آبروئے اردو ادب و صحافت ۔جناب حفیظ نعمانی صاحب ۔۔۔۔تحریر : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

07:40PM Thu 15 Jun, 2017

’ جب بھی ’اردو ادب و اردو صحافت ‘ کی فہرست بنائ جاۓ گی تو شہر مراد آباد کے ماتھے پر جگمگاتے جھومر ’سنبھل ‘ کا ذکر بار بار آۓ گا ۔اسی سنبھل کے ایک منفرد اور مدبر خاندان کے ایک ’ مرد مجاہد مولانا منظور نعمانی کے فرزند دلپسند ہمارے چچا جناب ’حفیظ نعمانی صاحب‘سے کچھ سوالات کرنے کی ہماری خواہش ضرور تھی مگر ’ ہمت ‘ نہیں ۔ لیکن ، دل نہیں مانا اور ہمت جٹا کر ’ہم انٹر ویو کی آگ میں کود پڑے ‘۔اب ہم ’ پار ‘ ہوں یا ’ڈوب ‘جایئں گے ، یہ ہمارے سوالات کی مضبوطی پر منحصر ہے، اگر چہ انہیں یا انکے خاندان کو کسی ’ تشہیر‘ کی ضرورت نہیں ہے مگر روز روز اخبارات میں انکی لکھی ’ کاٹ دار تحریروں ‘اور انکی ایک کتاب ’ روداد قفس ‘پڑھ کر جی چاہا کہ’چچا محترم ‘ سے کچھ اور سوالات کۓ جایئں  اور انکے مدبرانہ جوابات سے اپنی اور قاریئن کی ’تشفی ‘ کی جاۓ اور معلوم کیا جاۓ کہ ’ لگاتار’ سچ  ‘بولتے ہوۓ ان کو خوف کیوں نہیں آتا  ؟ جبکہ ایک بار سچ لکھنے کے محض اندیشے کی وہ سزا بھی پا چکے ہیں اور ’ دنیا  آج بھی وہی ہے کہ جو کہتی ہے ۔۔۔۔

’سچ لکھے گا تو دار پر ہوگا

بے وجہ انگلیاں فگار نہ کر ‘

سوال۔۔۔ ۱۔۔۔۔ محترم ،آپکے والد ماجد کو دنیا مولانا منظور نعمانی صاحب ’عالم دین‘اور ایک بزرگ کی حیثیت سے جانتی پہچانتی ہے ۔ہم آپ سے جا ننا چاہتے ہیں کہ بچپن سے آپنے اپنے والد ماجد کو ’والد ‘ کی اور ایک رہبر خاندان کی حیثیت سے کیسا پایا ؟

جواب ۔۔۔ ۱ ۔۔۔ بسم اللہ،محترم و مکرم اور برادر معظم ۔جیسے  اپنے کو دوست کہلا کر خوش ہونے والے ’مولانا مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی کی دختر نیک اختر فرزانہ اعجاز سلمہا نے شکاریوں کی اصطلاح میں ’۸ نمبر کے باریک چھروں والے کارتوس سے ‘’موٹی کھال ‘ والے حفیظ کو قابو کرنے سے لیکر دو نمبر پھر ایک نمبر پھر موٹے دانوں کے ایس جی اور پھر ایل جی کے بعد آخری نمبر یعنی ’ گولی ‘کا بھی استعمال کر ڈالا اور وہ ’حکم نامہ ‘جس کے جواب میں اب خاموشی اس لۓ  ممکن نہیں رہی  کہ وہ میرے چھوٹے بھائ میاں حسان نعمانی  کو بھی اپنا ’ہم نوا ‘ بنانے مین کامیاب  ہو گیئں ۔

   فرزانہ بی کو ضد ہے کہ وہ ’مجھے آبروۓ اردو ادب اور صحافت ‘مانیں اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ’ میں تو اپنے کو کوچۂ صحافت اور چمن زار  ادب  کے سب سے نچلے پائدان پر قدم رکھنے کا بھی اہل نہیں سمجھتا ۔ترنم میں  صرف شعر ہی نہیں پڑھے جاتےہیں ۔ سنا ہے کہ نثر  کا بھی ترنم ہوتا ہے ۔شاید قادر مطلق نے وہ ترنم عطا کر دیا ہو ،جسکی عمر صاحب ترنم سے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوتی ۔بہرحال فرزانہ بی نے تہیہ کرکے مجھے دنیا کے سامنے ’نمایاں ‘ کرنے کی جو مہم چھیڑ رکھی ہے تو میں بھی جو ’من مانی کرنے کے لۓ بدنام ہوں ،انکے محبت بھرے حکم کی تعمیل کرنے سے بچ نہیں سکتا ہوں کیونکہ سنا ہے کہ انکی طبیعت ناساز ہے۔

