رجب طیب ایردوان کا سفر !

رجب طیب ایردوان کو آخر کیا ہوگیا ہے؟ ۲۰۰۳ء میں جب وہ برسر اقتدار آئے تھے تب اس بات کی بھرپور توقع تھی کہ ترکی میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور معاشی اصلاحات نافذ کی جائیں گی مگر اس کے بجائے ترکی لبرل طریقے سے ہٹ کر خالص آمرانہ اور مطلق العنان حکمرانی کی سمت گیا ہے۔ ویسے ایردوان کے دور میں سخت گیر قسم کی اسلامی حکمرانی کی گنجائش پیدا نہیں ہوئی جیسا کہ ان کا پس منظر دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ اس کے بجائے رجب طیب ایردوان مشرق وسطیٰ کے روایتی حکمران کی حیثیت سے ابھرے ہیں جو بیشتر اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرلیتا ہے، مخالفین اور منحرفین کو کچلنا جس کا مشرب ہو جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ چند ماہ قبل حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد ایردوان نے فوج کے چند اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی تک محدود رہنے کے بجائے فتح اللہ گولن کی تحریک کے خلاف کچھ زیادہ ردعمل ظاہر کیا۔ یہ بات بہت حیرت انگیز تھی کہ ایردوان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش (فوجی بغاوت) کو ناکام بنانے میں تیزی سے اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ انہیں ایک طرف تو فوج کے اندرونی حلقوں سے مدد ملی اور دوسری طرف عوام بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور کھل کر ایردوان اور ان کے رفقاء کی حمایت کی۔ فوجی بغاوت کو کچلنے میں ایردوان نے جس تیزی سے جو کامیابی حاصل کی، اس سے اندازہ ہوگیا کہ ان کے سخت ترین مخالفین جو کچھ بیان کرتے ہیں، اس کے برعکس اقتدار پر ان کی گرفت غیر معمولی حد تک مضبوط ہے۔
ترکی میں اور اس کے باہر کسی نے بھی نہ تو فوجی بغاوت کے بارے میں سوچا تھا نہ اس کے نتائج و انجام کے بارے میں۔ ترکی کے لبرل عناصر کو تھوڑی بہت مایوسی ضرور ہوئی ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ایردوان ترکی کو شدت پسند اسلامی ریاست میں تبدیل نہیں کریں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایردوان نے کبھی ترکی کو شدت پسند اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہیں کی مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ترکی کو خالص لبرل ملک کے روپ میں بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ترکی کے لبرل عناصر کی خواہش رہی ہوگی کہ ایردوان ملک کو ترقی کے اس ماڈل کی طرف لے جائیں جس میں لبرل ازم کو زیادہ نمایاں مقام حاصل ہو۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ایردوان نے اب تک دو بنیادی مقاصد کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ایک طرف تو وہ ملک کو رجعت پسند یا قدامت پسند روایات کے ساتھ ساتھ ترقی دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے ملک کی لسانی اقلیتوں بالخصوص کردوں سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ ایردوان کی سوچ یہ رہی ہے کہ ملک میں اکثریت سُنیوں کی ہے اور اس حقیقت کو وہ ملک کے لیے تقویت بخش طاقت کے طور پر بروئے کار لانے میں کامیاب رہیں گے۔ مگر چند برسوں کے دوران ملک میں جو تھوڑی بہت اندرونی تقسیم دکھائی دی ہے، اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس اپروچ میں وہ کسی حد تک ناکام رہے ہیں۔
اسلام نواز؟ لبرل؟ یا مطلق العنان؟
