محمد میراں صدیق، ایک مخلص خادم قوم کی جدائی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:05PM Thu 13 May, 2021

آج بھٹکل وخلیجی ممالک میں جہاں بھٹکلی احباب زیادہ تر بستے ہیں، عید الفطر کا مبارک دن تھا، ابھی سورج کے غروب کے بعد رات کی تاریکی اپنا سیاہ چادر تان رہی تھی کہ منگلور سے خبر آئی کہ جناب محمد میراں صدیق ہندا نے بھی  اس دار فانی کو الوداع کہا،اور اپنے چاہنے والوں کو داغ جدائی دے کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے، انہوں نے اس دنیا میں عمر عزی کے پچھتر سال پورے کئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ کورونا اپنے دوسرے مرحلے میں وطن عزیز میں ایک آسمانی عذاب کی طرح نازل ہوگیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا کہ صرف بھٹکل قصبے سے کسی نہ کسی کے دائمی سفر پر رونگی کی خبریں آرہی ہیں، وطن عزیز کا عمومی حال تو اس سے بہت برا ہے، اس مرحلے میں جو شخصیات ہمارے درمیان سے اٹھ رہی ہیں ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی امت کے لئے بڑی عظیم خدمات ہیں، ان کے وقت اور صلاحیتوں کی ملت کو ضرورت ہے، ان میں سے ایک ایک شخص اپنی ذات میں ایک جماعت اور تنظیم کی حیثیت رکھتا ہے۔

محمد میراں صدیق بھی ان لوگوں میں تھے، قوم کی خدمت جن کے رگ وپے اور خون کی بوند بوند میں رچی بسی تھی، وہ ایک مخلص اور قوم کی بھلائی کے لئے دن اور رات ایک کرنے والے شخص تھے۔ وہ بھٹکل کے عظیم سپوت اور مخلص قائد اسماعیل حسن صدیق ( آئی ایچ صدیق) کے نواسے تھے، آپ کے والد ابوالحسن وڑاپا بھی قوم کے ایک مخلص خادم اور باکردار تاجر تھے، ان کے فرزند محمد میراں صدیق میں اپنے والد اور اپنے نانا کی خوبیاں رچی بسی تھیں۔

آپ کی ابتدائی تعلیم بھٹکل کے قدیم نظام کے مطابق یہاں کے گھریلو مکاتب میں ہوئی تھی، جہاں قرآن شریف اور دین کی بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی، اور تذکیروتانیث کے فرق کے ساتھ پڑھانے والوں کو عرف عام میں خلفو اور خلفین کہا جاتا تھا، پھر آپ نے پرائمری بورڈ اسکول میں داخلہ لیا، آپ کے والد کا کاروبار اس زمانے میں کلکتہ میں تھا، جہاں کولوٹولہ کے مشہور علاقہ میں آپ کے کی کپڑوں کی موڈرن اسٹور کافی معروف اور مشہور تھی۔ میٹرک تک کی تعلیم آپ نے یہیں مکمل کی۔  ۱۹۶۸ء میں جب آپ کے قریبی بزرگ اور قوم کی ایک معزز شخصیت محمد ہاندو بھاؤ صاحب نے سری لنکا میں اپنا کاروبار سمیٹا تو، تو وہاں سے منتقل ہو کر ابوظبی میں صدیق اسٹور قائم کی تواس وقت آپ نے یہاں سے ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے نئے معاشی سفر کا آغاز کیا، پانچ چھ سال کے بعد ۱۹۷۴ ء میں آپ نے مرحوم بہاء الدین باشا قمری کی شراکت میں دبی کے مرشد بازار میں صدیق اینڈ باشا کے نام سے دکان کھولی اور کپڑوں کا ہول سیل کاروبار شروع کیا۔ یہ کاروباری شراکت تقریبا ۲۵ سال تک رہی۔ یہ آپ کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا، اس دوران آپ نے یہاں پر جماعت کی تاسیس میں حصہ لیا، اور قوم کے اداروں کی ترقی فلاح وبہبود کے لئے اپنا وقت اور صلاحتیں نچھاور کیں۔ اس زمانے میں الراس میں نوائط کالونی کے نام سے مشہور الراس بلڈنگ میں آپ کی رہائش گا، سماجی سرگرمیوں کا ایک مرکز بن گئی، جہاں پر وطن سے آنے والے قوم کی خدمت کرنے والے معززین شہر کی مہمان نوازی ایک طویل عرصے تک کی گئی۔ اس میں آپ کے پارٹنر باشا قمری کی بھی رفاقت رہی، اسی کمرے میں کے یم ٹریڈنگ جیسی مشہور تجارتی کمپنیوں کے مالکان بھی اپنی تجارتی زندگی کے آغاز میں آکر ٹہرتے رہے۔

