تبصرات ماجدی۔۔۔(۲۹)۔۔۔ تاریخ ادبیات ایران در عہد جدید۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:36PM Tue 13 Oct, 2020

#تبصراتِ_ ماجدی    از مولانا عبد الماجد دریابادی (29)۔

تاریخ ادبیات ایران در عہد جدید

مصنفہ پروفیسر براؤن۔ متر جمہ سید وہاج الدین انجمن ترقی اردو، دہلی

انگریزی میں پروفیسر براؤن کی ’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘ ایک مشہور و معروف کتاب ہے اور اپنے فن پر معتمد و مستند، یہ اس کی چوتھی اور آخری جلد کا سلیس و شستہ و محتاط ترجمہ ہے۔ متر جم ایک مشاق مترجم اور مصنف ہیں۔ انجمن ترقی اردو نے ترجمے کے لئے ان کا انتخاب ہر حیثیت سے اچھا کیا۔

مصنف کی کاوش، وسعتِ نظر و ذوقِ تحقیق کا پورا اندازه اصل کتاب ہی کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے، کچھ سرسری موٹا اندازہ فہرست مباحث پرنظر کرنے سے بھی ہو جائے گا،  کتاب تین مستقل حصوں میں تقسیم ہے، موضوع 1500 سے 1924 تک کا زمانہ ہے۔ حصہ اول میں ان چار صدیوں کی ایرانی تاریخ پر اجمالی نظر ہے۔ حصہ دوم ان چار صدیوں کی ایرانی شاعری پر ہے اور حصہ سوم ان چار صدیوں کی فارسی نثر پر۔ ابواب شمار میں دس ہیں اور ہر باب ایک متعین دور پر۔ مباحث کی دلآویزی اور مصنف کا حسن بیان دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ مترجم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ترجمہ میں مستقل تصنیف کا انداز پیدا کر دیا ہے۔ سرسری نظر سے دیکھنے میں صرف دو لفظ کھٹکے۔ ص 491 پر لیمپ کا ترجمہ لیمپ ہی کیا ہے۔ سیاق کہتا ہے کہ ’’چراغ‘‘ بہتر تھا، اسی طرح دوسرا لفظ ’’معذرت‘‘ ہے ص 313 پر، مترجم نے یہ لفظ Apology کے لیے رکھا ہے حالانکہ یہاں اپالوجی کا صحیح مفہوم تشریح، توضیح یا توجیہ Explanation سے ادا ہوتا ہے۔ انگریزی کے مترجمین اس لفظ کے تر جمے میں بڑی کثرت سے غلطی کر جاتے ہیں۔ خود مصنف کے حواشی کثرت سے ہٹی ہیں، مترجم نے اپنی طرف سےبھی جابجا حاشیہ دیئے ہیں اور ایک جگہ (ص337) مصنف سے اچھا خاصا اختلاف بھی کیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انگریزی کتابوں اور مصنفین کے نام اصل انگریزی میں دے دیئے ہیں، ان کے بغیر اس میں بڑی غلط فہمیوں کا امکان رہتا۔ کتاب مطبوعات کا ایک مخزن ہے اور معلومات محض ادبی نہیں، مذہبی اور کسی قدر سیاسی بھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ معلومات ہر جگہ تمام تر صحیح نہ ہوں مثلاً ص 476 پر مصنف کا یہ بیان کہ اہل سنت کے ہاں بابِ اجتہاد ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی اس کے مطالعہ کی پر زور سفارش کی جاسکتی ہے۔ فارسی شعر و ادب کے شائقین اورعلمی گھرانوں کا کوئی کتب خانہ اس سے خالی نہ رہنا چاہیے۔

(ہفتہ وار صدق مورخہ 20 مئی 1940 جلدنمبر 6 پرچہ نمبر 3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (30)۔

