ اسے بس تیار فوراً کرا دیں۔

            اس وقت شاید دن کے دس بجے ہوں گے، ظہر کا وقت کچھ زیادہ دور نہیں تھا، بہت سے بہت پانچ چھ گھنٹے، جی چاہا کہ کسی دو منزلہ بس کی اوپر والی منزل میں بیٹھ جائیں اور کنڈیکٹر سے کہیں کہ جہاں تک یہ جاتی ہو وہیں تک کا ٹکٹ دے دو، پھر جب وہ آخری اسٹیشن پر پہنچے تو دوسرے راؤنڈ کا ٹکٹ خرید لیں، اسی طرح یہ پہاڑ جیسے گھنٹے کٹ جائیں گے، دل اب مطمئن نہیں تھا کہ پاسپورٹ مل ہی جائے گا، وسوسے برابر کچو کے لگا رہے تھے، سر بوجھل تھا، آنکھیں جل رہی تھیں، خیال آتا ہے کہ شاید پندرہ منٹ سے بھی زیادہ ہم ایک فٹ پاتھ پر اس ادھیڑ بن میں کھڑے رہے کہ اب کدھر جائیں، کون سا مشغلہ ہو جس میں منہمک ہو کر غیر مختتم وسوس کی جراحت کاریوں سے نجات پاسکیں، بسیں برابر آ جا رہی تھیں، ٹیکسیاں بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد نظر آتیں، ہنگامے شباب پر تھے، عین اسی وقت ایک ٹیکسی برابر میں آ کر رکی، اس سے کچھ سواریاں اتریں اور پھر ڈرائیور نے سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا، ہم تذبذب کے عالم میں تو تھے ہی، نیم شعوری کی سی کیفیت میں ٹیکسی کی طرف بڑھ گئے۔

            ‘‘کہاں؟’’ ڈرائیور نے سوال کیا، ہم پچھلی سیٹ کی پشت گاہ سے ٹیک لگاتے ہوئے سوچا کیا جواب دیں، منزل تو کوئی ہے ہی نہیں، دادر، پریل، فورٹ، چوپاٹی ہنگنگ گارڈن --- اسی طرح کے چند نام نہ جانے کب کے حافظے کی تختی پر مدھم سی لکیروں کی شکل میں پڑے تھے، ان میں سے کس کو نوک زباں پر لائیں، کہاں کا رخ کریں، ڈرائیور نے انجن کھول دیا تھا۔

            ‘‘بتائیے جناب کدھر چلنا ہے’’ اس نے پہلے سے بلند آواز میں پوچھا، ہوسکتا ہے اس نے سمجھا ہو مولوی صاحب اونچا سنتے ہیں، وہ ایک ادھیڑ عمر کا سکھ تھا۔

            ‘‘چوپاٹی چلو’’ ہماری زبان سے بس یونہی نکلا۔

            گاڑی حرکت میں آگئی، ہمیں اندازہ نہیں کتنے وقت میں اس نے ہمیں چوپاٹی پہنچایا ہوگا، پھر وہ انتظار میں رہا ہوگا کہ اب مولوی صاحب ٹیکسی سے نکل کر کرایہ ادا کریں گے، لیکن ہم نہیں اترے، دھوپ ہر طرف بکھری ہوئی تھی، موسم اب ایسا نہیں تھا کہ دھوپ میں پھرنا خوشگوار محسوس ہوتا، ہم نے دور تک نظر دوڑائی، میرین ڈرائیو کی سر بفلک عمارتیں ایک دلکش گھوم کے ساتھ دور تک پھیلی ہوئی تھیں، ان کے دامن میں رینگنے والی سرمئی سڑک پر ٹریفک کا منظر خاصا جاذبِ توجہ نظر آ رہا تھا۔

            ‘‘چلو میرین ڈرائیو کا ایک راؤنڈ لے کر پھر اس طرف لوٹ آؤ۔’’ ہم نے سمندر کی سرمئی پہنائی پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا، ٹیکسی فوراً متحرک ہوئی۔

            وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا، گھڑی ہماری کلائی پر ضرور تھی لیکن اسے دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہونے لگا تھا، وہ یہی بتائے گی کہ ابھی فقط نصف گھنٹہ گزرا ہے۔ابھی ظہر کے وقت میں اتنی دیر ہے کہ زمین کو نہ جانے کتنے ہزار میل گردش کرنی ہوگی، سورج کو نہ جانے کتنی دور چلنا پڑے گا، سمندر کی سبک خرام موجیں ساحل کی ریت پر آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں، ٹیکسی تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔

            ‘‘ذرا آہستہ ---- ڈرائیور صاحب سفر کے انداز میں نہیں سیر کے انداز میں چلیے۔’’ ہم نے آرڈر کے انداز میں نہیں بلکہ گذارش کے لہجے میں کہا۔

            ‘‘جیسی مرضی جناب’’۔ ڈرائیور نے شائستہ لہجے میں جواب دیا، پھر ٹیکسی چلنے کے بجائے رینگنے لگی۔

            یہ بے مدعا سیر ہم نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کی تھی، نہ جانے کہاں کہاں پھرے، ڈرائیور معاملہ فہم معلوم ہوتا تھا، اس نے کہیں بھی تو کوئی ایسا لفظ نہیں کہا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ ہمارے خللِ دماغی سے پریشان ہے، یہ ظاہر ہے کہ وہ ہمیں کریک تصور کر رہا ہوگا، لیکن ہمارا کریک ہونا اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا، اسے تو اپنا کرایہ چاہیئے تھا اور وہ اسے حسب دل خواہ ملا، یاد پڑتا ہے کہ پائے دھونی کے قریب اتارتے ہوئے اس نے ہم سے بائیس روپے کچھ پیسے وصول کئے تھے، ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ کس حساب سے، پوچھ کر کرتے بھی کیا، سوار ہوتے وقت میٹر دیکھنے کا ہمیں خیال ہی نہیں آیا تھا، ہوسکتا ہے اس نے قاعدے سے کچھ زیادہ ہی وصول کر لیے ہوں مگر شرافت کا تقاضا یقیناً یہ ہے کہ ہم بد گمانی سے کام نہ لیں، وہ اگر پچاس روپے بھی کہتا تو ہم دے دیتے اور واقعہ یہ ہے کہ جس مالیخولیائی کیفیت میں ہم مبتلا تھے اس میں پیسہ کوئی قیمت نہیں رکھتا، خوشی کی بات تو یہ تھی کہ ڈیڑھ گھنٹہ کٹ گیا تھا۔

            یہ تذکرہ ابھی تک ہم نہیں کر سکے کہ ضابطے کا اقامت گاہ تو ہم نے کیو پریس ہی کو قرار دے رکھا تھا، لیکن عملاً رہائش جماعت اسلامی کے اس دفتر میں تھی جو ابراہیم رحمت اللہ روڈ پر واقع ہے، ٹیکسی سے ہم ٹھیک دفتر ہی کے سامنے اترتے لیکن پائے دھونی کے فٹ پاتھ پر ہمیں وہی کرم نظر آ گئے تھے جنھوں نے آج صبح کے لیے چائے کی دعوت دی تھی، یہاں سے دفتر کا نصف فرلانگ سے زیادہ نہ رہا ہوگا، ہم ٹیکسی کا کرایہ ادا کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ وہ سڑک پار کر کے ہم تک آ پہنچے۔

            ‘‘کیا بات ہے مولانا ---- کیسا مزاج ہے؟’’ انھوں نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے تشویشناک لہجے میں پوچھا۔

            ‘‘الحمد للہ ٹھیک ہوں ---- آپ کہیئے یہاں کیسے کھڑے ہیں؟’’

            ‘‘کچھ نہیں بس یونہی ---- ذرا ایک صاحب کا انتظار ہے، صبح تو ہم حاضر ہوئے تھے، دفتر بند تھا، کافی دیر کھڑے رہے، کیا آپ رات کہیں اور سوئے تھے؟’’

