بدلتے روز و شب، نیا سال اور کیلنڈر کی کہانی

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے………..
از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
نئے سال کا جشن منانے کے حوالے سے بات جو شروع ہوئی تو مطالعہ اور تحقیق کے دوران کئی حقائق ایسے سامنے آئے جن کے تعلق سے اکثر ذہن میں سوال اٹھا کرتے تھے۔ اورکچھ باتیں جو ذہن و دل پر پہلے ہی سے واضح تھیں ان کے لئے دلائل بھی ہاتھ لگے۔ ہمارا دانشور طبقہ تو ان نکات سے آشنا ہوگا ہی، مگر میں چاہتا ہوں کہ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان دوستوں کے ساتھ ان معلومات کو شیئر کروں۔ کیونکہ نئے سال کا جشن منانے کے سلسلے میں ماڈرن طبقے کے علاوہ کچھ دینی حلقوں سے وابستہ احباب بھی زیاہ لبرل ہوتے جارہے ہیں اوربڑے اطمینان سے اپنے لبرل ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں ، بلکہ اس کاپرچار بھی کرتے ہیں۔ اوراس کے لئے بڑی فراخ دلی سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دین میں تنگی نہیں وسعت ہے۔
کاش آپ بھی تھوڑے لبرل ہوتے ! : کچھ دن پہلے اسلامی نہج پر قائم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے ایک عصری تعلیمی ادارے کی سربراہ سے اسلامی اقدار پر طلباء او اساتذہ کو قائم رکھنے کے سلسلے میں بات چیت ہورہی تھی اس دوران کچھ کوتاہیوں کی نشاندہی میں نے کر دی تو محترمہ نے بڑے اخلاص اور درد کے ساتھ مجھ سے کہا، سر آپ کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ کتنا potentialہے۔ آپ اتنے سینئر ہیں کہ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے، لیکن کاش آپ ذرا سا۔۔۔۔ تھوڑا سا۔۔۔ a little bit...۔۔۔میں نے پوچھا تھوڑا ساکیا؟۔محترمہ نے پھر۔۔۔ تھوڑا۔۔۔سا۔۔۔کہا تو میں نے پوچھا یعنی مجھے تھوڑا سا لبرل ہوجانا چاہیے؟!۔۔۔
تو محترمہ نے جملہ اچکتے ہوئے کہا۔۔۔yesss! ایسا ہوتا تو آپ سے سماج کو کتنا فائدہ پہنچتا!۔۔۔میں نے کہا محترمہ ! دین کی بنیادی باتوں پر عمل پیرائی اور ان کی پاسداری فنڈامنٹلزم ہے تو میرا موقف یہ ہے کہ میں فنڈامنٹلسٹ کہلوانا زیادہ پسند کروں گا۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ چودہ سوسالہ قدیم بنیادوں والے ایمان پر بھی قائم رہیں اور ماڈرن زمانے کے ساتھ ہر محاذ پر ہم آہنگ ہونے کی شریک کریں۔کہیں تو آپ کودین کے لئے دنیا کے تقاضوں سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا۔اس سچویشن میں میری کیفیت تو بس کچھ یوں تھی کہ:
دوست میرے حال پر روتے رہے اور مجھے ان پر ہنسی آتی رہی
لبرل ازم کی کوئی حد بھی ہے!: دین میں تنگی نہیں ہے یہ بات اپنی جگہ حق ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اعتدال پسندی، وسعت نظری، آزاد خیالی یالبرل اور موڈریٹ ہونے کی بھی کوئی حدہوگی آخر!حقیقت تو یہ ہے کہ اس دین میں تنگی نہ ہونے اور وسعت نظری کے اس غیرمطلوب اور نامسعودنظریے کو اتنا مستحکم کردیا گیا ہے کہ اب دین اسلام کو ہی لبرل یا موڈریٹ اسلام اور تنگ نظر یا فنڈامنٹل اسلام جیسے باقاعدہ دو خانوں میں بانٹ کررکھ دیا گیا ہے۔ اور جو دین کے بنیادی تقاضوں کے ساتھ مصالحت نہ کرتے ہوئے غیر دینی رجحانات کے فروغ میں معاون نہیں بنتا اسے فنڈامنٹلسٹ ، قدامت پسندقرار دیا جاتا ہے اور پورےسماج میں اور خود اپنے ملّی حلقوں میں ہی اچھوت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ لبرل یا موڈریٹ اسلام کا نمائندہ اسے قرار دیا جاتا ہے جو دین کے بنیادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتا ہے اور دین و شریعت مطہرہ کو دنیاوی اور نفسانی تقاضوں اور آلائشوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حمیت دینی کا سودا کربیٹھتا ہے۔ اوردنیا اسے سر پر بٹھائے رکھنے کا ناٹک کرتی رہتی ہے۔ ہمارے سامنے عبدالکریم چھاگلہ، حمید دلوائی، تسلیمہ نسرین، سلمان رشدی جیسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جنہیں دنیا نے لبر ل اسلام کا نمائندہ بنا دیاجبکہ وہ کفر و الحاد کی چوکھٹ پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور سوچنے والا سوچتا رہ گیا کہ :کردیا اہلِ حرم پر برہمن نے کیا فسوں شیخ بھی مصروف ہیں تعمیر بت خانہ میں آج
یہ بات ضمنی طور پرآگئی : بہرحال آزاد خیالی اور قدامت پسندی کے موضوع پر تفصیلی گفتگو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ چونکہ کسی معتبر شخصیت کے اس قول پرکہ "نئے سال کے جشن اور عیسائیت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے اگر کوئی مناتا ہے تو منانے دیجئے اس سے دین پر کوئی حرف آنے والانہیں ہے،"میں نے جائزہ لینے اور حقائق کو سپرد قلم کرنے کاسلسلہ شروع کیا ہے تو یہ بات ضمناً یہاں آگئی ۔ اس لئے بھی کہ بالآخرماڈرن زمانے کے گریگورین کیلنڈر کاسلسلہ جس کے تحت نیا سال منایا جاتا ہے بنیادی طور پر رومن تہذیب، مشرکانہ عقائد، عیسائی روایات اور غیر اسلامی نظریات سے ملتا ضرور ہے۔جبکہ دین کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی بھی دوسرے دین اور دھرم کے ساتھ ہماری مشابہت نہ ہو۔مجھے اپنی بات پیش کرتے ہوئے تنگ نظری ، قدامت پسندی، آزاد خیالی، وسعت نظری، اعتدال پسندی جیسے مختلف عنوانوں میں بٹے ہوئے ہمارے اپنے حلقوں کے ممکنہ منفی رد عمل کابھی احساس ہے۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ حقائق کے پس منظر میں اپنے قارئین کے سامنے یہ باتیں رکھنا ضروری ہے ، نہ جانے کس کے دل و دماغ کی مٹی کب نم ہوجائے ۔ وقت اورزمانہ کی حقیقت کیا ہے!: وقت اور زمانے کا تعین کرنے کے لئے دنیا میں کیلنڈروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔کیلنڈر اصل میں وہ خاکے ہیں جن کے اندر وقت کو تقسیم کیاگیا ہے۔ تو پھروقت کیا ہے ؟ وقت کا دوسرا نام زندگی ہے۔مگر اسے سمجھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔وقت کو کوئی ہاتھ کی مُٹھی میں بند ہونے کے باوجودہلکی سی جھری سے دھیرے دھیرے پھسل کر نیچے گرتی ہوئی ریت سے تشبیہ دے سکتا ہے۔ کوئی اس کی مثال دھوپ کی تپش میں اپنی رفتار سے پگھلتے ہوئے برف کے تودے سے سکتا ہے۔اور بھی بہت ساری تشبہیات اور استعارے وقت کوسمجھنے اور سمجھانے کے لئے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔لیکن طے شدہ بات یہ ہے کہ وقت یا زمانہ مسلسل سفر میں ہے ۔اور موسموں کے آنے جانے کا سلسلہ سیاروں کی گردش کے مطابق ہے۔جسے کسی نے صرف دو مصرعوں میں یوں باندھا ہے کہ:کس کی تلاش کونسی منزل نظر میں ہے صدیاں گزر گئیں ، زمانہ سفر میں ہے
