Moulana Islahi Ka Dubarah Zikr Khair--- Abdul Mateen Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

08:25PM Sat 20 Jan, 2024

*بات سے بات : مولانا اصلاحی کا دوبارہ ذکر خیر*

*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

 

دلی خوشی ہوئی جب دو روز بعد اصلاحی اور ندوی فکر کے تعلق سے ہماری پوسٹ کو علم وکتاب میں پذیرائی ملی، اس سے محسوس ہوا کہ احباب اس بزم پر پوسٹ ہونے والے پیغامات کو اہمیت سے دیکھتے ہیں۔ یہ اس بزم کے لئے شرف کی بات ہے۔ ایک دوست نے مولانا امین احسن اصلاحی کے جماعت سے وابستگی کے دور کو جلسے جلوس سے تعبیر کرنے پر تعجب کا اظہار  کیا ہے، جس کی وضاحت مولانا خلیل الرحمن چشتی صاحب نے بخوبی کردی ہے، اس پر مزید بتاتے چلیں کہ  چائے وائے کی طرح جلسے کے ساتھ جلوس کا لاحقہ استعمال کرنے کے ہم عادی ہیں، اب یہ کہاں تک درست ہے  ہمارے اہل علم  احباب ہی بتاسکیں  گے، ماحول کی تبدیلی سے تعبیرات میں بھی فرق آجاتا ہے، ہم نے مولانا کے ابتدائی دنوں میں تدریس سے زیادہ تقریروں اور جلسوں اور تنظیمی امور میں زیادہ مشغولیت کو جلسے جلوس سے تعبیر کیا ہے۔

مولانا اصلاحی کو جماعت اسلامی کے دور میں دیکھنے والے  کئی ایک بزرگوں سے ہمارے تعلقات رہیں ہیں، ان میں مولانا نثار احمدؒ ( یوکے اسلامی مشن لندن) اور مولانا خلیل احمد حامدیؒ  ( دارالعروبہ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ مولانا  سلیم الطبع  ہونے کے سات ساتھ بڑے سریع الغضب، اور جلد جذبات سے مغلوب ہونے والے فرد تھے، یہ حضرات مولانا سے شاکی نہیں تھے، بلکہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، انہیں اپنے پرانے ساتھیوں سے بدگمان کرنے کا سہرا وہ کسی اور کے نام باندھتے تھے، جس کا ذکر ہم یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔

مولانا حامدی صاحب بتاتے تھے کہ جب نیا نیا ٹیپ ریکارڈ آیاتھا تو انہوں نے آپ کی تقریر ریکارڈ کی اور انہیں بتائے بغیر سنادی ، تو کہنے لگے یہ کون مقرر ہے، بہت اچھی تقریر کررہا ہے۔

یہاں ہم ایک اہم نکتے کی طرف احباب کی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ صحیح علم دین اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے ہی سے آتا ہے، یہ علم کتابوں کے ساتھ جب سینہ بہ سینہ بھی چلے تو قابو میں آتا ہے، جس طرح کوئی زبان صرف کتاب پڑھ کر نہیں آسکتی اسی طرح  علم کا فہم اسے فن کے جید اساتذہ سے پڑھے بغیر نہیں آسکتا۔ سینے میں علم کی بنیاد ڈالنے والا درحقیقت استاد ہی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں احباب کو مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کا درس سورہ فاتحہ بغور سننا چاہئے، یہ پانچ مجلسوں پر مشتمل ہے، اور بھٹکلیس ڈاٹ کام کے آغاز مین اسے ہم پوسٹ کرچکے ہیں۔

عام طور پر مشہور ہے کہ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد میں اساتذہ سے حصول علم کی اہمیت نہیں ہے، لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ صاحب تفہیم نے حیدرآباد دکن کے علماء سے عربی فارسی اور دینی علوم سیکھے ہیں، اور یہاں سے دہلی جانے کے بعد اور الجمعیۃ سے وابستگی کے دنوں میں بھی وہاں کے اکابر  علماء سے علوم دینیہ کے سبق  باقادگی سے لئے ہیں، آپ کے والد ماجد نے مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک واسطے سے صحاح ستہ کی سند لی تھی،اور آپ کے فرزند کو اورنگ آباد اور حیدرآباد سے فراغت تک انگریزی تعلیم کی بھنک تک پڑنے نہ دی تھی۔ یہ سبھی دستاویزت اب بھی محفوظ ہیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد ہوں یا جاوید احمد غامدی یا خالد مسعود انہوں نے علم دین میں اپنے اعتبار کو باقی رکھنےکے لئے خود کو مولانا اصلاحی سے جوڑ رکھا ہے، یہ اچھی بات ہے اگر اس میں استحصال کا پہلو نہ ہو۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے تو مولانا سے سنہ پچاس کی دہائی میں قید وبند کے زمانے میں استفادہ کیا ہے، اس وقت مولانا ابھی توانا تھے، لیکن آخر الذکر دونوں نے مولانا کی پیرانہ سالی اور تقریبا دو عشروں تک درس وتدریس اور عوامی زندگی سے انقطاع کے بعد آپ سے استفادہ کیا ہے۔

یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے جو جناب م نسیم اعظمی مرحوم نے ہم سے کہی تھی، مرحوم ہندوستان میں اسلامی ادب کی تحریک کے سرخیل تھے، آپ کا مجلہ نئی نسلیں لکھنو اس تحریک کا اولین ترجمان ہوا کرتا تھا، نسیم صاحب نے ہمارے استفسار پر کہ جماعت میں بہترین لکھنے والوں اور باصلاحیت لوگوں کی وافر تعداد میں موجود گی کے باوجود ادب اسلامی صرف نعروں تک محدود کیوں رہ گیا؟اور معاشرے میں کوئی زیادہ موثر کردار ادا نہ کرسکا تو انہوں نے فرمایا  کہ جماعت والوں نے جب کسی لکھنے پڑھنے کو دیکھا کہ اچھا بول بھی سکتا ہے تو اسے درس قرآن، تقاریر اور تنظیمی کاموں میں لگا دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باصلاحیت افراد ان کاموں میں پڑ کر چن چن کا مربہ بن کر رہ گئے، اورکسی ایک  میدان کے ہوکر اپنی شناخت بنا نہ سکے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے بعد مولانا اصلاحی اپنے استاد مولانا فراہی کےلئے علامہ شبلی کے سید سلیمان نہ بن سکے، اور جب پاکستان چلے گئے تو مولانا فراہی کی میراث کو مدرسۃ الاصلاح اور یہاں کے ناظم مولانا بدر الدین اصلاحی مرحوم نے سنبھالا، جنہوں نے فراہی کے آثار کو سینت سینت کررکھا، اور انہیں ایڈیٹ کرکے شائع کیا، آج مولانا بدر الدین کو لوگ نہیں جانتے ، ورنہ ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کے بقول مولانا آزاد کے طرز خطابت کے نمائندہ مقرر تھے، لیکن ان کے آثار محفوظ نہیں رہے، اس حیثیت سے اب انہیں کوئی نہیں جانتا۔

مولانا اصلاحی نے جماعت سے وابستگی کے دور میں بڑی پیاری کتابیں لکھیں، تزکیہ نفس، دعوت دین، حقیقت شرک، حقیقت توحید، وغیرہ کئی ساری ایسی کتابیں ہیں جو آج بھی  اپنے اندر طراوت رکھتی ہیں، اور اپنے موضوع پر ان کی اہمیت جاودانی ہے،  تدبر قرآن کو ہمیں اس وقت پڑھنے کا موقعہ ملا تھا جب ۱۹۸۰ کی دہائی میں موازناتی مطالعہ تفسیر  ایک حلقہ ہم نے شروع کیا تھا، اب تو ان باتوں پر زمانہ گذرچکا ہے، اور بہت سی باتیں صرف یاد داشتوں کی بنیاد ہی پرکہنی پڑتی ہیں، ہم نے مولانا اصلاحی کو نہیں دیکھا، لیکن آپ کی کتابیں دیکھ کر ہمیں موریتانی مفسر قرآن اور جلیل القدر عالم دین شیخ محمد الامین شنقطی  علیہ الرحمۃ کے شاگرد مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری کی بات یاد آتی ہے کہ شیخ صاحب کے ہاتھ میں ہم نے کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، لیکں ان کے سینے میں علم کا ایک سمندر موجزن تھا، عہد جاہلی وغیرہ کے اشعار انکے نوک زبان رہتے تھے، مولاانا اصلاحی کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے یہاں تدبر ہی تدبر تھا، روایت کا پہلو کمزور  ہونے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ بات چونکہ پھیل گئی اسے درج ذیل نکات پر ختم کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

۔ مسلک کی اپنی اہمیت ہے، لیکن دعوت ہمیشہ  دین کی دی جائے گی۔

۔ ایک حد تک اپنے مسلک اور منہج کی شناخت ظاہر کرنا مناسب اور مفید ہوسکتا ہے، لیکن یہ حد سے گذر جائے تو کھانے میں نمک کی طرح زیادہ ہونے پر منہ کو کڑوا کردیتا ہے۔

۔ علم دین کو اس کے ماہر اساتذہ سے حاصل کرنا ضروری ہے، جب علم کی بنیاد بن جائے تو اس پر مزید علوم کی کی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے، لیکن اساتذہ سے فیض پائے بغیر کوئی صرف کتاب اور ترجمہ پڑھ کر خود کو عالم سمجھنے لگے تو یہ تحریف کا دروازہ کھولنے والا عمل ہوگا۔

۔ اس بات کی کوشش ہونی چاہئے کہ مسلمان ایک دوسرے سے خود کو الگ ثابت کرنے کے بجائے، ایک ہی ثابت کرنے کی کوشش کریں، اور اختلاف کے پہلوؤں کو تلاش کرنے کے بجائے اتحاد کے پہلوؤں کو اجاگر کریں۔