سچی باتیں۔۔۔ ہمارا دورخا پن۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:42PM Fri 6 Nov, 2020

1928-06-06

۔’’نبوت سے پہلے آپؐ کے جن لوگوں سے تاجرانہ تعلقات تھے، انھوں نے ہمیشہ آپ کی دیانت وحسن معاملہ کا اعتراف کیاہے۔ اسی لئے قریش نے متفقًا آپ کو امینؔ کا خطاب دیاتھا۔ نبوت کے بعد بھی گوقریش بغض وکینہ کے جوش سے لبریز تھے، تاہم ان کی دولت کے لئے مامون مقام آپ ہی کا کاشانہ تھا‘‘۔ (سیرۃ النبی، مولانا شبلی، جلد ۲ ، ص: ۲۳۹) آپ کی دیانت، امانت اور راستبازی مکہ میں زباں زد خلائق ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ آپ عام طور پر امینؔ کے نام سے مشہور ہوچکے تھے۔ امین سے مراد صرف یہ نہ تھی ، کہ آپ روپیہ کی امانت کو ٹھیک اداکرتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہرقسم کی نیکیاں اور خوبیاں آپ کے اندر جمع ہیں۔ ’’(سیرت خیر البشر ، ص ۴۶)‘‘ امانت، صدق، راستبازی سے آپ کی محبت سارے عرب میںمشہورتھی، یہاں تک کہ الامین آپ کا نام ہی ہوگیاتھا۔ خود ابو جہلؔ کا اعتراف موجود ہے، جب اُس نے نبی ﷺ کو کہا، کہ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے، بلکہ اس پیغام کو جھوٹا کہتے ہیں، جو آپ لائے ہیں، ’’(ایضا، ص: ۲۳۲)ابتدائے سِن ہی سے آپ ہرامرپر بہت غوروفکر کرنے کے لئے مشہور تھے، ان کے ساتھ والوں نے آپ کو امین کا لقب دیاتھا، آپ ہمہ تن صدق وصلاح تھے۔ ’’(کارلائل ،ہیرواز پُرافت)‘‘ اس سادہ مزاج نوجوان کی پاک سیرت اور بے داغ زندگی کو دیکھ کراس کے ہموطنوں میں اسے ہردلعزیز کردیاتھا، اور سب کی اتفاق رائے سے اسے امین کا لقب ملاتھا۔ ’’(میور، لائف آف محمد)۔۔۔‘‘ حضرت علیؓ سے روایت ہے ، کہ ابو جہل نے رسول خداﷺ سے کہا، کہ ہم آپ کو نہیں جھوٹا سمجھتے ہیں، بلکہ اُس پیام کو جھوٹ سمجھتے ہیں، جوآپ لائے ہیں، (جامع ترمذی، تفسیر سورۂ انعام) جنگ بدر کے زمانہ میں اخنسؔ بن شریق نے ابو جہل سے تنہائی میں پوچھا، کہ تم محمد کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ ابوجہل نے کہا، کہ خدا کی قسم، محمدؐ سچے ہیں، کبھی آج تک جھوٹ نہیں بولے۔ (تفسیر ابن جریر، جلد ۷) ناجیہ بن کعب سے روایت ہے کہ ابو جہل نے رسول اللہ سے کہا، کہ ہم تم پر جھوٹ کا الزام نہیں لگاتے، لیکن جو پیام تم لائے ہو ، اُسے ضرور جھوٹ جانتے ہیں۔ ’’(ایضا) ابو جہل کہاکرتاتھا، کہ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے، تم یقینا ہمارے تجربہ میں سچے رہے ہو، البتہ جو پیام تم لائے ہو ہم اُسے جھٹلاتے ہیں۔ ’’(بیضاوی)۔ یہ معنی تھے سچائی کے، یہ کمال تھا راست بازی کا، یہ معجزہ تھا صداقت وامانت کا، کہ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی صدق وامانت کے تسلیم کئے بغیر چارہ نہ تھا۔ ہم بھی اُسی سچے کے نام کا کلمہ پڑھنے والے ہیں، ہم کو بھی اُسی آقا کی غلامی کا دعویٰ ہے، لیکن ہماری سیرت وکردار کو، ہماری طرز زندگی کو راستبازوں کے اُس سردار سے کوئی بعید سی نسبت بھی ہے؟ ہم نے اپنے طرز عمل سے آج دنیا کے کس خطّہ میں انسانی آبادی کے کس گروہ میں اپنا اعتبار قائم رکھاہے؟ ہماری ساکھ آج کہیں بھی قائم ہے؟ ہمارے وعدوں پر کسی کو بھی بھروسہ ہوتاہے؟ ہماری معاملت پر کوئی بھی اطمینان رکھتاہے؟ ہماری راست بازی آج کہیں بھی مستند سمجھی جاتی ہے، اور ہماری دیانت وامانت کی گواہی کوئی بھی اپنے تجربہ کی بنا پر دے سکتاہے؟ ہمارا شمار کہیں بھی سچوں کے گروہ میں ہے؟ دشمنوں کا ذکر نہیں، دوستوں کا تجربہ ہماری سچائی کی بابت کیاہے؟ بیگانوں کو چھوڑئیے، اپنوں کے دلوں کو ٹٹولئے، کہ ان میں ہمارے صدق وامانت کی بابت کیا خیال ہے؟ درحقیقت اسلام کو دنیا میں بدنام کرنے والا، ہمارے پاک دین کو غیروں کی نظر میں رسوا وذلیل کرنے والا ہماری سیرت کا یہی دورُخاپن، ہماری زندگی کا یہی جھوٹ، ہمارے عمل کا صدق، وفاوامانت سے بھی خالی ہوجانا ہی ہے۔ اور بے حسی اور بے غیرتی کی نوبت یہ پہونچ گئی ہے، کہ اپنی چالاکیوں، اپنی بددیانتیوں، اپنی خیانتوں، اپنی وعدہ خلافیوں، اپنی مکاریوں، اپنی جعلسازیوںپر اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر فخرکیاجاتاہے، اور ان ’’کارناموں‘‘ کو اپنے دوستوں کے سامنے بیان کرکرکے اُن سے داد چاہی جاتی ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/