پھانسی یا عمر قید سخت سزا کون؟

Bhatkallys

Published in - Other

05:58AM Fri 8 Apr, 2016
حفیظ نعمانی جن 47 پولیس افسروں اور سپاہیوں کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے عمرقید کی سزا سنائی ہے ان میں پانچ نام مسلمانوں کے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں ہیں جو برابر اس پر احتجاج کرتے رہتے ہیں کہ پولیس میں مسلمانوں کو نہیں لیا جاتا اور اس کا رشتہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اس سرکلر سے جوڑتے ہیں جو آزاد حکومت بننے کے فوراً بعد انہوں نے صوبائی حکومتوں کو بھجوایا تھا کہ فوج اور پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی نہ کی جائے۔ ہرچند کہ اسے واپس لینے کی خبر بھی کافی مشہور ہوئی ہے۔ لیکن ہر صوبہ میں اس پر آج بھی عمل ہورہا ہے اور مسلمان اپنی تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں اور ہیں بھی تو فیلڈ میں کم ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 47 میں 42 ہندو ہیں اور صرف پانچ مسلمان۔ اور ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے عدالت سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 42 ہندو پولیس والوں کو جو سزا دینا انصاف کا تقاضہ سمجھیں انہیں دے لیکن پانچ مسلمان پولیس والوں کو تو پھانسی ہی دی جائے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ ملک کی پولیس نے سیکڑوں مسلمانوں کو فساد کی آڑ میں شہید کیا ہے۔ جن میں سب سے دردناک حادثہ میرٹھ میں ہوا کہ 1987 ء میں ایک محلہ سے چھانٹ کر صحتمند جوانوں کو لے گئے اور ان میں سے چالیس یا زیادہ کو گولیوں سے بھون دیا۔ یا وہ 1993 ء جسے ہر کانگریسی اور بھاجپائی ہندو صرف سیریل بم دھماکوں کے لئے جانتا ہے اور ہم مسلمان اسے اپنے ذرائع کے مطابق دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کی شہادت اور جسٹس شری کرشنا کے مطابق 900 سے زیادہ مسلمانوں کی شہادت کے لئے یاد کرتے ہیں۔ اس کی بھی تحقیقاتی رپورٹ میں ہندوؤں کی کئی سیاسی پارٹیوں کو قاتل کہنے کے ساتھ پولیس کو بھی مجرم بتایا گیا ہے۔ قتل کرنے کے لئے بھی اور اپنا فرض ادا نہ کرنے کے لئے بھی۔ پیلی بھیت میں جن 10 سکھ نوجوانوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کرنے کے جرم میں یہ سزا دی گئی ہے وہ عدالت کی نگاہ میں بیشک انصاف ہے لیکن سکھ بھائیوں کے ساتھ ہم بھی ان سب کو موت کی سزا ہی دلانا چاہتے ہیں۔ اور اگر سب نہیں تو پانچ مسلمانوں کو تو ضرور اس لئے کہ وہ اگر ہندو افسروں کا حکم ماننے سے انکار کردیتے یا سکھوں کی حمایت میں بندوق کا رُخ ہندو پولیس والوں کی طرف کرکے کھڑے ہوجاتے۔ یا ان سکھ بھائیوں کو بچانے کے لئے دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے تو ہوسکتا ہے کہ وہ بھی قتل کردیئے جاتے لیکن ان کے اس اقدام سے ملک کے سارے سکھ مسلمانوں کے ہمدرد ہوجاتے ان مسلمان سپاہیوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر صرف سکھوں پر نہیں مسلمانوں پر بھی ظلم کیا ہے۔ کون مسلمان ہے جسے یہ یاد نہ ہو کہ بھاگل پور میں فوج کی ایک ٹکڑی نے ایک گاؤں کے مسلمانوں کو حفاظت سے نکالا اور مقامی پولیس کے حوالہ کرکے دوسرے گاؤں کو بچانے کے لئے چلے گئے۔ اور جب ان کو لے کر آئے تو پہلے گاؤں کے مسلمانوں کو ملکہ نام کی ایک چھپی ہوئی مسلمان لڑکی کے بیان کے مطابق ان پولیس والوں پر کہیں لے جاکر مروانے کا الزام لگایا۔ اور مسلمان 1980 ء کی عید کو کیسے بھول سکتے ہیں جس میں مراد آباد کی عیدگاہ میں پولیس نے نماز کی نیت سے آنے والے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں اور درجنوں مسلمان اپنے پروردگار کو نماز تو نہ پیش کرسکے اپنی جان پیش کردی۔ شاید دو سال پہلے دہرہ دون میں ایک فرضی مڈبھیڑ میں ایک ہندو نوجوان کو مارنے کے الزام میں دس یا شاید آٹھ پولیس والوں کو ایسی ہی سزا دی گئی تھی۔ لیکن دس سکھوں کے قتل کے الزام میں 47 کو عمرقید کی سزا سے کم از کم اس احساس میں تو کمی آئے گی جو ہر پولیس والے کے دماغ میں رہتا ہے کہ وہی حکومت ہے اور جس کو چاہے اور جیسے چاہے مارتا ہے اور اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی عدالت گھوم گھوم کر سزا نہیں دے سکتی سزا کے لئے ضروری ہے کہ جو واقعہ کی تحقیق کررہے ہیں وہ ہندو سکھ یا مسلمان نہ دیکھیں بلکہ واقعہ کو دیکھیں۔ جیسے یہ واقعہ ایک دردناک واقعہ ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے مذہبی مقامات پر جاتے رہتے ہیں سکھوں کا یہ قافلہ بھی اسی طرح ملک کے مختلف گرودواروں میں مذہبی جذبہ سے ہوتا ہوا آرہا تھا۔ اور بس میں سے نوجوانوں کو اتارکر لے جانا اور اس کے بعد انہیں مارکر انکاؤنٹر کی کہانی بتانا پولیس کا وہ گھسا پٹا طریقہ ہے جس پر افسر یقین کرلیتے ہیں اور ترقی دے دیتے ہیں۔ سی بی آئی نے اگر وہ طریقہ اختیار کیا ہوتا جو وہ مسلمانوں کے معاملے میں اختیار کیا کرتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں بھی کسی بے ایمان بدکردار ہیڈلی کی خدمات حاصل کرلی جاتیں۔ اور ان دس سکھ نوجوانوں کے حافظ سعید یا اظہر مسعود سے رشتے جوڑ دیئے جاتے۔ خصوصی جج للو سنگھ جی نے فرمایا ہے کہ میں نے پھانسی کے بجائے عمرقید کی سزا اس لئے دی ہے میرے نزدیک پھانسی ہلکی سزا ہے اور عمرقید میں ہر دن آدمی مرتا رہتا اور زندہ ہوتا رہتا ہے۔ محترم جج صاحب کی بات کا اندازہ صرف وہ کرسکتا ہے جو جیل میں رہ چکا ہے اور ان میں سے ایک ہم بھی ہیں۔ عمرقید اگر وہ ہے جو اس دن ختم ہو جس دن قیدی مرجائے گا تو وہ بیشک پھانسی سے زیادہ ہے۔ اور اگر وہ ہے جو بیس سال کہی جاتی ہے تو وہ پیروی کے اوپر بھی ہے۔ ہم ایسے انسان کو بھی جانتے ہیں جسے پھانسی کی سزا دی گئی۔ پھر اسے عمرقید کے لئے گورنر سے رحم کی درخواست کی گئی۔ اور پھر وہ دس سال کی مشروط ضمانت پر رہا کردیا گیا کہ اگر تھانے کی رپورٹ کے مطابق چال چلن اچھا رہا تو مستقل ضمانت اور کہانی ختم۔ جس کی ہلکی سی جھلک سنجے دت کے مقدمہ اور جیل کی سزا میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور فاضل جج صاحب کا یہ فرمانا کہ جب تک انکاؤنٹر کے بعد ترقی ہوتی رہے گی فرضی انکاؤنٹر کی لعنت ختم نہیں ہوگی 100 فیصدی صحیح ہے۔ احمد آباد میں عشرت جہاں اور تین مسلمان لڑکوں کا قتل جسے آخرکار فرضی مڈبھیڑ مانا گیا صرف اس لئے تھا کہ وزیر اعلیٰ مودی کی نظر میں ان کے جانثار بن جائیں گے اور واقعی انہیں ترقیاں ملیں۔ اور میرٹھ میں جو ہوا تھا وہ بھی ترقی کی امید اور وفاداری کا انعام تھا۔ وہ جو بھی ہوا راجیو گاندھی کے حکم سے ہوا۔ اور جس نے بھی کرایا وہ بدنام زمانہ ویر بہادر تھا اور جن پولیس والوں نے گولیاں برساکر لاشیں گرائیں ان سے ترقی کا وعدہ کیا گیا ہوگا۔ ایسے تمام واقعات کا پیمانہ یہ ہونا چاہئے کہ جس انکاؤنٹر میں دو چار پولیس والے نہ مریں اور دس بیس زخمی نہ ہوں وہ مڈبھیڑ نہیں قتل ہے جو کوئی بھی جان پر کھیل کر بندوق ہاتھ میں لیتا ہے وہ ہر پولیس والے سے زیادہ بہادر ہوتا ہے اور اس کا نشانہ بھی ان سے اچھا ہوتا ہے۔ لیکن ہر انکاؤنٹر میں پولیس کے افسر اور جوان جو سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں ان کی تو پینٹ میں بھی سوراخ نہیں ہوتے اور جو جان کی بازی لگاکر بندوق ہاتھ میں لیتے ہیں وہ کار میں بیٹھے ہونے کے باوجود ڈھیڑ ہوجاتے ہیں؟ اور یہ صرف اس لئے ہے کہ حکومت انعام دے دیتی ہے اور عدالت سزا نہیں دیتی۔ یہی میرٹھ میں ہوا، یہی مراد آباد میں ہوا، یہی بھاگل پور میں ہوا اور یہی ممبئی میں ہوا کہ مرنے والے ہزاروں مسلمان تھے مگر مارنے والے کسی ایک سپاہی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ اور اب دس سکھوں کے قتل میں 47 کو عمر قید ہوئی ہے تو ہمیں خوش ہونے کا اس لئے حق ہے کہ دشمن تو پولیس ہماری بھی ہے۔ اب چاہے کوئی ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہی کہے۔ لیکن عدالت کے اس فیصلہ سے ہم بیحد خوش ہیں۔