مولانا عامر عثمانی: مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج (۳)۔۔۔ پیشکش: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:04PM Mon 9 Aug, 2021

            نہ جانے کتنی ساعتیں اسی عالمِ رنگ و طلعت میں گزارنے کے بعد آخر کار ہم نے مولانا منیری سے کہا کہ اب ہمیں بتائیے کون ہمیں تلاش کر رہا تھا اور کہاں ہماری طلبی ہے؟

            مولانا نے اس وقت اسی کرم جوشانہ رہنمائی کا مظاہرہ فرمایا جس سے اب تک نوازتے رہے تھے، فوراً اٹھے اور دالانوں سے گزار کر زینوں کی طرف لے چلے، یاد نہیں کتنی سیڑھیاں چڑھ کر ہم مسافر خانے ہی کے ایک بالائی کمرے میں پہنچ گئے تھے، یہاں سعودی ویزا آفیسر کے غالباً سکریٹری صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور اب مولانا منیری یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ یہی صاحب آپ کو وہاں پہنچا دیں گے جہاں آپ کو یاد کیا جا رہا ہے۔

            کچھ دیر بعد ہمیں ایک بڑے کمرے میں پہنچایا گیا جہاں ایک خوش پوش عرب افسر لمبی سی میز کی پشت پر تشریف فرما تھے، صحت مند چہرہ، وجیہہ و مؤثر شخصیت، کافی تپاک سے ہمارا مصافحہ ہوا، پھر انھوں نے ایسی باتیں کہیں جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کے قلب میں ایک خادمِ دین و ملت کی حیثیت سے ہمارا کافی احترام موجود ہے، وہ عربی بول رہے تھے، مگر ہم انہیں عربی میں جواب نہیں دے سکے، کہنے کو ٹوٹے پھوٹے فقرے ہم نے کہے ضرور تھے مگر ان کا حاصل فقط اعتذار تھا، ہم نے کتابی عربی میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عربی بولنا ہمارے بس کا روگ نہیں، جو کچھ آپ نے فرمایا اسے مر مار کے ہم نے سمجھ تو لیا اور اس کے لیے آپ کے شکر گزار بھی ہیں لیکن روانی کے ساتھ عربی میں جواب بھی دے سکیں یہ ہماری مقدرت سے باہر ہے۔

            اس اعتذار پر انہوں نے اخلاق آمیز تبسم کے ساتھ ہماری ہمت افزائی یہ کہہ کر فرمائی کہ بے شک ہم آپ کی معذوری کو سمجھتے ہین، آپ اردو ہی میں گفتگو کیجیے، یہ ترجمانی کے فرائض انجام دیں گے۔

            ان کا اشارہ سکریٹری صاحب کی طرف تھا جو ملاقات کی تمام مدت تک یہیں موجود رہے۔

            ندامت ہمیں جیسی کچھ ہو رہی تھی اسے آپ سے کیا چھپائیں، منصب تو یہ کہ رسالے میں جہاں بھر کے مسئلے بیان فرماتے ہیں، نام کے آگے فاضلِ دیوبند لکھتے ہیں، مولانا اور حضرت کہلاتے ہیں، علم و فضیلت کی ایک لمبی سی سند بھی صندوق میں محفوظ رکھ چھوڑی ہے، لیکن نا اہلی کا عالم یہ کہ پانچ منٹ عربی میں بات بھی نہیں کر سکتے، ہکلا ہکلا کر فقرہ پورا کرتے ہیں اور اس فقرے میں بھی نہ جانے کہاں کہاں جھول ہو، کیسی کیسی غلطیاں ہوں۔

