ماضی کے جھروکے سے، بھٹکل میں حفظ قرآن کی بہار۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Nawayat And Bhatkal

07:33PM Tue 28 Mar, 2023

حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ کی آمد اور  درجہ حفظ کا آغاز

جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو قائم ہوئے ابھی  سات سال گذرے تھے، کہ ۱۹۶۹ئ میں حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد ہوئی، اس وقت جامعہ کے ثانوی درجات  شمس الدین سرکل کے پاس جوکاکو مینشن  ( موجودہ دامن )  میں متقل ہوگئے تھے۔ وہ منظر ابھی ہماری آنکھوں میں محفوظ ہے،ظہر کا وقت تھا، جوکاکو مینشن کے ہال میں ایک کرسی آپ کے بیٹھنے کے لئے سجائی گئی تھی، ابھی آپ جامعہ میں داخل ہورہے تھے کہ آذان کی آواز کانوں میں پڑی، غالبا تجوید اور مخارج کے قیود سے یہ آذان عاری تھی، آپ کے چہرے پر ایک ناگواری کے آثار نمودار ہوئے، آواز بلند ہوئی کہ یہ کس گدھے کی آواز ہے؟۔

اس وقت آذان اکیس بائیس سال کے  ایک نوجوان بھٹکلی فارغ التحصیل دے رہے تھے، جو سال گذشتہ تدریس سے وابستہ ہوئے تھے۔ جو جذبہ سے پرتھے،  انہیں آگے بڑھنے ،بلند آواز میں آذان دینے اور عید کی تکبیرات وغیرہ پڑھنے کا  بڑا شوق تھا۔  ہماری ناقص رائے میں حضرت کا یہ جملہ بعد میں بھٹکل میں تجوید اور حفظ قرآن کے فروغ میں  تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، لوگوں کو اپنے نونہالوں کو اس جانب متوجہ کرنے کا رجحان شروع ہونے کا یہ ایک  اہم سبب بن گیا ۔

حضرت مولانا سید ابرار الحق علیہ الرحمۃ  کا پہلا سفر تو ایک تعارفی سفر تھا، اس کے بعد ہی آپ کو جامعہ کا سرپرست اعلی منتخب کیا گیا تھا، دو تین سال کے وقفے کے بعد ۱۹۷۳ء میں  مولانا ارشاد علی ندوی ؒ کے دور اہتمام میں آپ کی دوبارہ آمد ہوئی تو منتظمیں نے جامعہ کے ماتحت حفظ کے درجے کے باقاعدہ  آغاز کا فیصلہ کیا،  اس کی افتتاحی تقریب سلطانی مسجد میں رکھی گئی، اور باقاعدہ آپ کی دعاؤں سے درجہ حفظ کا آغاز ہوا، جامعہ کے ماتحت اس پہلے درجے میں حافظ عبد الرحمن اکرمی، حافظ محمد حسین اکرمی، حافظ محمد زبیر بن حسن ملا، اور محمد ریاض بن احمد ملا شامل تھے،  بعد میں اس قافلے میں حافظ ارشاد احمد صدیقی اور حافظ محمد مبین شینگری شامل ہوگئے۔ اس موقعہ پر حضرت شاہ ابرار الحق علیہ الرحمۃ نے حفظ قرآن کے اولین طالب علموں کو چاکلیٹ اور ایک ایک روپیہ کے ہدئے سے نوازا تھا۔ جامعہ کے ماتحت حفظ کا یہ درجہ مسجد فاروقی میں منتقل کیا گیا ، جہاں مولانا حافظ عبد السمیع کامل مرحوم، اور حافظ جمیل احمد قریشی مرحوم نے اس کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن یہ  اساتذہ زیادہ  دیر ٹک نہیں سکے، سال ڈیڑھ سال بعد کامل صاحب منگلور اور جمیل صاحب بھی چلے گئے، اور مستقل اساتذہ کی غیر موجودگی میں اس درجہ کی حالت بے حال ہوگئی، حفظ کے درجے کو باقی رکھنا ضروری تھا، لہذا متبادل کے طور پر جامعہ کے اساتذہ پر حفظ کے طلبہ کو تقسیم کیا گیا، اس دوران جن اساتذہ نے یہ ذمہ داری سنبھالی، ان میں مولانا محمد صادق اکرمی ندوی ، ماسٹر عبدالرحمن خان نشتر، مولانا محمد ایوب برماور ندوی قابل ذکر ہیں، یہاں تک کہ  ۱۹۷۳ء میں مہتمم کی حیثیت سے مولانا شہباز اصلاحی  صاحب اس منصب کو رونق بخشی۔اس طرح حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد کے ساتھ حفظ  قرآن کے لئے بھٹکلی طلبہ کا ہردوئی جانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جو آپ کی زندگی تک جاری رہا۔

