جے،این،یوکا سیکولر نظام اور نجیب کی گم شدگی۔۔۔محمد رکن الدین مصباحی

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی، اپنے سیکولر نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتی ہے. دراصل یہ یونیورسٹی آغاز ہی سے چند نظریات کی وجہ سے عام و خاص سب میں مقبول ہے. اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد صرف تعلیم سے آراستگی ہی نہیں ہے بلکہ سماج کو ظلم وستم اور ناانصافی سے آزادی دلانابھی ہے. سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر ہمیشہ سے اس دانشگاہ کے طلبا نے اپنی سماجی و یکجہتی سوچ کو پروان چڑھایا ہے. اس اتحاد واتفاق ،اخوت ومحبت اور آپسی بھائی چارہ کو وہ سبھی محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے جے, این, یو کی سیکولر آب و ہوا میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارے ہوں،یہ یونیورسٹی نہ جانے کتنے ایسے قوم کے ہمددر کو پیدا کیا ہے جس نے ہندوستانی عوام کی بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مظلوم اور بے بس افراد کی مدد کی ہے, خواہ وہ نظریاتی چپقلش ہویا سیاسی چپقلش. لیکن ان دنوں جے, این, یو ہندستانی حکومت کی تنگ نظری کا شکار ہے .حکومت ہر سطح پر اس کی انفرادیت کو مسخ کرنا چاہ رہی ہے،خواہ وہ وطن عزیز کے تئیں لوگوں کے جذبات ہوں یا وہ دستو ر جس پر ہندوستان کو ناز ہے، اس حقوق کی بات کرنے پر حکومت ہر وہ حربہ استعمال کررہی ہے جس سے ہندوستانی عوام کے جذبات مجروح ہوں، حالاں کہ ہر ذی شعور افراد حکومت کے غلط پروپیگنڈہ سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جے،این،یو میں پرورش پانے والا ہر شخص ہندوستانی دستور پر عامل اور اس کا محافظ ہے، اسی وجہ سے وہ مظلوم طبقہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دستور ہند کے مطابق انصاف ملے. مگر ہندوستان کے گنگا جمنی تہذیب وثقافت اور کثرت میں وحدت کی مثالی معاشرے کے دشمن یہ سیاسی لوگ جسے نہ انسانیت سے کوئی سرو کار ہے اور نہ ہندوستانی سماج سے, یہ اپنی گھٹیا اور بکواس نظریات کو منوانے کے لیے دانشور طبقوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ ہم جو سوچتے ہیں وہی اس ملک کا قانون ہے، ہم جو چاہیں گے وہی آئین ہند ہوگا اور اس کے لئے وہ سیاسی طاقت کا استعمال کررہے ہیں.اور ہندوستانی سادہ لوح عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دیتے ہیں کہ سماج میں اس طرح کے دانشور وں اور مفکروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے جو حکومت کی پالیسی پر کسی طرح کا کوئی سوال کھڑا کریں. اب آپ ہی بتائیں کہ اس طرح کی منافقانہ ذہنیت سے ہمارے ملک وملت کا کیا بھلا ہوسکتا ہے؟میرے خیال سے اس طرح کےنظریات سے ہندوستان کا کوئی طبقہ خوش نہیں ہوگا، کیوں کہ اس سے پوری دنیا میں ہندوستان کی یک جہتی پر آنچ آرہی ہے اور ہم آہنگی مجروح ہو رہی ہے.ہمارے ملک کا الیکٹرانک میڈیا کس سمت میں جا رہا ہے؟ کیا انہیں ملک میں بے شمار خلفشار کے تعلق سے علم نہیں ہے؟ کیا مذہب کے نام پر آئے دن ایک خاص شرپسند طبقے کی غنڈہ گردی اور دستور ہند کی سر عام خلاف ورزی اور اس کی بے عزتی انہیں نہیں دکھتی؟ اگر ایسا ہے تو اس باوقار پیشے کی عزت کو بحال رکھیں ورنہ اس سے برطرف ہو جائیں, کیوں کہ انہیں شاید مستقبل میں در پیش مسائل کا علم نہیں, یہ تنگ نظر اورضمیر فروش میڈیا مسقبل میں نہ تھمنے والے خونی سیلاب اور سماجی افراتفری سے بے خبر ہے. سماج کو سماج اور انسان کو انسان بننے میں صدیاں گزرجاتی ہیں.اس کی بہترین مثال انسانیت سے منسلک قبائلی اور جنگلی طرز حیات میں دیکھ سکتے ہیں.