امداد کیجیے، مگر غریبوں کو رُسوا تو نہ کیجیے!۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

02:25PM Thu 25 May, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... دنیا میں انسانوں کے پاس مال و زر کی کمی و بیشی اورمعیشت کی مختلف تقسیم اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ہوتی ہے۔اگرکسی کے پاس مال کی زیادتی اور خوشحالی کا سامان ہے تو وہ بھی اللہ کی عنایتوں کا ہی ثمرہ ہے اور اگر کوئی محروم و تنگ حال ہے تو وہ بھی اللہ کی مصلحت اور نظام ہستی چلانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس پس منظر میں دنیا میں ایک دوسرے کے کام آنا اوراپنی خون پسینے کی کمائی اور اللہ رب العالمین کی طرف سے عنایت کردہ مال وزر کو غریبوں اور محروموں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنا انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال سمجھا جاتا ہے۔چونکہ اسلام انسانوں کی بھلائی، خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات کو فروغ دینے والا مذہب ہے، اسی لئے فطری طورپر صدقہ وخیرات اور انفاق فی سبیل اللہ اہل اسلام کے لئے ایک مطلوبہ اور لازمی صفت ہے۔ صدقہ وخیرات سے مال ضائع نہیں ہوتا: قرآن حکیم نے زکوٰۃ کے لازمی نصاب کے علاوہ صدقہ و خیرات کرنے پر ابھارتے ہوئے اس کے لئے اجروثواب کی بشارتیں دی ہیں۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں انفرادی و اجتماعی طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا جذبہ بدرجۂ اتم پایاجاتا ہے۔ صدقہ وخیرات کی وجہ سے انسان کا مال ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں ملنے والے اجر وثواب اور اضافے کی مثال رب کریم نے یوں بیان کی ہے کہ :"اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ زمین میں بویا، اس کی سات بالیں نکلیں،ہر بال میں سو دانے، اور اللہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے"(البقرہ:۲۶۱)یا پھر یوں بھی ارشاد ہو ہے :"تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کروگے،اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے"(سبا :۳۹)اسی طرح اللہ کی را ہ میں بہتر اور پسندیدہ چیز صدقہ کرنے سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ:"جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے ، بھلائی نہیں پاؤگے"(آل عمران:۹۴) صدقہ و خیرات کی فضیلتیں: صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کے بے شمار فضائل قرآن پاک کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں۔ جیسے کہ قرآن حکیم فرمایا گیا ہے کہ:"ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، اللہ تعالیٰ اُسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر عطافرمائے۔اللہ ہی تنگی و کشادگی دیتا ہے۔اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے"(البقرہ:۲۴۵)اسی طرح حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:*جہنم کی آگ سے بچو،چاہے کھجور کا ایک ٹکڑاہی دے کر(بخاری)، *صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا تا ہے (ترمذی) *صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو کم کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔(ترمذی)، *صدقہ کرو،کیونکہ یہ تمہیں دوزخ سے محفوظ رکھے گا ۔ (طبرانی) قرآن پاک میں صدقہ اور انفاق کرنے والوں کے تعلق سے ایک آیت یہ بھی ہے :"جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھُپے کھُلے خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے ، اور نہ انہیں خوف ہے نہ غم گینی۔(البقرہ : ۲۷۴)اس آیت کے پس منظر میں علماء کا ایک طبقہ انفاق فی سبیل اللہ کو علانیہ اور کھلے عام کرنے کی رائے رکھتا ہے تو دوسرے ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کو کھلے طور پر اور دیگر نفلی صدقات اور انفاق کو ڈھکے چھپے انداز میں اداکرناچاہیے۔لیکن متفقہ بات یہ ہے کہ چاہے کھلے عام ہویا ڈھکے چھپے مگر اس عمل کے پیچھے صرف اللہ کی رضا کا حصول ہی واحد مقصد ہونا چاہیے۔ ڈھکے چھپے صدقات اور عرش کا سایہ: ڈھکے چھپے خیرات و صدقات کرنے کی تائیداس حدیث پاک سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: ایسا شخص ان سات افراد میں سے ایک ہوگا جسے قیامت کے دن عرش کے سایے میں جگہ ملے گی،جس نے اس طرح صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہیں ہوئی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (بخاری)حالانکہ بظاہر ایک ناممکن عمل لگتا ہے، مگر اس سے مراد اتنی رازداری برتنے سے ہے کہ خود دینے والا بھول جائے کہ اس نے کس کو اور کتنا دیا۔لہٰذاعلمائے دین اس بات کے قائل ہیں کہ جہاں لوگوں کوایسے نیک عمل پر ابھارنا مقصود ہو تو پھر کھلے طورپرصدقات ادا کیے جائیں ورنہ پھر یہ کام رازدارانہ طور پر ہی کیا جائے۔ نیکیوں کا موسم بہار اور ہم : الحمدللہ اب تو خیر رمضان کا بابرکت موسم آگیاہے۔ صدقہ وخیرات میں ہر کوئی آگے بڑھنے اور اللہ کے دربار سے اجرو ثواب زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی مبارک کوششوں میں لگ جائے گا۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلوں کا موسم بھی شروع ہوگیا ہے ، تو ہر شہر اور قصبے میں امدادی کام کرنے،زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے ہجوم جمع کرنے ، نوٹ بکس اور کتابیں فراہم کرنے ، فیس اداکرنے جیسے امور بڑے پیمانے پر انجام دئے جائیں گے۔اس کے ساتھ ہی اخباروں میں اور سوشیل میڈیا پر نیکی کے ان کاموں کی خبریں اور تصاویر کا سیلاب سا آجائے گا۔جس میں صرف ادارے کے بینرس ہوں، امدادی سامان کی تصاویر ہوں تو خیر کوئی بات نہیں کہ اس سے دوسرے اداروں اور افراد کو بھی اس ضمن میں کام کرنے کی ترغیب مل جائے گی، لیکن معاملہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس دکھاوے اور شو بازی کا عنصر ابھر کر سامنے آتا ہے ۔