((بھٹکل میں تحفیظ قرآن کا عہد زریں))

۱۹۷۴ء میں جامعہ اسلامیہ کے تعلیمی درجات کی جامعہ آباد منتقلی ہوئی، اور لشتم پشتم یہ سلسلہ چلتا رہا ، یہاں تک کہ مہتمم جامعہ مولانا شہباز صاحب نے حفظ قرآن کے شعبہ کو منظم کرنے کے لئے حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ سے ہردوئی سے ایک تجربہ کار محفظ کی فراہمی کے سلسلے میں رابطہ قائم کیا اور ۱۹۷۷ئ کے اوائل میں حضرت کی ایمائ پر مہتمم جامعہ اپنی رفاقت میں اشرف المدارس ہردوئی کے ایک تجربہ کار استاد حافظ کبیر الدین  (پہانوی )  کو جامعہ آباد لے آئے، اور حضرت کی سرپرستی میں بھٹکل میں تحفیظ قرآن کی نشات ثانیہ کا آغاز ہوا، حافظ صاحب نے اس شعبہ کے صدر مدرس کی حیثیت سے  (۳۵ ) سال تک وابستہ رہے، اور اس دوران آپ کی زیر سرپرستی کئی نسلیں فیض یاب ہوئیں،مہتمم جامعہ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم کے دور میں اس شعبہ کو بڑی وسعت نصیب ہوئی، جامعہ آباد میں تحفیظ القرآن کے لئے مخصوص عمارتوں  کے ساتھ شہر میں جامعہ کے کئی ایک مکاتب میں تحفیظ قرآن کے درجات قائم کئے گئے۔

الحاج محی الدین منیری مرحوم کے دل میں سیاح ابن بطوطہ کی یہ بات ترازو ہوگئی تھی کہ سلطنت ہنور میں نوائط خواتیں سبھی حافظ قرآن ہوا کرتی تھیں، اپنی تقریروں میں آپ یہ تذکرہ بار بار کرتے تھے، یہاں تک اللہ تعالی نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے بعد آپ کے ہاتھوں مستورات کی دینی تعلیم کے لئے ۱۹۷۴ء میں   جامعۃ الصالحات بھٹکل کی تاسیس رکھی، اس وقت آپ کو بھوپال کی ایک فارغ التحصیل عالمہ محترمہ عارفہ صاحبہ  ( زوجہ مولانا منصور علی ندوی سابق پروفیسر انجمن کالج ) جیسی باصلاحیت مدرسہ مل گئیں، چند سالوں میں یہاں پر مستورات کے لئے تحفیظ قرآن کے درجہ کا آغاز ہوا، اور ان  کوششوں سے دیکھتے دیکھتے بھٹکل کا ہر گھر حافظات قرآن سے معمور ہوگیا۔

اس دوران ۱۹۷۷ء میں بچے اور بچیوں کے لئے مستقل  مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم کا قیام عمل میں آیا ، جس نے محدود پیمانے پر سہی لیکن اس میدان میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔اس مدرسے کے قیام میں مولانا محمد اقبال ملا ندوی، برہان الدین باشا صدیقی، عبد الرحیم رکن الدین حلوائی  ، مولانا محمد صادق اکرمیؒ جیسی شخصیات فعال رہیں۔اور پھر اس میدان میں مختلف ادارے ،اسکول اور محلہ وار کلب بھی متحرک ہوگئے اور یہ بابرکت سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

 جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے سرپرست اعلی حضرت مولانا سید ابرار الحق خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ علیھم، تجوید کے معیار اور حفظ کی مضبوطی کے سلسلے میں ایک نمونہ تھے، اپنے وقت میں آپ کے زیر سرپرستی  قائم اشرف المدارس کا معیار تجوید اور حفظ میں برصغیر میں سب سے زیادہ معیاری شمار ہوتا تھا،جب تک حافظ کبیر الدین فعال رہے ، اور ان کے قوی نے ساتھ دیا  جامعہ میں تحفیظ کا معیار اپنی بلندیوں کو چھورہا تھا، لیکن حالات کے تقاضوں اور معیار پر کثرت  تعداد کے غلبے کی صورت میں تعلیم کا معیار کا گھٹنا جس طرح ایک فطری بات ہے،  اسی طرح حافظان قرآن کے تدریس، اور امامت کے میدانوں سے وابستگی نہ ہونے کی صورت میں حفظ قرآن کا معیار کم ہونا  کوئی تعجب کی بات نہیں ، اسی طرح گزشتہ کچھ عرصے میں مخارج اور تجوید سے زیادہ ائمہ حرم کی نقالی  کا رنگ بھی ائمہ پر حاوی رہا ، جس کے منفی اثرات  تجوید ، مخارج اور حفاظ کرام کے معیار پر ظاہر ہونے لگے۔

((جمعیت الحفاظ بھٹکل کا قیام))

۔ ۱۹۹۰ء  کی دہائی میں جامعہ فارغ چند قدیم حفاظ تجوید اور حفظ کے گرتے معیار کو محسوس کیا، اور  اس سلسلے میں مہتمم جامعہ مولانا عبد الباری ندوی مرحوم سے بھی تبادلہ خیال کیا، جس کے بعد  حفاظ کرام میں  تکمیل کے بعد اپنے حفظ سے تعلق باقی رکھنے، اس کے معیار کو بڑھانے، اور مساجد میں تراویح کو منظم کرنے کی فکر کو لے کر ۱۹۹۷ء میں جمعیت الحفاظ بھٹکل کا قیام عمل میں آیا، پندرہ سال تک اس کی سرگرمیاں محدود رہیں، ۲۰۱۳ء میں اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ذمہ داران نے اس کی نشات ثانیہ پر توجہ دی، اس جمعیت سے اس وقت بھٹکل کے حفاظ کرام وابستہ ہیں، اس کی سرپرستی  میں سالانہ حفظ قرآن کے مقامی مقابلے،  اور دو سالہ ریاستی اور ملکی سطح کے مقابلے ہوتے ہیں، اس جمعیت نے ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے نابینا حفاظ کرام کا کل ہند مقابلہ  بھی منعقد کیا تھا۔

اس وقت مسلم معاشروں میں حفاظ کرام کو کئی ایک  خطرات اور چیلنج درپیش ہیں، قرآن جس طرح جلد یاد ہوتا ہے، اس کی بے قدری پر سینوں سے اسی طرح جلد  مٹ بھی جاتا ہے، اس کا یاد کرنا جہاں بڑی عبادت ہے ، اور والدین کی نجات کا ذریعہ ہے، اسی طرح اس کےبھول جانے پر بڑی وعید آئی ہے، دوسرا بڑا مسئلہ حفظ قرآن کے بعد حافظان قرآن کو ایسے ذرائع معاش کو اپنا نے پر مجبور ہونا ہے جن میں مصروف ہوکر  قرآن پاک کو سینے میں محفوظ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، اور سب سے بڑا مسئلہ منتظمین اور مدرسین کی بے توجہی سے تحفیظ قرآن کے طلبہ کو سالہا سال پڑے رہنا، اور عمر بڑھ جانے کی وجہ سے تعلیم میں اپنے ہم جولیوں بچھڑ جانا، او ر تعلیمی درجات میں تین چار سال پیچھے رہ جانا، اور تعلیم سے دل اچٹ جانا  بھی شامل ہے۔ جس طرح دینی تعلیم کی راہیں وطن عزیز میں مسدود ہوتی جارہی ہیں، انگریزی میڈیم اسکولوں کی طرف سرستوں کے رجحان، اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کے سلسلے میں نئے نئے معیارات اور حکومت کی جانب سے روانہ پیش ہونے والی دشواریوں کی وجہ سے  حفظ قرآن کے وقار کو بڑھانے کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ آئندہ دنوں میں ہماری مخلص دینی قیادت اس سلسلے میں فکر مندرہے گی، اور زمانے کی تبدیلیوں اور نت نئی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ مناسب رہنمائی کرتی رہے گی۔ واللہ ولی التوفیق۔

2023-03-26