تبصرات ماجدی۔۔۱۱۵۔۔۔ نغمہ زندگی۔۔۔ سید فضل احمد کریم فضلی

Bhatkallys

Published in - Other

08:43AM Sat 20 Feb, 2021

نام کتاب: نغمہ زندگی

از سید فضل احمد کریم فضلی

انجمن ترقی اردو، دریا گنج، دہلی۔

کتاب کہیے یا ننھے منے سے قد، ہلکی پھلکی قامت کی مناسبت سے کتابچہ اردو دیوان ہے، ایک آئی سی ایس شاعر کا اور مجموعہ ہے ایک ‘‘آکسن’’ کے اردو کلام کا ...... اپنی نوعیت میں شاید پہلی اور انوکھی چیز، جدت ندرت صرف اس حیثیت سے کب ہے؟ قدرتاً نظر سب سے پہلے فہرست پر پڑی اور پہلا عنوان ‘‘تصویر شاعر’’ نظر آیا، ورق الٹا لیکن ایں! تصویر کہاں؟ کسی نے تصویر والا صفحہ پھاڑ تو نہیں ڈالا! جی نہیں، صفحہ سالم لیکن درج بجائے تصویر کے صرف ایک شعری تصویر! لا حول ولا قوۃ! کیا دھوکا ہوا۔ آگے چلیے، دوسرا عنوان ‘‘دیباچہ’’ اچھا صاحب دیباچہ تو پڑھنے میں آئے گا لیکن توبہ، اب کی بار پھر وہی دھوکا! دیباچہ القط! اور اس کے عذر میں دو شعر درج! غرض مصنف اور ریویو نگار کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوتی ہے۔ شیوہ طراز شاعر ہے کہ قدم قدم پر مات دیتا ہے اور بھولا ناقد ہے کہ برابر مات پر مات کھاتا چلا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اصل دیوان غزلیات کا شروع ہوگیا وہی ردیف وار اب کہیں استاد غالب سے مشورے ہو رہے ہیں کہیں خواجہ حافظ سے سرگوشیاں کہ لیجیے 88؎ آگیا اور اب دوبدو ہونے لگی فارسی کے استاد منو چہری سے۔

92؎ پر غزلوں کا جلسہ ختم 95 ؎ سے نظم خوانی کی محفل آراستہ۔ کہیں کہیں رباعیاں ہیں کہیں قومی نظمیں اور سب سے آخر نظم ‘‘آکسفورڈ’’ میر حسن کی بدر منیر کے وزن پر۔ آکسفورڈ کی سرگزشت اور ‘‘آکسن’’ کی خود گزشت خدا معلوم اس مثنوی کو مثنوی کہنے میں شاعر نے کیوں تکلف سے کام لیا!

وہی روانی بے ساختگی، شوخ بیانی وہی رمز و کنائے، وہی حرف و حکایتیں جو مثنوی کی جان ہوتی ہیں۔ غرض بجز عریانی و فحش نگاری کے اور سب کچھ، سب سے بڑی اور شاعر کے نقطہ نظر سے سب سے اہم نظم وہ بھی مثنوی ہی ہے۔

عنوان ہے ‘‘فلم کا جادو’’ یہاں پہنچ کر شاعر نرا شاعر نہیں رہتا واعظ و خطیب بھی بن جاتا ہے، وعظ و خطابت سینیما کی ہجو میں نہیں، اچھی پاکیزہ مذہبی اصلاحی انقلابی فلم سازی کی حمایت میں! رند میں محتسب کی شان، زبان شاعرانہ لیکن تیور مصلحانہ۔

شاعر نے شہد کی مکھی بن، رس خدا معلوم کن کن پھولوں کا چوسا ہے کن کن کلیوں کا چوسا ہے، اقبالؒ کا اثرسب سے بڑھ کر نمایاں شروع میں بھی وسط میں بھی آخر میں بھی، لیکن اپنی خودی کو لیے دیے ہوئے اپنی شخصیت سب سے الگ تھلگ کئے ہوئے، رنگ میں کسی کے بھی نہیں سب سے آزاد، بس اپنے ہی اوپر اعتماد۔ یہ ہنر نہیں ریوو نگار کی نظر میں عیب ہے، صلاحیتیں اب بھی موجود ہیں، خدا کرے عمر میں اضافہ اور مشق میں پختگی کے ساتھ نظر بھی حکیمانہ و عارفانہ ہوتی جائے، شاعری تمام تر ایمانی و عرفانی بن جائے اور حضرت اقبال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے حضرت فضلی پورے ‘اقبال مند’ ہوجائیں۔ اور زبان وطن کے لحاظ سے پنجابی اور مسکن کے لحاظ سے بنگالی، بھلا کیسے ممکن ہے کہ اتنی شاعری صحیح اردو میں کرجائے؟ نکتہ چینی کی نگاہ اس تلاش میں دوڑی، پھری، گھومی لیکن بجز 95؎  کے آخری شعر شاید کہیں بھی جگہ ٹکنے اور رکنے کی نہ پائی۔

صدق نمبر  48، جلد  نمبر 7 ،  مورخہ 13؍ اپریل 1942

https://telegram.me/ilmokitab/