مرکزی حج کمیٹی سے آر پارکی بات کی جائے

Bhatkallys

Published in - Other

02:41PM Tue 24 May, 2016
حفیظ نعمانی ہرسال کی طرح اس سال بھی مرکزی حج کمیٹی کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ خادم الحجاج کے کوٹہ میں کن حضرات کو بھیجا جائے ؟مرکزی حج کمیٹی اس پر بضد ہے کہ سرکاری ملازم جائیں ۔ممبرپارلیمنٹ چودھری سلیم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس پالیسی کو بد لنا چاہئے اور ملک کےبڑ ے دینی مدرسوں کے ایسے علما کو بھیجنا چاہئے جو حج کے مسائل سے بھی واقف ہوں اور سعودی عرب کے افسروں سے عربی میں ضروری بات بھی کرسکتے ہوں ۔ غور کر نے کی بات یہ ہے کہ خادم کا کام کیا ہے؟مقصد تو صرف یہ ہے کہ اپنے ملک کے حجاج کو اجنبیت کی وجہ سے پریشانی ہو تو وہ انکی مدد کریں ۔اور مدد وہ کر سکتا ہے جو وہاں کی زبان سےبھی واقف ہو،جسے یہ بھی معلوم ہوکہ ڈاکٹر کہاں ملیں گے ۔دوا کس دکان پر ملے گی اور انکی وہ چیز یں کہاں ملیں گی جنکے وہ عادی ہیں ؟یہ صرف وہ بتا سکتے ہیں جو وہاں کی زبان سے واقف ہوں اور کم از کم ایک بار انھوں نے خود حج کیا ہو ۔ کسی کا سرکاری ملازم ہوناکوئی بری بات نہیں ہے ۔لیکن سرکاری ملازم توایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں جو مدارس کے عالموں سے زیادہ دین دار اور پاکباز تھے ۔لیکن عام طور پر جو سرکاری ملازم ہوتے ہیں وہ جن اداروں سے پڑھتے ہوئے آتے ہیں اور اپنے گھر کے جیسے ماحول سے نکل کر آتے ہیں وہ مکۂ معظمہ اور مدینہ منورہ کے نہ اہم مقامات سے واقف ہوتے ہیں ،نہ آداب سے نہ اہمیت سے ۔اگر وہ بھی واقعی دین دار اور دینی فرائض کے پابند ہوں ،انکے اندر دین کی طلب بھی ہو تو ایسے حضرات کو بھی بھیجنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ دشوراری سب سے بڑی یہ ہے کہ جو حضرات خدام کا انتخاب کریں گے وہ خود اسکے اہل نہیں ہیں کہ دین اور شریعت کے معیار سے کسی کو پرکھ سکیں؟ مرکزی حج کمیٹی کے ایک چیئر مین صاحب نے اس کا اعتراف کیا تھا کہ عازمین حج سے جو چھ مہینہ پہلے اربو ں روپیہ لے لیا جاتا ہے وہ بینک میں فکس ڈپازٹ کر دیا جاتا ہے ۔اور اسکے سود سے حج کمیٹی کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں ۔اور انکے نزدیک یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔جبکہ سب حرام ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو معلوم ہے کہ حج کے سفر کے لئے سفر کی اور ضرورتوں کے لئے کیسا روپیہ ہونا چاہئے ؟وہ جانتے ہیں کہ جب انکے روپیہ سے سود لے لیا گیا تو وہ بھی ناپاک ہوگیا ۔اور یہ حج کمیٹی کا حاجیوں کے ساتھ پہلا ظلم ہے ۔ہم ایسے کئی محتر م دوستوں سے واقف ہیں کہ اربوں روپے کے مالک ہوتے ہوئے وہ حج کے لئے تڑپ تڑپ کر مر گئے اور اس لئے حج نہ کرسکے کہ جسکے دربار میں جارہے ہیں وہاں ناپاک روپے کے سہارے کیسے جائیں ؟اور کیا منہ دکھائیں ؟کیوں کہ دیا ہوا تو ایک روپیہ سے سو کروڑ تک ہر پیسہ انکا ہی ہے ۔ہمیں یہ بھی معلو م ہے کہ بعض بازاری مولویوں نے انہیںترکیب بھی بتائی اور خدا انہیں معاف کرے انھوں نے یہ جواب دیا کہ کیا پاک پرور دگار بھی کوئی سیلس ٹیکس یا انکم ٹیکس کمشنر ہے کہ کھاتوں میں ہیرپھیر کرکے دکھایا جائے ۔؟اور کالے کو سفید بنادیا جائے ؟ چودھری منور سلیم صاحب نے جب یہ مسئلہ اٹھا یا ہے تو ہماری دعائیں اور تعاون انکے ساتھ ہے وہ اس کو گھاٹ سے لگادیں اور اپنے ساتھ ایسے ممبران کو لیں جن سے وزیر اعظم کو پر خاش نہ ہو۔ اور ان سے وقت لیکر پوری بات سمجھائیں کہ حج کیا ہے ؟خادم کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیسا ہو نا چاہئے ؟سود کو اس پرور دگار نے جسکے درپر جارہے ہیں اپنی کتاب قرآن عظیم میں جگہ جگہ حرام کیا ہے ۔ لینا اور دینا دونوں سخت گناہ ہیں ۔حج کمیٹی کو کیا حق ہے کہ وہ ہر عاز م حج کے پیسے سے سود وصول کرے اور اس حرام پیسے سے خادموں اور سرکاری وفود کو اس کے گھر بھیجے جس نے سختی کے ساتھ سود کوحرام کیا ہے ۔؟ وزیر اعظم کو بتا یا جائے کہ ہر حج کو جانے والےسے 6مہینہ پہلے حج کمیٹی کل رقم وصول کرلیتی ہے ۔اس سال جانے والے 15اگست سے جانا شروع کریں گے ۔اتنے دنوں کا سود کروڑوں روپیہ ہوتا ہے ۔