بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (آٹھویں اور آخری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

01:24PM Sat 8 Sep, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  (گزشتہ سے پیوستہ....) تحقیقاتی کمیشن میں ڈاکٹر چترنجن سے ہمارے وکلاء کی جرح کا آخری دن تھا۔ الحمدللہ اس جرح کے دوران ممکنہ حد تک ڈاکٹر کو گھیرنے اور سنگھ پریوار کے مسلم دشمن نظریا ت کا پرچار کرکے بھٹکل کے امن و امان بگاڑ کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت کے بونے اور فسادات برپا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کی پوری کوشش کی گئی۔ڈاکٹر چترنجن نے بھی سوالات کے اس گھیرے سے بچ کر نکلنے پوری کوشش کی توبعض مقامات پر ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑا اور صرف الزامات کی تردید کرکے رہ گئے۔آخری دن کے سیشن کے اختتام میں ابھی کچھ دیر باقی تھی کہ ہمارے وکیل کی معرفت ایک سوال ایسا داغا گیا کہ ڈاکٹر چترنجن تلملا اٹھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ مار ی کٹے کے پاس مندر نہیں تھا: آج کی نوجوان نسل کو شاید ہی معلوم ہوگا کہ اس وقت جہاں’ ماری دیوستھان‘ ہے وہاں1970کی دہائی تک کوئی مندر نہیں تھا۔مین روڈ اور کار اسٹریٹ کے جوڑ والے کنارے پر ایک بہت بڑا پیپل کا درخت تھا جس کے اطراف اونچا چبوترا ، (عام زبان میں کٹّہ) تھا۔اسی وجہ سے یہ مقام ماری کٹّہ کے نام سے آج بھی معروف ہے۔ اس چبوترے (یا کٹّے ) پر کسان اپنا اگایا ہوا گنّا ، ککڑیاں،تربوزے ،خربوزے، آم ،بھنڈی اور دیگر ترکاریاں موسم کے حساب سے فروخت کیا کرتے تھے۔کار اسٹریٹ اورمین روڈکے اطراف میں بہت بڑا میدان تھا جومین روڈ کی مشرقی سمت میں موجودہ باٹا شوروم والی عمارت سے لکڑی ڈپو کے کنارے پرواقع محتشم میٹل مارٹ والی بلڈنگ تک اور کار اسٹریٹ کی شمالی سمت میں برنی اسٹور والی عمارت تک پھیلا ہوا تھا۔مین روڈ اور کار اسٹریٹ پر اس میدان کے کنارے پر کوئی تعمیرات نہیں تھیں۔ کار اسٹریٹ کے شمالی کنارے پرآج جو دکانوں کے کامپلیکس دکھائی دے رہے ہیں وہاں پر صرف بلدیہ کی طرف سے تعمیر کردہ عوامی استعمال کاایک بیت الخلاء موجود تھا۔ اس میدان میں بارش کے موسم میں کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی اسی لئے اسے’ ماری کٹہ گادے‘ کے نام سے جانا جاتاتھا۔ بقیہ دنوں میں کھیل کو د، یکش گانا یا سرکس وغیرہ کے لئے یہ میدان استعمال ہوتاتھا۔

یہ بیانِ حال ، یہ گفتگو ، ہے مرا نچوڑا ہوا لہو ابھی سنئے مجھ سے کہ پھر کبھو ، نہ سنوگے ایسی کہانیاں

