کیا یہ مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بنانے کی تیاری ہے؟... سہیل انجم

اس وقت پورے ملک میں طوفان آیا ہوا ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور نئے شہریت قانون کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان مظاہروں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو جتنا دبایا جا رہا ہے وہ اتنی ہی شدت سے تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کے ظلم و جبر اور ایک سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کے خلاف ایک عوامی ہُنکار ہے۔
نریندر مودی کا پہلا دور حکومت ترقیاتی سرگرمیوں اور سوچھتا ابھیان، اجولا اسکیم اور دیگر اسکیموں کے آغاز اور ان پر کسی حد تک عمل آوری میں گزر گیا تھا۔ حالانکہ جو وعدے کیے گئے تھے ان کو پورا کرنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تھی۔ اس کے باوجود عوام نے اس حکومت کو دوبارہ اقتدار سونپ دیا۔ اس کے لیے بی جے پی اور برسراقتدار طبقہ نے ایسی چالیں چلیں کہ عوام ان میں پھنس گئے اور بی جے پی کو عدیم المثال کامیابی حاصل ہو گئی۔
دوسری مدت کی مودی حکومت پہلے والی سے کافی مختلف ہے۔ اس میں امت شاہ جیسے جارحیت پسند لیڈر وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ حکومت ڈھائی افراد چلا رہے ہیں۔ مودی، شاہ اور جیٹلی۔ جیٹلی تو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ لہٰذا اب صرف دو لوگ چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ دوسرے مہاشے جو ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔
امت شاہ-نریندر مودی کے مقابلے میں زیادہ جارحیت پسند ہیں۔ وہ دوسری مدت کی اس حکومت کو آر ایس ایس کے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وقف کر دینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ اس ملک کی سیکولر روح کو زخمی کیا جائے، اس کے سیکولر مزاج کو بدلا جائے اور آئین میں تبدیلی لا کر اسے ہندو راشٹر کی ڈگر پر ڈالا جائے۔
ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے جہاں آئین کو بدلنے کی ضرورت ہے وہیں ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے امت شاہ کے دماغ نے ایک ایسی چال چلی جس میں ایک ہی تیر سے دونوں نشانے لگائے جا سکتے ہیں۔ یعنی دستور کو بھی بدلا جا سکتا ہے اور مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری بھی بنایا جا سکتا ہے۔
لہٰذا پہلے آسام میں این آر سی کیا گیا اور اب پورے ملک میں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل شہریت قانون میں ترمیم کر دی گئی۔ یعنی ابھی تک دنیا کے دیگر ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب اور ذات برادری و رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں، شہریت دی جاتی تھی اور اس کے لیے ہندوستان میں گیارہ سال تک کا قیام لازم تھا۔ لیکن اب صرف تین ملکوں کے غیر مسلموں کو شہریت دینے کا قانون بنا دیا گیا۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندووں، سکھوں، جینیوں، بودھوں، پارسیوں اور عیسائیوں کو مبینہ طور پر ظلم و جبر کے شکار ہونے کی بنیاد پر ہندوستان آنے پر شہریت دی جائے گی اور ہندوستان میں قیام کی گیارہ سالہ مدت کو کم کرکے چھ سال بھی کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ ملکوں سے آنے والے مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔ امت شاہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں بہت سے مسلم ملک ہیں مسلمان وہاں چلے جائیں۔ البتہ ہندووں کے لیے صرف ہندوستان ہے لہٰذا انھیں یہاں کا شہری بنایا جائے گا۔