            ‘‘جی نہیں، سویا تو یہیں تھا مگر یاد ہی نہ رہا کہ چائے آپ کے ساتھ پینی ہے، صبح ہی صبح کسی اور طرف نکل گیا، شرمندہ ہوں کہ آپ بھی کیا کہتے ہوں گے۔’’

            ‘‘کوئی مضائقہ نہیں، ایسا تو ہو ہی جاتا ہے، یہ بتائیے اس وقت تو کوئی مصروفیت نہیں؟’’

            ‘‘جی نہیں، فارغ ہی فارغ ہوں۔’’

            ‘‘بس تو کھانا اس وقت ہمارے ہی ساتھ کھائیے صبح کی تلافی ہوجائے گی۔’’

            ‘‘ یہی سہی، ویسے چائے کی تلافی کے لیے تو بس چائے ہی کافی ہوتی۔’’

            ‘‘چلیے چائے بھی کسی ہوٹل میں پی لیتے ہیں، کھانا تو کھس ہی لیں گے۔’’

            ‘‘یہ مطلب نہیں ---- کھانا کھانا اگر ضروری ہے تو اس وقت چائے کے کوئی معنی نہیں۔’’

            پھر چند منٹ بعد گلی سے وہ صاحب بر آمد ہوئے جن کا ہمارے کرم فرما کو انتظار تھا، اب ٹیکسی پھر ہمیں بھری پری سڑکوں پر اڑائے لیے جا رہی تھی۔

            چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں جائیے تو یہ روداد ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے، مگر مقصود کتاب لکھنا نہیں، نہ یہ مطلوب ہے کہ آپ فضول و بے کیف جزئیات سے اکتا کر ورق الٹ دیں، لہذا ہماری اور آپ کی سلامتی اسی میں ہے کہ اب جلدی سے یہ رام کہانی ختم ہو۔

            ظہر کے بعد مسافر خانے پہنچے تو مولانا منیری نے جہاں یہ فرمایا تھا کہ نیا پاسپورٹ غالباً تیار ہوگا، وہاں یہ بھی بتایا کہ سعودی سفارت خانے کا ویزا آفیسر کا آدمی آپ کو تلاش کر رہا ہے۔

            ‘‘کیوں کر رہا ہے؟’’ ہم نے پوچھا۔

            ‘‘خدا جانے ---- آپ اوپر جا کر مل آئیے ---- ’’

            ‘‘نہیں، یہ سب بعد کی باتیں ہیں، آپ پہلے ہمارا پاسپورٹ دلوائیے۔ ’’

            مولانا اٹھ کھڑے ہوئے، پھر چند ہی ثانیے بعد ہم اور وہ اسی دفتر میں موجود تھے جہاں سے کل ہمیں مایوسی و نامراد لوٹنا پڑا تھا، وہی گھما گھمی، وہی ہلچل، مولانا نے آگے بڑھ کر ہمارے پاسپورٹ کے بارے میں سوال کیا، مسئول نے نہ جانے کیا جواب دیا، ہم فاصلے اور شور کی وجہ سے سن نہیں سکے، دل کی رفتار تو اس کمرے میں قدم رکھتے ہی تیز ہوگئی تھی، سماعت ٹھٹھرگئی ہو تو تعجب نہیں مگر الحمد للہ اس وقت چند ثانیے سے زیادہ بیم و رجا کی کشمکش کا عذاب نہیں سہنا پڑا، کانوں میں یہ شہد بھرے الفاظ ٹپک ہی گئے کہ لیجیے نیا پاسپورٹ تیار ہے۔

            اور ٹھیک اسی وقت ---- جی ہاں عین اس وقت جب نیا پاسپورٹ ہماری طرف بڑھایا جا رہا تھا کمرے ہی کے کسی گوشے سے یہ نعرہ بلند ہوا کہ پہلا پاسپورٹ تو یہ موجود ہے!۔