ترکی میں کبھی کوئی لبرل لیڈر نہیں ہوا۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کمال اتا ترک نے ملک کو نئے خطوط پر استوار کیا اور ترقی بھی دی مگر خیر وہ لبرل لیڈر نہیں تھے۔ انہیں مطلق العنان قرار دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ترک حکومت نے اظہار رائے کی آزادی دی ہے نہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کیا ہے۔ ترکی میں فوج کی حکومت رہی ہو یا سیاست دانوں کی، سبھی نے ریاستی اداروں، رجعت پسندی، قوم پرستی اور مذہبیت کو اولیت دی ہے۔ اور ہاں، کاروباری مفادات کو بھی پالیسیوں میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی دور میں ایردوان نے یہ تاثر دیا کہ وہ دوسروں سے ہٹ کر ہیں اور غیر روایتی اسلام نواز حکمران ثابت ہوں گے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے ایردوان نے چند ایک ایسے اقدامات کیے جن سے ان کی اینٹی سیکولر سوچ ابھر کر سامنے آئی۔ انہوں نے ایک آجر کی طرف سے مونچھ منڈوانے کی شرط مسترد کرکے بھی شہرت پائی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے خواتین کو بھی سیاسی اعتبار سے متحرک کرنے پر توجہ دی۔ یہ کسی حد تک انقلابی اقدام تھا کیونکہ انہوں نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کے دوران اپنے حلقے کی پردہ پوش اور بے پردہ، دونوں طرح کی خواتین سے کہا کہ وہ سیاست کے ترانے میں اپنی آواز ملائیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ویلفیئر پارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ وسیع بنیاد چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ کسی بھی ووٹر سے مذہب یا مسلک کے بارے میں بحث سے گریز کریں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ہدایت بھی کی گئی کہ جن مقامات پر شراب پی جاتی ہے، وہاں بھی وہ لوگوں کو سلام کریں۔
ایردوان ترکی کو آگے نہیں بلکہ پیچھے لے گئے ہیں!
۱۹۹۴ء میں جب وہ استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے تب انہوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ جہاں کہیں بھی ممکن ہوا وہ اسلامی شریعت پر مبنی قوانین نافذ کریں گے اور میونسپلٹی کی ملکیت والی تمام دکانوں اور دیگر مقامات پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ تب تک یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ترکی کسی حد تک اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے والی اسلامی ریاست میں تبدیل ہوجائے گا۔ کچھ دن یہ سب دکھائی دیا مگر پھر پرنالے وہیں بہنے لگے۔
۱۹۹۵ء کے انتخابات میں ویلفیئر پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور نجم الدین اربکان نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔ ۱۹۹۷ء میں فوج اور اس کے چند سیاسی ساتھیوں نے ملک کر نجم الدین اربکان کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ تب رجب طیب ایردوان نے ایک ریلی کے دوران ایک نظم پڑھی جس میں کہا گیا تھا کہ مساجد ہماری بیرکس، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے بھالے اور اس کاز کے وفادار ہمارے سپاہی ہیں۔ اس نظم کے پڑھنے کی پاداش میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور یوں انہیں ۱۲۰ دن جیل میں گزارنا پڑے۔
رہائی کے بعد ایردوان نے خود کو رجعت پسند ڈیموکریٹ کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی اور ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ دلچسپی لی جو یورپ اور امریکا کے نظام سے ہم آہنگ ہوکر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ایردوان ایک ایسے گروپ کا حصہ بنے جو اسلام نوازوں کے بعد کا اصلاحات پسند گروپ کہلایا۔ اب ایردوان نے یہ کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے جو یہ کہتے ہیں کہ ریاست کو شریعت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔ یہ تبدیلی کیوں کر رونما ہوئی، اس کی وضاحت ایردوان نے نہیں کی۔ وہ بظاہر حقیقت پسندانہ سوچ کی طرف جانے کا عندیہ دیے جارہے تھے۔ ۱۹۹۹ء میں استنبول کے بزنس لیڈرز کے ساتھ عشائیے کے دوران انہوں نے کہا کہ انقلاب پسندی سے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
