سچی باتیں۔۔۔ بیوی کی گواہی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:55PM Thu 29 Oct, 2020

1926-09-13

کلّا ، واللہ لا یخزیک اللہ ابدًا، انک لتصل الرحم وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق۔ (صحیح بخاری، باب کیف کان بدأ الوحی)۔ خدا کی قسم ، خدا آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔ آپ قرابت والوں کے حقوق ادا کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، بینواؤں کو آپ کماکر دیتے ہیں مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور حادثوں میں حق کی مدد کرتے ہیں۔ (بعض دوسری روایات کے لحاظ سے، آپ سچ بولتے ہیں، اور آپ امانتوں کو ادا کرتے ہیں۔)۔ یہ الفاظ کس نے کہے ہیں؟ کس سے کہے ہیں؟ کس موقع پر کہے ہیں؟ آپ کا ان الفاظ سے کیا تعلق ہے؟ کہنے والی اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ تھیں۔ مخاطب حضور نبیِ کرم ﷺ تھے۔ موقعِ گفتگو یہ تھا، کہ حضورؓ پر اوّل اوّل وحی نازل ہوئی ہے، اور پہلی بار اصلاحِ قوم وہدایت عالم کی خدمت اہم سپرد ہوئی ہے، اس بارِ عظیم سے قدرۃً قلب مبارک کو تشویش پیدا ہوئی ہے، اُس وقت گھر کی تنہائی میں ، جہاں ان دو کے سوا کوئی تیسری انسانی ہستی موجود نہیں، یہ الفاظ اُن پاک بیوی کی زبان سے ادا ہورہے ہیں، جو پندرہ سال سے عرب کے امینؐ کی زوجیت میں تھیں، اور جن کی نظروں سے اس اُمّیؐ کی زندگی کا کوئی راز پوشیدہ نہ تھا۔ وہ فرماتی ہیں، اور اس یقین کامل کے سات جو شک وشبہہ کی آمیزش سے بالکل پاک ہے، اللہ کو گواہ کرکے فرماتی ہیں، کہ اللہ آپ کی ضرور مددکرے گا، اس لئے کہ خلق اللہ کی خدمت آپ کا دین ومذہب ہے، خاندان والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک آپ کرتے ہیں، ضعیفوں اور بیکسوں کی مدد آپ کرتے ہیں، مہمان نوازی آپ کی سرشت میںہے، حق پر قائم رہنا آپ کی زندگی کا جزو ہے، غرض آپ ذاتی وخانگی ، اندرونی وبیرونی، انفرادی واجتماعی ، ہر حیثیت سے اور ہر پہلو سے پاک وپاکیزہ زندگی کا ایک کامل نمونہ ہیں۔ آپ اپنے دل کو ٹٹولئے ، اور اپنی حالت کا اندازہ کیجئے، کہ آپ کے ہمسایہ اور اہل محلہ جن سے آپ کے ہر وقت سابقے رہتے ہیں، آ پ کے نوکر چاکر جو ہر وقت آپ کے غصہ اور بدمزاجی کے شکار ہوتے رہتے ہیں، آپ کی بیوی، جس سے آپ کی زندگی کا کوئی راز پوشیدہ نہیں، آپ کی اولاد، جو گویا قدرت کی طرف سے آپ پر بطور جاسوس کے مقرر ہے، ان سب کی رائے، آپ کے اخلاق، آپ کی سیرت، آپ کی طبیعت ، آپ کی سرشت سے متعلق کیاہے؟ بیرونی دنیا کو جس کے سامنے آپ تکلف وتصنع کا لباس پہن کر تھوڑی دیر کے لئے آتے رہتے ہیں، دھوکا دیے لینا آسان ہے، لیکن اپنے روز داروں سے اپنے کو چھپائے رکھنا آسان نہیں۔ دل میں شوق اچھے کہلانے کا نہیں، اچھے بننے کا پیدا کیجئے۔ نیکنامی کا نہیں، نیکی کا پیدا کیجئے۔ بدنامی سے نہیں، بدی سے ڈرئیے۔ اپنے دل میں اللہ کو جگہ دیجئے، اللہ خلقت کے دلوں میں آپ کی جگہ پیدا کردے گا۔ جب تک یہ نہیں، اُس وقت تک آپ کس منہ سے اپنے تئیں اُس فردِ کامل سے منسوب کرسکتے ہیں، جس کی زندگی ایثار وخدمتِ خلق کی عملی تفسیر تھی، اور جو سب سے بڑا ہوکر بھی دُنیا کے سامنے اپنے آپ کو سب سے چھوٹا بناکر پیش کرتارہا۔ جسم کے حُسن کا اندازہ اُس وقت نہیں ہوسکتا، جب انسان بَن ٹھن کر اور پُرتکلف لباس پہن کر باہر نکلتاہے، بلکہ صرف اُس وقت ہوسکتاہے، جب وہ گھر کے کسی گوشہ میں سارے کپڑے اُتا ر کر رکھتاہے، ٹھیک اسی طرح روح واخلاق کے حُسن کا اندازہ باہر والوں کے حُسنِ ظن سے نہیں، بلکہ رازداروں کے دلوں کی گہرائیوں سے کیجئے۔