            ‘‘کیا کہا ---- موجود ہے؟!’’ ہم حیرت زدہ ہو کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، بعض اور زبانوں پر بھی اسی طرح کا سوال تھا، پھر سوال و جواب کی آوازیں کچھ ایسی گڈ مڈ ہوئیں کہ ایک ذہنی جھٹکے کے سوا ہمارے پلے کچھ بھی نہیں پڑا، یہ لمحات بڑے ڈرامائی تھے، کیا طلسم ہوشربا تھا کہ جو پاسپورٹ کئی کئی بار تلاش کے باوجود ہاتھ نہیں آیا وہ عین اس وقت نمودار ہوگیا جب نیا پاسپورٹ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، ہماری ذہنی حالت اگر نارمل ہوتی تو ان ڈرامائی لمحوں کی ساری ڈرامائیت ادنی سے ادنی تفصیل کے ساتھ حافظے کے دامن میں سمیٹ لاتے، مگر ہم پر تو کیفیت ہی کچھ ایسی طاری تھی کہ اس وقت جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سنا وہ حافظے کی لوح پر واضح تحریر کی شکل میں ثبت نہیں ہوسکا، بلکہ بس ایک مجموعی تأثر ایسا چھوڑ گیا جیسے بھیگی ہوا کا جھونکا ہلکی سی نمی چھوڑ کر گزر جائے، یہ تک یاد نہیں کہ ہمیں جو پاسپورت عنایت کیا گیا وہ وہ تھا جو بعد میں تیار کیا گیا یا وہ تھا جو ہمیں حال سے بے حال کرنے کے لیے کسی بھوت کی طرح غائب ہوگیا تھا اور پھر جلوہ طراز اس وقت ہوا جب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔

            یہ معمہ بڑے سے بڑا طباع بھی قیاس و اجتہاد کے ذریعہ حل نہیں کرسکتا کہ پاسپورٹ آخر غائب کہاں اور کیوں ہوگیا تھا، مگر حل اس معمے کا بہت سادہ ہے جسے دو لفظوں میں یوں سمجھئے کہ جس روز یہ تیار ہوا تھا اسی روز ایک عزیزِ مکرم اسے اپنے گھر لیے چلے گئے تھے، ان عزیز کا نام ٹھیک طور پر یاد نہیں، خیال آتا ہے کہ شاید عبد القدیر یا کچھ ایسا ہی سا نام تھا، یہ حج کمیٹی کے متعلقہ دفاتر میں ہی کام کرتے ہیں، ان کے والدِ محترم تجلی کے قارئین میں سے ہیں، انھوں نے جب تجلی میں پڑھا کہ ایڈیٹر تجلی بھی امسال حج کو جا رہا ہے تو انھیں اشتیاق پیدا ہوا کہ اس سے ملاقات کریں، اس اشتیاق کو پورا کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا تھا کہ وہ اچانک بیمار ہوگئے، بیماری کسی قسم کے شدید درد پر مشتمل تھی اور رہائش ایک مکان کی بالائی منزل میں رہتے تھے، جب انھیں اندازہ ہوا کہ ملاقات کی خاطر وہ مسافر خانے یا کیو پریس نہیں جا سکیں گے تو انھوں نے اپنے صاحب زادے سے خواہش ظاہر کی کہ کم سے کم عامر عثمانی کا فوٹو تو دکھلا ہی دو جو پاسپورٹ بننے کے سلسلے میں یقیناً آیا ہوگا، صاحب زادے نے حکم کی تعمیل کی اور خوب کی، فوٹو پاسپورٹ سے منسلک تھا، وہ پاسپورت ہی اٹھا کر لے گئے، والد صاحب کو دکھلا کر فوراً واپس لے آتے تو کوئی قضیہ کھڑا ہی نہ ہوتا، لیکن جب کاتب تقدیر ہی نے ہمارے حصے میں شدید ذہنی ابتلا اور روحانی کرب کی کچھ گھڑیاں لکھ دی تھیں تو کیسے قضیہ کھڑا نہ ہوتا، یہ تفصیل ہم نہیں بتاسکتے کہ دفتر میں جو ڈیڑھ دن تک پاسپورٹ کی گم شدگی کا ہنگامہ رہا اس کی بھنک عزیز موصوف کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچی، اگر پہنچ جاتی تو یقیناً وہ بتا دیتے کہ صورتِ حال حقیقت میں کیا ہے، یہ بہر کیف ہمیں یاد ہے کہ بعد میں انھوں نے شرمندگی کا اظہار کیا تھا اور ہمیں بڑے اصرار کے ساتھ اپنے گھر بھی لے گئے تھے، یہاں ان کے والدِ محترم سے ملاقات ہوئی، یہ واقعی صاحبِ فراش تھے، بڑے گرم جوشی سے ملے، بہت سی باتیں کیں، خاطر مدارات فرمائی، امید ہے کہ وہ اب صحت مند ہو چکے ہوں گے۔