ہمارے والد بہت بڑے عالم دین تھے بیشک وہ بزرگ بھی تھے اور بہت بڑے اور بھرے پرے خاندان کے رہبر بھی تھے لیکن مزاج کے اعتبار سے  بہت سخت تھے ،یہ انکی سخت مزاجی کا ہی نتیجہ تھا کہ بریلی میں جو صرف ہم دو بھائ تھے ۔اور دونوں کا عالم یہ تھا کہ جب والد صاحب گھر میں ہوتے اور  لکھنے کا کام کر رہے ہوتے تو ہم دونوں گھر سے باہر’ الفرقان ‘ کے دفتر میں آجاتے تھے ، اور جب وہ دفتر میں آتے تو ہم گھر چلے جاتے تھے ۔اس وقت تو ہم سمجھ نہیں سکے تھے  لیکن جب خود الٹا سیدھا لکھنا پڑا اور ایک ہفتہ وار کا سولہ صفحات بہتر سے بہتر مضامین سے پیٹ بھرنا پڑا یا روزنامہ کے لۓہر دن ایک مضمون لکھنا پڑا تو سمجھ میں آگیا کہ ’وہ غصہ نہیں تھا ،بلکہ انکا زیادہ سے زیادہ وقت ’اپنے سے بر سرپیکار ‘رہنے میں گزرتا تھا ،

ہمارے  خاندان میں والد ماجد سے پہلے انکے بڑے بھائ مولوی محمد حسن ’ بدر ‘ سنبھلی شعر کہتے تھے جن  کے اشعار ہم نے پڑھے ہیں ۔ وہ  زیادہ تر مادہ ٔ

 تاریخ سے متعلق ہوتے تھے،جن میں سے کبھی کبھی  ’الفرقان ‘میں بھی چھپتے تھے ،اس کے علاوہ تصنیف یا مضمون نگاری کہیں تک بھی نہیں تھی ، اس زمانے کے ہمارے بزرگوں کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ والد ماجد نے اپنے والد سے تین سو روپۓ مانگے ، وہ اس وقت امروہے کے ایک مدرسے میں پڑھاتے تھے ،یہ بات دادا ابا کو معلوم تھی ،شاید اسی لۓ والد ماجد نےوضاحت کی کہ ’میرا ارادہ بریلی جا کر رسالہ نکالنے کا ہے ‘۔ دادا ابا کی تجوری کی چابیاں دادی کے پاس رہتی تھیں ،وہ کسی وقت اندر گۓ اور ہماری دادی  صاحبہ سے فرمایا کہ مولوی منظور کو تین سو روپۓ دے د ینا ،وہ بریلی میں کوئ ’پلٹن یا رسالہ ‘ نکالنے جا رہے ہیں ، سنبھل  بہت زرخیز ہونے کے باوجود بہت پسماندہ تھا ،جس دیپا سراۓ نام کے محلے میں دادا کی دو حویلیاں تھیں اور محلے میں کم از کم چھوٹے بڑے پچیس زمیندار تھے ،وہاں ہم نے اپنے بچپن میں کسی بھی زبان کا کوئ اخبار آتے نہیں دیکھا اور نہ کوئ رسالہ۔

دادا ابا اوسط درجے کے زمیندار تھے اور کھنڈساری شکر کا کاروبار بھی تھا ،انکے پانچ بیٹے تھے ، جن میں دو پہلی دادی مرحومہ کے تھے اور تین ہماری دادی کے ،جن میں سب سے بڑے والد صاحب تھے ،دادا ابا ہر موقع پر ابا جی سے فرمایا کرتے تھے کہ ’تمہیں جتنی ضرورت ہوا کرے روپۓ منگوا لیا کرو ‘بریلی میں ہم لوگ کراۓ کے مکان میں رہتے تھے ۔ دادا ابا اسے اپنے توہین سمجھتے تھے ،اور ہر ملاقات میں فرمایا کرتے تھے کہ اس مکان کو خرید کیوں نہیں لیتے ؟۔ جواب میں ابا جی ہمیشہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ’ہمارے چاروں بھایئوں کو اتنے اتنے روپۓ دے دیجیۓ ،میں بھی لے لوں گا ‘۔

ایک گفتگو خوب یاد ہے کہ دادا ابا ناراض ہوگۓ ،فرمایا ۔’ میرا اتنا بڑا عالم بیٹا کراۓ کے مکان میں رہے ،میں کیسے برداشت کروں ۔‘والد نے فرمایا ۔’کہ ابا جی ،مجھے جتنی آپکی محبت اور شفقت کی ضرورت ہے اتنی ہی اپنے دونوں بڑے بھایئوں کی محبت کی اور چھوٹوں کی فرمابرداری کی ۔ آپ جتنااور جب میرے چاروں بھایئوں کو

دیدیں میں اتنا آپ سے لیا کروں گا ، ‘ دادا ابا فرماتے تھے کہ ’وہ دین دار تو ہیں لیکن دنیا کے کام کرکے کما رہے ہیں ،تم صرف دین کا کام کرتے ہو ، ‘

یہ والد صاحب کے اس رویے کا نتیجہ ہے کہ دادا ابا کے انتقال کے بعد  ،عمر میں تو انکے دو بڑے بھائ ضرور تھے لیکن برتاؤ اور محبت میں ہر کوئ ایک سے بڑھ کر ایک تھا ، اور یہی وجہ تھی کہ لکھنؤ میں کم از کم آٹھ برس انتہائ تنگی میں گزار دۓ لیکن پورے خاندان میں کسی  کو اس کی ہوا نہ لگنے دی ۔