وہ یہاں کی بھٹکل جماعت کے آغاز سے رکن رہے، ۱۹۸۰ء میں جب جماعت کی نشات ثانیہ ہوئی تو انہوں نے اس میں بھر پور حصہ لیا، یہ دور جماعت کا سنہرا دور تھا، سب کی ساجھے داری تھی، اور اس ماحول میں جماعت کی سرگرمیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ جماعت کا دستور،تین رابطہ ڈائرکٹریاں، بچت اسکیم ،  مرکزی اداروں کے خیر سگالی وفود، بین الجماعتی کانفرنس، بھٹکل مسلم خلیج کونسل کا قیام، رابطہ آفس کا قیام، سالانہ عید ملن جو بعد میں بھٹکل ڈے بن گیا، پرسنلیٹی ایوارڈ، سیف بچت اسکیم، تعلیمی سیمینار، اسکالر شپ اسکیم وغیرہ بہت سارے پروجکٹ اسی زمانے کی یاد گار ہیں۔ ان سب سرگرمیوں میں وہ شانہ بہ شانہ ہم سب کے ساتھ رہے۔

انہیں بھٹکل کے مقامی مرکزی اداروں کے لئے عام باشندگان سے تعاون اکٹھا کرنے میں بڑی دلچسپی تھی، اس کے لئے لوگوں کے پاس دس دس بار جانے میں انہیں کوئی ہچکچاہت محسوس نہیں ہوتی تھی، اور شاید برادری میں اس میدان میں ان کا ہم سر تلاش کرنا شاید بہت مشکل ہو، بلکہ ان کی مثالیں شاذ ونادر ہی ملتی ہیں، انجمن ہو یا تنظیم ، جامعہ ہو یا خلیفہ جماعت ان کے مادی استحکام کے لئے انہوں نے اپنا بہت سارا وقت دیا، اور اس مقصد کے لئے وہ ہمیشہ دو قدم آگے رہے۔

بھٹکل میں رابطہ آفس جن نیک مقاصد کو لے کر قائم کیا گیا تھا، ابتدائی سالوں کے بعد اس کی سرگرمیاں ماند سی پڑگئیں، خلیجی ممالک سے رٹائرڈ ہوکر جانے والے بھی، اس سے رابطہ کا حق ادا نہ کرسکے، شاید وہ آخری آدمی تھے، جو دم واپسیں تک رابطہ آٖفس سے مربوط رہے، مقامی طور پر اس کی ترقی کے لئے سرگرداں رہے، اور یہاں پر اپنی مستقل حاضری درج کرتے رہے۔ان کے جانے سے حقیقی معنوں میں رابطہ آفس کے درودیوار پر اداسی چھا جائے گی۔

 وہ گزشتہ پنتالیس سال سے انجمن کی انتظامیہ ممبر اور پھر سرپرستان میں شامل رہے، چالیس سال سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی مجلس شوری کے رکن اور گزشتہ بیس سالوں سے مجلس عاملہ کے رکن اور مجلس ٹرسٹیان میں  شامل رہے، وہ اس ادارے کی تعمیری کمیٹی وغیرہ کے کنوینر بھی رہے۔ مرکزی خلیفہ جماعت المسلمیں کی مجلس انتظامیہ سے تو وہ اپنے سن شعور سے وابستہ تھے ہی، وہ اس کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے، اور جب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کررہی تھئ تو وہ اس جماعت کے منصب صدارت پر فائز تھے۔

مرحوم بلند اخلاق وکردار کے مالک تھے، بڑے بزرگان کی قدر سے واقف تھے، بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا مرحوم ان پر بہت اعتماد کرتے اور انہیں دل وجان سے چاہتے تھے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے، کوئی بیس سال قبل جب ڈاکٹر صاحب جامعہ کے عہدوں سے سبکدوشی کے خواہاں تھے، تو اس ناچیز رفاقت میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تھے، اور انہیں جامعہ میں عہدیداران کے  انتخاب کے اجلاس میں آمادہ کرکے لائے تھے، اوراس اجلاس میں ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ عہدہ صدارت قبول کیا تھا۔  جامعہ کی مجلس ٹرسٹیان  میں ڈاکٹر صاحب ہی کے رائے سے آپ شامل ہوئے تھے۔

یہ آپ کا طرہ امتیاز تھا کہ کبھی انہوں نے اختلاف کو مخالفت کا ذریعہ نہیں بنایا، ہم شہادت دے سکتے ہیں کہ قوم کے اداروں کی مجلس انتظامیہ اور اس کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سہی، اور ان کی ناکامیوں اور نااہلی کی دسیوں شکایتیں سہی، لیکن انہوں نے کبھی بھی ان اداروں کے خلاف عوام کی رائے کو جذباتی بننے نہیں دیا، اس بات کی ہدایت وہ ہمیں بھی وقتا فوقتا دیا کرتے تھے، اور کبھی اس قسم کی جذباتی باتوں کا موقع آتا تو زبان روکنے کا مشورہ دیتے تھے۔

وہ ایک بے ضرر انسان تھے، لہذا جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو عید کی خوشیوں کو بھنگ ہونے نہیں دیا، اور جب بھٹکل عید کی خوشیاں مناکر گہری نیند سونے کی فکر میں تھا، تو اپنی جان جان افریں کے سپرد کردی ، کتنا مخلص تھا وہ انسان، کیسی کیسی خوبیاں تھیں اس میں، قوم کا حافظہ جب بھی ساتھ دے گا، وہ دلوں میں زندہ ہے گا۔ اللہ اس کے نیک کاموں کو قبول کرے اور اس کے درجات بلند کرے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/