            واقعہ اگرچہ یہ ہے کہ ایک طرف تو جدید عربی اسالیب کافی بدل گئے ہیں، دوسری طرف الفاظ اور مشتقات نئے نئے ہیں، تیسری طرف کتنے ہی جملوں کو مخفف کر لیا گیا ہے جن کی حیثیت خالص محاورات بن گئی ہے، چوتھی طرف جو سب سے بڑی دشواری ہے وہ اہلِ عرب کا لب و لہجہ اور رفتار کلام ہے، الفاظ اپنی اصل شکل میں اگر ہندوستانی سامع کے دماغ میں پہنچیں ہی نہیں تو ان کا مفہوم و منشا کیوں کر اخذ کیا جاسکے گا، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بڑے سے بڑا عربی داں بھی حجاز کے ایک معمولی آدمی سے پانچ منٹ گفتگو نہیں کرسکتا اگر پہلے سے اس کی مشق بہم نہ پہنچائی ہو، وہاں کے اہلِ علم کی بولی اگرچہ وہاں کے عوام کی بنسبت خاصی حد تک قابلِ فہم ہے لیکن اس میں بھی کثرت سے ایسے ٹکڑے شامل ہوتے ہیں جن کو قدیم عربی کا بڑے سے بڑا اسکالر بھی کم سے کم فوری طور پر تو ذہن کی گرفت میں نہیں لے سکتا الا یہ کہ وہ کچھ دنوں ان لوگوں میں رہا ہو یا کسی رہنے والے کا تربیت یافتہ ہو، علاوہ ازیں رفتار کلام ان کی بھی خاصی تیز ہوتی ہے، طرزِ ادا بھی وہ نہیں جو مخاطب کو غور کرنے کی تھوڑی سی مہلت دے سکے، اگر سفرِ حج کا کوئی ٹکڑا پھر کبھی نذر قرطاس کرنے کی نوبت آئی تو ہم چند دلچسپ مثالوں سے اس صورتِ ضال کو واضح کرنے کی سعی کریں گے۔

            فی الحال تو یہ سمجھ لیجیے کہ اپنی معذوری کا منطقی جواز رکھتے ہوئے بھی ہمیں بڑی شرمندگی ہو رہی تھی جس مدیرِ تجلی کو وہ چشم بددور عالم و فاضل اور نہ جانے کیا کیا سمجھ رہے ہیں وہ اتنا جاہل واقع ہوا ہے کہ اسلام کی سرکاری زبان میں کچھ دیر ان سے بات بھی نہیں کرسکتا۔

            گفتگو ترجمانی ہی کے توسط سے ہوئی، مگر گفتگو کے باقی مراحل میں انہوں نے انگریزی سے کام لیا اور ترجمانِ محترم سلیس اردو میں ہمیں اس کا ترجمہ سنا کر ہمارے جواب کو انگریزی میں منتقل کرتے رہے، ایسا شاید اس لیے کیا گیا کہ ترجمانِ محترم کے لیے عربی کے عوض انگریزی سمجھنا اور بولنا آسان رہا ہوگا۔

             اسی دوران افسر صاحب نے ہمیں دو ورق عنایت کئے جن کی پیشانیوں پر ‘‘وزارۃ الخارجیۃ السفارۃ العربیۃ السعودیۃ بالھند’’ چھپا ہوا تھا اور پہلو میں ہمارے فوٹو کی ایک ایک کاپی چپکی ہوئی تھی، نیچے اسی سفارت خانے کی مہریں تھیں، ایک کاغذ ان میں اس مضمون کا تھا کہ یہ مدیر تجلی السید عامر عثمانی ہیں (اب دیکھ لیجیے کہ محاورے کی کرامت سے عامر عثمانی کو سید کہلانے کا بھی فخر حاصل ہوگیا) یہ ۱۳۸۷ھ کا فریضۂ حج ادا کرنے جا رہے ہیں، انہیں وہ تمام ٹیکس اور محاصل معاف کیے جاتے ہیں جو مملکتِ عربیہ سعودیہ میں دورانِ حج میں حجاج کو ادا کرنے پڑتے ہیں، یہ سرٹیفکٹ اس لیے دیا گیا ہے تا کہ ان کے خیر مقدم میں اس خصوصی رعایت کا لحاظ رکھا جائے۔

            دوسرے ورق کا خلاصہ یہ تھا کہ اپنی خاص حیثیت میں مدیر تجلی بجا طور پر اس کے مستحق ہیں کہ ضابطہ و قانون کی رو سے حاجیوں یازمانۂ حج میں جو پابندیاں نقلِ مکانی کے سلسلے میں عائد ہوتی ہیں ان سے انہیں مستثنی رکھا جائے، یہ جب جہاں چاہیں بغیر روک ٹوک کے جاسکیں۔

            ان اوراق کے لیے جذبۂ امتنان کا اظہار کرنے کے بعد ہم نے رخصت کی اجازت طلب کی تو بڑے اخلاق سے جواب ملا کہ ایک منٹ ٹھہرئیے کوکاکولا آ رہا ہے، پھر جب تک کوکاکولا آیا تھوڑی سی اور باتیں ہوگئیں، نچوڑ ان باتوں کا یہ تھا کہ افسر موصوف دین و ملت کے مسائل سے اپنے ذہنی تعلق اور علمائے دین کے لیے گہرے جذباتِ عقیدت کا اظہار فرما رہے تھے اور ہم ان کے خیالات و محسوسات کو سراہنے کی ایک رسمی سی خدمت انجام دئیے جا رہے تھے۔