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے ہمارے دور کا انسان نیکی کرکے چیخے گا

آج کل ہو کیا رہا ہے!:اور میرے اس مضمون کا محرک اورمقصد ہمارے معاشرے میں پنپنے والا یہی نیا فیشن اس کے بد اثرات کی نشاندہی کرنا ہے۔ نیکیوں کے اس موسم بہار میں ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی رائج ایک نامسعود حرکت کے سلسلے میںآگاہ کرنا اور توجہ دلانا میرے پیش نظر ہے جس میں مجبوروں اور بے کسوں کے لئے ، یتیموں اور بیواؤں کے لئے اور ننھے منے اسکولی بچوں کے لئے امداد فراہم کرنے کے بعد ان کی تصاویر کوسوشیل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے ان کی رسوائی کا سامان کیا جاتا ہے۔جب بھی ایسی تصاویر میری نظروں سے گزرتی ہیں، تو دل میں ایک کسک سی ہوتی ہے جن میں کسی ادارے کے ذمہ داران اور امدادی پروگرام کے مہمانان خصوصی کے ہاتھوں سے ننھے منے بچوں کو نوٹ بکس، کتابیں ، یونیفارم لیتے ہوئے کیمرے کے سامنے کھڑے ہوئے دکھایا جاتا ہے، یا پھر یتیم بچیوں، بیوہ یا مفلس خواتین، کمزور و نحیف مردوں وغیرہ کوسلائی کی مشینں، راشن، رمضان کٹ، عید کٹ وغیرہ ارباب قوم اور عطیہ دہندگان کے ہاتھوں وصول کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ، حد تو یہ ہے کہ مفت ختنہ کیمپ منعقد کرکے معصوم بچوں کو قطار میں بٹھا کر تصویریں اتاری اور سوشیل میڈیاپر پوسٹ کی جاتی ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ صدقات و خیرات اور امداد و تعاون کے نیک کاموں کی تشہیر کرنے کے اس بھونڈے طریقہ پرہر غیرت مند دل کڑھتا ہوگا۔(ابھی جب یہ مضمون تحریرکیا جارہا تھا،تو تازہ ترین تصویر سوشیل میڈیا پر موصول ہوئی ہے جس میں حیدرآباد کے ایک معروف ادارے کے ذمہ داران درجنوں مستحقین،بچے بچیوں کے ہاتھوں میں امدادی کٹ تھما کر خود درمیان میں بڑی شان سے براجمان ہیں اور فوٹو سیشن کے لئے پوز دے رہے ہیں) یہ مستحقین کی رسوائی کا سامان ہے: ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ ان تصاویر کو سوشیل میڈیا پر کتنے ہی گروپوں میں شیئر کیا جاتا ہے اور گروپ در گروپ یہ سلسلہ رواں دواں رہتا ہے۔ ایسے میں ان محرومین کی عزت نفس کو کتنی ٹھیس لگتی ہوگی جب ان کی غربت و افلاس کی تشہیر ان تصویروں کے ذریعے اپنوں اور پرایوں میں ہوجانے خبر انہیں ملتی ہوگی۔یہ جو چھوٹے چھوٹے بچے آج کیمرے دیکھ کر بخوشی اپنے پوز دے رہے ہیںیا پوز دینے پر اکسائے جاتے ہیں، ان کی یہ تصاویر جب ان کے اسکولی ساتھیوں کی نظروں سے گزرتی ہوگی تو ان بچوں کی عزت نفس کو کیسی ٹھیس پہنچتی ہوگی!پھر کل جب یہ جوان ہونگے اوراگر اللہ کا فضل ان کے شامل حال ہواتو کوئی نامور شخصیت بن جائیں گے ، تب کبھی اتفاق سے ان کے حاسدین نے ان میں سے کوئی تصویرانہیں ذلیل کرنے کے لئے استعمال کرڈالی تو کیا ہوگا؟! سچ کہوں تو میری نظر میں یہ کسی کی غربت اور افلاس کا استحصال کرتے ہوئے اپنی خیرخواہی، سخاوت اور فیاضی کے پرچم لہرانے جیسا ہے۔اور اس کے بدترین انجام کی کہانی کیرالہ سے موصول ہوئی ہے۔

