سچی باتیں ۔ رواداری ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

10:38AM Fri 16 Jun, 2017

                             وَلَاتَسُبُّواالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوااللّٰہَ عَدْوًابِغَیْرِعِلْمٍ         (انعام۔۱۳ع)

اور تم لوگ برا نہ کہو جن کو وہ پکارے ہیں اللہ کے سوائے کہ وہ براکہہ بیٹھیںاللہ کو بے ادبی سے نہ سمجھ کر

            خلاصہ ارشاد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے پیشواؤں کے برا کہنے سیے قطعًاروک دیا گیا ہے اور جو مسلمان ایسا کرے گا اس پر خود اپنے اللہ کے برا کہلوانے کی ذمہ داری عاید کی گئی ہے !الّٰلہم احفظنا۔

            امام بخاری اپنی صحیح کی کتاب الادب میں ایک باب باندھتے ہیں لَایَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ (کوئی شخص اپنے والدین کو گالی نہ دے)اور اس بات کے تحت میں حدیث ذیل لاتے ہیں جسے بعینہٖ یا برائے نام لفظی تغیر کے ساتھ دوسرے محدّثین کرام نے بھی نقل کیا ہے:-

                  عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال قال النبی ﷺان من اکبر الکبائر ان یلعن الرجل والدیہ قیل

              یارسول اللّٰہ وکیف یلعن الرجل والدیہ قال یسب ابا الرجل فیسب اباہ ویسب امہ فیسب امہ۔

            عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسولِخداﷺنے فرمایا کہ بڑے گناہوںمیں سے ایک بہت بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شحص اپنے والدین پر لعنت کرے لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیونکر ہوسکتاہے؟ارشاد ہوا کہ جب یہ کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور جب یہ کسی کی ماں کوگالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔

            حدیث کا مفہو م بھی بغیر کسی شرح وتغیر کہ بالکل واضح ہے یعنی جو دوسروں کے بزرگوں کے ساتھ بد کلامی کرتاہے وہ دوسروں کی زبان سے اپنے بزرگوں کے حق میں بدکلامی کرکے گویا خود اپنے بزرگوں کے حق میں بدکلامی کا ذمہ دار بنتا ہے۔

            اس آیت اور اس حدیث کو پڑھ کر سوچئے کہ کہیں یہ جامہ ہمارے ہی قد پر تو ٹھیک نہیں اترتا؟کہیں وہ باخلف اولاد جو اپنے اجداد کو گالیاں سنوائے ہم ہی تو نہیں ہیں کہیں وہ بد بخت قوم جو اپنے بزگوں کی توہین کرائے ہم ہی تو نہیں؟آج آپ اپنے اخبارات کو پڑھ کر خوش ہورہے ہیں کہ فلاں قوم کے خلاف فلاں لیڈر،فلاں پنڈت، فلاں لالہ کی خوب خبرلی گئی،فلاں نظم خوب رہی ،فلاں فقرہ غضب کا چھبتا ہوا رہا ،فلاں پھبتی لا جواب رہی،لیکن دوستو اور عزیزو!اپنے ہاںکی تعلیم سے واقف ہونے کے بعد اپنے غیب داں خدا اور نکتہ شناس رسول کے ارشادات سے باخبر ہونے کے بعد اپنے ذاتی جذبات خواہشوں کو آیاتِ قرآنی واحادیث نبوی کے ماتحت کردینے کے بعد سوچو اور سمجھو کہ اپنی نادانیوں سے اسلام کے دوستوں ،ہواخواہوں اور ہمدردوں کی تعداد بڑھا رہے ہویا اس کے بر عکس دشمنوں ، بدخواہوں اور مخالفوں کی؟