کچھ القاعدہ اور دیپاسرائے کے بارے میں (از:حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

03:00PM Tue 22 Dec, 2015
hafeez-noumani از حفیظ نعمانی سنبھل میں ایک بہت بڑا محلہ ہے جو دیپا سرائے کہلاتا ہے۔ جسے راجہ دیپ چند نے بسایا تھا۔ یہ کس سنہ کی بات ہے یہ تاریخ سے معلوم ہوجائے گا؟ ہم نہ تاریخ کے طالب علم رہے اور نہ مؤرخ ہیں۔ ہم تو بس یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس محلہ کو ایک ہندو راجہ نے بسایا تھا اور اس میں آباد 50 ہزار کے قریب جو بھی ہیں سب مسلمان ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ راجہ دیپ صاحب نے ہی اپنی مسلمان رعایا کو ہندوؤں سے الگ بسایا ہو۔ یو کوئی اور وجہ ہو۔ ہمارے علم کی حد تک تو پوری دیپاسرائے میں صرف ترک قبیلے کے مسلمان ہیں اور وہاں نہ کوئی ہندو ہے نہ سکھ ہے۔ حد یہ ہے کہ دس برس میں اگر کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو تو وہاں سید بھی کوئی نہیں ہے۔ نہ کوئی صدیقی، فاروقی اور عثمانی مسلمان ہیں۔ ہماری جوانی تک اس کے مشرقی کنارے پر ایک مالی خاندان تھا جو کئی ایکڑ کے باغ میں رہتا تھا اور وہ اس کا مالک بھی تھا۔ ملک میں ہندو مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی اختلاف ہوا ہو۔ یا خود سنبھل میں کیسی ہی تناتنی ہوئی ہو مالی خاندان کی طرف کسی نے ترچھی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ دیاسرائے کے ظریف حسین صاحب سنبھل میونسپل بورڈ کے 15 برس چیئرمین رہے۔ ہندو انہیں ان کے سخت انتظام کی وجہ سے جنرل ایوب خاں کہا کرتے تھے۔ وہ اگر ہندوستان کے اپنے ہندو بھائیوں کی طرح چاہتے تو دیپاسرائے کا نام تبدیل کرسک تے تھے اور کسی مسلمان بادشاہ جیسے بابر یا ہمایوں سے منسوب کرسکتے تھے اس لئے کہ وہ سنبھل آئے بھی اور رہے بھی، یا کسی بزرگ کے نام سے منسوب کردیتے لیکن یہ ہندوؤں سے محبت کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ اس کا نام آج بھی دیپ چند راجہ کے نام پر دیپا سرائے ہے؟ پورے اُترپردیش میں مسلم اکثریت کے اضلاع، قصبے اور محلے ہر حکومت کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان سے کوئی دشمنی ہے لیکن ایک بات جو بچپن سے دیکھتے آئے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک میں کہیں سے ہندو مسلم تنازعہ کی خبر آئے دیپاسرائے کی ناکہ بندی ضرور کردی جاتی ہے۔ یہ بات ہر ایسے ڈی ایم سے معلوم کی جاسکتی ہے جو مراد آباد میں ڈی ایم بن کر آئے کہ انہیں کیا ہدایات دی جاتی ہیں کہ سنبھل، امروہہ اور حسن پور پر خصوصی توجہ رکھنا سنبھل چند برس پہلے تک مراد آباد کی تحصیل تھی لیکن اپنی معلومات کی حد تک ہمیں یاد نہیں کہ کبھی بھی کسی بھی موقع پر دیپا سرائے والے ہندوؤں کے محلہ پھڑ یا بالمیکیوں کے محلہ حاتم سرائے میں بری نیت سے گئے ہوں۔ اور ہم یہ بات بھی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہندوؤں نے اور پھڑ کے ہندوؤں نے بار بار دیپاسرائے کے زمینداروں اور خوشنما تاجروں کے بیٹوں کے خلاف یہ جانتے ہوئے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے مقدمے درج کرائے ہیں۔ ایسا کوئی پھڑ کا ہندو آڑھتی گیتا کو ہاتھ میں لے کر بتادے کہ کسی بھی مسلمان نے کسی کے بیٹے کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہو؟ مراد آباد کے ڈی ایم فرحت صاحب کی تو بات الگ رہی اجے وکرم سنگھ جو 1978 ء میں ڈی ایم تھے ان سے بار بار ملاقات ہوئی اور پھر ان سے علی گڑھ میں ملنا ہوا اور بعد میں تو وہ برسوں لکھنؤ میں سکریٹری رہے ہر بات معلوم ہوئی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ مسلمانوں نے جب ہندوستان پر حکومت کی تب بھی وہ اقلیت میں تھے اور یہ اسلامی تعلیم کا ہی اثر تھا کہ انہوں نے اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی معمولی سی بھی کوشش نہیں کی جس کی تائید ہر اس مؤرخ نے کی ہے جو ہندو ضرور تھا مگر ایماندار اور غیرجانبدار تھا۔ ہمارے بارے میں سنبھل کے تعلیم یافتہ تمام ہندو جانتے ہیں کہ ہم نے سنبھل میں کبھی ہندو مسلم مسئلے پر بات نہیں کی حافظ ابراہیم صاحب کے مقابلہ میں آچاریہ کرپلانی کو فتح دلانے میں ہمارا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ 1978 ء کے فساد میں ہم ایک مہینہ سنبھل میں رہے۔ ہم برابر ہندو دوستوں سے ملتے رہے۔ ہم نے تو اندرا گاندھی سے بھی جب وہ اس فساد کے بعد سنبھل آئی تھیں مراد آباد میں کہا تھا کہ دیپاسرائے کے مسلمان اور پھڑ کے ہندو آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں سلے ہوئے ہیں۔ انہیں اگر الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ پھٹ جائیں گے الگ نہیں ہوں گے۔ ہم سے تو جب اس زمانہ کے ڈی ایم اجے وکرم سنگھ نے کہا تھا کہ آپ اتنی مدد کردیجئے کہ سنبھل کی دہلی منڈی اور کراچی منڈی ختم کرادیجئے بس سنبھل منڈی رہنے دیجئے تو ہم نے ان سے کہا تھا کہ کیسے کرادیں؟ ہر کالے بال والے کو یہ ڈر ہے کہ وہ پھڑ گیا تو گرفتار ہوجائے گا۔ آپ اعلان کرادیں کہ اب کسی کی بھی گرفتاری نہیں ہوگی چاہے اس کا نام رپورٹ میں ہو۔ اور انہوں نے اعلان کرادیا اور ہم نے دیپاسرائے کی منڈی کو جس کا نام پھڑ کے ہندو آڑھتیوں نے کراچی منڈی رکھ دیا تھا ختم کرادیا۔ اس کی تفصیل کسی وقت لکھ دی جائے گی۔ اس وقت تو صرف یہ لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے کہ دہلی اسپیشل سیل یا دوسری تحقیقاتی ایجنسیاں نہ جانے کتنے مسلمان لڑکوں کو دہشت گردی کے الزام میں برسوں کے لئے بند کرچکی ہیں اور وہ باعزت بری ہوچکے ہیں۔ جیسے ممبئی کے بم دھماکوں کے مجرموں کو تو موت کی بھی اور دوسری بھی سخت سے سخت سزا دی جاچکی ہے لیکن جسٹس کرشنا شاہ نے جو ممبئی میں 900 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے کی رپورٹ دی ہے اس کے جرم میں ایک بھی ہندو کو پانچ سال کی سزا بھی نہیں دی۔ اس کا صاف مطلب صرف مسلمانوں کی طرف سے یہ خوف ہے کہ یہ پھر کہیں آٹھ سو برس کے لئے حاکم بن کر نہ بیٹھ جائیں؟ دیپاسرائے میں فرشتے نہیں انسان ہی رہتے ہیں اور ان میں نوجوان اور جوان بھی ہیں جو تعلیم کے زیور سے سجے ہوئے ہیں اور ان کی انگلی بھی نیٹ پر ہے وہ بھی دنیا کو سب کی طرح ننگا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن القاعدہ تو وہ ہے جس کی وزیر اعظم بھی تردید کرچکے ہیں کہ اس کا ہمارے ملک میں کہیں اثر نہیں ہے۔ اور ہم قسم کھا سکتے ہیں کہ سنبھل سے لکھنؤ آکر ہم سے ملنے والے کسی کی زبان سے القاعدہ کا نام بھی نہیں سنا اور وہ تو اگر کچھ تھی تو اسامہ بن لادن کے ساتھ چلی بھی گئی۔ اس کے علاوہ اس وقت ساری دنیا آئی ایس آئی ایس کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جسے کون سونے کے بسکٹ دے رہا ہے، کون جدید ترین اسلحہ دے رہا ہے اور کون ہے جو اُن کی پشت پر کھڑا ہے؟ کہ فرانس جیسا ملک ان پر بمباری شروع کرتا ہے اور پھر اپنے ملک میں 200 ملکوں کے سربراہوں کو بلاکر ماحولیات پر بات کرنے لگتا ہے۔ اگر اس کی جڑیں ڈھونڈنا ہیں تو ان ملکوں میں ڈھونڈا جائے جو پوری دنیا کو برباد کرنے کی طاقت رکھنے والے ہوکر بھی ایک گروہ کی پوری طرح مدد کررہے ہیں؟ دیپاسرائے کے جن بچوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ بے قصور ہیں؟ اگر اسپیشل سیل کے پاس مخبروں کی خبر ہے تو وہ تحقیقات کرلیں۔ لیکن تحقیقات کا ایک طریقہ تو وہ ہوتا جس کی دہشت سے بی جے پی کے اس وقت کے سب سے بڑے لیڈر اڈوانی جی دوڑتے ہوئے وزیر اعظم منموہن کے پاس گئے تھے جب ہیمنت کرکرے نے ایک سادھوی اور ایک فوجی کرنل اور دوسروں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اڈوانی جی نے وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ ان سے تفتیش میں سختی نہ کی جائے۔ دیپاسرائے اور اٹک کے ایک عالم اور مدرّس کی طرف سے نہ سونیا جاسکتی ہیں، نہ ملائم سنگھ اور نہ لالو یادو۔ بس ہم جیسے یہ کہیں گے کہ ان سے جو کچھ معلوم کرنا ہے وہ دسمبر جیسے مہینے میں برف پر بٹھاکر بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کیونکہ مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ ہر کسی سے بار بار سوالات کئے جائیں اور پھر سب کو آمنے سامنے بٹھاکر ہر ایک سے سوال کے جواب لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ جیسے آصف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دہلی سے ردّی سامان لاکر فروخت کرتا تھا۔ وہ اگر اپنی ان تاریخوں میں دہلی کی موجودگی ثابت کردے تو ہوسکتا ہے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوجائے۔ یہ بات سچ نہیں ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔ لیکن یہ ہم بھی جانتے ہیں کہ دیپاسرائے میں شاید ہی کوئی مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیتا ہو؟ لیکن رمیش نام کے ایک ہندو دوست ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں اور ملائم سنگھ نیز بلرام سنگھ یادو بھی سنبھل سے ایم پی رہ چکے ہیں جنہیں صرف مسلمانوں نے کامیاب کرایا تھا۔ بات ہندو مسلمان کی کبھی نہیں رہی لیکن اسے کیا کیا جائے کہ سیکولر پارٹی کے ہندو جب مسلمان کو گولی مارتے ہیں تو وہ مسلمان بھائی کہہ کر مارتے ہیں اور سنگھ پریوار والے ملچھ کہہ کر گولی مارتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک کو مسلمان معاف کردیتے ہیں اور دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ کاش آر ایس ایس یہ سمجھ لے کہ اس کا بھارت ورش کا خواب اگر پورا ہو بھی گیا تو اس کی عمر دو چار سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اسے سمجھنے کے لئے بس نیپال کو دیکھ لینا چاہئے۔ جب ہندو راج نیپال میں نہ رہ سکا تو ہندوستان میں کیا رہے گا جہاں مسلمان کے مقابلہ میں ہندو 80 فیصدی زیادہ گوشت کھاتا ہے؟ اس لئے انتقام سے صرف بددعائیں ملیں گی اور ان کی دھار بہت تیز ہوتی ہے۔ ؂ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ فون نمبر: 0522-2622300