ماری جاترا اور ہریجن طبقہ: پیپل کے درخت والے چبوترے سے متصل ایک جھونپڑی نما چھوٹا سا کمر ہ تھا جسے’ ماری گُڑی‘ کہا جاتاتھاجوہمیشہ ویران پڑی رہتی تھی اور صرف ’ماری ہبّا‘کے موقع پر تین دنوں کے لئے یہاں رونق ہواکرتی تھی۔اس کمرے کے صحن میں تہوار کے وقت جانوروں کی بلی چڑھانے کاچھوٹا سا گڈھا موجود تھا۔ بھٹکل میں980 ؁1ء کی دہائی تک یہ ماری گُڑی اور اس کے تہوار میں ہریجن (عرف عام میں کورار اور چماروغیرہ)پیش پیش رہتے تھے ۔’ ماری ‘کے تعلق سے جو دیومالائی داستان عام ہے اس کے مطابق ماری اونچی ذات والی ہونے کے باوجود اس نے ایک ہریجن یعنی چمارکو اونچی ذات والا سمجھ کراس سے شادی کرلی تھی۔جب چمار کی حقیقت آشکار ہوئی تو’ماری ‘ غضب ناک ہوئی۔ اس سے بچنے کے لئے چمار ایک بھینسے میں سرایت کرگیا۔پھر ماری کا بدلہ لینے کے لئے اس بھینسے کی بلی چڑھادی گئی۔اسی واقعے کی یاد میں یہ تہوار(بھٹکل کے علاوہ سرسی اور دوسرے مقامات پر بھی) منایاجاتا ہے۔چونکہ ماری کے چمار شوہر کو ’بھینسے‘ سے موسوم کیا جاتا ہے اس لئے تہوار کے موقع پر بھینسے کی بلی چڑھانا مذہبی رسم ہے، جس پر اب قانونی طور پر پابندی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ اب بھینسے کی بلی کے بجائے انجکشن سیرینج سے اس کا تھوڑا سا خون نکال کر’ ماری‘ کو ’چڑھاوا ‘دیا جاتا ہے۔ چمار اور ماری گنڈا: لہٰذا تہوار کے موقع پر’ماری‘ کی مورتی کو تین دن تک ماری گُڑی میں براجمان رکھنے کے بعدجب اسے دریا برد کرنے کے لئے لے جایا جاتاتھا تواُس زمانے میں ایک چمار’ماری ‘کے شوہر کے کردار میں اپنے آدھ ننگے بدن پر تیل انڈیل کر ’ماری ‘کی مورتی کے آگے آگے سوگ مناتا اور بین کرتاہوا دوڑتاتھا۔(شاید اب بھی یہ رواج باقی ہوگا) اسے’ ماری گنڈا ‘کہا جاتا ہے۔ لیکن 1980کی دہائی میں برہمنوں کے توسط سے اونچی ذات والوں نے اس زمین اور تہوار پرپوری طرح اپنا قبضہ جمالیا اور یہاں سے درخت اور چبوترا وغیر ہٹاکر ایک باقاعدہ مندر تعمیر کرکے مورتی نصب کردی۔اس مندر کی تعمیر کے وقت ایسا ناعاقبت اندیش اقدام بھی دیکھنے کو ملاتھا کہ ہماری اپنے مسلم برادری کے ایک فرد نے(شائد حد سے زیادہ’ روادار اورسیکیولر‘ کہلانے کے شوق میں!) اپنی ملکیت والی زمین کا کچھ حصہ مندرکی توسیع کے لئے مندر کمیٹی کو فروخت کردیا ۔جس کی وجہ سے وہاں ایک معمولی اور ویران جھونپڑی کی جگہ پر موجودہ بڑا اور شاندار مندر تعمیرکرناممکن ہواتھا! ہریجنوں کا بائیکاٹ اور عدالتی کارروائی: چونکہ اس مندر کی تعمیر اور اس پر قبضہ جمانے کی مہم میں مبینہ طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ بشمول ڈاکٹر چترنجن پیش پیش تھے، اس لئے اونچی ذات والوں کے ذریعے اپنے تہوار اور زمین کو اچک لیے جانے اور ماری گُڑی کی جگہ پر مندر تعمیر کے بعد وہاں ہونے والے تہوار میں مرغیوں اور بکروں کی بلی دینے پر پابندی لگادینے سے بھٹکل کی ہریجن برادری سخت ناراض ہوگئی۔اورانہوں نے پوری طرح اس تہوار کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔تہوار کے بائیکاٹ کے ساتھ ہی روایتی انداز میں ہریجن شخص کی طرف سے’ ماری گنڈا‘بننے سے انکار کیا گیا تو ڈاکٹر چترنجن اور ان کے ساتھیوں نے مورچہ سنبھال لیا تھا۔اور ایک برہمن (کوکنو) کے ذریعے ’ماری گنڈا‘ کا کردار نبھایا گیا تھا۔ ہریجنوں نے اس تنازعے کے سلسلے میں عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے۔ مگر ایک عرصے تک مسلسل کارروائی کے بعد بھی ہریجنوں کے حق میں فیصلہ نہیں آیا۔اوراب یہ مندر اور اس کا انتظام ہندوؤں کے دیواڈیگا طبقے کے ہاتھ میں ہونے کی بات معلوم ہوئی ہے۔ ڈاکٹر چترنجن چراغ پا ہونے کا سبب: ہم نے جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں ڈاکٹر چترنجن کو تنگ کرنے کے لئے یہ کہا کہ:’’تم ہندوؤں میں مقبولیت حاصل کرنے اور آر ایس ایس کی فکر تھوپنے کے ساتھ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جاسکتے ہو۔ مثال کے طور پر ماری ہبّا کا تہوار ہے۔ اسے تم لوگوں نے ہریجنوں سے چھین لیا۔ اور جب پہلے سال ہریجنوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے تہوار کے موقع پر’ ماری گنڈا ‘بننے کا مسئلہ پیش آیا تو تم نے آگے بڑھ کر یہ کردار نبھایا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم برہمن ہونے کے باوجود اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے ہریجن کا کردار بھی اپنا سکتے ہو!‘‘ اتنا سننا تھا کہ ڈاکٹر چترنجن غصے سے لال پیلے ہوگئے اور ہمارے وکیل سے الجھ پڑے کہ تم مجھ پر انتہائی جھوٹا اور نازیبا الزام لگارہے ہو۔یہ بات ان کے لئے کتنی ہتک آمیز ثابت ہوئی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کیونکہ ان کی آنکھوں میں آنسو صاف دیکھے جاسکتے تھے۔پھر اپنے آپ پر قابو پانے کے لئے وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہمارے وکیل نے پلّہ جھاڑدیا: مگر ستم تو تب ہوا کہ ڈاکٹر کو طیش میں دیکھ کر شاید ہمارے وکیل صاحب کے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی اور انہوں نے بدحواسی میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ :مجھے کیا پتہ؟!۔ انہوں نے مجھ سے ایسا سوال کرنے کو کہا اور میں نے کردیا!!!‘‘اور میں سر پیٹ کر رہ گیا۔اس کے بعد تھوڑی دیر تک سوال و جواب کاسلسلہ چلا اورپھرآخری سیشن ختم ہوگیا۔ڈاکٹر چترنجن نے میرے قریب آکرشکایتی لہجے میں کہا کہ تم نے مجھ پر’ ماری گنڈا‘ ہونے جیساگھٹیا الزام لگایا ۔ میں نے پلٹ کرکہاکہ اگر آپ’ ماری گنڈا‘ نہیں بنے تھے تو پھر کون بناتھا یہ آپ کو بتادینا چاہیے تھا۔اتنا کہہ کر میں ہال سے باہری دروازے کی طرف بڑھ گیا اور لفٹ کے قریب جاکر ہمارے وکلاء کا انتظارکرنے لگا۔ (بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس زمانے میں دراصل ڈاکٹر کے انتہائی قریبی ساتھی اور آر ایس ایس ایک برہمن لیڈر نے ’ماری گنڈا‘کا رول اداکیاتھااورڈاکٹر چترنجن نے پجاری کا کردار نبھایا تھا) ڈاکٹر کی دھمکی اور میرا پلٹ وار: ڈاکٹر چترنجن کا موڈ بری طرح بگڑ چکا تھا۔میں جب لفٹ کے پاس انتظار کررہاتھا توانہوں نے اپنے وکلاء کے پاس جاتے ہوئے رک کر ہمارے وکلاء سے کچھ بات چیت کی جو میں سن نہیں سکا۔پھرہمارے وکلاء کمیشن ہال سے نکلے اورہم سب لفٹ میں داخل ہوگئے ۔جب لفٹ کا دروازہ بند ہورہاتھا تو ہمارے ایک وکیل نے ڈاکٹر چترنجن کو خالص بنگلوری لہجے میں ماں کے نام سے گالی دیتے ہوئے مجھ سے کہا کہ’’ :وہ ..... آپ کو بھٹکل میں دیکھ لوں گا بول رہا ہے نا، صاب!