 والد صاحب نے اپنے طالب علمی کے آخری زمانے میں ’رد بدعت‘کے سلسلے میں ایک کتاب ’بوارق الغیب ‘لکھی تھی ۔اس کے علاوہ کبھی  نہ انکے منھ سے سنا نہ  دیکھا  کہ وہ کسی دوسرے رسالوں میں مضمون لکھتے ہوں یا اخبارات میں مراسلے ۔۔۔،وہ ’ مقرر‘ بھی تھے اور ’ مناظر ‘ بھی لیکن ’ صاحب قلم ‘ نہیں تھے ، ’الفرقان ‘ عمر میں ہم سے ڈھائ سال چھوٹا ہے،ہجری سنہ کے اعتبار سے اسکی عمر ’تیراسی ‘ سال ہے ،اسکا مطلب یہ ہے کہ جب ہم لوگ بریلی آۓ تھے تو انکے لکھنے کا ابتدائ زمانہ تھا ، اور انکے مضامین رد بدعت کے موضوع پر یعنی اختلافی ہوتے تھے ،  اور اب ہم بھی جان گۓ ہیں کہ اختلافی مضمون ’ تلوار کی دھار پر چلنے کے برابر ‘ ہوتے ہیں ،اس لۓ جب وہ لکھتے تھے تو اسقدر ’ کاٹ پیٹ اور ’ اشارے ‘ ہوتے تھے کہ انکے خاص کاتب ہی سمجھ پاتے تھے ،شاید یہی وجہ ہو گی کہ لکھتے وقت انہیں چڑیوں کی چہچہانے کی آواز  بھی  مداخلت معلوم ہوتی ہو گی، شاید اس لۓ کہ ان سے پہلے انکے خاندان میں تصنیف و تالیف کا کوئ ماحول نہیں تھا ۔

سوال ۔۔۔ ۲ ۔۔۔ آپکے بچپن میں آپکے اطراف تہذیبی اور علمی ماحول کیسا تھا ؟کیا ایسا ہی جیسا اب ہے یا اس سے کہیں بہتریا برتر؟موجودہ طرز حیات  اور کشمکش  زندگی  اور خاندانی اکائ کی ٹوٹ پھوٹ کا موازنہ گزرے زمانے کے پرسکون اور یکجہتی سے کرنے پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟خوش ہوتے ہیں یا دل کڑھتا بھی ہے ؟

جواب ۔۔۔۲۔۔۔ ہمارے بچپن میں تہذیبی اور علمی ماحول بالکل الگ تھا ، نہ اخبارات کی بھرمار تھی نہ میگزین تھیں  نہ ریڈیو نہ ٹی وی، ہم بچوں پر کھیل کی پابندیاں نہیں تھیں لیکن زیادہ وقت پڑھنے میں گزرتا تھا ، اور اہم بات یہ تھی کہ بڑے بہت بڑے تھے اور چھوٹے بہت چھوٹے۔۔۔ جسے ’ بچپن ‘ کہا جاتا ہے وہ ہمارا ’آدھا ‘ بریلی میں گزرا ،وہ ماحول ایسا تھا کہ ’دو بھایئوں میں ،جن میں اختلاف کی وجہ سے بات چیت بھی بند تھی،لیکن  ایک تفریحی پروگرام کے لۓ ’بڑے بھائ ‘ سے چندے کی درخواست کی گئ تو انہوں نے پانچ روپۓدۓ ،وہی ٹیم جب  انکے چھوٹے بھائ کے  پاس جا کر چندے کی بات کرنے لگی تو انہوں نے معلوم کیا کہ ’ بھائ صاحب نے کیا دیا ہے ؟‘اور جب انہیں پانچ روپۓ کی رسید دکھائ گئ تو انہوں نے بھی پانچ روپیۓ کا نوٹ نکال کر دیا اور کہا۔۔۔’رسید چار روپیۓ پندرہ آنے کی کاٹیۓ گا ‘۔۔۔ جس چھوٹے سے محلے میں اپنا گھر تھا تو اس میں ایک ہی کنبے کے شاید چالیس گھر ہوں گے ،وہ’اشراف ‘ کا محلہ تھا،اور بچوں اور نوجوانوں کے لۓ بھی ’شہر کے لڑکوں ‘ سے دوستی ممنوع تھی ،ان میں اسی فی صدی اعلا تعلیم یافتہ اور سرکاری عہدوں پر تھے اور باقی کمتر لیکن پیشہ ملازمت ہی تھی ، بجز ہمارے کہ رسالہ اور بک ڈپو تھا ، اور شاید ہم ہی ان سب کے درمیان ’ بالکل غیر ‘ تھے۔