            آخر کار ان کی ضیافت سے لطف اندوز ہونے کے بعد ایک گرمجوش مصافحہ نے اس ملاقات کا اختتام کیا، رخصتی مصافحہ کرتے ہوئے وہ اخلاقاً کھڑے بھی ہوگئے تھے اور ہمیں حقیقۃً خوشی بھی سب سے زیادہ اسی بات کی ہوئی کہ جو مراعاتِ خصوصی ہمیں عطا کی گئیں ان کے عطا کرنے کا انداز ایسا نہیں تھا جیسے کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی پر بارانِ کرم کرے بلکہ افسر موصوف کا مجموعی طرزِ عمل اس بات کا مظہر تھا کہ عطا کے پیچھے عقیدت و احترام کا جذبہ کار فرما ہے، ادب و شائستگی ہے، شرافت و نجابت ہے، دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے، ظاہراً موصوف کا رویہ اس شخص کی مانند رہا جو اپنے کسی ممدوح کی خدمت میں عقیدت و نیاز مندی سے کوئی نذرانہ پیش کر رہا ہو۔

            پھر بتائیے ، اس واقعے کا طبعی اثر کیا یہ نہیں ہونا چاہیئے تھا کہ جتنا خون خشک ہوا ہے اس سے زیادہ ہی پیدا ہوجائے اور ہم اس خوشگوار یقین کی بہجت ریز فضا میں گم ہوجائیں کہ ہمارا رحیم و کریم پروردگار جن غیر معمولی نعمتوں اور نوازشوں سے ہمیں ہمیشہ نوازتا رہا ہے، اس سفر میں بھی ان کا زریں سلسلہ انشاء اللہ قائم رہے گا۔

            ٹیکسوں کی معافی تو خیر اپنی ذاتی حیثیت میں بہت زیادہ اہم نہیں لیکن آزادیِ سفر کی نعمت ہم جیسے آزاد منش کے لیے ایک ایسی نعمت تھی کہ ہزار شاہی دعوتیں اس پر قربان، جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے تھے تو پہلے ہی دن یہ طے کر لیا تھا کہ کسب معاش کے سلسلے میں چاہے پنواڑی کی دکان کھولنی پڑے لیکن ملازمت نہیں کریں گے، ملازمت پابندی کا دوسرا نام ہے اور پابندی ہمارے لیے دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے، اپنی مرضی اور شوق سے ہم دس گھنٹے ایک جگہ جم کر کام کرسکتے ہیں لیکن قید لگا دیجیے کہ دو گھنٹے بیٹھنا ہوگا تو یہ دو گھنٹے ہمارے لیے بلائے جان ثابت ہوں گے اور ان میں جو کام ہم کرسکیں گے وہ ایسا نہیں ہوگا جس پر اعتماد کیا جاسکے۔

            اب آپ اعتراض کریں گے کہ جب تم آسائشوں اور آسانیوں کو خدا کے انعام و اکرام کا نام دے رہے ہو تو پھر کیوں اس وہم میں مبتلا ہو کہ تمھارا حج، حج حقیقی نہیں ہوا، یہ تو حج کی توہین ہے کہ حج کرو اور اسے حج کی نقل کہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ حج کیا ہی نہ ہو، بس ایسے ہی ٹہل و ہل کے چلے آئے ہوں۔