یہ فیصلہ کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جائے ہندوستان کے آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی جانب ایک قدم ہے۔ آئین نے تمام شہریوں کو مساوات کا حق دیا ہے۔ لیکن اس قانون سے یہ حق چھینا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف ملک کے سیکولر طبقات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ ملک گیر سطح پر تحریک چلا کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
دراصل اس کی سب سے بڑی زد مسلمانوں پر پڑ رہی ہے یا پڑنے والی ہے۔ آسام میں این آر سی کی حتمی فہرست سے سے جو 19 لاکھ افراد باہر رہ گئے ہیں بتایا جاتا ہے کہ ان میں تیرہ یا چودھ لاکھ ہندو ہیں۔ حکومت این آر سی سے جو مقصد حاصل کرنا چاہ رہی تھی یعنی صرف مسلمانوں کو باہر کرنے کا، وہ پورا نہیں ہوا۔ اس لیے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی تاکہ باہر رہ جانے والے ہندووں کو یہ کہہ کر شہریت دی جائے کہ وہ شرنارتھی ہیں۔ مسلمانوں کو اسی لیے اس قانون سے باہر رکھا گیا ہے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ یہ تو گھس پیٹھیے ہیں ان کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ امت شاہ پہلے ہی سینہ ٹھونک ٹھونک کر اعلان کر چکے ہیں کہ گھس پیٹھیوں کو ایک ایک کرکے نکالا جائے گا۔
اسی لیے ترمیم شدہ شہریت قانون سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا تاکہ انھیں باہر نکالنے میں آسانی ہو۔ اب اس کے بعد جب ملک گیر سطح پر این آر سی نافذ کیا جائے گا تو کیا ہوگا؟ ہوگا یہ کہ جہاں لاکھوں مسلمان اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے وہیں لاکھوں ہندو بھی اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے۔ پھر اس قانون کا سہارا لیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ہندو شرنارتھی ہیں اور مسلمان درانداز ہیں۔ لہٰذا ہندووں کو شہریت دی جا رہی ہے اور مسلمانوں سے شہریت چھینی جا رہی ہے۔
سبرامنیم سوامی سمیت بی جے پی میں ایسے کئی لیڈر ہیں جو مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ اب ان سب کی منشا پوری ہو جائے گی۔ یعنی اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے والے مسلمان باہر ہو جائیں گے۔ لہٰذا ان کو نہ تو ووٹ دینے کا حق ہوگا، نہ سرکاری ملازمت پانے کا حق ہوگا، نہ حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا حق ہوگا، نہ بینکوں سے لون مل پائے گا، نہ ان کے بچے تعلیمی سہولتیں حاصل کر پائیں گے، نہ ان کے مسائل کو حل کرنے میں حکومت کو کوئی دلچسپی ہوگی اور نہ ہی وہ اس ملک کے اول درجے کے شہری مانے جائیں گے۔
اس طرح آر ایس ایس کا ہندی ہندو ہندوستان کا خواب پورا ہو جائے گا۔ ہندوستان ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائے گا جہاں ہندووں کو ہی تمام قسم کے حقوق و اختیارات حاصل ہوں گے۔ جب ایسا ہوگا تو ظاہر ہے مسلمانوں کو الیکشن لڑنے کا بھی حق نہیں ہوگا۔ اور اس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلیاں مسلمانوں کے وجود سے خالی ہو جائیں گی۔ صرف اور صرف ہندو ہی راج کریں گے اور انھی کے ہاتھوں میں ہر قسم کی طاقت اور ہر قسم کے اختیارات ہوں گے۔
اس طرح شہریت کا نیا قانون ایک ہی جھٹکے میں جہاں آئین کی بنیادی روح کو ختم کر دے رہا ہے وہیں وہ مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بھی بنا دے رہا ہے۔ اگر ملک گیر این آر سی نافذ ہوا جیسا کہ امت شاہ کا اعلان ہے تو یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ مسلمانوں کے سروں پر دو نمبر کے شہری ہونے کی تلوار لٹک جائے گی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہندووں کی مانند مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گھبرائیں نہیں بلکہ این آر سی میں جن دستاویزات کی ضرورت ہوگی ان کو تیار کرائیں اور اپنے ناخواندہ اور غریب بھائیوں کی بھی مدد کریں۔ تاکہ مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بنانے کا حکومت کا خواب چکنا چور ہو جائے۔