جو آدھا بچپن سنبھل میں گزرا وہ زمینداروں میں تھا یا ’پلہ داروں میں ،انگریزی تعلیم براۓ نام تھی ،ہر طرف دینی تعلیم ، دین کا چرچا تھا اور نماز کی پابندی ،لیکن بڑے کافی بڑے تھے اور چھوٹے کافی چھوٹے ، جنکا بڑوں کے سامنے ننگے سر آنا بھی بد تمیزی تھا ،گھر گھر شکار کا چرچا ، اسکے قصے اور واقعات،بڑی بڑی حویلیاں تھیں اور مشترک خاندان تھے ، کہیں چولہے بھی مشترک تھے کہیں بنٹے ہوۓتھے ، دوستی اور دشمنی میں پورا خاندان ایک صف میں  کھڑا  نظر آتا تھا ، آج  وہ بہت یاد ’ آتا ہے ،اس لۓ کہ اس زمانے میں باپ ،بیٹوں کے لۓ ،بہنیں بھایئوں کے لۓ اور بیویاں شوہروں کے لۓ ترسا نہیں کرتی تھیں ،ہر دو چار گھنٹے کے بعد سب ایک دوسرے کے سامنے ہوتے تھے ۔کڑہن ’ آج کے ماحول میں اس لۓ بنی ہے کہ ’ جو حال  ’ع‘ کا  ہے وہی ’ غ ‘کابھی ہے ‘ ۔

   سوال ۔۔۔ ۳۔۔۔ آپ کی شخصیت کی تعمیر میں گھر کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اسکول اور ’اس وقت کی  سیاسی سرکشی ‘نے کیا کیا رول ادا کیا ؟

جواب ۔۔۔۔ ۳ ۔۔۔۔ شخصیت کی تعمیر میں گھر کا ماحول یہ ہے کہ ملک کے ممتاز علمأ  میں سے جو بھی بریلی آتا تھا وہ ’ مدرسۂ اشاعت العلوم ‘  یا والد صاحب کا مہمان ہوتا تھا ، چھوٹے گھر اور ڈھائ کمروں کا دفتر جن میں کاروبار بھی تھا ، دفتر کے کارکن بھی تھے اورمہمان خانہ بھی ۔گھر سے کھانا ناشتہ یا پانی بھی  لانا ہو تو’ہم ‘ ہی تھے  اور زمانہ تھا دوسری جنگ عظیم اور ملک کی تقسیم کی تحریک کا تو ’ خواہی نہ خواہی ‘بہت بڑے لوگوں کی ’ بہت بڑی بڑی ‘ باتیں کانوں میں پڑتی تھیں ،جن میں سے کچھ ٹوٹی پھوٹی دماغ میں پڑی بھی رہ جاتی تھیں ِ۔اور ’ وہی باتیں ‘آج سب سے قیمتی سرمایہ ‘ ہیں ۔

ہم جس گھیر عبدالقیوم میں تھے ، وہاں سو فی صد مسلم لیگ کے حامی تھے ،اور جمیعۃ علمأ کے علمأ اور والد صاحب مسلم لیگ کے سخت خلاف ،قدرتی طور پر ہر وقت یہی موضوع ہوتا تھا اور اسکا نتیجہ کہ نوے فی صدی پاکستان چلے گۓ اور ہم لکھنؤ آگۓ،

رہی اسکول کی بات تو ہم پہلے  بریلی میں بھی قرآن عظیم حفظ کرنے لگے تھے اور تین پارے یاد ہوگۓ تھے  کہ دادا صاحب نے یہ کہہ کر بلالیا کہ ’میرے پوتے کو جیسے مقوی کھانوں گھی ،دودھ کی ضرورت ہوگی ،اسکا انتظام میں کروں گا ‘۔اور والد ماجد نے ہمیں سنبھل بھیج دیا ، حفظ کے بعد بریلی آۓ تو’مصباح العلوم ‘ میں داخلہ ہو گیا ،وہاں مولانا عبدالحفیظ بلیاوی اور مولانا جلیل احسن نے جو کتابیں پڑھایئں ،ان پر عبور بھی ہوگیا ،اس درمیان مولانا علی میاں بریلی تشریف لاۓ اور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے انکا قیام طویل ہو گیا،اس درمیان علی میاں نے ایک دن فرمایا کہ ’حفیظ، دیکھیں تم کیا پڑھ رہے ہو؟‘اور مولانا نے امتحان لیا ،پھر والد صاحب سے فرمایا ۔۔۔۔’حفیظ میاں کو آپ لکھنؤ لاکر ’ ندوہ‘ میں داخل کر دیجیۓ‘،وہاں جو نصاب ہم نے بنایا ہے ، وہ انکے لۓ مناسب رہے گا ۔‘