            آپ کا اعتراض اور اشتباہ ہیں تو دونوں کچھ جاندار سے، مگر اب اتنا بھی سیاہ کار اور گیا گزرا مت سمجھیئے کہ حجاز پہنچ جائیں اور ٹوٹا پھوٹا سا حج بھی نہ کریں، حج اس کے تمام فقہی لوازمات سمیت ادا کیا تھا، عمرے بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی گئے، قابلِ ذکر مقامات میں سے اکثر پر جانے کی سعادت سے محروم نہیں رہے، یہاں تک کہ جبلِ نور کی اوسطاً ایک گھنٹہ کی چڑھائی چڑھ کر غارِ حرا کا دیدار بھی ان گناہگار آنکھوں کو میسر آہی گیا، لیکن کسی بھی مرحلے میں ایسی کوئی خاص بات پیش نہیں آئی جسے عجز و انکساری کے ڈھلے ڈھلائے انداز میں بیان کر کے ہم آپ پر اپنی روحانیت اور للہیت کا سکہ جما سکیں، یا جسے پر سوز و دلگداز الفاظ میں سپردِ قلم کر کے یہ جتلا سکیں کہ اہل اللہ اور اربابِ تقوی کو جو معنوی لذتیں اور روحانی نعمتیں حرمین کی بارگاہِ قدس سے نصیب ہوتی ہیں ان کا کوئی حصہ ہمیں میسر آگیا ---- نہیں دوستو، ہم وہ تیرہ بخت ہیں کہ جیسے کورے گئے تھے ویسے ہی کورے لوٹ آئے، آج اپنے باطن، اپنے دل و دماغ اور اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں سب کچھ وہی ہے جو جانے سے پہلے تھا، نہ جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے میں کوئی اضافہ ہوا، نہ صوم و صلوۃ کے ذوق میں کوئی ترقی نظر آئی، نہ نفس کے تقاضے مضمحل ہوئے، نہ دنیا کے ہنگاموں سے طبیعت اچاٹ ہوئی، وہی بے فکری ہے کہ جیسے یوم الحساب تو کبھی آنا ہی نہیں، وہی اطمینان ہے کہ جیسے حشر کی ساری ہولناکیاں اوروں کے لیے ہے، خود تنقیدی اگر آدمی کو اس افسوس ناک نتیجے تک پہنچائے تو آپ ہی بتایئے وہ کس طرح اس خوش فہمی کی جرأت کرسکتا ہے کہ اس کا حج بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوگیا ہوگا ---- حج تو بڑی چیز ہے، اپنی تن آسانیوں اور غفلت شعاریوں کے پیش نظر ہم تو اسے بھی بہت بڑی بات سمجھیں گے، اگر ہاتفِ غیبی ہمیں یہ مژدہ سنادے کہ فقط ایک سجدہ قبول کر لیا گیا ہے، قنوطیت کا مجرم کہیے یا بے یقینی کا مریض قرار دیجیے، ہمیں جتنی بار بھی خانہ کعبہ کی دیوار سے رخسار رگڑنے کا موقع ملا ہم اپنے لیے بس اتنا ہی مانگ سکے کہ اے اللہ اپنے آستانے پر کیا ہوا فقط ایک سجدہ قبول کر لیجیے، یوں زبان پر اگرچہ یہ دعا بھی بارہا آئی کہ ہمارا حج قبول فرما لیجیے لیکن اس دعا کو دعا کہنا ہمارے لیے مشکل ہے، کیسے کہیں جب کہ اس کے زبان پر آتے ہی دل کے کسی گوشے سے ندامت کہ ایک ہیجان آفریں لہر اٹھ کر سارے وجود پر چھا جاتی تھی اور پہاڑوں سے ٹکرا کر آنے والی صدائے باز گشت کے انداز میں کوئی چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ گستاخ، جو کچھ مانگ رہے ہو وہ بہت زیادہ ہے، اپنا نامۂ اعمال تو دیکھو ---- اپنی بے توفیقوں پر تو نظر کرو، شرم نہیں آتی کہ فقط حج کی نقل کر کے یہ خواہش کر لیا جائے جو نو زائیدہ بطوں کی طرح گناہوں سے پاک کر دئیے جاتے ہیں۔

            یہ بے لفظ و صوت ‘‘آواز’’ ہمیں کپکپا دیتی تھی، ہمارا جسم پسینے میں تر ہو جاتا تھا، ہماری زبان لڑکھڑا جاتی تھی اور ایک ایسے آدمی کی طرح جس کی زبان سے وفورِ جوش میں کوئی نہایت ہی نازیبا بات نکل گئی ہو ہم سراپا خوف و ندامت بن کر پکار اٹھتے تھے کہ نہیں اے ربِ ذی الجلال ہم اس قابل نہیں ہیں، ہم اپنی طلب پر شرمسار ہیں، ہمیں تجھ سے صرف اتنا ہی مانگنا چاہیئے اور اتنا ہی ہم مانگتے ہیں کہ فقط ایک سجدہ قبول فرمالے ---- ایک سجدہ  ---- اے رؤف الرحیم صرف ایک سجدہ۔