 محمد حسین آزاد از جہاں بانو بیگم صاحبہ

اداره ادبيات اردو حیدرآباد

آزاد کے سوانح اور کلام، نثر و نظم پر تبصرہ دکن کی ایک خاتون کے قلم سے نکلا ہے۔ اصل مقالہ ایم اے کے امتحان کے لئے تیار کیا گیا تھا، وہی ایک مستقل کتاب کی صورت میں شائع کر دیا گیا۔ طالب علمانہ کوشش کے معیار سے اچھا خاصا ہے لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے پیش کرنے میں مزید اہتمام کی ضرورت تھی۔ طنز و تعریض اور اپنے پیش روؤں کی تحقیر مصنفہ کے ’’عوض حال‘‘ سے شروع ہوگئی ہے اور ادب و سوانح کی کتاب جا بجا ’’کتاب الجدل‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ غلو کی مثالیں بھی کثرت سے ملیں گی۔ استدلالات اور بیانات میں نمایاں خامیاں ہیں مثلاً پہلے تو مولانا شبلی کے ایک خانگی مکتوب سے یہ فقرہ کھود کر نکالا گیا ہے کہ ’’آزاد تحقیق کے میدان کا مرد نہیں‘‘ اور پھر اس کی تردید میں سند پیش کی گئی ہے۔ حالی کے مرثیہ آزاد سے (ص65) یا مثلاً آبِ حیات کی زبان کی داد دینے کے موقعہ پر حالی، سر سید، نذیر احمد کے علاوہ تقابل و موازنہ میں اکبر کا نام بھی خواہ مخواہ لے آیا گیا ہے۔ ص 73۔ زبان بھی نظر ثانی کے بعد زیادہ بہتر بنائی جاسکتی تھی۔ نومشق اہل قلم کی ہمت افزائی یقیناً بہت ضروری ہے لیکن اسے بھی حدود مناسب کے اندر رہنا چاہئے ۔ مصنفہ میں صلاحیت اچھی ہے، امید ہے کہ تجر بہ و مشق کی پختگی کے ساتھ خیالات میں توازن پیدا ہوجائے گا۔

(صدق نمبر 11 جلدنمبر6 مورخہ 23 جولائی 1940)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (31)۔

باقیات بجنوری ( مجموعہ مضامین) از عبدالرحمٰن بجنوری

مکتبہ جامعہ دہلی

آج سے 25 سال قبل علی گڑھ کے حلقوں میں عبدالرحمٰن بجنوری کی خاص شہرت تھی۔ علی گڑھ کے باہر بھی علمی و ادبی حلقے ان سے خاصے روشناس تھے۔ اپنے زمانے کے مشہور مضمون نگار تھے۔ سنجیدہ اور ٹھوس علمی عنوانات پر شعر و ادب سے بھی خاص ذوق رکھتے تھے۔ دیوانِ غالب کا نسخۂ حمیدیہ انہیں کا مرتب کیا ہوا ہے۔ 1918 کی وبائے انفلوئنزا میں عین عالم شباب میں رخصت ہو گئے۔ باقیات انہیں کی تحریروں کے مجموعے کا نام ہے۔ شروع میں ایک مضمون ٹیگور کی کتاب ” گیتا بجلی‘‘ پر اور دوسرا وضع اصطلاحات علمیہ اور تیسرا ’’سیر لکھنؤ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کے بعد ایک عنوان ہے ’’داشتہ آید بکار‘‘ اس کے ماتحت مکاتیب ہیں یعنی وہ خطوط جو مرحوم نے برلن اور لندن سے اپنے والد ماجد اور دوسرے عزیزوں دوستوں کو لکھے تھے۔ آخیر میں مرحوم کی لکھی ہوئی چند نظمیں بھی ہیں۔

اس مجموعۂ متفرقات یا کشکول میں نرم وگرم سب ہی طرح کی چیزیں مل جاتی ہیں لیکن کام کی باتوں اور مفید اجزاء کا حصہ غالب ہے۔ مفید اخلاقی، عقلی، تعلیمی اور تربیت و ورزش جسمانی کے اعتبار سے بھی۔ طرز تحریر ذرا پرانا ہو گیا کچھ تو اس لیے کہ خود تحریروں کو بھی 25-30 سال عرصہ ہو چکا ہے اور کچھ اس لیے بھی کہ مرحوم تھے ہی مشرقیت کے زیادہ دلدادہ۔ اس کشکول کے اندر کیا کچھ بھرا ہے، اس کا پورا حال تو اصلی کتاب ہی سے معلوم ہوگا۔ البتہ ذیل کے اقتباس سے ایک ہلکا اور سرسری اندازه مرحوم کے طرزِ تحریر اور پروازِ خیال کا ہو ہی جائے گا۔ 25 ستمبر 1913 کو استنبول سے اپنے والد ماجد کے نام ایک طویل خط میں لکھتے ہیں:

’’یہ سب کو معلوم ہے کہ ترک اپنی عیسائی رعایا کے مقابلے میں تعداد میں کم ہیں۔ دولت اور تجارت عیسائی رعایا کے ہاتھ میں ہے مگر ان عیسائی اور ترکوں میں ایک فرق ہے جو ایک نگاہ میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ ترکوں میں شرافت، جسارت، دیانت ،تقوی، غرض انسانیت کا ہر جوہر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان عیسائیوں کی رزالت، بزدلی، فریب دہی، فسق و فجور کی زندگی بہائم سے کسی درجہ کم نہیں…سب سے بڑی خوبی جو ترکوں میں ہے، وہ اخوت اسلامی کا وجود ہے۔ قسطنطنیہ ہی دنیا میں میں نے ایک ایسا مقام دیکھا ہے جہاں شاہ و گدا کا ایک رتبہ ہے۔ عالی حضور خلیفۃ المسلمین جو مسند رسول اللہ کے جانشین ہیں، سادگی اور اخلاق کی مجسم تصور ہیں۔ آپ کی نسبت مشہور ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ملازم کو آفندم (میرے آقا) کے بغیر خطاب نہیں فرماتے۔