تین مہینے کے  بعد ہم ’ندوہ ‘ آگۓ،جہاں دو سال ہم نے پڑھا ، بد قسمتی سے ندوہ کا یہ وہ زمانہ تھا جسے سب سے زیادہ انتشار کا دور کہا جا سکتا ہے ،کیونکہ اسکی آمدنی مسلم ریاستوں سے تھی ،جن کو نہیں معلوم تھا کہ ’ ملک کی تقسیم کے بعد انکا کیا حشر ہوگا ؟‘نتیجہ یہ تھا کہ ستر روپۓ تنخواہ پانے والے اساتذہ کو بھی وقت پر تنخواہ نہیں مل پاتی تھی ، والد ماجد  دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوراکے ممبر تھے اور سال میں دو مرتبہ دیو بند جاتے تھے ،ہمارے بڑے بھائ دار العلوم سے فارغ ہونے ہی والے تھے کہ  حضرت مولانا اعزازعلی صاحب نے والد سے فرمایا کہ ’علامہ انور شاہ کشمیری کے چھوٹے فرزند انظر شاہ جو جامعۂ ملیہ چلے گۓ تھے،انہیں بھی میں نے واپس بلوا لیا ہے، آپ حفیظ کو بھی میرے پاس بھیج دیجیۓ تاکہ میں دونوں کو دار العلوم کے نصاب کے مطابق تیار کر دوں ۔‘ [میں اب والد صاحب کو ’ابا جی لکھوں گا ۔جو زندگی بھر کہتا رہا ]ابا جی نے دیوبند سے واپس آکر یہ بات میرے سامنے رکھی ،ندوے میں ملک کی تقسیم کی وجہ سے عربی ادب کے جو سب سے بڑے استاد مولانا مسعود عالم ندوی تھے اور جماعت اسلامی سے جنکا تعلق تھا انہیں مولانا مودودی نے راولپنڈی بلالیا جہاں ایک ادارہ ’دار العروبہ ‘قائم ہواتھا ، جس میں مولانا مودودی کی کتبوں کا عربی میں ترجمہ ہوتا تھا ،اور ایک استاد مولانا مظفر حسین کشمیری بھی واپس چلے گۓ،ان کے جانے کی وھہ سے ہم نے بھی فیصلہ کرلیا کہ دیوبند چلے جایئں ،

دارالعلوم میں تین سال س طرح پڑھا کہ ایک سال شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نے ذاتی طور پر خود پڑھایا اور دو سال داخل ہوکر پڑھا ،اس طرح سات سال تعلیم میں لگے، لیکن ، دار العلوم  دیوبند سے ’عالم ‘ کی سند لۓ بغیر آنا مقدر تھا تو زبردست خارش کی وجہ سے آنا پڑا ،اور پھر ڈاکٹر عبدالعلی نے ابا جی سے کہا ۔ ’کہ انکو چاہے کہیں اور بھیج دیجیۓ دیو بند نہ بھیجۓ گا ۔ انہیں وہاں کا پانی راس نہیں آیا ہے اور خارش جیسی معمولی مرض کا  دو مہینے علاج ہوا ہے ۔‘

ملک کی تقسیم  کے اور پنجاب کی تقسیم کے بعد ’الفرقان‘اور کتب خانے پر بھی بہت اثر پڑا تھا ،اس لۓ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ اب کہیں نہیں جانا ہے اور اپنا کاروبار سنبھالنا ہے ‘۔ ابا جی اس کے لۓ تیار نہیں تھے ، لیکن ، میرے اصرار کے بعد نرم ہو گۓاور کہا ۔۔۔ ’کہ کسی دارالعلوم کی سند تو مولانا مودودی کے پاس بھی نہیں ہے ،اب اگر تم کہیں بھی نہیں جانا چاہتے ہوتو ایک بات گرہ میں باندھ لو کہ فرصت کا ہر منٹ کچھ پڑھنے میں صرف کرو،جو کتاب سامنے آجاۓ اسے پڑھ ڈالو۔‘ اور میں نے پڑھنا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔اور خود ہی لکھنا شروع کر دیا اور  اس دن سے آجتک ہزاروں صفحات لکھ ڈالے،

سوال۔۔۔۔ ۴۔۔۔۔ ’اصول پرستی ‘ اور ’حق گوئ ‘ کی خاطر ’اپنی جان تک  پر کھیل جانا ‘ تو آپکا شیوہ رہا ہے ۔لیکن، کیا ایسی ’ سر فروشی ‘آپکے خاندان اور اہل خانہ کے لۓ تکلیف دہ اور   باعث  پریشانی نہیں رہی ہو گی ؟

جواب ۔۔۔ ۴ ۔۔۔ مجھے اپنے خاندان اور اپنی شریک حیات اور بچوں پر فخر ہے کہ میری اس فطرت سے انہوں نے بار بار تکلیف اٹھائ لیکن ، اسے اپنے لۓ باعث فخر سمجھا اور یہی کہا کہ ۔۔۔۔

’یہ رتبۂ بلند ملا ، جسکو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں ؟‘

میں نو مہینے جیل میں رہا،شاید ہی کوئ اتوار ایسا ہو جو والد صاحب اور بھائ نہ آۓ ہوں ، اور شاید ہی کوئ جمعہ ہو جو بیوی بچے کھانے کے ساتھ نہ آۓ ہوں اور لدے پھندے نہ آۓ ہوں اور وہ اس لۓ خوش تھے کہ ان سب کو معلوم تھا کہ ہم کس لۓ گرفتار کۓ گۓ ہیں ۔؟

سوال۔۔۔۵۔۔۔ آپکی ’مجاہدانہ طرز زندگی ‘کا ذکرہم اپنے والد مفتی محمد

رضا انصاری صاحب سے اکثر سنا کرتے تھے ۔یہ سب کچھ ’سننے ‘ میں تو اچھا لگتا ہے مگر ’اس راہ پر چلنے والوں کے پاؤں کے آبلے اور دل پر پڑی ’کھروچیں ‘اور دماغ کے ورق پر کھنچیں تعصب اور بے جا زیادتیوں کی تحریریں کیسی کیسی اذییتیں دیتی ہوں گی ، یہ تو  صرف وہی جان سکتا ہے جو انہیں بھگت رہا ہو ۔کیا آپ آج بھی ان تکلیف دہ یادوں سے پوری طرح باہر آسکے ہیں یا نہیں ؟