            تو یہ تھی وہ دلچسپ افتاد جس کے نتیجے میں ہمارا اندازہ یہ ہے کہ زیادہ نہیں تو پانچ تولہ خون ضرور خشک ہوا ہوگا، اب وہ واقعہ بھی سنیے جس کے نتیجے میں ہم نے یہ اندازہ کیا کہ خشک شدہ خون فوراً بن گیا ہوگا۔

            پاسپورٹ ہاتھ میں آگیا تو معاً ایسا محسوس ہوا جیسے چاروں طرف بے  شمار قمقمے جل اٹھے ہوں، جیسے تاریکیوں کے دبیز پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹتے چلے گئے ہوں، بمبئی وہی تھی، مناظر وہی تھے، مگر ہر چیز ایسی شاداب اور نکھری ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے اسے ابھی ابھی غسل دیا گیا ہو، حجاج کے شور و غل میں ایک موسیقی تھی، جو دھکے پاسپورٹ ملنے کے بعد ہم نے مسافر خانے کی راہداریوں کی بھیڑ میں کھائے وہ اتنے خوشگوار تھے جیسے ہماری پیٹھ پر شاباشی کی تھپکیاں دی جا رہی ہوں، چائے ---- حالاں کہ وہی پاؤڈر والی تھی مگر اس وقت اس نے ایسی لذت دی جیسے اعلی درجے کا دودھ پی رہے ہوں، کوکاکولا اتنا خوش ذائقہ لگا جیسے پچاس پیسے میں وہ بالکل مفت ہو، در و بام جو کچھ دیر قبل تک اداسیوں اور ماسیوں کی گرد میں اٹے ہوئے تھے اب صاف و شفاف دل کش اور حسین نظر آ رہے تھے، دو شعر اس وقت بے ساختہ یاد آئے جنھیں نہ جانے کتنی بار ہم نے گنگنایا:۔

اگر شریکِ جمال رنگیں ہمارا حسنِ نظر نہ ہوتا

قمر میں نورِ قمر نہ ہوتا سحر میں رنگِ سحر نہ ہوتا

یہ تو اپنا ہی تھا، دوسرا شاید فنا بدیواؔنی کا ہے:۔

بے ذوقِ نظر حسنِ تماشا بھی نہیں ہے

منھ پھیر لیا ہم نے تو دنیا بھی نہیں ہے

یاد تو ایک اور بھی شعر آیا تھا:۔

جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے

اس وقت یہ پتھر ہیرا ہے اس وقت یہ قطرہ موتی ہے

            لیکن اسے گنگنایا اس لیے نہیں کہ ہماری کہانی کا سرا کمیونزم کی جدلیاتی مادیت سے نہیں مل رہا تھا، ہماری جیب میں پیسے بھی تھے اور پیٹ میں روٹی بھی۔

            خوب یاد ہے کہ پاسپورٹ وصول کر کے جب مولانا منیری کے ہمراہ بالائی منزلوں سے نیچے اترے تھے تو سیڑھیوں کا باہمی فاصلہ ہمیں اتنا کم محسوس ہوا تھا جیسے وہ گڑیوں کے لیے بنائی گئی ہوں، دل چاہ رہا تھا کہ ہر اگلا قدم آٹھویں دسویں سیڑھی پر جا کر پڑے، جسم ایسی بے وزنی کی کیفیت محسوس کر رہا تھا جس کی کہانی خلائی مسافروں کے سلسلے میں سنی جا رہی ہے۔