‘‘بس اتنا سننا تھا کہ میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا اور لفٹ کا دروازہ کھول کر کمیشن کے ہال کی طرف دوڑ پڑا۔ میرے پیچھے ہمارے وکلاء بھی بھاگتے ہوئے آئے لیکن میں تب تک ڈاکٹر کے روبرو پہنچ چکا تھا۔ میں نے بھی دھمکی آمیز لہجے میں پورے طیش کے ساتھ کہا کہ آپ نے مجھے بھٹکل میں دیکھ لینے کی دھمکی دی ہے ۔ تو کیا ہم لوگوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔آپ مجھے کیا دیکھوگے میں خود آپ کو دیکھ لوں گا!‘‘ڈاکٹر میرے تیور دیکھ کر ہکّا بکّا سے رہ گئے۔ صورتحال کو بگڑتے دیکھ کر ہمارے جوچارپانچ وکلاء تھے انہوں نے مل کر مجھے دبوچ لیااور عملی طور پرمجھے اٹھاکرہال سے باہر لائے اور لفٹ میں ٹھونس دیا پھر جتنی جلدی ممکن تھا وہاں سے مجھے لے کر نکل گئے۔ تنظیم میں کوئی اور کھچڑی پک رہی تھی: عدالتی کمیشن کے کمرے میں جج اور وکلا ء کی موجودگی میں میرا مشتعل ہونابرے نتائج کا سبب بن سکتا تھا۔ اس لئے انکوائری کمیشن کے احاطے سے دور نکلتے ہی میں نے پیش بندی کے طور پر اقدام کے لئے پولیس سے قریبی تعلقات رکھنے والے تنظیم کے ایک ذمہ داران کو فون کیا۔ ڈاکٹر کی طرف سے مجھے دی گئی دھمکی اور ساری صورتحال بتائی اور پولیس کے پاس ایک شکایت درج کروانے کو کہا۔(مگر افسوس کہ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا)جب میں نے فون کیا تواس وقت تنظیم میں میونسپل کاونسلرس کے امیدواروں کے لئے انتخابی میٹنگ اپنے اختتام پر تھی۔اس زمانے میں کاونسلرس علاقائی جماعتوں کی سفارش پر چننے کا سلسلہ شروع نہیں ہواتھا۔ امیدوار کو اپنی درخواست براہ راست تنظیم کے نام دینا ہوتاتھا۔اور سیاسی پینل امیدوار منتخب کیا کرتاتھا۔ اور میرا پتہ کاٹ دیا گیا: چونکہ چند ہی دنوں میں میونسپالٹی کا الیکشن ہونے والا تھا اس لئے ڈاکٹر چترنجن سے جرح میں وکیلوں کی مدد کرنے کے لئے بنگلورو جانے سے پہلے اپنے خیرخواہ احباب کے کہنے پر میں نے بھی پہلی بار میونسپل کاونسل کی امیدواری کے لئے تنظیم میں اپنی در خواست دے رکھی تھی ۔ اور عین اس وقت جب بنگلورو میں میرے اور ڈاکٹرچترنجن کے بیچ میں صرف ملّی مفاد کے لئے معرکہ آرائی چل رہی تھی تو یہاں بھٹکل تنظیم میں امیدواروں کے انتخاب کی میٹنگ جاری تھی۔ اور اس میٹنگ میں میر اپتہ کاٹ کر میری جگہ کسی اور شخص کو نامزد کیا جارہاتھا۔ میں نے جب ڈاکٹر کی دھمکی کے بارے میں فون کیا تو مجھے جواب میں یہ ’خوش خبری‘ سنائی گئی کہ’’ تم برا مت ماننا۔ تم کو آئندہ پھر کبھی موقع دیا جائے گا۔ کاونسلرشپ کے لئے تمہاری درخواست ا س میعاد کے لئے مسترد کردی گئی ہے!‘‘ سچ کہوں تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اس ’خوش خبری‘ سے وقتی طور پر دل کو ٹھیس تو پہنچی تھی، مگر ملت کے لئے بے لوث ہوکر خدمات انجام دینے کی جو امنگ دل میں جاگزیں رہی ہے وہ کبھی متاثر نہیں ہوئی۔ الحمدللہ!

لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے!

وکیل کو قرآن کا تحفہ: جیسا کہ میں نے اس مضمون کی پچھلی ایک قسط میں کہاتھا کہ جس وکیل نے مجھے سب سے زیادہ تنگ کیا تھا اسے میں نے کچھ اسلامی لٹریچر اسی وقت تحفتاً دیا تھااور قرآن کے ترجمے والا ایک نسخہ دینے کا وعدہ کیاتھا۔ اس وکیل کا نام بی ایم اڈیگا تھا۔جوشائد اس وقت بھی ہائی کورٹ میں وکالت کررہا ہے۔ جب جسٹس جگن ناتھ شیٹی اور وکلاء کی پوری ٹیم فسادات کی تحقیقات کے لئے بھٹکل کے دورے پر آئی تومیں نے اس وکیل کواپنے گھر چائے پر بلایا اور عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمے والا قرآن کا معروف نسخہ اس کی خدمت میں پیش کردیا۔ جسے اس نے بڑے خلوص اور عقیدت سے قبول کیا اور اس سے پوری طرح استفادہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اسلام کے تعلق سے نرم گوشہ: اس کے کچھ عرصے بعد جبکہ کمیشن کی تحقیقات جاری ہی تھیں،بنگلورو کے مضافات میں ایڈوکیٹ اڈیگا کی ماں کا قتل ہوگیا۔ اس وقت میڈیا میں اس قتل کو بھٹکل کی دہشت گردی اور وکیل سے بدلہ لینے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ مگر میرا احساس ہے کہ اس وقت تک اسلام، مسلمان اور بھٹکل کے تعلق سے اس ایڈوکیٹ کے خیالات میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہوچکے تھے۔ اس کی طرف سے اس قسم کا کوئی الزام یا غیر ضروری طور پر اس قتل کو پراسرار بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، جو اگر وہ چاہتاتھا تو اس وقت کے حالات میں کرسکتاتھااور اس کی باتوں کو پلڑا بھاری ہوتا۔ مگر اس نے اس قتل کو بھٹکل کے مسلمانوں سے جوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔پھر ڈاکٹر چترنجن کے قتل کے بعد جب ہائی کورٹ کے احاطے میں اچانک ہی میری اور یحییٰ دامودی صاحب کی ملاقات اس سے ہوگئی تو اس نے سنگھ پریوار کے وکیلوں کی ٹیم سے خود کے الگ ہونے کی بات کہی اور ہم سے کہا کہ اگر ہمیں اس کی پیشہ ورانہ خدمات درکار ہوں تو بلاجھجک رابطہ کریں ۔اس نے یقین دلایا کہ پہلے جس تندہی سے سنگھ پریوار کے لئے خدمات انجام دی تھیں اس سے زیادہ بہتر انداز میں اب وہ ہمارے مفاد کے لئے کام کرنے کو تیار ہے۔ وہ بالکل بدل چکاتھا: پھر 2006میں ہوئے ایک فرقہ وارانہ قتل میں میرے بھائی کو کلیدی ملزم بناکرپولیس کی طرف سے پھانسنے کی کوشش کی گئی تو ہائی کورٹ میں پیشگی ضمانت(anticipatory bail)کی درخواست پر سماعت کے وقت میں ہال میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے اشارہ کرکے مجھے باہربلایا۔ قریب جانے پراس نے پوچھا :’’ بھٹکل سے ڈاکٹر حنیف ہو،نا!۔ ‘‘میں نے قریب جاکر غور سے دیکھا تو وہ وہی ایڈوکیٹ بی ایم اڈیگا تھا۔