جواب ۔۔۔۵۔۔۔ میں نے جیل سے باہر آکر جب ’ روداد قفس‘ ’نداۓ ملت ‘ مین قسطوں میں لکھنا شروع کیا تو ملک کا شاید ہی کوئ ایسا شہر ہو جہاں نداۓ ملت جاتا ہو اور وہاں سے اصرار کے ساتھ بلاوا نہ آیا ہو کہ ’جیسے بھی ہو حفیظ کو بھیج دیجیۓ ، لوگ انکو دیکھنا چاہتے ہیں ، ‘ اور مجبور ہوکر مجھے ایک سفر بھوپال،،برہان پور، کھنڈوہ ،وہاں سے مالیگاؤں ممبئ ،وہاں سے نظام آباد اور حیدرآباد اور نہ جانے کہاں  کہاں کا کرنا پڑا ۔ اور ہر جگہ یہ حال تھا کہ شکر ادا کرنے کے لۓ الفاظ کا ذخیرہ بھی کم تھا ، اور تنہائ میں بار بار آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے ، ۔۔۔ ’ کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل ؟‘

  روداد قفس کی چند قسطوں کے بعد رشتہ داروں کے خطوط آنا شروع ہو گۓ  تھے کہ کیا نو مہینے میں دل نہیں بھرا ؟‘۔۔۔۔ اس کے بعد ہماری حکومت نے پھر محبت کا ثبوت دیا اور بیس سے زیادہ مقدمے ’ایک سو ترپن ۔۔۔ اے ‘ کے صرف اس لۓ لگا دۓ کہ تنگ آکر یا تو اخبار بند کر دیں گے یا لکھنے سے توبہ کر لیں گے ، ‘ لیکن ، آپنے جنہیں ’آبلہ پا ‘ کہا ہے یا ’اذیت اور کھروچ ‘ کہا ہے ،اس نے دل میں ناسور تو کیا پھر اور ’ جرأت‘ عطا کردی جسکا نتیجہ تھا کہ یعقوب میمن کے مقدمے کے متعلق پورے ملک کے اردو صحافی کہلانے والوں میں ’ یہی ٹوٹا پھوٹا بوڑھا ‘ تھا کہ جس نے ہر دن لکھا اور اتنا لکھا کہ میرے چھوٹے بیٹے ہارون ، جو میرے پریس کے نگراں ہیں ،کے پاس محبت کرنے والوں کے فون آۓ اور کہا گیا کہ’ روداد قفس حصہ دوم ‘ کی تیاری کر لیجیۓ اور ہر پیار کرنے والے نے اشارہ دیا کہ ’حکومت کس کی ہے ؟ مگر کیا کروں ؟ میرے قلم سے وہ لکھا نہیں جاتا ، جس کے اوپر ’مصلحت ‘ کی چھتری ہو ۔

سوال ۔۔۔ ۶ ۔۔۔۔آپ تواتر سے مختلف اخبارات میں بے شمار سچے اور کھرے  مضامین لکھ رہے ہیں ۔ کیا کبھی ان ’ جواہر پاروں ‘کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کرنے کا خیال آیا ،تاکہ آنے والی نسلوں کے لۓ ’ مشعل راہ ‘ ثابت ہو سکیں ۔کیونکہ ایسے مضامین لکھنا ’ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔‘

جواب ۔۔۔ ۶ ۔۔۔ یہ تو نہ جانے کتنی بار لکھ چکا ہوں کہ ’ پروردگار نے وہ سب کچھ عطا کر دیا جس کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا اور ’ مانگا اسلۓ نہیں تھا کہ ’یہ منھ ، مسور کی دال ‘ والا محاورہ ہمیشہ پیش نظر رہا ۔ پھر بھی پانچ ہزار سے زیادہ میرے قلم سے لکھے ہوۓ مسودے موجود ہیں ،ہو سکتا ہے کہ ’ جس خالق کائنات نے سب کچھ دیا ہے  وہی ایک ایسا رفیق بھی دے دے کہ وہ چھپ جایئں ،لیکن ، اس کے لۓ مجھے کم از کم تین مہینے قلم رکھنا پڑے گا ،جو آج کے حالات مین مشکل ہے ۔

سوال۔۔۔ ۷۔۔۔ فی الوقت اردو ادب کا مستقبل ،آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ؟اور کیا اردو زبان کو ’تقسیم ہند ‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟جب کہ ’ قائد پاکستان ‘ کا اردو سے دور دور کا بھی کوئ واسطہ نہیں تھا ۔بد قسمتی سے ’ اردو کے علاقے تقسیم کی زد میں آگۓ؟

