محمد زبیر چمپا، ایک مخلص استاد۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:20PM Thu 6 May, 2021

ایک ایسے قصبے میں جہاں ذرائع معاش بہت ہی محدود رہے ہوں،اور جہاں کے باشندے تلاش معاش میں اپنا گھر بارچھوڑنے پر مجبوررہے ہوں، اورانہیں سال دو سال کے بعد ہی اپنے اہل وعیال سے ملنے اور کچھ عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد پھرعلی الصبح روزی کی تلاش میں اڑنے والے پنچھی کی طرح اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑتا ہو، اقتصادی حالات ایسے ہوں کہ چند گھرانے ہی تجارت پیشہ ہوں، دس بیس فیصد لوگ قصبوں قصبوں، شہروں شہروں پھر کر کپڑوں اور ضروریات زندگی کے سامان کی پھیری لگا کر خوشحال زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہے ہوں، اور بقیہ وطن سے دور نوکریوں پر گذر بسر کرنے پر مجبور ہوں، ایسے معاشرے میں نونہالوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری والدین سے زیادہ اساتذہ پر عائد ہوتی ہے، اور جب ایسے معاشرے ترقی کرتے ہیں تو قوم کے استاد ان کے سب سے بڑے محسن شمار ہونے کے حقدار ہوتے ہیں، ۱۹۸۰ء سے قبل بھٹکل کا معاشرہ کچھ ایسا ہی تھا، ۱۹۷۰ء سے قبل یہ صورت حال بہت ہی گھمیر تھی، ابھی پرائیویٹ انگلش اسکول قصبے میں داخل نہیں ہوئے تھے، یہ زمانہ سرکاری اردو اسکولوں کا زمانہ تھا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو میڈیم میں ثانوی درجات کی تعلیم پانے والے اساتذہ نے جس نسل کو پروان چڑھایا، آج ہم انہی کی محنتوں کا ثمر کھارہے ہیں، آج بھٹکل کے چپے چپے میں جو تعلیم وتربیت کے ادارے ایستادہ ہیں، ان کے قیام میں جہاں قوم کی باشعور قیادت کا حصہ ہے، وہیں ان محسن اساتذہ کا، اوراہل وعیال سے دور رہ کر اپنی محدود ذرائع آمدنی کو قوم کے  روشن مستقبل لئے قربان کرنے والوں کا یوگدان بہت زیادہ ہے، یہی وہ نسل تھی جس نے خود جل کر اسٹیم فراہم کی اور قوم کی گاڑی کے انجن کو اس کے پاور سے چلایا۔

آج یہ بات اس لئے یاد آئی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جناب محمد زبیر چمپا صاحب کی اس جہان فانی سے رخصت کی خبر آئی ہے، آپ نے اندازا (۷۶) سال کی عمر پائی، آپ کا خاندانی ماحول معاشی لحاظ سے بہت پس ماندہ تھا، بھٹکل کے عام ماحول کے برخلاف ان کی خواتین بھی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت مزدوری پر مجبور ہوتی تھی،اس زمانے کے اساتذہ ہونہار بچوں کے معاشی مجبوریوں سے اسکول چھوڑنے پر بڑے فکر مند رہتے تھے، ان  درد مند اساتذہ کے سرخیل انجمن ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عثمان حسن جوباپو مرحوم تھے، آپ نے زبیر چمپا کو معاشی مجبوریوں سے تعلیم چھوڑنے سے روکنے کے لئے ہر ممکن  جتن کئے، اور ان کی دلجوئی کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۶۴ء کے آس پاس آپ نے میٹروکولیشن پاس کیا، صحت اچھی تھی، جسمانی ورزشوں وغیرہ سے دلچسپی تھی، تو پھر آپ نے پی ٹی کا کورس جوئن کیا، اور فارغ ہوکر انجمن سے پی ٹی انسٹرکٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوئے، ساتھ ہی ساتھ تدریس کے پیشے سے بھی جڑے رہے،  خوش مزاج تھے، اسکول کی اجتماعی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر  دلچسپی لیتے تھے، اپنے مادر علمی کی سرگرمیوں اور طلبہ کی ہمت افزائی میں نمایاں رہے،وہ اپنے وقت میں اسکول کے بہترین ناظم جلسہ شمار ہوتےتھے، اور ان کی اناؤنسنگ کو چاہے اسکول کی گیدرنگ کا موقع ہو چاہے کھیلوں کے مقابلے ہوں، بڑی دلچسپی سے سنا جاتا تھا، اس وقت انہیں بھٹکل کا امین سایانی کہا جاتا تھا۔ اس زمانے کے آپ کے دوست واحباب کا حلقہ بہت وسیع تھا، (۱۶) سال انجمن میں تدریسی خدمات کے بعد ۱۹۷۸ء میں ترقی معاش کی جستجو میں آپ  دبی تشریف لائے، اور بڑی محنت اور امانت داری کے ساتھ پیشہ ورانہ زندگی بسر کی، ۱۹۸۹ء میں آپ نے سرمایہ معلومات کے عنوان سے عام معلومات پر مبنی ایک کتاب مرتب کی ،جس کا رسم اجرا ء یہاں جماعت کے اجلاس میں ایک مشاعرے میں ہوا۔

جن اداروں اور تجارتی مراکز سے ان کے معاملات ہوتے تھے، وہاں پر آپ کی بڑی عزت محسوس ہوتی تھی، کوئی پندرہ سال قبل رٹائرڈ ہوکر وطن میں مستقل قیام پذیر ہوئے تھے، اور شاذ ونادر عام محفلوں میں نظر آتے تھے، آج جب ان کی رحلت کی خبر آئی تو دل کو عجیب سا صدمہ ہوا، جن اساتذہ نے قوم کی اٹھان میں شرکت کی ہے، عموما ان کی زندگی کے آخری حصے میں گمنامی لکھی ہوتی ہے۔ اس رویے کو ہرگز تعمیری نہیں کہا جاسکتا، اب اس کیسے تبدیلی ہو، اور ہم ایک احسان شناس قوم کیسے بن جائیں؟ اس کے بارے میں رہنمایان قوم کو ضرور سوچنا چاہئے، ایک مخلص رمضان کی مبارک رات میں اپنے خالق حقیقی کے دربار میں پہینچ گیا، کل ہمیں بھی وہیں پہنچنا ہے، دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کا حساب آسان کرے، اور ان کی مغفرت کرے، اللھم اغفر لی وارحمہ۔

 2021-05-07

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/