حامی اور ہامی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

12:52PM Sat 1 Jul, 2017

پچھلے شمارے میں کالم کا اختتام کہتر اور مہتر پر ہوا تھا۔ اس ضمن میں ایک بڑا دلچسپ قصہ ہے۔ تہران کی کارپوریشن کے سربراہ لاہور آئے۔ وہ مہتر تہران کہلاتے تھے۔ علامہ اقبال نے لاہور کارپوریشن کے چیئرمین (غالباً شہاب الدین) کا تعارف کرایا ’’اور یہ مہتر لاہور ہیں‘‘۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ اردو میں مہتر کس کو کہتے ہیں انہوں نے تو لطف اٹھایا مگر مہتر لاہور خفیف ہوکر رہ گئے، ایرانی مہتر بھلا کیا سمجھتا۔ فارسی میں مہتر سردار کو بھی کہتے ہیں ۔ لیکن کارپوریشن یا بلدیہ کے سربراہ کو مہتر کہنا زیادہ مناسب ہے، گو کہ کراچی سمیت کئی شہروں میں مہتر کام ہی نہیں کررہے۔ ایک عام غلطی اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے میں آتی ہے، اور وہ ہے ’’حامی‘‘ اور ’’ہامی‘‘ کا استعمال۔ عموماً اس میں خلط ملط ہوجاتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پٹی چل رہی تھی کہ عبدالرحمن ملک نے جے آئی ٹی میں حاضری کی ’’حامی‘‘ بھرلی۔ جسارت میں بھی یہی غلطی نظر آئی۔ حامی اور ہامی میں بڑا فرق ہے، اور حامی بھری نہیں جاتی۔ حامی عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے حمایت کرنے والا۔ اور ہامی ہندی کا لفظ ہے۔ ہامی بھرنے کا مطلب ہے کسی کام کے لیے اقرار کرنا، ہاں کرنا، وعدہ کرنا، زبان دینا وغیرہ۔ یہ شعر دیکھیے: کیوں مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے آہ جب دیکھ کے تجھ سا ستم ایجاد بھرے ہمارے صحافی بھائی ان میں فرق نہیں کرتے اور حامی بھر لیتے ہیں۔ صوبہ سرحد، جو اب خیبر پختون خوا ہے، وہاں کے ہمارے بہت سے بھائی خاندان کو بالالتزام ’’خانہ دان‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ تعلق کہاں سے ہے۔ خانہ دان کی ترکیب مہمل ہے لیکن بہت پڑھے لوگ بھی بڑے اصرار سے خانہ دان کہتے ہیں۔ وہ اگر خود اس ترکیب پر ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’خانہ‘ بھی گھر کو کہتے ہیں جیسے مثل ہے کہ ’’خانۂ خالی را دیو می گیرد‘‘۔ یعنی گھر خالی ہو تو اس میں دیو، جن بسیرا کرلیتے ہیں۔ اور ’دان‘ بھی کلمہ ظرف ہے، عموماً مرکبات میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قلم دان، خاص دان، اگال دان، پان دان، آتش دان، شمع دان، نمک دان۔ مطلب اس کا گھر، جگہ، مقام، خانہ وغیرہ۔ ’دان‘ جاننے والا کے مطلب بھی دیتا ہے جیسے نکتہ دان، زبان دان۔ ہندی میں ’دان‘ کا مطلب ہے صدقہ، خیرات وغیرہ۔ ناسخ کا شعر ہے: کب کسی سے وہ دان لیتے ہیں رنج دے دے کے جان لیتے ہیں ان معنوں میں ’دان‘ اردو میں اب مستعمل نہیں ہے۔ اگر ہے تو بھی عورتوں کی زبان پر، اور جہیز کے ساتھ یعنی دان جہیز۔ اب خانہ دان کہنے والے دو خانوں کو جمع کرنے کے مطلب پر خود غور کرلیں۔ یہ لفظ اصل میں خاندان ہے یعنی خان کا گھر۔ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور پہلے شاہانِ ترکستان کا لقب ہوتا تھا۔ اب ہر سردار اور امیر کو خان کہہ دیا جاتا ہے۔ عموماً ہر پٹھان کو بھی خان کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ ان میں بھی ہر ایک خان نہیں ہوتا۔ خاندان کا مطلب ہے گھرانا، نسل، قبیلہ، قوم وغیرہ۔ پھر خان کا لقب بطور اعزاز دیا جانے لگا جیسے خان بہادر، یا مرزا اسد اللہ خان غالب۔ اکبر بادشاہ کے اتالیق بیرم خان کے بیٹے عبدالرحیم کو خانِ خاناں کا لقب دیا گیا یعنی خانوں کا خان۔ جب ہم سعودی عرب کے ایک اخبار میں تھے تو کسی پٹھان نے اعتراض کیا کہ پشتو آتی نہیں اور نام کے ساتھ خان لگا ہوا ہے ۔ اُن سے پوچھا کہ کیا چنگیز خان، چَغتا خان، ہلاکو خان اور قبلائی خان وغیرہ پشتو بولتے تھے؟ چونکہ خان کا لفظ عموماً پشتو بولنے والے علاقوں میں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ یہ سمجھ لیا گیا کہ خان کو پشتو بولنا بھی آنا چاہیے۔ مغل دورِ حکومت کے عالمِ انحطاط میں ساداتِ یارہہ نے بڑی طاقت حاصل کرلی تھی اور بادشاہوں کا عزل و نصب ان کا کھیل بن گیا تھا۔ یارہہ ایک جگہ کا نام ہے جو سیدوں کی بستی تھی۔ لیکن ساداتِ یارہہ کے نام میں بھی خان لگا ہوا تھا جو غالباً دربار کی طرف سے عطا ہوا ہوگا۔ مثلاً سید ابراہیم خان۔ اہلِ فارس نے اس کی جمع خوانین بنا لی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ’’خانساماں‘‘ کی نسبت بھی خان سے ہے اور مغلوں کے دور میں یہ میرِ سامان کا لقب تھا جس کے ذمے محل وغیرہ کے سامان کا بندوبست کرنا تھا اور یہ ایک طرح سے وزیر یا داروغہ محل ہوتا تھا۔ انگریز مسلط ہوئے تو انہوں نے کھانا کھلانے والوں، خدمت گاروں اور ان کے لیے میز لگانے والوں کو خانساماں کہنا شروع کردیا۔ ہم نے بھی ان کی نقل میں باورچیوں کو خانساماں کہنا شروع کردیا، لیکن خوانین نے یا پشتو بولنے والوں نے اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا۔ درویشوں اور مشائخ کے آستانوں کو بھی خانقاہ کہا جاتا ہے اور وہ بھی ضروری نہیں کہ پشتو بولتے ہوں۔ امید ہے کہ خانہ دان کہنے والوں کو بات سمجھ میں آگئی ہوگی اور خانہ خالی نہ ہوگا۔ پورے ماہِ رمضان المبارک میں ہر برقی ذریعہ ابلاغ پر اور متعدد لوگوں کی زبان پر ’’اَفطار‘‘ یعنی الف پر زبر ہی سننے میں آیا۔ اگر افطار کے الف کو زیر کرلیا جائے تو بھی روزہ کھل جائے گا۔ کئی اہلِ زبان کو بھی افطار بفتح اول کہتے ہوئے سنا۔ جو اہلِ زبان نہیں ہیں ان کی بڑی تعداد نماز کے نون کو زیر (بالکسر) کرلیتی ہے۔ تاہم اس سے نماز ہوجاتی ہے۔ لاہور سے ہمارے ممدوح افتخار مجاز نے شکوہ کیا تھا کہ بیشتر چینلز پر ’’شبِ قدر کی رات‘‘ کہا جارہا ہے۔ غنیمت ہے کہ ’’شبِ لیلۃ القدر کی رات‘‘ نہیں کہا۔ عبادت کرنے والے اس سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ شب، لیل اور رات کا ایک ہی مطلب ہے۔ یہ تو ہم جیسے لوگ ہیں جو عبادت کرنے کے بجائے تلفظ اور غلط جملے کی پکڑ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں ۔ 18جون کے جسارت میگزین میں ایک ادیب، شاعر اور ادبی محافل کی رپورٹنگ کرنے والے محترم ڈاکٹر نثار احمد نثار نے ایک شاعر عزیز الدین خاکی کا بڑا مفصل تعارف کرایا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں ’’عزیز الدین خاکی نے زانوئے ادب طے کیا‘‘۔ شاید ان کے خیال میں زانو فاصلے کو کہتے ہیں، اسی لیے فاصلہ طے کردیا۔ اور شاید فاصلوں کو تہ کرتے ہوں جسے بہت سے لوگ زور دینے کے لیے ’’تہہ‘‘ کردیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ کبھی زانو تہ کرکے نہ بیٹھے ہوں ورنہ تو لوگ چہار زانو بھی بیٹھ ہوتے ہیں۔ عزیزالدین خاکی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ان کی بنیادی وصف۔ ۔ ۔ ‘‘ ممکن ہے یہ کمپوزنگ کی غلطی ہو، ورنہ ہمارے خیال میں وصف کیسا ہی کیوں نہ ہو، مذکر ہے۔ ایک جملہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے منسوب ہے کہ ’’ان کے یہاں نغمیت پائی جاتی ہے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہ جملہ ماہرِ لسانیات فرمان فتح پوری کا نہیں ہوسکتا ورنہ ’’یہاں‘‘ کی جگہ ’’ہاں‘‘ ہوتا، کہ فصیح اردو ’’ان کے ہاں‘‘ ہے۔ اسی طرح نغمیت بھی فرمان فتح پوری نے نہیں کہا یا لکھا ہوگا، سامنے کا لفظ ہے ’’نغمگی‘‘۔ اس سے نغمیت بنانے کا کام فرمان فتح پوری کا نہیں ہوسکتا۔ نغمہ سے نغمیت ہے تو صدمہ سے صدمیت بھی جائز ہے۔ ’’تھالی کے چٹے بٹے‘‘ کی غلطی تو اب غلط العام کے درجے میں داخل ہوتی جارہی ہے، جب کہ صحیح مثال ’’تھیلی کے چٹے بٹے‘‘ ہے۔ بعض لوگ ’’بھجیا‘‘ اور ’’بھرتا‘‘ کی ’’بھ‘‘ پر زبر لگاکر بولتے ہیں جب کہ لغت کے مطابق اس پر پیش ہے یعنی ’’بُھجیا، بُھرتا‘‘۔ تاہم زبر ہو یا پیش، ذائقے دار ہونا چاہیے، محض بھرتی کا نہیں۔

(اخباروافکارڈاٹ کام بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل)