پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی - علم کسی کا قرض نہیں رکھتا

پروفیسر خلیل الرحمان اعظمی :علم کسی کا قرض نہیں رکھتا
از ۔ ندیم صدیقی
ابھی بہت وقت نہیں گزرا جب روس میں اُردو کا بول بالا تھا، دہلی سے روس کا ترجمان ’ سوویت دیس‘‘ باقاعدگی سے اور خاصے اہتمام سے ماہ بہ ماہ اُردو زبان میں بھی شائع ہوتا تھا۔ اُس دور کے تمام نہ سہی مگر اکثر ادیب و شاعر روس جاتے تھے اور روس میں اُردو اور روسی، روسی اور اردو تراجم کاکام بھی خوب ہوا تھا۔ جو اُردو ادب میں ایک یادگار حیثیت کا حامل ہے۔ اسی طرح اُردو کا ایک مرکز لندن بھی رہا بلکہ اب بھی ہے مگر ویسی رونق شاید اب نہیں رہی کیوںکہ با عث ِرونق لوگ بھی اب نہیں ہیں۔ یقیناً زمانہ ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ اب جو اُردو کی چمک دمک ہمیں خلیجی ریاستوں میں دِکھائی دیتی ہے وہ بھی کم نہیں ۔ دوحہ ۔ قطر، دُبئی، کویت اور شارجہ وغیرہ میں تو اُردو مشاعروں کا اچھا خاصا بازار گرم رہتا ہے اور ہمارے شعرا وہاں کی محفلوں کی رونق کو دوبالا کرتے رہتے ہیں۔ یہاں کے کئی شعرا کا جشن بھی وہاں منعقد ہو تا رہتا ہے۔ وہاں کی ایک انجمن نے تو ہر سال کسی ایک شاعرو ادیب کا جشن اور اعزاز منا کر تو اپنی تاریخ بنا لی ہے۔ جس طرح وہ فنکاروں کی پذیرائی کرتے ہیں وہ ایک مثالی حیثیت کا حامل عمل بن گیا ہے۔ وہ ہر سال کسی ایک ہندوستانی اور کسی ایک پاکستانی قلم کار کو اعزاز دیتے ہیں۔ جس میں ایک خطیر رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ دُبئی میں جس طرح کے مشاعرے سلیم جعفری(مرحوم)نے منعقد کئے وہ بھی ایک تاریخ ہے۔ ہم یہاں ایک ہندوستانی شکیل صبر حدی کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو بحرین میں ادب دوستی کی ایک تاریخ بنارہے ہیں ان کاادارہ ’’ مجلس فخر ِبحرین برائے فروغِ اُردو‘‘کئی برسوں سے متحرک ہے اس نے 2013 میں مشہوروممتازشاعرشہریار کی یاد میں ایک عظیم الشان اور یادگار مشاعرہ، 2014 میں تحقیقی کتاب’ فراق گورکھپوری ، شخصیت،شاعری اور شناخت‘ کا اجرا اورعالمی مشاعرہ بیاد فراق گورکھپوری ،2015 میں’ عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات‘ کا اجرا اور تیسرا عالمی مشاعرہ عرفان صدیقی کی یاد میں،جسٹس آنند نرائن ملا کی علمی و دابی خدمات پر مجلس کی جانب سے دہلی کے جامعہ ہمدرد کے کنونشن سینٹر میں یک روزہ قومی سمینار،2016 میںنائب صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں ’ آنند نرائن ملا حیات و کمالات ‘ نامی کتاب کا اجرا اور عالمی مشاعرہ بیاد ’پنڈت آنند نارائن ملا‘ منعقدکیا۔ اب شکیل صبرحدی بحرین میں اسی ماہ اُردو کے دورِ جدیدکے ایک مثالی شاعر اور اُستاد خلیل الرحمان اعظمی کا جشن منا رہے ہیں۔ اس موقع پر مجلس کا ایک شاندار مجلّہ بھی منظر ِعام پر آتا ہے جوصوری طور پر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے مشمولات سےبھی مُجلّا ہوتا ہے۔ جونپور اپنے علم اور عالموں کے سبب ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے کہا جاتا تھا کہ جون پور کی چنبیلی بھی بہت دور تک مہکتی ہے۔ جون پور کے سپوت شکیل صاحب بھی اپنے شہر کے علم و ادب کی خوشبو لے کر بحرین میں بسے اور اس خوشبو کو انہوں نے وہاں خوب خوب پھیلایا۔ راقم کو بھی ان سے نیاز حاصل ہے بلکہ ایک بار بحرین میں ان کی میزبانی کے لطائف بھی میسر ہوئے۔ چونکہ عروس البلاد سے ان کا تجارتی اور خانگی تعلق ہے تو وہ گاہے گاہے ممبئی آتے رہتے ہیں اور یہاں شعرا و ادبا سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں جو شعروادب کی گفتگو سے سجتی ہیں۔ شکیل صاحب ایک عمدہ اور نفیس شعری ذوق کے حامل شخص ہیں۔ وہ پاکستانی شعرا اور شاعری کو پسند ضرور کرتے ہیں مگر اپنے مشاعرے میں ہندوستانی شعرا کی کثیر تعداد مدعو کرتے ہیں اور اُن کی خاطر و پذیرائی میں کوئی کمی نہیں رکھتے۔ ا مسال وہ خلیل الرحمان اعظمی کا جشن منا رہے ہیں جس میں ان کا روایتی مجلہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ خلیل الرحمان اعظمی کے نام پر کئی باتیں ہمارے ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں۔ وہ جس د رجےکے شاعر تھے وہ تو دُنیا جانتی ہی ہے ان کی شاعری پرکلام کرنا ہمارا منصب نہیں۔ یہاں اُن کے ایک شاگرد ِعزیز اور اُردو کے ممتاز شاعر شہریار (مرحوم)کی روایت کردہ کچھ باتیں ہیں جن میں ہم اپنے قارئین کو شریک (Share) کرنا چاہتے ہیں۔ خلیل الرحمان اعظمی صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے وہ ہمارے ادب و زبان میں دانشوری کی روایت کی بھی ایک اہم کڑی تھے ان کی علم دوستی کی مثال اب دورقریب ہم کونظر نہیں آتی۔ کہتے ہیں کہ وہ جب(علیگڑھ مسلم) یونیورسٹی میں اپنا لیکچر دیتے تھے تو لگتا تھا کہ اس مضمون پر انہوں نے گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ لیکچر کے دوران صرف ان کی زبان ہی کام نہیں کرتی تھی ۔ شہریار کہتےتھےکہ ’’ ان کا پورا وجود اس لیکچر میںبولتا تھا۔‘‘ وہ اپنے موضوع پرمسلسل مطالعہ کرتے تھے، ہماری ناقص معلومات کے مطابق مرحوم خلیل الرحمان اعظمی کم از کم اپنے دور میں ایک ایسے مثالی استاد تھے کہ جنہیں انتقال کے بعد ترقی دِی گئی۔ یہ عمل بھی ایک مثال ہے۔ جس کی وجہ یہ تھی ارباب ِ جامعہ کو ان کی رِحلت کے بعد اس کا احساس ہوا کہ وہ جس ترقی اور اعزاز کے حقدار تھے وہ انھیں نہیں ملا۔سو بعد از مرگ انھیں پروفیسر کا منصب دیا گیا۔ ہم نے شہریا ر سے پوچھا تھا کہ بعد از مرگ انھیں پروفیسر بنانے سے کیا فائدہ ہوا؟تو شہریار نے بتایا کہ’’ بظاہر ان کی ذات کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر اُن کی تنخواہ اور دیگر( مالی) معاملات پر یہ ترقی بڑی سود مند ثابت ہوتی ہے جس کا فائدہ ان کے پسماندگان کو یقیناً ہوا، بالخصوص فیملی پنشن خاصی ہو گئی۔‘‘ خلیل الرحمان اعظمی کا ایک عمل اورتذکرے کا حق رکھتا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کی سروِس میں کبھی چھٹی لی ہی نہیں وہ ہمیشہ یونیورسٹی میں موجود رہتے تھے۔ عِلم اور اسکے فروغ کی دُھن کے ساتھ شاگردوں سے انھیں جس طرح اُنس تھا وہ بھی مثالی ہے۔ ادب دوست و ادب شناس شکیل صبرحدی نے ا س بار اپنے پروگرام کو خلیل الرحمان اعظمی سے منسوب کرکے ادب دوستی اور عمیق ادب شناسی کا پھر مظاہرہ کیا ہے۔ یقین ہے جس طرح انہوں نے عرفان صدیقی پر ایک شاندار کتاب شائع کی تھی اس بار خلیل الرحمان اعظمی پر بھی وہ ایک کتاب اردو والوں کو دیں گے۔ہمارے اکابرِ علم و ادب کا حق ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو ان سے نہ صرف متعارف کرائیں بلکہ انکے علم و عمل کی مشعل سے انھیںاپنا چراغ روشن کرنے کی ترغیب بھی دیں۔ شکیل صبر حدی اس کام کو جس خلوص کے ساتھ اورکسی طمع و لالچ کے بغیر کر رہے ہیں وہ بھی ایک تاریخی عمل سے کم نہیں۔علم کا معاملہ عجب ہے یہ کسی کا قرض نہیں رکھتا ، اپنے وقت پرپورے نفع کے ساتھ واپس کر دیتا ہے۔ خلیل الرحمان اعظمی کی مثال سامنے ہے ۔ شکیل صاحب کو یہ نفع مبارک ہو