مولانا محمود حسن حسنی۔ زندگی کے ہر لمحہ کو امانت خداوندی سمجھنے والی، باکردار شخصیت

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:17PM Sat 13 Aug, 2022

 تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، مقدر میں زندگی کے جو لمحات لکھے گئے ہیں ان میں ایک لمحہ  کی  بھی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، یہ قانون قدرت ہے، جو انسانوں کی خواہشوں اور تمناؤں کے ماتحت نہیں ہے ، اس قانون کی ساری دنیائے انسانیت تابع ہے،   کل مورخہ ۱۲ اگسٹ  مولانا محمود حسن حسنی ندوی بھی زندگی اورموت کی کشمکش میں چند ماہ گذار کر اللہ کو پیارے ہوگئے، آپ مسلمانان ہند کے عظیم رہنما حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کی بھتیجی کے نہ صرف  فرزند تھے، بلکہ آپ کے معتمد ترین وابستگان ، بلکہ روز وشب کے رازدانوں میں تھے۔آپ حضرت مولانا محمد ثانی حسنی ؒ کے نواسے تھے، آپ کے والد حسن حسنی ، خاندان کے دوسرے اکابر کے برخلاف  علمی میدان سے وابستہ نہیں ہوسکے تھے، لیکن آپ کی تمنا تھی کے آپ کے فرزندان اپنے خاندان کی علمی ، دینی اوردعوتی  روایات کو آگے بڑھائیں،آپ کی یہ تمنا پوری ہوئی اور آپ کے تینوں فرزندان   نے علم دین   کے فروغ کے لئے  اپنی زندگیا ں وقف کردیں۔

مولانا کی رحلت کا یہ حادثہ حسنی خاندان اور خاص طور پر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم  کے لئے اس کبر سنی میں بڑا ہی صبر آزما مرحلہ ہے، گزشتہ مختصر عرصہ  میں آپ کے کئی ایک عزیز ومعتمد شخصیات اس دنیا سے رخصت ہوگئیں  ، ان میں مولانا سید محمد واضح حسنیؒ، مولانا محمد حمزہ حسنیؒ، مولانا محمد مسلم حسنیؒ (  محمود صاحب کے دادا)  ، مولانا نذر الحفیظ ندویؒ، وغیرہ کئی ایک قابل ذکر شخصیات شامل ہیں، جو مولانا کے ساتھ سایہ بن کے رہتی تھیں، اور کڑے سے کڑے وقت میں رفاقت کا حق ادا کرتی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے سبھی اللہ کو پیارے ہوگئے، اور یہ دنیا آپ کے لئے تنہائی کا تاریک سایہ دراز کرتی چلی گئی ، کبر سنی میں اللہ تعالی کی جانب سے اسے  ابتلاء و آزمائش کے علاوہ اور  کیاکہا جاسکتا ہے؟، لیکن آپ نے غم و الم کی ان گھڑیوں میں راضی بہ رضا رہنے کی جو مثال قائم کی ہے، وہ آئندہ نسلوں  لئے ہمیشہ مشعل راہ بنی رہے گی۔

مولانا محمود حسن حسنی کی ولادت باسعادت ۱۹۷۱ء میں ہوئی تھی، مکتب کی تعلیم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مکتب میں، ابتدائی عربی درجات مدرسہ  ضیاء العلوم رائے بریلی میں، ثانویہ ، عالمیت اور تخصص فی الحدیث  دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں مکمل کرکے   ۱۹۹۲ء میں سند فضیلت حاصل کی، اس کے بعد ایک سال المعھد العالی للدعوۃ و الفکر الاسلامی میں گذارا، اور پھر اپنے مادر علمی  مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی میں  تدریس سے وابستہ ہوگئے، جہاں آپ نے تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی قدم رکھا، یہاں دار عرفات کے ترجمان پیام عرفات کی ادارت سے وابستہ ہوگئے۔ 1999ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندیؒ نے اس دار فانی سے کوچ کیا، انہی دنوں آپ کو زیارت حرمین شریفین نصیب ہوئی ، بدر کی زیارت کے موقعہ پر آپ  کے دل  سے دعا نکلی کہ اللہ تعالی آپ کو حضرت مولانا علیہ الرحمۃ  کے جانشین حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم کی خدمت میں قبول کر لے، قبولیت دعا کی گھڑی تھی ، اس وقت سے تادم آخر  حضرت مولانا کے سفر وحضر کے شریک بن گئے۔  ان مصرفیات کے سبب  آپ کی تدریسی مشغولیات کچھ کم ہوگئیں ، لیکن آپ کی اپنے نانا کے قائم کردہ خواتین کے رسالہ ماہنامہ رضوان لکھنؤ، اور تعمیر حیات لکھنؤ میں ادارت کی ذمہ داریوں کا اضافہ ہوا، آپ پر اس دوران ان مجلات کے معاون مدیر  کی ذمہ داریاں ڈالی گئی ۔ جنہیں آپ نے بحسن خوبی انجام دیا۔