وہ پوری طرح بدلابدلا لگ رہا تھا۔ بڑے خلوص کے ساتھ جناب سید محی الدین برماوراور جناب یحییٰ دامودی کا حال چال پوچھا۔ بھٹکل کے حالات اورسنگھ پریوار کی سازشوں کے بارے میں پوچھا۔ اور کھل کر بتایا کہ وہ پوری طرح ان نظریات اور خیالات سے الگ ہوچکا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں سنگھ پریوار کے وکیلوں کی ٹیم کی قیادت کرنے والے ایڈوکیٹ دورے راجو کو اب کرناٹکا ہائی کورٹ کا اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر (ایس پی پی)بنادیاگیا ہے۔ پھر طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دی گئی خدمات کے عوض میں اُس ایڈوکیٹ کوبطور انعام اس عہدے سے نوازا گیا ہے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سینئرایڈوکیٹ دورے راجوکو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا بہت ہی بااعتماد وکیل مانا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں جنتا دل اور بی جے پی کی مخلوط حکومت تشکیل دینے میں بھی مبینہ طور پر اس ایڈوکیٹ نے بڑا اہم رول ادا کیاتھا۔ یہ ہمارے خلوص کا صلہ تھا: ایڈوکیٹ اڈیگانے خود یہ بھی بتایا کہ قرآن کا جو نسخہ میں نے اسے دیا تھا اس کا وہ مطالعہ کرتارہتا ہے۔ اب وہ صرف پیشہ ورانہ خدمات تک ہی محدود ہے، اور سنگھ پریوار کی سرگرمیوں سے پوری طرح الگ ہوگیاہے۔ اس نے مجھے اپنے دفترپر آنے کی بھی دعوت دی، جسے میں نے آئندہ کے لئے ٹال دیا۔ اب تقریباً 12سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، پھر اس ایڈوکیٹ سے ملاقات کا کوئی موقع تو نہیں نکلا۔ لیکن میرے دل کو ہمیشہ یگ گونہ سکون اس بات سے ہوتا ہے کہ جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں جو دلچسپ معرکہ چلا اس کا نتیجہ تحقیقاتی رپورٹ میں چاہے جو بھی نکلا ہو، لیکن ہمارے خلوص اور لگن کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا اور ایک نوجوان ایڈوکیٹ جو کہ سنگھ پریوار کا کٹر پنتھی کارکن تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط سیاق و سباق کے ساتھ جس کی ذہن سازی اور تربیت کی گئی تھی۔ اس کے دل و دماغ اور خیالات کو بدلنے کا کام عملاً ممکن ہوگیا۔اس لئے ہم اسے اللہ کی طرف سے ہمارے لئے ایک بہترین صلہ اور سب سے بڑاانعام نہ کہیں تو کیا کہیں!۔ شکر الحمدللہ! خلاصۂ کلام کے طور پر کلیم عاجزؔ کے الفاظ میں بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ :

ہم نے کیا کیا نقش بنائے ، شمعیں جلائی ہیں کیا کیا رستہ رستہ یاد کرے ہے ، منزل منزل جانے ہے

  haneefshabab@gmail.com   (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے اور ان کے تجربات ہیں۔اس سے ادارہ  بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)