جس سے وہ تمام غیر شرعی حرکتیں ہوں گی جو ناجائزہیں ۔حج کمیٹی کو سود کے روپے سے اخراجات پورے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔وہ درخواست کے ساتھ ٹوکن کے طور پردس ہزار ولے لے ۔ حج کا سفر ایسانہیں ہے کہ کہیں سیر سپاٹے کے لئے جانا ہے کہ اس سال نہیں تو اگلے سال ۔نہیں تو اسکے بعد چلے جائیں گے۔حج کے لئے پروردگار نے فرمایا ہے کہ اگر مسلمان صاحب نصاب ہے تو وہ ایک بار حج بھی کر آئے ۔اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اپنی شرعی ذمہ داریاں پوری کرکے آئے ۔جب تک پانی کے جہاز سے جانا ہوتا تھا تو ہر ذمہ دار مسلمان ہی نہیں علما بھی لڑکیوں اور لڑکوں کے رشتوں سے فارغ ہو کر جاتے تھے ۔اور اب بھی اکثریت بوڑھے عازمین حج کی ہوتی ہے ۔کیوں کہ وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو پوراکرکے جاتے ہیں ۔ حج کمیٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ کل رقم اس لئے لے لیتے ہیں کہ کیا خبر حج کو جانے والا سفرملتوی کردے اور جگہ خالی جائے ؟حج کو جانے والا کچھ بھی ہو جائے سفر ملتوی نہیں کرتاسوائے اسکے کہ وہ خود ہی مر جائے ۔ ہم کو جب پروردگار نے توفیق دی تو ایسے وقت گئے جب 15دن باقی تھے ۔مکہ معظمہ میں ایک بھتیجی اپنے شوہر کے ساتھ تھی ۔ہم نے دس دن انکے ساتھ گذارے ۔اور ہر بات علم میںآئی ۔حج میں مکہ اور مدینہ دو جگہ حاجیوں کو رہنا ہوتا ہے ۔دونوں جگہ حج کے خادموںکے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔حاجیوں کی ذمہ داری تو معلم کی ہوتی ہے ۔ایک حاجی کو اگر وہ بڑے ہوٹلوں میں نہیں ٹھہرائے تو اسے صرف تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی جگہ ملتی ہے ۔جو حاجیوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے ۔تو یہ خادم کہاں جائیں گے ؟اور جب انکا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہوگا تو ان سے کون خدمت لے گا ۔اور یہ کسکی خدمت کریں گے ؟ حج کو جانے کے شوق میں خادموں کی بھی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ واپس آنے والے خادموں سے ساری کہانی سنتے ہیں ۔لیکن صرف ا س لئے کہ حج نصیب ہو جائے گا وہ چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ پہلے ہمارے ٹھکانے کا انتظام تو کردیجئے ۔اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نہ کسی حاجی کو معلوم ہوتا ہے کہ انکا خادم کون ہے ۔اورنہ ہی خادم کو معلوم ہوتاہے کہ کتنے حاجیوں کی خدمت کرنا ہے اور وہ کون کون ہیں ؟بات صرف یہ ہے کہ سود کا حرام روپیہ کاٹتا ہے اور حج کمیٹی کے ذمہ دار۔اندھا بانٹے ریوڑی ۔کے طریقہ پر اپنے رشتہ داروں جاننے والوں اور ان بے ایمان نوںکو خادم کے کوٹہ سے بھیج دیتے ہیں جو وہاں سے ایسا سامان لاتے ہیں جو یہاں دوگنی قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے ۔اللہ ہمیں معاف کرے ہمیںتو یہ بھی سننے کو ملا کہ بعض بدنصیب وہاں جانے کے بعد بھی حج نہیں کرتے بس گھوم کر آجاتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک ہفتہ تک جو حج کے ارکان ہیں وہ انتہائی سخت ہیں اور وہی اس ہفتہ کا ہر منٹ وصول کرتا ہے جو ایک لاکھ سے زیادہ خرچ کرتا ہے ۔ اب تک کانگریس کا اقتدار تھا ۔انکے نزدیک مذہب ایسی چیز ہے جس میں دخل نہ دینا چاہئے ۔وزیر اعظم شری مودی مذہبی آدمی ہیں مذہب کی نزاکتیں سمجھانا انہیں آسان ہے ۔چودھری سلیم صاحب اپنے ساتھ مولانا بدرالدین اجمل کو بھی مناسب سمجھیں تو لے لیں تاکہ حج کی باریک سے باریک بات بھی انہیں سمجھائی جاسکے ۔ان سے عرض کر دیا جائے کہ اس مسئلہ میں نہ تو سنی ،شیعہ یابریلوی ،دیوبندی کا مسئلہ ہے ۔اورنہ کس ذات برادری یا سیاسی پارٹی کا ۔ یہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے ۔کوئی اجازت نہیں دیگا کہ اسکی زندگی بھر کی پاک کمائی کو سود سے ناپاک کیا جائے ۔اور کوئی نہیں چاہے گاکہ حرام کے روپے سے خادم بھیجے جائیں جنکا کوئی مصرف نہیں ۔اور کروڑوں مسلمانوں کا یہی ایک ایسا مسئلہ ہے جسکی مخالفت میں کوئی آواز نہیں اٹھے گی اور نہ ہندو بھائی کہیں گے کہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کردی ۔