سچی باتیں۔۔۔ تعلیم یا وبال۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:40PM Thu 14 Jan, 2021

1927-01-03

آپ کے پڑوس میں ایک کمر جھکی ہوئی بوڑھی رہتی ہیں، جن کا کوئی والی ووارث نہیں۔ آپ کبھی اگراُن کے آگے دوچار پیسے پھینک دیتے ہیں، تو گویا اپنے نزدیک حاتمؔ طائی کی سخاوت کو مات کردیتے ہیں، لیکن کبھی ساری عمرمیں یہ بھی توفیق آپ کو ہوئی ہے، کہ اُن کا کوئی کام اپنے ہاتھ سے کردیں؟ آپ کی والدہ ماجدہ کا اب پیرانہ سالی کا زمانہ ہے، نہ اعضا میں قوت باقی ہے، نہ ہوش وحواس پوری طرح باقی ہیں، آپ اپنی ساری فضول خرچیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیر رقم اُنھیں بھی دے دیتے ہین، اور اس طرح گویا اُن کے سارے احسانات سے بڑھ کر اُن کے ساتھ سلوک کرچکتے ہیں، یا اس سے بھی آگے بڑھے، تو اُن کی علالت کے وقت کسی ڈاکٹر یا حکیم کو بُلا کر اُنھیں دے دیا، اور اس طرح گویا سارے فرائض فرزندی سے سبکدوشی حاصل کرلی، لیکن کتنی مرتبہ آپ نے اُن کا کام اپنے ہاتھ سے کیاہے؟ کتنی بار اُنھیں آپ نے دوڑ کر پانی پلایاہے؟ کتنی بار اُن کی جوتیاں صاف کرکے اُنھیں دی ہیں؟ کتنی بار اُن کے لئے طشت اور اُگالدان صاف کرکے اُن کے سامنے رکھاہے؟ آپ راستہ میں جاتے ہوتے ہیں، ایک بوڑھے مزدور کو آپ دیکھتے ہیں، کہ اُس نے بوجھ سر سے اُتار کررکھ دیاہے، اور وہ اتنا بھاری ہے ، کہ بغیر کسی کے سہارے کے نہیں اُٹھ سکتا، وہ بیکس چاروں طرف نگاہ دوڑاتاہے، آپ اُس کی بیکسی کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں، لیکن گذرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، اس لئے کہ مزدور کے بوجھ میں سہارا دینا، آپ کے نزدیک آپ کی شان ، آپ کے مرتبہ، آپ کی عزت، آپ کی شرافت، آپ کی تعلیم کے منافی ہے!۔ دوسروں کی خدمت جانے دیجئے۔ خود اپنے کام کاج، اپنی ضروریات کو لیجئے۔ آپ اپنے کتنے کام اپنے ہاتھ سے کرتے یا کرسکتے ہیں! اپنی کتنی ضرورتوں کو بغیر دوسروں کے دست نگر ومحتاج ہوئے، آپ خود پورا کرتے رہتے ہیں؟ اسٹیشن پر اپنا سامان آپ نہیں اُٹھا سکتے ، بازار میں اپنا خرید کیا ہوا سودا اپنے ہاتھ میں لے کر آپ نہیں چل سکتے، اپنا پانی آپ نہیں بھرسکتے، اپنے صحن میں جھاڑو آپ نہیں دے سکتے، اپنا کھانا آپ نہیں پکاسکتے، اپنا لباس آپ نہیں سی سکتے، اپنے کپڑے آپ نہیں دھوسکتے، زیادہ پیدل آپ نہیں چل سکتے، کہ ان میں سے ہر کام کے کرنے میں آپ کو اپنی توہین نظر آرہی ہے! آپ کے لئے آپ ہی کے یہ سارے کام آپ کے بوڑھے نوکرکریں، ضعیف مزدور کریں، بیمار خدمتگار کریں، لاغر قلی کریں، نہ کریں، تو ایک آپ ہی نہ کریں۔ اور آپ صرف اس لئے نہ کریں ، کہ آپ ’’شریف‘‘ ہیں، اور آپ ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہیں۔ آپ سواری کے کرایہ میں ، نوکروں کی تنخواہوں میں، مزدوروں کی مزدوری میں، قلیوں کی اُجرت میں ، ایک طرف دل کھول کر خرچ بھی فرماتے رہیں، اور دوسری طرف زبان پر یہ فریاد بھی جاری رہے، کہ آمدنی کافی نہیں ہوتی، خرچ پورا نہیں پڑتا، زیرباری بڑھتی جاتی ہے، قرضہ لدتا چلاجاتاہے! کیا ’’تعلیم‘‘ کے یہ سبق ہیں، کہ وہ زندگی کواس قدر پُرمصارف بنادے؟کیا تعلیم کا یہی مفہوم ہے، کہ انسان ان تمام غیرضروری تکلفات کا غلام بن جائے؟ کیا تعلیم کا یہی منشا ہے، کہ انسان کی زندگی تمامتر مصنوعی ہوکے رہ جائے؟ کیا ’’تعلیم یافتہ‘‘ شخص کی یہی پہچان ہے ، کہ وہ اپنے بڑوں کی خدمت کرنے، اور چھوٹوں کی دستگیری کرنے میں اپنی ہتک سمجھے؟ کیا ’’تعلیم‘‘ اسی لئے دی جاتی ہے ، کہ بیکسوں اور اپاہجوں کی مدد کرنے میں عار آنے لگے؟ کیا ’’تعلیم‘‘ سے یہی غرض ہوتی ہے، کہ انسان اپنے ہاتھ پَیر سے کام لینا بھول جائے؟ کیا ’’تعلیم‘‘ اسی کا نام ہے، کہ انسان دوسروں کا بار اُٹھانے کی جگہ اپنا بار دوسروں پر ڈال دے؟کیا یہی ’’تعلیم‘‘ دلوں میں ہمدردی وخداترسی، خدمت خلق وخدمت قوم کے جذبات پیداکرسکتی ہے؟ کیااسی ’’تعلیم‘‘ سے امید ہے، کہ وہ تصنع ونمائش کی زندگی کو مٹاکر خلوص اور سچائی کی تربیت کرے گی، کیا یہی وہ ’’تعلیم‘‘ ہے ، جو انسان کو مرتبۂ ملکوتیت تک نہ پہونچا سکے، تو بھی کم ازکم مقام انسانیت ہی پر قائم رہنے دے گی؟ روحانی واخلاقی حیثیتوں کو چھوڑئیے۔ خالص مادّی اور اقتصادی پہلوؤں سے بھی، سوچئے اور غور کیجئے، کہ یہ ’’تعلیم‘‘ جس کے یہ کھُلے ہوئے نتائج ہوں، ملک وقوم کے حق میں رحمت وبرکت ہے، یا ایک بار اور وبال؟