Moulana Farahi Aur Nadwa... Abdul Mateen Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

12:53AM Fri 19 Jan, 2024

دو روز قبل علم وکتاب گروپ کے ایک معزز ممبر نے جناب حسان عارف صاحب کا ایک کالم پوسٹ کیا ہے جس کا عنوان ہے"کیا انڈیا کے اصلاحی حلقے اور ندوی حلقے میں مماثلت ہے؟"

یہ کالم خورشید ندیم صاحب کے ایک کالم کے جواب میں لکھا گیا ہے، ہمیں احسان صاحب کی اس عبارت نے متوجہ کیا کہ " فکر فراہی علما کا انداز فکر بالکل دوسرا ہے اور ندوی علما کا بالکل دوسرا ہے۔ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے حوالے سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ دونوں میں مماثلت ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے"۔

ہم نے خورشید ندیم صاحب کے متعلقہ کالم کی تلاش کی تو ہمیں آپ کا ایک کالم "تدبرکا احیاء" کے عنوان سے ملا ہے  ، اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ  احسان صاحب کے والد ماجد مولانا خالد مسعود مرحوم ،مولانا امین احسن اصلاحی کی آخری عمر میں ، مدرسۃ الاصلاح، جماعت اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، اور غامدی صاحب سے جدائی کے بعد جب لوگوں کو یاد بھی نہیں رہا تھا کہ مولانا بقید حیات ہیں بھی یا نہیں، اور محمد صلاح الدین مرحوم مدیر ہفت روزہ تکبیر کراچی نے مولانا  کا ایک انٹرویو شائع کرکے یاد دلانا پڑا تھا  کہ مولانا ابھی بقید حیات ہیں، تو اس دور کے یا قریبی زمانے کے شاگرد مولانا خالد مسعود صاحب نے چند نوجوانوں کو جمع کرکے آپ کے درس قرآن اور درس حدیث کا سلسلہ منظم کیا تھا، اور ان دروس کی اشاعت کے لئے ایک مجلہ تدبر کے نام سے جاری کیا تھا، خالد مسعود صاحب کی وفات کے ساتھ یہ مجلہ بھی بند ہوگیا، جسے آپ کے خلف الرشید حسان عارف صاحب نے از سرنو جاری کیا ہے، اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے خورشید ندیم صاحب نے یہ کالم لکھا تھا، جس میں آپ نے فکرفراہی کے دعویداروں کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اس کے تیسرے حصے کے بارے میں لکھا تھا کہ:

"تیسر احصہ وہ ہے جو بھارت کے اُن علما پر مشتمل ہے جو مدرستہ الاصلاح کی نسبت سے اصلاحی کہلواتے ہیں۔ اس میں بڑے جلیل القدر علما شامل ہیں۔ ان کا علمی کام اس پر شاہد ہے ، تاہم انہوں نے بطور گروہ اپنا الگ فکری تشخص قائم نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ جدید جامعات سے وابستہ ہیں، کچھ جماعت اسلامی میں شامل ہو کر
خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کچھ انفرادی حیثیت میں علمی کام میں منہمک ہیں۔ ان کا معاملہ میرے نزدیک وہی ہے جو مولانا شبلی نعمانی کے بعد ندوی علما کا ہے، جس طرح ندوی علماء مسلمانوں کی غالب علمی روایت میں ضم ہو گئے ، اسی طرح یہ اصلاحی بھی اب اس روایت کا حصہ ہیں"۔