۲۰۰۱ء میں اصلاحات کے حامیوں نے ایردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی، جس نے عام انتخابات میں فقید المثال کامیابی حاصل کی مگر ایردوان ایک قانون کے باعث حکومت میں کوئی منصب حاصل نہ کرسکے۔ ان کی پارٹی کی حکومت نے جب ۲۰۰۳ء میں اس قانون کو ختم کیا تب وہ حکومت کا حصہ بننے کے اہل ہوئے۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے ابھرتی ہوئی اس مڈل کلاس نے کلیدی کردار ادا کیا، جو بین الاقوامی بازاروں سے ترکی کے وابستہ ہونے کے نتیجے میں ملنے والے غیر معمولی معاشی فوائد سے مستفید ہو رہی تھی۔ مضبوط ہوتی ہوئی یہ مڈل کلاس ترکی کے ہارٹ لینڈ اناطولیہ میں تھی۔ اناطولیہ کو ایک طویل مدت تک پسماندہ رکھا گیا۔ ۱۹۸۰ء میں ترکی کی ۵۰۰ بڑی کمپنیوں میں سے ایک کا بھی تعلق اناطولیہ کے نمایاں ترین شہروں غازیانیپ یا کونیہ سے نہ تھا۔ ۲۰۱۲ء تک ۳۲ بڑی کمپنیوں کا تعلق ان دونوں شہروں سے تھا۔ اناطولیہ کی تاجر برادری نے روایتی، سیکولر ذہن رکھنے والی تاجر تنظیموں کو ایک طرف ہٹاکر اپنا الگ اتحاد قائم کیا، جو بعد میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو تقویت بہم پہنچانے کا ذریعہ بنا۔
وزیراعظم کی حیثیت سے ایردوان نے نئے عمرانی معاہدے کی بات کی تاکہ اختیارات الگ کرنا ممکن ہو۔ انہوں نے عدلیہ اور پریس کو خود مختار بنانے کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں مقدم ترین حیثیت دینے کا وعدہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ بیرونی سرمایہ کار ترکی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اور اس کے لیے وہ موزوں ماحول پیدا کرنے کے بھی حق میں تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ ترکی ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوجائے، جس میں امن اور سکون ہو اور جو دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے، ان میں زیادہ آسانی سے ایڈجسٹ ہوجائے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کو ترکی لانا چاہتے تھے اور اس کے لیے درکار ماحول بھی تیزی سے پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے عہد کیا کہ وہ معیشت پر ریاستی اداروں کی گرفت ڈھیلی کریں گے اور ملک کو ہر معاملے میں غیر معمولی حد تک مداخلت کرنے والی بیورو کریسی سے بچائیں گے۔
ایردوان نے کردوں کی شکایات کم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سرکاری فورسز اور کردوں کی مرکزی سیاسی جماعت ’پی کے کے‘ کے درمیان ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے جو تصادم چلا آرہا تھا، اُسے ختم کرنا لازم تھا۔ اِسی صورت ترکی حقیقی امن اور استحکام سے ہم کنار ہوسکتا تھا اور ہوا۔ انہوں نے ۲۰۱۳ء میں اصلاحات نافذ کیں، جن کے تحت کردوں کو اپنے شہروں کے نام اپنی زبان میں رکھنے کی اور اسکولوں میں کرد زبان کی کلاسیں شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایسی آئینی اصلاحات بھی نافذ کیں، جن کی مدد سے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے پارلیمنٹ تک پہنچنا انتہائی پیچیدہ نہ رہا۔ اِسی دوران ایردوان حکومت نے کردوں سے سیاسی مفاہمت کی راہ بھی ہموار کی اور یوں کردوں کے اسیر عسکریت پسند رہنما عبداللہ عوقلان سے رابطے شروع ہوئے۔
سیاست اور معیشت کے معاملے میں ایردوان کردوں کی شکایت دور کرنے میں بہت حد تک ناکام رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں جنوب مشرقی ترکی میں لڑائی بھی اب تک تھم نہیں پائی۔ انہوں نے لبرل ڈیموکریسی کی منزل تک پہنچنے کے بجائے اداروں کو قابو میں رکھنے کی زیادہ کوشش کی ہے اور قانون کی حکمرانی بھی داؤ پر لگی ہے۔ یہ سلسلہ ۲۰۰۷ء میں اس وقت شروع ہوا جب ایردوان نے متعدد سیاسی مخالفین کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کرکے ان پر مقدمات چلوائے۔ مقدمات کی سماعت متنازع انداز سے ہوئی اور انصاف کی فراہمی ممکن نہ بنائی جاسکی۔ ۲۰۱۲ء میں ایردوان نے شکایت کی کہ اختیارات کا الگ کیا جانا لازم ہے کیونکہ بہت سے معاملات میں عدالتیں رکاوٹ کھڑی کرتی ہیں۔ ترکی میں عدالتیں عمومی سطح پر ریاست کی ہم نوا رہی ہیں مگر ایردوان نے استغاثہ اور عدلیہ کا یہ علامتی کردار بھی ختم کردیا۔