جواب ۔۔۔ ۷۔۔۔ ملک کی تقسیم میں اردوکو ذمہ دار ٹھہرانے والے جاہل ہیں ، مسٹر جناح اگر خود واقعی اردو جانتے ہوتے تو اسے ’ پاکستان کی سرکاری زبان ‘ ہر گز نہ بناتے ، جو بحیثیت علاقائ زبان بھی کسی صوبہ کی نہیں ، وہ بھی ہندوؤں کی طرح اسے ’ مسلمانوں کی زبان سمجھے‘اور جیسے ’ کلام پاک ‘ سب کا ہے ، اسی طرح جناح صاحب نے اردو کو بھی تمام مسلمانوں سے جوڑ کر یہ سمجھاکہ ’ اسکی وجہ سے پاکستان متحد رہے گا ۔‘

رہی بات اردو کے مستقبل کی تو یہ تو ہونا ہے کہ ’و خیرالقرون قرنی ثم الدین یلونہم ثم الدین یلونہم ‘جو ’ میر ‘ و غالب ‘ تھے انکے بعد ان سے کچھ کم تھے پھر ان کے بعد ان سے کچھ کم تھے ‘۔یا صحافت میں مولانا آزاد تھے پھر اترتے اترتے یہ وقت بھی آگیا کہ حفیظ کو بھی آپ جیسی منھ بولی رشتہ دار اور اپنے ہی معیار کے احباب صحافی سمجھنے لگے ۔

سوال ۔۔۔ ۸ ۔۔۔۔ اپنی ’ جنم بھومی ہندوستان ‘ میں اور ’ پڑوسی ملک پاکستان میں اردو زبان کی ترقی میں کیا کیا مراحل اور رکاوٹیں محسوس کرتے ہیں ،اور اردو ادب کی نئ نسل کو آپ اردو سے کتنا قریب محسوس کرتے  اور انہیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

جواب ۔۔۔ ۸ ۔۔۔ اسے ہم اردو کی ’سخت جانی ‘ یا ’محبوبیت‘ ہی کہیں گے کہ وہ جب دشمنی کے پچاس سال جھیل گئ اور جب مولانا آزاد کو ’مہا بکو چھڑا ‘ اور لیٹر باکس کو ’پتر گھسیڑ‘ کہہ کر اردو سے دشمنی کا اظہار کرنے والے ٹی وی چینل ہوں یا ہندی کے اخبارات بے تکلف فارسی کے الفاظ اور محاورے استعمال کر کے اپنا مافی ضمیر ادا کرتے ہیں ۔ اور ہندی کے اخبارات رمضان شریف میں ’پہلے صفحے‘ پر اوقات افطار و سحر اور عیدین کے موقع پر اندرونی صفحے پر ’عید کی نماز کس مسجد میں کتنے بجے ‘چھاپ رہے ہیں ،تو انشااللہ اردو کو بھی دیر سویر اسکا مقام دے دیں گے ۔اصل رکاوٹ ہندی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے ،اس میں اردو سے آدھی بھی ’ شیرینی ‘ آجاتی تو جلن اور حسد میں کچھ کمی ہو جاتی ،

رہا نئ نسل کو پیغام دینا ، تو اس  کے لۓ جتنا ’ قد آور ‘ ہونا چایئۓ، مجھے اعتراف ہے کہ میں نہیں ہوں ،البتہ میں اپنے ’ ہم عصروں ‘ سے ضرور کہوں گا کہ ’وہ اپنے چمن میں جتنے پھول کھلا سکیں ، اس میں لا پرواہی نہ کریں ‘

سوال ۔۔۔ ۹ ۔۔۔ اپنے والد محترم  کے ساتھ آپ بہت سی جلیل القدر شخصیات سے ملے ہوں گے ،سب سے زیادہ کس نے آپ کو متأثر کیا اور کیوں ؟

جواب ۔۔۔ ۹۔۔۔۔ انٹرویو کا نواں سوال سب سے زیادہ اس لۓ مشکل ہے کہ ابا جی کا شمار ملک کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا ،اگر سب کا نام لوں تو حضرت مولانا شاہ عبدالقادر راۓپوری،حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ،حضرت مولانا یوسف صاحب اور حجرت مولانا انعام الحسن صاحبان ،تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا ابوالاعلا مودودی سے لیکر ابا جی کے آخری عمر کے خادم خاص مولوی ضیأالرحمان تک اگر گنتی کی جاۓ تو سوسے زیادہ ہوں گے اور ان میں ایسے بھی بڑے اور بہت بڑے شامل ہیں کہ جن کے جوتے اٹھاۓ اور یہ سمجھ کر اٹھاۓ کہ ’یہ جنت کی کنجی بن سکتے ہیں ‘۔لیکن، پھر یہ بھی دیکھا کہ ان میں سے ہی کسی کا احترام کے ساتھ نام لیتے وقت یہ سوچنا پڑا کہ ’ غلطی تو نہیں ہو گئ ؟‘اس لۓ اسکا جواب صرف یہ دے سکتا ہوں کہ سو سے زیادہ عالموں سے دعایئں ملیں ، شفقت ملی اور محبت ملی اور علم ملا ‘۔ لیکن نام لینے سے اس لۓ گریز کررہا ہوں کہ پھر یہ بتانا مشکل ہوجاۓ گا کہ ’انکے نام کیوں نہیں لۓ جو قریب تر تھے اور ان کے نام کیوں ہیں جو انسے کم قریب تھے ۔‘اور یہ تجربہ ہر خوانوادہ کو ہوگا کہ کسی نے بہت متاثر کیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ۔۔۔۔ ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا ‘۔بس، ایک جملے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اپنی ہی نظر کی کمزوری تھی کہ جو دیکھ کر متأثر ہوا ، وہ فریب نظر ثابت ہوا ۔ ‘اور یہ انسان کے بس کی بات ہے بھی نہیں ۔