ترک صدیوں سے مغربیوں کے ہمسایہ ہیں مگر آج تک جس طرح آبِ کثیف میں پائے نگاہ تر نہیں ہوتے بے لوث ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس سے بڑھ کر قومی عصبیت اور اسلامی اثر کا ثبوت نہیں ہو سکتا‘‘

ص 167-166۔

کتاب لیتھو میں نہیں، ٹائپ میں چھپی ہے۔ گرد پوش جلد وغیرہ دیده زیب۔ شروع میں تعارف کے چند صفحے رشید صاحب کے قلم سے ہیں۔

(ہفتہ وارصدق مورخہ 21 اپریل 1941، پر چہ نمبر 47 جلدنمبر6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (32)۔

بزم اکبر از مولوی قمر الدین بدایونی

انجمن ترقی اردو دہلی

اکبر جیسے نامور سخن گو کی کوئی قابل ذکر سوانح عمری اب تک اردو میں موجود نہیں۔ کلام پر تبصرہ بھی ان کے شایان شان نہیں۔ کلام کا ایک خاصہ بڑاحصہ وفات سے 20 سال گزر جانے پر اب تک غیر مطبوع اور ان کے صاحبزادہ کے پنجہ غصب میں محصور ہے، اس صورت میں انجمن ترقی اردو کی یہ کوشش یقیناً قابلِ داد ہے کہ اس نے کچھ تو اس سلسلہ میں قدم بڑھایا اور ایک کتاب اوسط درجہ کی سہی اکبر کی سیرت و کلام پر شائع تو  کرادی۔ بزم اکبر کے مصنف خود بھی شاعر ہیں، سخن فہم ہیں اور حضرت اکبر کے آخر زمانہ کے ملنے والے لیکن تصنیفی تجربہ شاید زیادہ نہیں رکھتے۔ حالات انہوں نے اچھے خاصے جمع کر دیے ہیں۔ کلام پر تبصرہ بھی برا نہیں، لیکن اول تو وسعت موضوع کے لحاظ سے کتاب مختصر بہت ہے اور پھر کتاب کی ترتیب اور انتخاب مضامین میں بھی ترقی کی بہت کچھ گنجائش تھی، حضرت ا کبرمعصوم یقیناً نہ تھے لیکن سیرت کی جن کمزوریوں کو نمایاں کرنے کی کوئی شدید قومی یا ملی ضرورت نہ ہو انہیں غیرواضح ہی رہنا چاہیے تھا، اسی طرح حضرت اکبر کے کلام پر تبصرہ کے ضمن میں مصنف کا بار بار اپنے یا اپنے عزیزوں کے کلام کو پیش کرنا یا اپنی اصلاحوں کا ذکر کرنا بھی مذاق سلیم کو بہت گراں ہے۔ مصنف اکبر صاحب کے سامنے بالکل……تھے لیکن لب و لہجہ جو اختیار کیا ہے، وہ بالکل برابر والے معاصرین کا ہے۔ کلام پر گرفتیں جو کی ہیں ان میں سے اکثر خود قابل گرفت ہیں۔ توجہ جتنی مناقب اکبر پر کی ہے، اس سے کچھ کم مثالب اکبر پر بھی ہے اور ذیل کے فقرے اور الفاظ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کس عالم میں قلم سے نکل نکل گئے ہیں۔

’’خود اس جہل مرکب سے نہ بچ سکتے تھے۔‘‘ 213، ’’ کوئی بات نظم میں ادا کرنے کے قابل ہو یا نہ ہو مرحوم کو کہے جانے کی عادت ہوگئی تھی ۔‘‘ 213،  ’’زیادہ گوئی کو بکنے کی حد تک پہنچا دیتے تھے۔‘‘ 213، ’’یہ شاعری ہے یا ہذیان بوقت بخار‘‘ 215، ”بے کار مباش کچھ کیا کر، کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر‘‘ 215، ’’ ک کا گرنا اکبر کی بلا جانے‘‘ 216، ’’طفلانہ نقالی‘‘ 217، طفلانہ کوششیں 217، 1 کا دبنده عجوبہ اضافتین‘‘ 220 رکیک وغليظ اشعار‘‘221

خدا نہ کرے کہ اس خوش تمیزی کی ہوا اردو میں عام ہو جائے اور خدا نہ کرے انجمن ترقی اردو جیسی خود دار ادبی مجلس آیندہ ایسے خوش سلیقہ اہل قلم کا قلم آزاد رکھے چھوڑے۔

ان پہلووں کے باوجود کتاب فی الجملہ دلچسپ ہے اور اکبر سے ہر دلچسپی رکھنے والے کے لیے قابل مطالعہ

(ہفتہ وار صدق پرچہ نمبر 8 جلد 7، 23 جون 1941)

ناقل: محمد بشارت نواز

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/