مخالفین اور منحرفین کو کچلنے کے لیے ایردوان حکومت نے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق خطرناک قوانین کو مزید سخت کردیا۔ ۲۰۱۲ء تک طلبہ، صحافیوں، ٹریڈ یونین ورکر اور وکلاء سمیت ۹ ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے الزام کے تحت جیلوں میں پائے گئے۔ صحافیوں کو قید کرنے کے معاملے میں ترکی نے ایران اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ برس ایردوان نے حکم دیا کہ ان پر تنقید کرنے والے ایک چیف ایڈیٹر کے خلاف براہِ راست مقدمہ چلایا جائے۔ ایردوان نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ریاستی پالیسی سے انحراف کا عوامی سطح کا مظاہرہ کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ ۲۰۱۳ء میں استنبول کے غازی پارک میں ایک مظاہرے کو پولیس نے سختی سے کچل دیا تھا۔ اس واقعے میں گیارہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
تاریخ کو پڑھنے میں غلطی
ایردوان کی قیادت میں جس ترکی کے ابھرنے کی توقع تھی، اس میں اور موجودہ ترکی میں کیا فرق ہے؟ فرق بہت واضح ہے، یہ کہ ایردوان سب کچھ اپنی ذات میں مجتمع دیکھنا چاہتے ہیں۔ مراد بیلگے ترکی کے معروف دانشور ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں استنبول کے غازی پارک میں حکومت کے مخالفین کے خلاف غیر معمولی جبر بروئے کار لائے جانے تک وہ ایردوان کے مداح تھے۔ پھر انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا۔ اب وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ اس وقت ترکی جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے وہ ایردوان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں یعنی کہ ایردوان زیادہ سے زیادہ طاقتور ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں ایردوان اپنی ذات سے آگے دیکھنے کے عادی ہی نہیں۔
ایردوان نے بیشتر اختیارات اپنی ذات میں جمع کرلیے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے یہ سب کچھ تن تنہا کرلیا۔ لبرل عناصر نے ابتدا میں ان کا کھل کر خیر مقدم کیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ سب کچھ ویسا ہی چلتا رہے گا، جیسا بیان کیا جارہا ہے۔ مگر وہ تاریخ کو پڑھنے میں غلطی کرگئے۔ کمال اتا ترک سخت سیکولر تھے مگر ۱۹۳۸ء میں ان کے انتقال کے بعد ترکی میں سیکولراِزم کو بہت حد تک خیرباد کہتے ہوئے معاشرے کے بنیادی کردار یعنی اسلامی روایت کو اپنایا گیا۔ ملک کے تعلیمی نظام میں اسلام کو داخل ہونے کا پھر موقع ملا۔ مگر حکومت کو زیادہ پریشانی اس لیے لاحق نہ ہوئی کہ اسلام اس کا براہِ راست دشمن نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک اشرافیہ مذہب کو دشمن سمجھنے کے بجائے اثاثہ سمجھتی تھی۔ سرد جنگ کے دور میں ترکی نیٹو کا رکن اور مغرب کا بھرپور ہم نوا تھا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف اس نے مغرب کا کھل کر ساتھ دیا۔ اس دور میں ترکی میں بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کو پوری قوت سے کچل دیا گیا۔ ۱۹۸۰ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل کنعان ایورن نے برملا کہا تھا کہ اسلام ہمارا اثاثہ ہے اور ہم کسی بھی صورت مذہب سے دور ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی اینٹی لیفٹسٹ تحریکوں کے دوش پر چلتے ہوئے ایردوان نے ابتدائی دور میں اپنے نظریات مرتب کیے۔ انہوں نے ہائی اسکول میں دائیں بازو نیشنل ٹرکش اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی، جس نے اشتراکیت کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اشتراکیت کو ختم کرنے کی صلاحیت صرف اسلام میں ہے اور اشتراکیت کے خلاف لڑائی بھی ویسی ہی مفید ہے جیسی نماز ہوا کرتی ہے۔ اس طلبہ تنظیم نے ملک کو صفِ اول کے سیاست دان دیے ہیں۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۴ء تک ترکی کے صدر کے منصب پر فائز رہنے والے عبداللہ گل، ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۵ء تک ایردوان کے ماتحت یعنی نائب وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے والے بلند ارنک اور ترک پارلیمنٹ کے موجودہ اسپیکر اسماعیل کہرامن … سبھی اس طلبہ تنظیم میں مختلف کلیدی عہدوں پر رہے ہیں۔ اس تنظیم نے لبرل ازم کے بجائے اینٹی کمیونزم اور اسلامک نیشنل ازم کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ایردوان کے اقتدار میں آنے پر مغرب میں چند ایک تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ بند معیشت کو کھولیں گے اور سیاسی سطح پر متعدد اصلاحات کی راہ ہموارکریں گے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ملک میں مجموعی طور پر کوئی ایسی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوئی، جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ترکی ریاست کی حیثیت سے مستحکم ہوا ہے۔
سبق جو نہیں سیکھے گئے
اسلامی دنیا میں طوائف الملوکی عام ہے۔ ترکی میں بھی اس کا خطرہ محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ ترک عوام مزاجاً ایک ایسے نظام کو پسند کرتے ہیں، جس میں ریاست کو اولیت دی جائے۔ مرکزی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر لبرل ازم یا سیکولر ازم نمایاں رہا تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ لوگ انہیں بھی اس شرط پر قبول کرنے کو تیار تھے کہ ریاست کی اتھارٹی برقرار رہے یعنی بنیادی مسائل حل ہوتے رہیں، معاشرے میں انتشار پیدا نہ ہو۔ ترک عوام کا مجموعی مزاج یہ رہا ہے کہ کسی بھی حال میں ریاست کے خلاف نہ جایا جائے۔ اسی خصوصیت کا جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
ایردوان کے ہیرو عدنان میندرس ہیں، جو ۱۹۵۰ء میں ملک کے پہلے باضابطہ منتخب وزیر اعظم بنے۔ وہ بھی مخالفین کو برداشت نہیں کرتے تھے اور صحافت پر قدغن لگاتے تھے۔ انہوں نے سسٹم کے مخالفین کو سختی سے کچلا۔ ۱۹۶۰ء میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے نام پر ریاست کے خلاف جانا کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر اسی سال ایک فوجی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور اگلے سال انہیں پھانسی دے دی گئی۔
عدنان میندرس کی پھانسی کا ایردوان پر بہت گہرا اثر مرتب ہوا تھا۔ ۲۰۰۹ء میں ترکی کے مشہور اخبار ’’ترکمان‘‘ سے انٹرویو میں ایردوان نے بتایا تھا کہ عدنان میندرس کو تختہ دار پر لے جانے کا منظر ان کے والدین اور خود ان کے لیے انتہائی دل دکھا دینے والا تھا۔ ایردوان نے اپنے ہیرو سے سبق نہیں سیکھا۔ انتشار یعنی فتنہ روکنے کے لیے عدنان میندرس نے خود بھی فتنے کا ارتکاب کیا تھا۔ وہ سخت حکمرانی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں ترکی میں جو کچھ ہوا وہ عدنان میندرس کے دور والے حالات ہی کا عکس تھا۔ عدنان میندرس کی سخت گیر حکمرانی سے تنگ آکر چند فوجی افسران نے بغاوت کی تھی۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں بھی یہی ہوا۔ چند فوجی افسران نے ایردوان کے سخت گیر رویے سے تنگ آخر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایردوان نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
ایردوان کی فکری تربیت ایک ایسے دور میں ہوئی جب کمال ازم دم توڑ رہا تھا اس کے جگہ اسلام پسندی نمایاں ہوتی جارہی تھی۔ مگر بعد میں ثابت ہوا کہ یہ معاملہ مذہب سے زیادہ لسانیت کا تھا۔ ترک معاشرے میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی دراصل ایک واضح اکثریت کی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر تھی۔ کردوں کے معاملے کو ایردوان نے جس انداز سے نمٹانے کی کوشش کی ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔
ایردوان نے جوانی کے زمانے میں جو کچھ پڑھا تھا، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر اسلامی فکر کے اثرات گہرے ضرور تھے مگر وہ بہت سے معاملات میں مختلف تھے۔ مثلاً انہیں دوسرے معاشروں اور ثقافت سے تعلق رکھنے والوں سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ استنبول سے تعلق رکھنے والا ایک یونانی فٹبالر ان کا ہیرو تھا۔ وہ ترکی سے بچے کھچے یونانیوں کو نکالنے کی کسی بھی مہم یا تحریک کے مخالف تھے۔ ایردوان کی والدہ کا تعلق روسی خطے کی ریاست جارجیا سے تھا۔ اپنے والد کے ثقافتی پس منظر کے بارے میں ایردوان نے کچھ زیادہ فخر کا اظہار نہیں کیا۔ اس اعتبار سے وہ پہلے ترک لیڈر ہیں، جس نے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کھل کر کہنے اور پرسکون محسوس کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ ان کے خاندان کا تعلق اصلاً بحیرۂ اسود کے خطے سے ہے۔ اس خطے کے لوگ ’’لیز‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایردوان بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے بھی پوچھا تھا کہ ہم لوگ ترک ہیں یا لیز۔ والد نے بتایا کہ انہوں نے بھی اپنے والد سے یہ سوال پوچھا تھا۔ جواب پڑ دادا کی طرف سے آیا تھا، جو عالم دین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ترک ہیں یا نہیں بلکہ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم مسلم پیدا ہوئے ہیں اور یہی اللہ کا خاص کرم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایردوان نے کردوں سے مفاہمت کے لیے جو کوشش کی، وہ سنجیدہ تھی اور وہ واقعی خطے میں امن چاہتے تھے مگر وہ ایک نکتہ فراموش کرگئے۔ ان کے ذہن میں یہ بات نہ رہی کہ کردوں کو واضح سیاسی رعایتیں دیے بغیر اور ان کی ترقی کا سامان کیے بغیر وہ کچھ حاصل نہ کرسکیں گے۔ کرد بھی مسلم ہیں اور یہ سوچ لینا سادگی کی انتہا تھی کہ وہ اسلام کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بہت سے معاملات میں سمجھوتا کرلیں گے۔ کرد زیادہ خود مختاری اور معاشی ترقی چاہتے تھے۔ محض مفاہمت سے انہیں کیا ملنے والا تھا؟ ایردوان کردوں کو خودمختاری کسی بھی قیمت پر نہیں دینا چاہتے تھے۔
کوئی راستہ نہیں بچا
ایردوان ترکوں کے لیے نئے بابائے قوم بننا چاہتے تھے مگر مخالفین کے خلاف غیر معمولی قوت استعمال کرکے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ ترک کیپٹل ازم اور سنی شناخت کو ایک پیج پر لانے کی کوشش اکیسویں صدی میں ترکی کے لیے ایک نئی پہچان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب ایردوان کے پاس صرف ایک آپشن بچا ہے … روایتی جابرانہ قوم پرستی کی طرف چلے جائیں۔ ایک طرف تو ایردوان کا اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کرنا ہے اور دوسری طرف عوام میں پائی جانے والی بھرپور ریاست پرستی ہے۔ لوگ کسی بھی طرح ریاست کے خلاف جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور انتشار کو ٹالا جاتا رہے اور ملک کا نظام چلتا رہے تاکہ معاملات خراب نہ ہوں، بنیادی مسائل حل طلب ہی نہ رہ جائیں اور عالمی برادری میں ملک کی پوزیشن متنازع نہ ہو۔
ایردوان نے لبرل ڈیموکریسی کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اب اگر کوئی خرابی پیدا ہوگی تو مخالفین کو کچلنے کی پریکٹس ہی کے بطن سے پیدا ہوگی۔ جن لوگوں کو ایردوان نے بری طرح دباکر رکھا ہے وہی کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کریں گے۔ کردوں میں پائی جانے والی بے چینی بھی ترکی میں حقوق کے لیے جاری جدوجہد کو ہوا دے سکتی ہے۔ اگر کرد اپنے حقوق کی جنگ کو ذرا وسیع بنیاد فراہم کریں تو کوئی سبب نہیں کہ ملک بھر میں ان کی جدوجہد کو غیر معمولی مقبولیت حاصل نہ ہو۔ لوگ اپنے بہت سے حقوق کی بحالی چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہیں موزوں پلیٹ فارم درکار ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Erdogan’s Journey: Conservatism and authoritarianism in Turkey”. (“Foreign Affairs”. November/December 2016)