ہماری رائے میں خورشید ندیم صاحب کی یہ تحریر احسان عارف صاحب کا مقصود ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنی الگ شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ جگہ اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ندوے نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ فکر فراہی کا علمبردار ہے، البتہ امت کے سواد اعظم کی طرح ندوے کا بھی یہی مسلک رہا ہے کہ قرآن مجید کی جو تشریح خیر القروں کے دور میں کی گئی تھی اس کے مخالف تفسیر وتشریح قابل قبول نہیں، البتہ فکر وتدبر کے نتیجے میں فہم قرآن کے نئے زاوئے کھلتے ہوں اور وہ خیرالقرون کی تشریح سے نہیں ٹکراتے تو ان کا خیر مقدم ہے، احسان صاحب کا عمومی انداز سے اظہار براءت درست نہیں ہے۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے  کہ مولانا حمید الدین فراہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الکلام آزاد یہ سبھی علامہ شبلی کے چراغ کے پرتو ہیں، علامہ شبلی ہی نے ان حضرات کی رہنمائی کی تھی ، اور انہیں آگے بڑھا یا تھا، اول الذکر علامہ شبلی کے عزیز بھی تھے، اور آپ کے قائم کردہ دارالمصنفین کے اولین صدر بھی، یہ ندوے والوں کے لئے بھی اتنے ہی محترم تھے جتنے  مدرسۃ الاصلاح والوں کے لئے، مولانا فراہی  دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی تھے، علامہ سید سلیمان سے آپ کے تعلقات کی گہرائی کو جاننے کے لئے وفیات میں آپ کا مضمون ضروردیکھنا چاہئے۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں باقی رہنے والے مرکزی تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو اور مدرسۃ الاصلاح وغیرہ نے اپنے منہج روایات اور مرجعیت کو حسب سابق نہ صرف باقی رکھا ہے بلکہ ان کا دائرہ اثر کئی گنا بڑھ گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ وسعت کار کی وجہ سے ان کا وہ معیار نہ رہا ہو جو ان کا طرہ امتیاز تھا، لیکن ان اداروں کے مقام اور منہج میں فرق نہیں آیا ہے، اکابر نے جن بنیادوں پر انہیں قائم کیا تھا انہی بنیادوں پر وہ قائم ہیں، عمارت کچھ کمزور ہوسکتی ہے، لیکن کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پڑوس میں ایک بڑا حلقہ جو ان اداروں کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ شاہ سے زیادہ شاہ پرستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جن لوگوں نے بھارت میں قائم ان اداروں کو قریب سے دیکھا ہے، یا ان کے اکابر کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا ہے، وہ اپنی شناخت کا ہر جگہ اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے انہیں نہیں پائیں گے، جتنا پڑوس کے بعض عقیدت مند  پائے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بی بی سی پر دارالعلوم دیوبند میں رواداری کے موضوع پر ایک رپورٹ آئی تھی۔ مکمل اتفاق نہ بھی ہو تواس کا پڑھنا  فائدے سے خالی نہیں ہے۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کا جب سے قیام عمل میں آیا ہے قرآن فہمی اس کا ایک امتیاز رہا ہے، یہاں پر چوٹی کے علمائے تفسیر نے درس دیا ہے، ان میں  مولانا امیر علی(مصنف تفسیر مواہب الرحمن)، شیخ التفسیر مولانا محمد اویس نگرامی ندوی، مولانا حلیم عطا سلونوی، اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ شامل ہیں، ندوے کی ابتدا سے کوشش رہی  ہے کہ یہاں کے طلبہ کی دوران تعلیم ایک مرتبہ ترجمہ قرآن  براہ راست  انہیں سکھایا جائے۔

مولانا فراہی کی اصل شناخت ان کا نظریہ نظم قرآن ہے، اور کوئی شک نہیں کہ مولانا اپنے دور کے بہت بڑے مفسر قرآن تھے، ان کی زندگی قرآن میں تدبر کرتے  ہوئے گذری تھی، لیکن آپ کو اپنی زندگی میں اپنے نظرئے کو منظم انداز سے ترتیب دینے کا موقعہ نہیں ملا، ان کی زیادہ تر کتابیں نامکمل اور مسودے کی شکل میں ہیں، شاید اس میں خدا کی کوئی مصلحت تھی کہ  آپ کسی ایک پارے کی بھی تفسیر مکمل نہ کرسکے، جمہرۃ البلاغہ اور مفردات القرآن جسی آپ کی فکر کی نمائندہ کتابیں بھی نامکمل ہیں، مولانا کے دروس کو بھی اس طرح محفوظ نہیں کیا جاسکا جیسے علامہ انور شاہ کشمیری وغیرہ کی تقریر بخاری کو محفوظ کیا گیا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی لکھنے پڑھنے والے اور جلسہ جلوس کے آدمی تھے، تقسیم ہند سے پہلے جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور ان سے مدرسے کے ماحول میں  درس وتدریس چھوٹ گیا،  اس منصب کو مولانا اختر حسن اصلاحیؒ نے سنبھالا، اور سینہ بہ سینہ مولانا فراہی کے علم کی روشنی پھیلاتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس کے بالمقابل مولانا امین احسن اصلاحی نے اس طرح درس وتدریس کے منصب کو نہیں سنبھالا، ایک طویل عرصہ تک انتشار کا شکار رہے، اور آخری عمر میں خالد مسعود صاحب کی کوششوں سے درس وتدریس کے منصب کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن ایک عالم دین جسے دسیوں سال تک کسی مدرسے میں درس وتدریس کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہو، رٹائرمنٹ کی عمر میں تدریس کا از سر نو سلسلہ شروع کرے تو اس کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے، اس پر ہمارے کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔کوئی ربع صدی پیشتر خالد مسعود صاحب کے تدبر کے ذریعہ جب معلوم ہوا مولانا اصلاحی کے دروس کی ریکارڈنگ ہورہی ہے تو ہم نے مولانا کے ویڈیو اور کیسٹوں کی حصولیابی کے لئے آپ سے رابطہ کیا تو جواب آیا کہ مولانا اصلاحی ویڈیو کو حرام سمجھتے ہیں، اور ان کے کیسٹوں کی فراہمی سے انہوں نے معذرت کردی، لیکن ہماری کوششیں جاری رہیں، ہمارے عزیز مولانا محمد انصارخطیب ندوی صاحب بحرین گئے ہوئے تھے تو معلوم ہوا کہ مولانا کے دروس کے کیسٹ وہاں پائے جاتے ہیں، تو ہم نے وہاں سے دروس قرآن  کے (۷۵) کیسٹ حاصل کئے، یہ کیسٹ کتب خانہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں اب بھی محفوظ ہیں، ان کی ریکارڈنگ بہت صاف ہے، انہیں سن کر اندازہ ہوا کہ اللہ تعالی کو مولانا اصلاحی کی عزت اور ان کے اچھے کاموں کو باقی رکھنا تھا، مولانا خالد مسعود صاحب نے ان کیسٹوں کی اشاعت نہ ہونے کے سلسلے میں جو فیصلہ کیا تھا، یہ ایک دانا کی دوستی تھی۔ مولانا اصلاحی کے افادات کی ترتیب میں خالد مسعود مرحوم کی خدمات کا وہی مقام ہے جو شیخ محمد رشید رضا مصری نے شیخ محمد عبدہ کی تفسیر المنار کی ترتیب میں کیا ہے، شیخ کی تفسیر عم دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اسے رشید رضا ایڈیٹ نہ کرتے تو یہ بھی سر سید احمد خان کی تفسیر کا عربی چربہ  بن جاتا۔