کچھ تصاویر بول پڑتی ہیں سب کی سب بے زباں نہیں ہوتیں

کیرالہ کی وہ غیرت مندمگر نادان لڑکی!: میرے ذہن و دماغ میں ہل چل مچانے والے اس وسوسے نے غربت و افلاس کی اس طرح کی ناپسندیدہ پبلسٹی کا ایک درد ناک انجام حقیقت کے روپ میں اس وقت پیش کردیا جب کیرالہ کی ایک غیرت مندمگر نادان لڑکی نے خود کشی جیسا انتہائی اقدام کیا۔تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ کنّور ضلع کے مالور کی رہنے والی اور شیوپورم ہائر سیکنڈری اسکول کی رفسینہ نامی ۱۷ سالہ طالبہ نے اس مرتبہ پلس ٹو امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا تھا۔ اس نے 1200مارکس میں 1180مارکس حاصل کیے تھے۔پھر کیا تھا ہر طرف سے اس کی ستائش ہونے لگی۔ اس کے گھر اور زندگی میں مبارکبادیوں کا جیسے سیلاب امڈ پڑا۔ ٹی وی چینلوں پر ہر طرف اس کی کہانی اور کامیابی کے چرچے عام ہوگئے۔ غربت کی پبلسٹی سے وہ ٹوٹ گئی : شہرت اور ستائش کسے پسند نہیں ہوتی، مگر کبھی کبھار ہمارے سامنے ایسے انسان بھی آجاتے ہیں ، جن کی سوچ اور ذہنی کیفیت کا اندازہ ہم لگا نہیں پاتے۔ رفسینہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ بے حد ذہین لڑکی تھی ۔مگر مالی اعتبار سے انتہائی غربت اور افلاس کی زندگی بسر کر رہی تھی،پھر بھی خود دار اتنی تھی کہ اپنے اسکول کے ساتھیوں کو بھی اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ صرف ایک کمرے والے چھوٹے سے گھر میں وہ کیسے بدحالی کے دن کاٹ رہی ہے۔وہ اپنی محنت اور صلاحیتوں کو اور اس سے ملنے والی کامیابیوں کو اپنی پہچان بنانا چاہتی تھی۔ اور جب اس نے اپنی تعلیمی زندگی کے ایک سنگ میل کو انتہائی شاندار انداز میں پار کرلیا تو میڈیا نے اس کی کامیابی کو ثانوی درجے میں رکھااور اس کی غربت اور تنگ حالی کو ا پنی کہانیوں میں نمایاں کرکے پیش کیا ۔ میڈیا شایدیہ بتانا چاہتاتھا کہ وسائل کی کمی کے باوجود رفسینہ نے کس طرح کامیابی حاصل کی۔ مگر اس کا نشانہ چوک گیا! اور اس نے اپنی جان دے دی!: رفسینہ اپنی نجی زندگی کی اس بدحالی کو دنیا کے سامنے اس طرح نمایاں ہوتے دیکھ کر برداشت نہیں کرسکی۔ میڈیا اور خاص کر ٹی وی چینلوں پر اس کی اسٹوری چلائی گئی تو کئی افراد اور تنظیموں کی طرف سے اسے سہارا دینے اور تعلیمی امداد فراہم کرنے کی کھلے عام پیش کش ہونے لگی۔ میڈیا نے اس بات کو بھی پبلسٹی دی۔ اس سے پہلے جن لوگوں نے اس کی خفیہ مدد کی تھی، کسی طرح وہ کہانیاں بھی عام ہوگئیں۔نہ جانے اس کی وجہ سے وہ کیسے کرب اور ملال کا شکار ہوگئی کہ وہ نادان بچی بالآخر پھانسی کا پھندا لگاتے ہوئے موت کی نیند سوگئی۔ اورجو نوٹ اس نے چھوڑا ، اس میں لکھا تھا: "میری زندگی میری اپنی ہے۔۔۔ اس میں کسی اورکی مداخلت مجھے پسند نہیں ہے!"

جانے کتنے ہنگاموں کی اس میں سمائی ہوتی ہے سناٹے کی گہرائی بھی کیا گہرائی ہوتی ہے

کاش ہمیں عرش کا سایہ نصیب ہوجائے: جیسا کہ ابتدا میں کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کامقصد اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے ، مگر آج ہم جس طرح امدادی کاموں کی پبلسٹی کررہے ہیں اس میں اکثر وبیشتر دکھاوے اور ریاکاری کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بالواسطہ ہی سہی ، مفلوک الحال اور محرومین کو ذہنی ایذا پہنچانے کا تو پورا پورا اہتمام ہوجاتا ہے ۔جس کے تعلق سے قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں دکھاوے کے لئے خرچ کرنے کے بعد احسان جتانے اورایذا دینے والے کا مال ضائع ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح حدیث پاک میں خفیہ طورپر خیرات کرنے والے کے تعلق سے کہا گیاہے کہ وہ قیامت کے دن عرش کے سایے میں ہوگا۔ اللہ کرے کہ ہمیں اخلاص اور للٰہیت کے ساتھ فلاحی خدمات انجام دینے کی توفیق نصیب ہوتاکہ قیامت کی اس گھڑی میں جس وقت کہیں کوئی سایہ نہیں ہوگا تو ہمارے صدقات و خیرات کی وجہ سے عرش الٰہی کا سایہ ہمیں نصیب ہوجائے۔آمین۔ haneefshabab@gmail.com