مولانا نے اپنی زندگی کے پل پل کو بڑی امانت داری سے استعمال کیا، زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے علاوہ آپ کا وقت لکھنے پڑھنے یا پھر عبادت  واذکار میں صرف ہوتا تھا، اللہ نے وقت میں بڑی برکت دی ، اور کم عمری میں اتنابہت سا علمی کام انجام دیا جو آپ سے دگنی عمر کے افراد سے بھی نہیں ہواکرتا، اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بزرگو ں کی سوانح حیات کو اپنے تصنیفی میدان کا محور بنایا، اور آپ کے قلم سے ، حضرت مولانا سید ابرار الحق  حقی رحمۃ اللہ علیہ۔ مولانا زبیر الحسن کاندھلویؒ، مولانا عبد الباری ندوی (  مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) ، اورمولانا سید عبد اللہ حسنی ندویؒ، وغیرہ کی مبسوط سوانح  حیات نکلیں، آپ کا آخر ی کارنامہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم کی آب بیتی ہے، جس کی پہلی جلد منظر عام پر آچکی ہے،قارئین کو اس میں آپ کا قلم واضح طور پر نظر آتا ہے۔

آپ کی زندگی میں بڑی سادگی تھی، حسنی خاندان کے قابل ناز فرزندہونے کے باوجود آپکے معاملات کبھی صاحبزادگی کا اثر نظر نہیں آیا، ویسے یہ اس خاندان کے سبھی افراد کا وصف رہا ہے،جن  لوگوں  نے تکیہ شاہ علم اللہ  کی مسجد میں  ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا سماں  دیکھا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ آپ  اس میں شرکت کی پابندی کرنے والوں میں  سےتھے، یہاں پر  عمومامعتکفین کے لئے جگہیں متعین ہوتی تھیں، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ متعین کی ہو، جہاں جگہ ملتی وہیں پڑ جاتے ، نیند آتی تو سوجاتے ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل آتے تو طلبہ کے ساتھ باتیں کرتے رات گذرجاتی ، تہجد کا وقت آتا تو اٹھ کر ذکر واذکار اور عبادتوں میں لگ جاتے ۔ احباب جب کہتے کے آپ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں، کبھی آرام بھی کیجئے، تو کہتے کہ جب میں بستر پر لیٹتا ہوں تو بستر کاٹنے لگتا ہے۔مولانا ایک خوش حال والد کے فرزند تھے، آپ کی لکھنو میں کوٹھی تھی، جہاں پر وہ آرام سے رہ سکتے تھے ، لیکن آپ اس آرام دہ کوٹھی کو چھوڑ کر ہمیشہ ندوے کے مہمان خانے میں پڑے رہتے، اور جہاں جگہ ملتی سما جاتے۔

مولانا کی رحلت ہمارے لئے بھی ایک ذاتی حادثہ ہے، ویسے تو آپ سبھی سے نرمی اور محبت واخلاص اور خیر خواہی کا معاملہ کرتے تھے  ، جس سے ہر کوئی اپنے  ساتھ مخصوص معاملہ سمجھتا تھا، حقیقتا ہر ایک کے ساتھ آپ کا یہی معاملہ تھا، ہمیں آپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقعہ نہیں ملا ، لیکن جب بھی ملاقات ہوئی تو اپنائیت اور احترام کی عجیب سی حلاوت ان  میں محسوس ہوئی، آج سے دس بارہ سال قبل جب ہمیں  حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم کی بھٹکل آمد پر آب بیتی  پر مشتمل بیس منٹ کی گفتگو ویڈیو پر ریکارڈ کرنے کا موقعہ ملا تو  آپ نے بڑی ہی مسرت کا اظہار کیا تھا، یہ ان کی دلچسپی کا موضوع تھا، اس زمانے میں اس قسم کا کام ہمارے معاشرے میں   بہت مشکل سمجھا جاتا تھا، پھر تو آپ کے نقش قدم پر ہمیں مولانا سید محمد واضح حسنی ؒ، مولانا نذر الحفیظ ندوی، اور مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتھم کی آب بیتی اور مشاہدات زندگی پر مبنی گفتگو ئیں ویڈیوپر محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوگیا۔ اور مولانا سے ہمارے تعلقات  بھی مضبوط تر ہوتے گئے، ان سے ہمارا ذوق کافی ملتا جلتا  تھا، وہ ہماری ہر تحریر کو شوق سے طلب کرکے پڑھتے تھے، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے ہماری ٹوٹی پھوٹی تحریریں فرمائش کرکے لیں، اور انہیں اول تا آخر حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب اور مولانا واضح صاحب کو سنوائیں، ان حضرات کی وسعت قلبی اور خردوں کی ہمت افزائی کا  یہ بھی ایک نمونہ تھا، مولانا محمود حسن کی ذات  میں بھی  ان اکابر کی یہ عظمت کردار  سرایت کرچکی تھی، اپنے چھوٹوں کی ہمت افزائی آپ کا خاص وصف تھا۔

جانے والا اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں چلا گیا، اس فانی دنیا میں اتنی ہی زندگی انہیں دی گئی تھی، لیکن آپ کی یاد ہمیشہ آپ کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گی، اور آپ کی شخصیت اور روشن کردار آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنا رہے گا، کیا خوب آدمی تھا۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔آمین

Whatsapp:+971555636151

2022-08-13