احسان عارف صاحب کا مزید فرمانا ہے کہ "جہاں تک اصلاحی و ندوی علما میں مماثلت کی بات ہے تو وہ بالکل نہیں ہے۔ اصلاحی علما مولانا فراہی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ مولانا فراہی نے فہم تدبر قرآن کے جو اصول فراہم کیے ہیں، وہ ان اصولوں کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی روشنی میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں ۔ مولانا اصلاحی نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ علامہ خالد مسعود نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے ۔ مدرسہ الاصلاح کے اہل علم حضرات کے ہاں بھی بہت ساری آیتوں میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی رائے سے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یہ سب باتیں فکر فراہی کا حصہ ہیں "۔

احسان عارف صاحب کا یہ کہنا کہ" مولانا اصلاحی نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ علامہ خالد مسعود نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے ۔ مدرسہ الاصلاح کے اہل علم حضرات کے ہاں بھی بہت ساری آیتوں میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی رائے سے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یہ سب باتیں فکر فراہی کا حصہ ہیں"۔  اس سلسلے میں ہم مزید اضافہ کریں گے کہ مولانا اصلاحی نے ممکن ہے اپنے استاد سے اختلاف رائے کیا ہو، لیکن انہوں نے اپنی بعض تحریروں اور  دروس میں  خیر القرون کے ہمارے بعض  اسلاف کا استہزا کیا ہے۔ اس بات کو بھی اپنی شناخت میں شامل کریں، اور بتائیں کہ کیا یہ آپ کے لئے باعث فخر ہوسکتی ہے؟

فراہی مکتب فکر کا جماعت اسلامی سے ابتداہی سے گہرا ربط رہا ہے، مولانا مودودیؒ نے مولوی تک تعلیم مدرسہ فوقانیہ شرقیہ اورنگ آباد میں حاصل کی تھی، اس کے  بعد دارالعلوم (حیدرآباد) میں داخلہ لیا تھا، جس کے پرنسپل مولانا حمید الدین فراہی تھے، قیام جماعت سے پہلے پٹھانکوٹ سے  آپ کے رفقاء میں مولانا صدر الدین اصلاحی تھے، جو ماہنامہ ترجمان القرآن کی مجلس ادارت میں شامل تھے، ان کے علاوہ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا اختر احسن اصلاحی تھے، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی(امیر جماعت)  بھی الاصلاح می تدریس سے وابستہ تھے۔  

سنہ ۱۹۶۰ کی دہائی میں مولانا بدر الدین اصلاحی کے دور نظامت میں غالبا جماعت کے نظم سے وابستگی کے مسئلہ پر شاید اختلافات ہوئے تھے، اور جماعت نے اپنا خود ایک دارالعلوم جامعۃ الفلاح کے نام سے قائم کیا تھا، جس میں الاصلاح کے کئی سارے تجربہ کار اساتذہ منسلک ہوئے، اس طرح جامعۃ الفلاح بھی فکر فراہی کا ایک تسلسل بن گیا، ان دونوں جامعات کے فارغین نے فکر فراہی اور قرآن سے اس کی وابستگی کو زندہ رکھنے کی قابل قدر کوششیں کی ہیں، مولانا بدر الدین اصلاحی نے تقسیم ہند کے بعد مولانا حمید الدین فراہی کے باقی ماندہ مسودات کی حفاظت اور اس کی تدوین وترتیب پر توجہ دی، اس طرح علی گڑھ سے مجلہ علوم قرآن اور تحقیقات اسلامی جاری ہوئے، جو غیر علانیہ طور پر فکر فراہی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔فکر فراہی کے موضوع پر یہاں سیمینار بھی منعقد ہوچکے ہیں۔

یہ بات ہمارے کالم نگاروں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے کہ ہماری دینی جامعات اور دارالعلوموں میں مصنفین سے زیادہ اہمیت اور عزت  مدرسین کی ہے، اور مدرسین ہی سینہ بہ سینہ علوم کو منتقل کرتے ہیں، لہذا جب مدارس کی علمی ترقی پر بات ہو تو تصنیف کی ساتھ ساتھ تدریسی معیار کو بھی سامنے رکھیں، اور یہ فیصلہ دور بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے اداروں میں جاکر قریب سے دیکھنا ہوگا۔

2024-01-18