کھری صحافت، کھوٹی صحافت

Bhatkallys

Published in - Other

11:43AM Sat 2 Jul, 2016
کلدیپ نئیر جب میں بیرون ملک ایک اسکول میں جرنلزم کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میرے پروفیسر نے بتایا کہ نیوز اسٹوری (خبر) کو مغربی حسینہ کے اسکرٹ کی طرح ہونا چاہیے: اتنی لمبی کہ وہ موضوع کا احاطہ کر سکے اور اتنی چھوٹی کہ تجسس کو مہمیز ملے لیکن سالہا سال گزرنے کے بعد اسٹوری نے ایک عجیب سا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس سے پاپئیت کی ہیبت نظر آتی ہے گویا خبر کی مکمل ’’پیڈنگ‘‘ کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب سینئر جرنلسٹ ٹوکری کو ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں تو ہمارے ذہن میں جو سوال ابھرتا ہے وہ یہ کہ آخر جرنلزم (صحافت) کا مستقبل کیا ہو گا اور بیشک یہ مسئلہ صرف بھارت تک ہی محدود نہیں ہے تمام ممالک خواہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں کہ جہاں پر مطلق العنان کی حکومتیں قائم ہیں، وہ سب بھی یہی سوال پوچھ رہے ہیں: آخر وہ لکشمن ریکھا کون سی ہے جسے صحافت کو عبور نہیں کرنا چاہیے یا لکشمن ریکھا ہونی بھی چاہیے کہ ہونی ہی نہیں چاہیے۔ مختلف افراد بڑے تواتر سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ جرنلسٹ لوگ اپنے نجی معاملات میں کیونکر ملوث ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف صحافیوں کی توجیہہ ہے کہ اگر وہ خبر کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کریںکسی کی الماری سے انسانی ڈھانچے بھلا کس طرح لڑکھڑاتے ہوئے باہر نکلیں۔ اس حوالے سے حکومت کا ایک لگا بندھا جواب ہے کہ بعض چیزوں کا افشا کیا جانا عوامی مفاد کے خلاف ہوتا ہے اور اس طریقے سے وہ نہ صرف بڑی بڑی غلطیاں بلکہ سیکنڈلوں تک کو چھپا لیتے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں ہیج (Hegde)‘ گروور اور شالات کے سپر سیشن کے خلاف خبر لکھی تو اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرنلزم کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں کہ ججوں کے فیصلے کو غلط ثابت کر دیا جائے۔ اگرچہ مسز گاندھی نے اپنی بات کی زیادہ وضاحت نہیں کی لیکن میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا جج حضرات آئین کی غلطیاں بھی نکال سکتے ہیں؟ دراصل مسز اندرا گاندھی کا اصل مقصد یہ تھا کہ جج حضرات کو وزیراعظم کی سوچ کے مطابق چلنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ اندرا نے ایک جونیئر جج جسٹس رے کو تین سینئر ججوں پر فوقیت دیکر سپریم کورٹ آف انڈیا کا چیف جسٹس مقرر کر دیا اور اس حسن مروت کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ان ججوں کو قبل از وقت مطلع ہی کر دیتیں۔ ان بے چاروں کو اس خبر کا آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے پر پتہ چلا۔ اس قسم کی شطرنج کی چالیں شفافیت کے عمل سے یکسر متضاد ہیں جس کا جمہوری نظام دعویٰ کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت کا ڈھانچہ اقتدار کی تقسیم اور محدودیت کے ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی کیونکہ یہ وہ فورس ہے جو سول انتظامیہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ بعض ممالک میں فوج اقتدار پر قبضہ بھی کر لیتی ہے اور اگر یہ اقتدار چھوڑ کر واپس بیرکوں میں چلی بھی جائے تب بھی یہ وہیں منڈلاتی رہتی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا ہے حالانکہ اس ملک میں بعض ایسے جرات مند جرنلسٹس بھی موجود ہیں جو مسلح افواج پر تنقید کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جمہوریت توقع کرتی ہے کہ اس کی تمام شاخیں آزادانہ طور پر کام کریں تا کہ اصل حاکمیت عوام کے پاس رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمران خود مطلق العنان بن جائیں اور مغل شہنشاہوں کا سا انداز اختیار کر لیں۔ یہ جج حضرات ہی ہوتے ہیں جو اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ جمہوریت عوام کے مفاد میں کام کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ میں سے کس کا پلڑا بھاری ہے تو یہ ایسی بحث ہے جو مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اگر ججوں اور قانون سازی کرنے والوں پر کوئی تنقید ہو سکتی ہے تو یہ کام اہل صحافت کا ہے۔ اگر وہ نظام سے ڈر کر حق بات نہیں لکھتے تو یہ نظام کی بدقسمتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 40 سال پہلے 26 جون کو جو ایمرجنسی لگائی گئی تھی تو اس کے نتیجے میں سارے پریس نے کس طرح ڈر کر شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنا سر چھپا لیا تھا۔ یہ الگ بات ہے جس کا مجھے تجربہ ہو چکا ہے کہ ایمرجنسی کے دوران صحافیوں کی طرف سے احتجاج بھی ہوا اور ایڈیٹروں سمیت بہت سے صحافی نئی دہلی کے پریس کلب میں اکٹھے ہوئے جنہوں نے ایک قرار داد منظور کی کہ سنسر شپ کو کسی حال میں قبول نہیں کیا جائے گا حالانکہ سنسر شپ ہی ایمرجنسی کا اٹوٹ حصہ تھی۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا صحافیوں کا خوف بڑھتا گیا اور وہ خود بھی اسی غلط نظام کا حصہ بن گئے حتی کہ مسز گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کے احکامات کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنے لگے حالانکہ وہ ماورائے آئین اتھارٹی تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں پریس کونسل آف انڈیا کا ممبر تھا تو میں کونسل کے چیئرمین جسٹس آئیر کے پاس گیا اور ان پر زور دیا کہ وہ پریس کونسل کا اجلاس بلائیں۔ مجھے اس وقت تک اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جسٹس موصوف بھی اسی خوف کا شکار ہو چکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کہا کہ پریس کونسل کا اجلاس بلانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کی کارروائی کی رپورٹ کہیں شایع نہ ہو سکے گی اور نہ ہی نشر ہو گی۔ میرا موقف یہ تھا کہ اگر اس موقع پر کوئی احتجاج نہ کیا گیا تو کئی سال بعد جب تمام خفیہ دستاویزات کھلیں گی تو ہمارے لیے کس قدر شرمندگی کی بات ہو گی کہ ہم سب کے سب دم سادھے پڑے تھے کیونکہ پریس کونسل آف انڈیا کا یا صحافیوں کی طرف سے کسی احتجاج کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں نکلے گا۔ جب ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد قرطاس ابیض جاری کیا گیا جس کو اس وقت کے وزیر اطلاعات وی سی شکلا نے لکھا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس آئر نے بڑی کوشش کرکے پریس کونسل کے اس اجلاس کو رکوا دیا جو راقم الحروف (کلدیپ نئیر) منعقد کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ صحافیوں کی آزادی کا سوال ہمارے سامنے بار بار آتا رہا اور میں نے دیکھا کہ ہم صحافیوں کا بھی وہ کردار باقی نہیں رہا جس کی ہم سے توقع کی جاتی ہے۔ لیکن اب صحافت اور صحافیوں کا انحطاط اس نہج پر آن پہنچا ہے کہ خبروں اور اخباری کالموں کی باقاعدہ خریدوفروخت ہونے لگی ہے۔ اب یہ کھلا راز ہے کہ بہت سی خبریں News Paid بن چکی ہیں۔ بہت سے اخبار اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنے اخباری صفحات کو خبروں اور کالموں کے لیے بھی اسی طرح فروخت کرتے ہیں جس طرح کہ وہ اشتہاروں کے لیے انھیں کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اجرتی خبروں کا معاوضہ اشتہارات سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ ٹی ٹی کرشنا چاری کے زمانے میں مندھرا انشورنس کا سکینڈل منظرعام پر آیا تھا۔ جواہر لعل نہرو وزیراعظم تھے۔ انھوں نے کرشنا چاری پر زور دیا کہ وہ استعفیٰ دیدیں۔ میری اس زمانے میں کرشنا چاری سے ملاقات ہوئی لیکن موصوف کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے سیاست کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا۔ بھارت میں صحافت انگلینڈ کی صحافت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جہاں پر اخبار سنڈے ٹائمز کی آج بھی اس وجہ سے عزت کی جاتی ہے کہ اس نے ادویات کی ایک بہت بڑی کمپنی کے خلاف خبر چھاپ دی تھی کہ اس کی فلاں دوا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس خبر کے بعد عوامی دباؤ کے تحت وہ ادویہ ساز کمپنی متاثرہ بچوں کے والدین کو بھاری ہرجانہ دینے پر مجبور ہو گئی تھی۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)