وقت اور شاعر کا تخیل : اسی طرح وقت کے فلسفے پرہمارے عہد کے ایک مشہور شاعرجاوید اختر کی قدرے طویل مگر معرکۃالآرأ نظم"یہ وقت کیا ہے" پڑھنے لائق ہے۔ اس نظم کوجاوید اختر کی صرف فلسفیانہ تخلیق سمجھ کرپڑھنے کے باوجود کہیں نہ کہیں دینی نقطۂ نظر سے بھی اس کے اندرزندگی اور وقت کا شعور جاگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس نظم کا ابتدائی بند یوں ہے : "یہ وقت کیا ہے؟ ؍ یہ کیا ہے آخر ؍کہ جومسلسل گزر رہا ہے ؍یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا ؍کہیں تو ہوگا ؍گزر گیا ہے تو اب کہا ں ہے ؍ کہیں تو ہوگا ؍ کہاں سے آیا کدھر گیا ہے؟ ؍یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے ؍ یہ وقت کیا ہے؟" پھر یہ نظم جب آگے بڑھتی ہے تو شاعرکی سوچ اور اس کاکاتخیل گزرتے ہوئے لمحات اور صدیوں کے بارے میں ایک نئے زاویے کو اجاگر کرتا ہے۔ ۔کہ: "کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں ؍کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو تو ؍ ایسے لگتا ہے دوسری سمت جارہے ہیں ؍مگر حقیقت میں پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں ؍ ؍تو کیا یہ ممکن ہے ؍ ساری صدیاں ؍ قطار اندرقطار اپنی جگہ کھڑی ہوں ؍یہ وقت ساکت ہو ؍اور ہم ہی گزر رہے ہوں ؍۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔میں سوچتاہوں ؍ یہ سچ نہیں ہے ؍ کہ وقت کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ہے ؍ یہ ڈور لمبی بہت ہے لیکن ؍کہیں تو اس ڈور کا سِرا ہے ؍ابھی یہ انساں الجھ رہا ہے ؍ کہ وقت کے اس قفس میں پیداہوا ؍یہیں وہ پلا بڑھا ہے ؍مگر اسے علم ہوگیا ہے ؍کہ وقت کے اس قفس کے باہر بھی اک فضا ہے ؍ ؍تو سوچتا ہے ؍ وہ پوچھتا ہے ؍ یہ وقت کیاہے !" یہ اللہ کی نشانیاں ہیں: بہرحال یہ طے ہے کہ وقت مسلسل سفر میں ہے اور اسی گزرتے وقت کو گردش شام وسحر کا نام بھی دیا گیا ہے۔اور اس گردش شام و سحر یا موسموں کے آنے جانے کوقرآن کریم نے انسان کے لئے اللہ کی نشانیاں قرار دیاہے۔ تو پھرکیلنڈر کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ کیلنڈر کا مطلب گزرتے وقت کے اسی سفر کوایک جدول میں قید کرنا اور قطع وبرید سے بننے والے وقفوں کو مخصوص نام دینا ہے ۔جسے ہم روز و شب اور مہ و سال کہتے ہیں۔ آج سب سے مقبول عام کیلنڈرگریگورین کیلنڈر ہے جسے عرف عام میں عیسوی کیلنڈر کہا جاتا ہے۔جبکہ عالم اسلام کا اپنا اسلامی کیلنڈرہے جسے ہجری کیلنڈر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چونکہ آج کے دور میں گریگورین کیلنڈرہی دنیا بھر میں زندگی کے تمام معاملات کے لئے بلا تفریق مذہب و ملت ہر خاص و عام کے استعمال میں ہے اس لئے اس کیلنڈر کی حقیقت سے آشنا ہونا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔کیونکہ :ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں وہ قافلے جو تری رہگزر سے گزرے ہیں
(گریگورین کیلنڈر کی تاریخ ۔۔دن اورمہینے کے ناموں کی وجہ تسمیہ۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں)haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