فحش سائٹس کے سائقین کا ہمارے ملک میں غلبہ (از: ناظم الدین فاروقی)

Bhatkallys

Published in - Other

11:37AM Thu 13 Aug, 2015
ہندوستانی معاشرہ پر گلوبل کلچر کے بہت گہرے اور دورس اثرات مرتب ہو رہے ہیں، سیاست، تعلیم ،معیشت ، معاشرت اور روزمرہ کی زندگیوں میں بڑے پیمانے پر حالیہ عرصے میں بڑے زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، ملک کے مفکرین ، دانشوروں، منصوبہ سازوں ،قانون دانوں کی سوچ وفکر میں بنیادی تبدیلی آرہی ہے ۔ Pratiba Naithani پروفیسرسینٹ زیورس کالج ممبئی نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی PIL داخل کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ویب سائٹس پرPorno Films میں عورتوں اور بچوں کی عزت و آبرواور عصمت کو تارتار کیاجاتا ہے۔ تمام فحش ،عریاں مناظر پر امتناع عائد کرنا چاہئیے۔ ممبئی ہائی کورٹ میں یہ عرضی خارج کردی گئی۔ اس کو لیکر سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل کاملیش واسوانیKamlesh Vasvani نے سپریم کورٹ میں رٹ داخل کی ۔چیف جسٹس آف انڈیا H.L.Dattu نے یہ ریمارک کرتے ہوئے یہ رٹ خارج کردی کہ کوئی فرد عدالت کو آئے گا اور یہ کہے گا کہ قانون کی دفعہ 21 کے تحت مجھے پوری آزادی حاصل ہے ۔اس بنیادی دستوری حق پر امتناع کا استحقاق کسی کو نہیں ہے۔ فحش سائٹس کے دیکھنے پر کسی کی آزادی پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے فحش سائٹسPorno sitesپر کسی بھی قسم کی تحدیدات عائد کرنے سے انکار کردیا ، ملک میں 800سو سے زیادہ فحش سائٹس کے ویب پوٹل ہیں ۔ جس کو کروڑوں ناظرین دیکھتے ہیں بی جے پی حکومت نے چند گھنٹوں کے لئے امتناع عائد کیا تو مختلف گوشوں سے زبردست احتجاج پر فحش سائٹس Porno sites پر عائد کردہ امتناع واپس لے لیا ۔ Pornography کا لفظ عصری گریک Pornographiaسے لیا گیا ہے ۔ Porneکے معنی Prostitute فحاشہ کے ہیں ۔ جن اشیاء اور حرکات وعمل سے جنسی اشتیاق میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جس میں پرنٹ میڈیا ، الکٹرانک میڈیا ،ویڈیوز ، فوٹوز مکالمے تمام شامل ہیں ۔ حالیہ عرصے میں Pornography sitesمیں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔امریکہ میں یہ تجارت 21/2 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے دنیا میں 10بلین سے 12بلین ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے ۔سب سے پہلے 1969میں ڈنمارک نے Pornographyپر سے امتناع برخواست کیا تھا ۔ نجی آزادی کا شرمناک نظریہ :قول وفعل اور لذت کی نجی آزادی کے نام پر تاریخی ،تہذیبی ، اور قومی اقدار کے منافی ، معاشرہ میں ایک ایسی تہذیب کو مغرب نے ہندوستانی سماج میں جنم دیا ہے جو انسانیت سے گری ہوئی عریاں فحش سائٹس پر حیوانی مناظر کا رسیا ہوتا جارہا ہے ،عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد فحش سائٹس کے جنسی جنون میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اوریہ اب معاشرتی طور پر قابل قبول بن چکی ہیں،عدلیہ اور حکومت نے خاموشی سے تسلیم کرلیاہے کہ سماج کا ایک حصہ اس کا شوقین اور عادی ہو چکا ہے ،اس پر پابندی اور امتناع عوام کی نجی آزادی کے مغایر ہوگا ۔ اس لئے حکومت نے اس طرح کے سائٹس پر پابندی سے دستبرداری اختیار کی ۔ فحش سائٹس پر پابندی کے لئے کسی سیاسی پارٹی نے مطالبہ نہیں کیا ۔ نجی آزادی کے نظریات کے حامل مفکرین کا خیال ہے کہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا ہرشہری کوبنیادی حق حاصل ہے۔ اس پر پابندی عائد کرنا اخلاقی اصول وقواعد کے تحت لانا سراسر زیادتی اور آزادی عمل کا قتل نا حق ہے ۔ ڈاکٹر مہندرا مشہور ماہرجنسیات کا کہنا ہیکہ سارا مسئلہ جنسی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس میں دوسرے مخالف جنس کو کوئی تکلیف نہیں ۔اس وقت تک Pornography کوئی مسئلہ نہیں۔ ڈاکٹر پرکاش کوٹھاری ایک ماہر جنسیات ہیں ۔ان کا کہنا ہیکہ صرف دو باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ’’ایک فیملی پلاننگ ،دوسرے ایڈز سے حفاظت ۔‘‘ ماہرسماجیات اور رکن مرکزی سنسر بورڈ گورنمنٹ آف انڈیا نندنی سردیسائی Nandani Sirdesai کاکہنا ہیکہ کسی کو دوسرے کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کیا اختیار ہے۔ مسٹر شیواوشواناتھمShiv Vishvanatham سوشیل سائنٹسٹ کا کہنا ہیکہ صرف امتناع عائد کرنے سے کسی چیز کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ اور پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی نجی عادتوں پر کسی بھی طرح کی پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے نظریات پروان چڑھنے کے ساتھ عورتوں ، بچوں پر جنسی تشدد کا کئی فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ دہلی کو تو ریپ کیپٹل کہا جا رہا ہے ۔اشتہاء المماثل Gayism - Lesbianism کو بڑے پیمانے پر فروغ مل رہا ہے ۔ فحش سائٹس پر ہرطرح کی غیر فطری جنسی لذت کا سامان کیا جاتا ہے ۔نظر وبصر کی آوارگی اور جنسی ہوس نے اندر سے سماج کو کمزور اور کھوکھلا کردیا ہے ۔ معاشرہ کے اصولیات کا خاتمہ : فحش سائٹس سے لطف اندوز ہونے کی وبا عام ہو رہی ہے ۔ اس مرض کی وجہ سے معاشرہ کے جنسی اصولیات اور بنیادی اخلاقیات کا یکسر خاتمہ ہو رہا ہے ۔معاشرہ میں زوجین کے درمیان جنسی تعلقات جو اہم اصول تھا اسے ختم کرکے جنسی شوق وضرورت کو ایک کھلی بے لگام بازاری تجارت میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔سینئیر صحافی محترمہ روپاسن گپتا Rupa Sengupta کا ایک اہم مضمون /12 اگست 2015 کے اکنامک ٹائمز میں اس موضوع پر شائع ہوا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ’’ وہی نجی لذت اچھی ہے جو اصولیات کی بنیاد پر حاصل کی جائے۔‘‘ معاشرہ کا ایک لازمی یونٹ خاندان ہوتا ہے ، خاندان کے تحفظ کے لئے فحاشی اور عیاشی کو مستقل ممنوع قراردیا گیا ہے ۔ اب تو اخلاقی زوال کا یہ انجام ہو چکا ہے کہ زمانۂ طفولیت میں ہی جنسی تشدد پر آمادہ کرتا ہے اور بلوغیت کو پہنچتے ہیں تو نوجوان مردوں اور عورتوں کے لئے انٹرنیٹ سائٹس پر فحاشی کے سمندر دستیاب ہیں ۔ تمام حدود وقیود سے آزاد بچوں ، نوجوانوں ،بڑھوں کا ایک حصہ روزانہ فحش سائٹس پر گھنٹوں فحاشی اور جنسیات سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔ جنسیات sexism کو مختلف عنوانات اور غیر فطری طریقوں سے پروان چڑھایا جارہا ہے ، اس میں مذاہب کے پیروکار اور ملحدین کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ انسانی گروہوں کے اصلیات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، جنسی آوارگی علاقے اور ممالک سے نکل کر عالمی سطح کی گلوبل ہو چکی ہے ۔ انسانیت کو شرمندہ کرنے والے ہمہ اقسام کے لاکھوں فحش ویڈیوز سائٹس پر دستیاب ہیں انسانی سماج میں لذت نفس اور حقوق کے تحفظ کا توازن بگڑ چکا ہے ، لذت نفس کا سیاہ پہلو سامنے آرہا ہے ۔ محالف جنس کو کسی شئ اور Cansumeble productکی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے ، نہ کسی کی عزت نفس ہے نہ اس کے حقوق کے تحفظ کی ایک لمحہ بھی ذمہ داری اٹھانے کوئی تیار نہیں ، پیسہ پھیکو سکس کو کسی بھی دام میں خریدو ، بس ایک ہی ہدف جنسی لذت اور فحاشی ہے ۔ جنسی تعلیم اور اس کے اثرات : ایک دہا قبل اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغازکیا گیا تو اس پر کافی تنقیدیں کی گی تھی ، ماہرین نے سماج پر مستقبل میں پڑنے والے بھیانک اثرات سے متنبہ کیا تھا ۔ چند سال میں جو جنسیات کے بیج بوئے گئے اس کی زہر آلود مختلف الانواع فصل تیار ہو چکی ہے جس کی ایک شکل فحش سائٹس ہیں ، یورپ امریکہ ایشیاء اور مسلم ممالک Child abuse کے روزانہ لاکھوں واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ Pedophile اور Home sexuality میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔باپ ،بیٹی، بھائی بہن، ماں بیٹے کے قابل احترام رشتے جنسی حیوانیت کا شکار ہیں اسکول اور گھر کے بچوں کو اتنے دن جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، اسکولوں میں بچے اور بچیاں ، بچے بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ان گندگیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں یا انہیں ظلم وزیادتی سے مبتلا کیا جا رہا ہے ۔ مشہور کالم نویش الورا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ دکن کرانیکل میں شائع ہوا ، اس مضمون میں باپوں کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ روزانہ منہ کالا کرنے کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں لڑکیاں والد کے جنسی تشدت کا شکار ہیں جنہیں کوئی انصاف نہیں مل رہا ہے ، پا کستان میں حال ہی میں جنسی جرائم کی ایک ٹولی نے250بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز تیار کرکے انٹر نیشنل کارکٹ میں فروخت کردی ہیں ۔ پوپ کی بار بار اپیلوں پر کہ بچوں کے ساتھ جنسی بدفعلی نہ کی جائے عیسائی دنیا سننے کو تیار نہیں ۔ اسی طرح حکومت چین نے فحاشی کے ایسے سائٹس جس میں بچوں کے ساتھ بدفعلی دیکھائی جاتی ہے کنٹرول کرنے کے لئے ایک اسپیشل تربیت یافتہ پولس کو متعین کیا ہے ۔ بچوں کو جنسی تعلیم اسکولوں میں دی جاتی ہے بہت ہی فحش با تیں بچوں کے تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے اس کے ساتھ کوئی مضبوط اخلاقی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے 10سال کی لڑکیاں ماں اور 12سال کے لڑکے بن بیاہے باپ بن جارہے ہیں ۔ University of San Francisco کے میڈیا کے پروفیسر ومسی جولاری Vamsee Juluri نے اپنے مضمون The dark site of pleasure 10/8/15 میں Porno site کی وجہ سے عورتوں اور بچوں پر جو ناقابل بیان مظالم ہورہے ہیں ، اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عورتوں کے عزت وناموس اور اجسام وگوشت کی تجارت ہے ، فحاشیوں کی ویڈیوز کو لاکھوں لوگوں کو بار بار دیکھایا جا تا ہے ۔ وہ بوڑھی ہو کر مربھی جاتی ہے لیکن اس کی جسم کا استعمال مختلف انداز سے فحش ویب سائٹس پر جاری رہتا ہے ۔ اس کے لئے ہمارا سماج ذمہ دار ہے ۔ فحش سائٹس کی تائید اور قیادت کرنے والے بطور دلیل کہتے ہیں عورتیں بھی لطف اندوز ہو تی ہیں ۔ Lesbians اورلوطیوں کے محظوظ ہونے کے لئے لاکھوں سائٹس ہیں ۔ اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے ..........؟ جب یہ انسانی مذہبی اصولیات اخلاق اور ملک کے قانون کے دائرے سے خارج کرکے اسے عالمی تجارت بنادی گئی ہے اور لذت نفس کی کمزوریوں کے انٹرنیٹ کے ذریعہ استحصال کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے تو اس مہلک اخلاقی بیماری سے لوگوں کو بچانا بہت بڑا چیالینج بن چکا ہے ۔ ہندو تواکے علمبردار فحش سائٹس کی سونامی میں بہہ گئے !: ہندوستانی معاشرہ ہزاروں سال سے معاشرتی تہذیبی عروج وزوال سے گزرتا رہا ، شروع ہی سے ہندو سماج جنسیات کے معاملہ میں چوراہے پر کھڑا ہے ۔ موجودہ ملک کے قونین کے مطابق ایک ہندو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ،جبکہ دیوی دیوتاؤں کے مذہبی داستانوں میں سینکڑوں عورتوں سے شادی کا ذکر ملتا ہے ، ایک ہندو مذہبی طبقہ وہ ہے جو آزادانہ جنسی افعال اور فحاشی کو عبادت قرار دیتا ہے ،تانترک آج بھی آشرموں میں کھلے عام جنسی بدفعلیوں میں مصروف رہتے ہیں ، ہندو فلسفہ کے مطابق آتما کو پرماتما میں ضم کرنے کے لئے جنسی بے راہ روی اور فحاشی ضروری ہے اسی نظریات پر اچاریہ رجنیش گامزن تھے ۔ ہندو مذہبی قائدین نے کبھی نہ ان کی مخالفت کی اور نہ انہیں ہندو مذہب سے خارج کیا تھا ۔ہندو مذہب کی ایک اہم کتاب کاما سُترا Kamasutraہے جس میں فحاشی اور جنسی بدفعلیوں کی بڑی تفصیلات درج ہیں ۔ہندوستان کے آثار قدیمہ کے مشہور تاریخی غاروں کھجوراہو Khjaraho میں جنسی بے راہ روی کے ہزاروں تصاویر نقش ہیں ۔ ان سب کا تفصیلی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مذہب کے تعلیمات کے مطابق یہ اتنی بڑی بات نہیں اور نہ مذہبی طور پر حرام اور گناہ کے کام ہیں ، ہندو مذہبی تعلیمات میں پاپ اور پن کی بڑی مجہول تفریق پائی جاتی ہے ۔ جب یہ فحش سائٹس کا مسئلہ پر سپریم کورٹ اور حکومت کے سامنے آیا تو بی جے پی حکومت نے بادل ناخواستہ چند گھنٹوں کے لئے امتناع عائد کیا بلکہ امتناع کا مذاق اڑایای ، ملک نامور مفکرین دانشوروں اور تعلیم یافتہ عوام یہاں تک کہ وزراء وممبران پارلیمنٹ سب فحش ویب سائٹس کے سائقین میں شامل ہیں ۔۔ حکومت کے پاس اتنی اخلاقی قوت اور طاقت نہیں تھی کہ امتناع اور پابندی کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ، فحاشی ، عریانیت ،جنسی بے راہ روی کو محض نجی آزادی کے نام پر کھلے عام قانونی طور پر چھوٹ دی گئی ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو توا کے علمبردار طاقتیں آزادانہ جنسی بدفعلیوں کے رسیا ہیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے جانوروں کے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے لئے جوچستی اور سرعت بی جے پی نے دکھائی وہ فحش سائٹس پر پابندی کیلئے کیوں عدم دلچسپی کا شکار ہو گئی ۔ اب نہ RSS اور بی جے پی کے چھوٹے بڑے قائدین کے بیانات ہیں اور نہ میڈیا میں اس کی کوئی بحث ہے ۔ گھر واپسی کے لئے بڑی تحریکات چلائی جاتی ہیں ، لیکن ہندو مذہبی پیشوا اور قائدین وجماعتیں ہندوؤں کے درمیان اصلاحی تحریک چلانے میں نہ کوئی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ اخلاق وکردار کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے ۔ اگر فحش سائٹس واقعی اکثریتی ہندو عوام کے مذہبی اصولوں کے خلاف ہیں تو پھر اس پر یقیناًپابندی عائد کرنی چاہئے تھی ۔ ہندو توا تحریک کے علمبرداروں نے یہ قبول کرلیا کہ اب ہندو سماج مکمل طور پر اندر سے بدل چکا ہے ، جنسی معاملات میں انھیں بڑی حد تک تمام حدود وقیود سے آزاد کردینا چاہئے ، اور آزاد کر دئیے گئے ، مودی حکومت فحش سائٹس کے متب ہونے والے ہلاکت خیز اثرات کا جائزہ لینے میں نا کام ہو گئی ہے اور جنسی جرائم میں آئے دن اضافے کو فحش سائٹس کے اثرات ماننے سے انکار کر رہی ہے ۔بہر حال فحش سائٹس کی سنامی میں ہندوستان اور بڑی ہندو طاقتیں بہہ گئی ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر:فحش سائٹس کے سلسلہ میں مختلف مذاہب نے ہو سکتا ہے مبہم غیر واضح موقف اختیار کیا ہے ، لیکن اسلام کا اس سلسلہ میں نقطۂ نظر بالکل واضح ہے ۔ کسی بھی قسم کی فحاشی سے سخت حرام فرمایا ہے چاہے وہ نظر وبصر کی کھلی ہو یا چھپی ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَمِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالاِثْمَ وَالْبَغْیَ .......)(الاعراف 33) کہدیجئے کہ میرے رب نے تما ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام قرار دیا ہے ۔ دل اور کردار کی پاکیزگی کے لئے مومنوں کی نگاہ پر کنٹرول کرنے کا حکم دیا گیا ۔ نامحرموں کو دیکھنے اور نگاہ ڈالنے کی عام حالت میں بھی ممانعت کی گئی ۔ گناہوں اور جنسی جرائم ، ہوس بے لگام شہوت اور جنسی لذت پر سخت پابندیاں عائد کی ہے ، مسلم معاشرہ میں اس کا خاتمہ کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ےَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وےَحْفَظُوا فُرُوجَھُمْ ..... 30النور)مومن مردوں سے کہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ وقال تعالیٰ : (قُلْ لِلْمُوْمِنَاتِ ےَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَےَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ ) مومن عورتوں سے کہیں کی نگاہ نیچی رکھیں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں ۔ یہ وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ایک پاک وصاف اسلامی سو سائٹی کے لئے نازل فرمایا ،فحش سائٹس کے دیکھنے کی حرمت بھی ان آیات سے ثابت ہوتی ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تیل سے مالا مال عرب ممالک میں دیکھنے والوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے ۔ اسلام نے تمام جنسی اعال وافعال اور شہوانی رابطہ کو عقد نکاح کے مضبوط بندھن میں باندھ دیا ہے اپنے فطری دائرے میں رہتے ہوئے پورے خلوص ومحبت الفت اور دلسوزی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے پابند کیا ۔ فحاشی اوارگی ، جنسی بے راہ روی کو انسانیت کے خلاف عظیم جرم قرار دیا ۔ نکاح کے باہر جس کسی نے بھی شہوت رانی کی اور جنسی تعلقات قائم کئے ان دونوں کے لئے رجم کی سزائیں رکھی ہیں ۔ اسلام میں نکاح قیام تمدن کی اساس وجہ سکون اور عصمت کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ۔ اخلاق کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے جنسی بے راہ روی کے تمام ذرائعے اور وجوہات پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مسلم معاشرہ میں بھی یہ لعنت خاموشی سے جڑ پکڑ رہی ہے ۔ نوجوان شادی شدہ میں کوئی تفریق نہیں رہی ، رات بھر فحش سائٹس کے دیکھنے میں گزرجاتی ہے ۔ معاشرہ کو فحش سائٹس کی وباء اور گھناونے شرم ناک گندگی سے بچانے کی ضرورت ہے گھر گھر اصلاح کی ذمہ داری ہر ذی شعور مسلمان پر عائد ہوتی ہے کہ مسلم سماج میں اسلامی احکامات اصول اخلاق واقدار کے بلند پاکیزہ وروشن ستارے ہمیشہ چمکتے رہیں ۔ ناظم الدین فاروقی E: nfarooqui1@hotmail.com M: +91 9246 248205