حکومت تو ایک خاص نظریے سے تعلق رکھنے والے کے تئیں ہی وفاداری نبھا رہی ہے،لیکن میڈیا تو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائے. میں اس کاہرگز قائل نہیں ہوں کہ کسی خاص طبقے پر اپنی پوری انرجی صرف کریں بلکہ دستور ہند کے تعلق سے پابند رہیں ورنہ مسقبل میں بہتر نتائج کی امید بیکار ہے. جمہوریت میں زمام حکومت کی باگ ڈور سے تو ہر کس و ناکس واقف ہیں.بہرکیف !جے، این، یو میں درپیش مسائل کے لیے جے، این،یو ایڈمنسٹریشن جس طرح ذمہ دار ہے اسی طرح حکومت ہند بھی ذمہ دار ہے.حکومت اور حکومت کے دلال جس طرح سے اس پورے معاملے پر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں یہ صرف مقام حیریت نہیں بلکہ جے، این، یو کی جمہوری نظام پر ایک بد نما داغ ہے. وہ داغ جسے وقت کا فرعون ہر قیمت پر رہنے دینا چاہتاہے. یہ ظالم و جابر حکمران انصاف کے تعلق سے سوچتے تک نہیں, اور اس میں دخل اندازی کر کے معاملے کو طول دے رہے ہیں تاکہ ہر موقعے کی طرح اسے بھی سیاسی ہتکھنڈ ے کے طور پر استعمال کرسکے. ابھی ماضی قریب میں جو بھی معاملات جے, این, یو میں سامنے آئےاس میں حکومت کس طرح دل چسپی لے رہی تھی؟ایک فیک ٹوئٹر کی بنیاد پر ہندوستان کے وزیر داخلہ نے نہایت احمقانہ بیان دیا کہ اس سارے معاملات کا تعلق ایک متشدد گروپ سے ہے، یہ اور بات ہے کہ اس بیان نے ان کی اصل شخصیت کو ہندوستانی عوام کے سامنےننگا کر دیا.اور یہ بات صاف ہوگئی کہ جس حکومت کے وزیر داخلہ کی ذہنیت اس قدر تنگ اور گٹھیا ہو وہ بھلا پورے ملک کے داخلی معاملات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں.نجیب سائنس کا طالب علم ہے.ایک غنڈہ گروپ کی طرف سے زدوکوب کیے جانے کے بعد پچھلے ایک ہفتے سے لاپتہ ہے. اس پورے معاملے کو لے کر نہ جے،این،یو سنجیدہ ہے اور نہ ہی حکومت سنجیدہ ہے. اب نجیب کا کیا ہوگا؟ جو غنڈے ہیں وہ جے، این، یو سرعام گھوم رہے ہیں اور اپنے آقاجے،این، یو ایڈمنسٹریشن کی فرماں برداری کر رہے ہیں. نہ ان غندوں کی گرفتاری ہوئی ہے اور نہ ہی پولیس کوئی ایکشن لے رہی ہے. اس مصیبت کے وقت آخر نجیب کی فیملی کہاں جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ کس کے سامنے اپنے بیٹے کی دہائی مانگے؟ہم تمام جے، این، یو کے طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کے ساتھ اس المناک واقعہ کو لے کر متحد ہیں. اور ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح جے،این، یو کے دیگر معاملات پر وزیر داخلہ کا بیان فورا آگیا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے، پتہ نہیں انہوں نے کس ایجنسی کو اس معاملے میں حلال کیا وہی بتا سکتے ہیں؟مگر نجیب کے اس حادثے میں آپ اسی جلدبازی سےکام لیں اور تمام ملزم کو سلاخوں کے پیچھے ڈالے تا کہ اقلیت اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر سکے ورنہ تو پھر غنڈوں کی حکومت ڈکلئر کردیں تاکہ پوری دنیا آپ کی اصل شناخت کر سکے.نیز نجیب کے اس واقعہ سے پورا جے،این،یو متاثر ہے ۔ہندو مسلم بھائی بھائی کہلاتے تھے مگر اب ایک دوسرے کی نگاہوں میں کھٹکٹتے ہیں ۔دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔انتشار اور اختلاف فروغ پا رہا ہے ۔ہمیں اسی سیکولر نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر مذہب وملت کے فرد گھی وشکر بن کر رہتے تھے۔اور یہ اسی وقت ہوگا جب حکومت ہند اس جانب پیش قدمی کرے گی ۔حکومت سے گزارش ہے کہ جے،این ،یو کے سیکولر نظام کی بحالی میں دخل اندازی بند کرے کیوں کہ جے،این،یو سماج حکومت کے محتاج نہیں ہے ۔اس لیے حکومت اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور نجیب کے خاندان اور جے،این ،یو فیملی کے چہرے پر وہی مسکراہٹ لائے جو14اکتوبر کی شب سے پہلے تھی۔