            دعا وہ ہوتی ہے جو اعماقِ قلب سے نکلے، جس میں روح کی پکار اور سینے کی ہوک ہو، جس کے آہنگ میں بدن کا رواں رواں اپنی لے ملادے، ہم نے خدا کے گھر اور رسول کے شہر میں اپنی ذات کے لیے جتنی بھی دعائیں کی ہیں، ان سب میں محض یہی ایک دعا تھی جس کے دعا ہونے پر ہمارا قلب مطمئن ہے، جس کے حرف حرف میں ہمارا پورا وجود الحاج و فریاد بن کر سمٹ گیا تھا، ہم نے ملتزم، حطیم، مقامِ ابراہیم ہر جگہ دہرایا، دہرایا نہیں بلکہ وہ ہچکی کی طرح آپ سے آپ ہمارے حلق تک آتی رہی، آتی رہی اور ہم پتے کی طرح کانپتے رہے، ایسی کپکپاہٹ کہ کئی بار ہم نے سمجھا جاڑے بخار کا حملہ ہوا ہے، بیت اللہ سامنے تھا، اللہ کے نیک بندے طواف اور نوافل کے پاکیزہ مشاغل میں مصروف تھے اور ہم اپنی ہی فکر میں گم، اپنی ہی ذات کو جہنم کے شعلوں سے بچانے کی خود غرضی میں غرق بیت اللہ کو تکے جا رہے تھے، ایک ایسے نادان بچے کی طرح جو چمکیلی چیز کو تحیر اور ندیدے پن سے تکتا ہے، ہم سے نہ نمازیں زیادہ پڑھیں گئیں، نہ طواف بہت سے کیے گیے، ایک گم گشتگی کی سی کیفیت تھی اور ہم، ایک خواب کا سا عالم تھا اور ہم، بار بار زبان یہ دہراتی تھی:

            اے اللہ! یہ تیرا گھر ہے۔

            لہجہ اعتراف کا نہیں بلکہ تحیر کا ہوتا تھا، لہجے سے مراد آواز کا زیر و بم نہیں ---- آواز تو کہیں گم ہو کر رہ گئی تھی، سب کچھ بے صوت و آہنگ ہی زبان پا آ رہا تھا، ایک عجیب تر بات یہ تھی کہ عظمتِ باری کے احساس سے دل و دماغ اگرچہ بے طرح مبہوت تھے، مگر دہشت اور خوف کا دور دور پتہ نہ تھا، اس کی توجیہ شاید یہ ہو کہ گناہوں کی کثرت نے دل و دماغ کو اپنے رب کے آگے بے حیا اور ڈھیٹ بنا دیا ہے، اللہ کے نیک بندے تو اللہ کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں مگر ہم فقط حیران و سر گشتہ تھے خوف زدہ نہیں تھے، بدن میں کپکپی دہشت کی نہیں بلکہ اس جذباتی اتار چڑھاؤ کی تھی جس کا جوار بھاٹا ہمارے کمزور اعصاب کو تانت کی طرح جھنجھنا رہا تھا، آدمی اعصاب کا کمزور ہو تو یقین کیجیے وہ بارہا خواب ہائے پریشاں کو کشف اور وسواس کو الہام سمجھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ سلوک کی اونچی منزلیں طے ہو رہی ہیں، کتنے سی سادہ لوح صوفی ہیں جو اختلاج کے مریض ہیں مگر وہ گمان کرتے ہیں کہ ان کا دل جاری ہوا ہے، خدا بے بنیاد خوش فہمیوں سے بچائے۔ ہم نے اپنے احوال و داردات، اپنے گریہ و شیون، اپنی وارفتگی و دلریشی پر جتنا غور کیا اتنا ہی اتنا قیاس مضبوط ہوتا گیا کہ یہ اعصاب کی کمزوری اور خون کی کمی کا کرشمہ تھا، روحانیت اور سلوک و معرفت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

            یہی وجہ ہے کہ حج کا سفر نامہ لکھنے پر طبیعت مائل نہیں، میلان کے بغیر اگر لکھنا شروع کر دیا تو اول تو وہ ایسا ہی لا یعنی اور بے مزہ سا ہوگا جیسا کہ یہ اداریہ ہے، دوسرے اس میں جذب و شوق اور سوز و گداز کی وہ کیفیت نہ مل سکے گی جس کی توقع ہمارے وہ تمام احباب رکھتے ہیں جنھیں اس سفر نامےکا انتظار ہے، تاہم اگر اس عرضِ حقیقت کے باوجود وہ ضروری تصور کریں گے کہ سفر نامہ پڑھیں اور اس تصور کو وہ خطوط کے ذریعے ہم تک پہنچا بھی دیں گے تو ہمیں ضد بھی نہیں کہ انہیں مایوس ہی کردیں۔ واللہ الموفق۔

تجلی دیوبند ۔ جنوری ،فروری ۱۹۶۸ء