جواب ختم کرنے سے پہلے تین نام لینا چاہتا ہوں جو عالم کی حیثیت سے نہیں ،دوسری عظمتوں کی وجہ سے ایسے تھے کہ جنکا اثر قیامت تک رہے گا ، ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب جو عالم بھی تھے ِ ڈاکٹر بھی اور حکیم بھی ،لیکن ، وہ ایسے فرشتہ صفت تھے کہ انکا جیسا میں نے دوسرا نہیں دیکھا ، حافظ محمد اقبال جو شایر عالم نہیں تھے لیکن ایسے دین دار ایسے بے نفس اور ایسے پاکباز جنہوں نے سیکڑوں کو حافظ بنا دیا اور ایسا حافظ جیسا کہ پروردگار کی خواہش تھی کہ قرآن ایسے پڑھا جاۓ ۔

 محمد رضا انصاری فرنگی محلی کا نام ’ مقطع‘ کے لۓ چھوڑ دیا تھا  ’برسوں حیرت رہی کہ انہوں نے ’چیف رپورٹر‘بننا کیوں قبول کیا ؟ وہ زمانہ اردو اور اردو اخبارات کی انتہائ غربت کا زمانہ تھا ۔مفتی صاحب ہر جگہ سائیکل پر جاتے تھے اور انکی رپورٹنگ صرف قومی آواز ہی میں نہیں ،نیشنل ہیرالڈ اور نوجیون میں بھی اس لۓ چھپتی تھی کہ ’ان سے بہتر مسلمانوں سے متعلق رپورٹ کوئ تیار ہی نہیں کر سکتا تھا ‘

میرے جیسے کمتر  آدمی سے بھی مفتی صاحب کو جیسی محبت تھی وہ عام نہیں تھی ۔جب کانگریس پارٹی کی فرمایئش پر انہوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو فرمایا کہ’چودھری چرن سنگھ کو مجبور کرنا کہ ڈی پی بورا کے علاوہ کسی کو ٹکٹ نہ دیدیں ‘وہ چودھری چرن سنگھ کے اندرونی سیاسی فیصلوں کے بارے میں حقیر کے اوپر اعتماد کرتے تھے ،

’نداۓ ملت‘ کے دونوں دفاتر، پریس  اورڈاکٹر آصف قدوائ  صاحب کے گھر پر جب رات بھر چھاپے چلے تو ہم ہر جگہ موجود تھے اور ہر جگہ مفتی صاحب کوموجود پایا ،مفتی صاحب اس سے پہلے سب کچھ ہم سے معلوم کر چکے تھے ، انکی ’ انتہائ مفصل رپورٹ‘ قومی آواز  کے ساتھ نیشنل ہیرالڈ اور نوجیون میں بھی چھپی ۔اور اسی رپورٹ کا نتیجہ تھا کہ جیل کے  ہرافسر کو معلوم تھا کہ ’ کوئ اخبار والا بڑا اڈیٹر ‘آرہا ہے ‘۔پہلی رات میں ہی ماحول بدلنا اور دوسرے دن ہی ملاقات سامان آنا اور آخر وقت تک افسروں کا رویہ صرف اسی ’رپورٹ ‘ کے طفیل میں  تھا ، وہ ہمارے محترم دوست تھے اور والد ماجد ان کے اوپر بہت اعتماد بھی کرتے تھے  اور انکی قدر بھی کرتے تھے ، وہ بہت بڑے  تھے لیکن کبھی اپنے کو ظاہر نہیں کیا ۔کاش، جب ہم ’وہاں ‘ جایئں تو وہاں بھی کرم فرما کی رفاقت نصیب ہو جاۓ، آمین

سوال۔۔۔ ۱۰۔۔۔محترم ،اپنے کچھ پسندیدہ اردو ادبأ اور شعرأ کے نام بتایۓاور کچھ پسندیدہ کتابوں کے نام بھی اور کچھ پسندیدہ اشعار تحریر فرمانے کی بھی زحمت فرمایۓ؟

جواب ۔۔۔ ۱۰۔۔۔ جن شاعروں کو دیکھا ان میں ’جگر ‘مرادآبادی ،ماہر القادری، والی آسی، اور ان کے ہم عصر تمام شاعرجیسے ’بشیر‘بدراور جن کو نہیں دیکھا ’شکیب جلالی،پروین شاکر، اور ’ مجروح ‘ سلطانپوری اور ’فیض ‘ نے گہرا اثر چھوڑا ،رہے اچھے اشعار ، تو کبھی ہر اچھا شعر یاد رہتا تھا ، اب ۔۔۔ ’ کچھ بھی نہیں مجھکو محبت کے سوا یاد ‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

Farzana ejaz@hotmail.com