ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(دوسری قسط)۔

Bhatkallys

Published in - Other

05:07PM Sun 4 Jun, 2017
اب آئیے کہ مولانا حسرؔ ت موہانی کے جواب کے بعد کان پور جانے کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ قاضی عدیل مسلسل سست رہنے لگے آخرکار نئی نویلی دولھن نے معلوم کیا کہ اتنے چپ چپ کیوں رہتے ہیں؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ گھر کا ماحول تمہارے سامنے ہے اور میں جنگِ آزادی میں حصہ لے کر جیل جانا چاہتا ہوں۔ وفا کی پیکر نے کہا کہ جاؤ روکا کس نے ہے؟ قاضی صاحب نے کہا کہ میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے اور گھر میں کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا۔ تب سچی رفیقۂ حیات نے کہا کہ میرے ابا دس روپئے دے گئے ہیں وہ لو اور چپکے سے نکل جاؤ۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ۔ چنانچہ یہ دس روپئے کا سرمایہ لے کر میں روانہ ہوگیا۔ کان پور کے اسٹیشن پر قلی نے میرے سامان کے لئے چار آنے مزدوری طلب کی یہ گراں قدر رقم میرے امکان سے باہر تھی چنانچہ سر پر بکس رکھ کر باہر لایا اور یکہ پر بیٹھ کر حسرتؔ موہانی کی دُکان پر پہونچا۔ وہاں دیکھا کہ ایک بزرگ سدیشی کی سیاہ دھاری دار شیروانی، سانولے رنگ، چیچک رو، بڑی بڑی آنکھوں پر چشمہ لگائے آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔ نگاہ آسمان کی طرف ہے اور کچھ گنگنا رہے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ یہی مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی ہیں۔ ان قصوں میں رات کے آٹھ بج گئے تب جاکر مولانا میری طرف مخاطب ہوئے اور میرے چار صفحات کے خط کا جواب چند جملوں میں دیا۔ آپ اسی دُکان پر آیئے اور تجارت کا کام سیکھئے آپ کو 40 روپئے ماہوار ملیں گے۔ میں نے سوچا تھا کہ میری فلسفیانہ بحثوں، خاندانی حالات، کشمکش خیال، روزی اور خدمت کے تصادم پر کچھ سیر حاصل گفتگو ہوگی، کچھ سمجھائیں گے، کچھ زندگی کے نشیب و فراز بتلائیں گے، کچھ دماغی تفوّ ق اور ذہنی برتری کا سکہ میرے اوپر بٹھائیں گے، مگر حسرت تھے شاعر اور سراپا عمل ان کے پاس ان چند جملوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ اپنی زندگی میں ہندوستان کے بہت سے بڑے آدمیوں سے ملا ہوں لیکن مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا جو حسرت کی اس ملاقات سے ہوا۔ جس طرح میں تحریر کررہا ہوں اسے پڑھ کر یہ معلوم ہوگا کہ وہ بڑے خشک آدمی تھے۔ انہوں نے نہ میرا خیرمقدم کیا اور نہ پوچھا کہ کب آئے؟ گویا ہم آگئے تو ان پر بوجھ ہیں اور نہ آتے تو اچھا تھا۔ آپ سوچیں گے تو آپ کی غلطی ہوگی مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ان چند جملوں میں اپنے کل سوالات کے جواب مل گئے۔ مجھے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ حالانکہ میں ایک حساس دل رکھتا ہوں لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہی ہونا چاہئے تھا۔ ’’مجھے الفاظ نہیں ملتے ہیں کہ میں اپنے اس جذبہ کا اظہار کروں حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ جذبہ رکھتے تھے اور نہ دوسروں میں پیدا کرتے تھے سراپا ٹھوس عمل تھے سیدھے سادے، بے تکلف، بے تصنع، نہ ستائش کی تمنا نہ گلے کی پروا ہر انسان ان سے مل کر یہ محسوس کرتا تھا کہ اس جھوٹی اور بناوٹی دنیا میں سچائی اور سیدھا پن بھی ہے۔ میں بے تکلف وہاں سے ایک مسجد میں چلا گیا۔ مسجد میں کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ تم کہاں ٹھہرو گے؟ اور آج تک میں نے یہ نہیں سوچا کہ انہوں نے کیوں نہیں پوچھا؟ عام طور پر یہ ناراضگی کی بات تھی کہ اتنی دور سے بلایا اور اب ٹھہرنے کے بارے میں دریافت بھی نہ کریں۔ لیکن میں بالکل مطمئن تھا مجھے ایک نئی دنیا ملی تھی اس نئی دنیا میں مجھے ؂ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے مولانا حسرتؔ موہانی کو سمجھنے کے لئے میرا خیال ہے کہ یہ واقعات کافی ہیں۔ حسرتؔ انتہائی مفلس تھے لیکن یہ مفلسی ان کی اختیاری تھی وہ اس وقت بی اے پاس ہوئے جب یہ ڈگری بذاتِ خود بڑی سے بڑی نوکری کے حصول کا دروازہ کھول دیتی تھی۔ لیکن وہ اُردوئے معلی نکالتے رہے میاں بی بی مل کر پریس چلاتے تھے اور قلیل آمدنی پر گذارہ کرتے تھے۔ ایک دن مولانا آزاد سبحانی نے حسرت سے کہا کہ مولانا کیا آپ دو پیسے کے پان منگوا سکتے ہیں؟ حسرت نے اپنا محبوب مشغلہ گنگنانا بند کرکے دُکان کے ملازم سے کہا دو پیسے کے پان لادو۔ ابھی وہ گیا بھی نہیں تھا کہ مولانا سبحانی نے کہا کہ مولانا اگر اس خرچ کو چار پیسے تک بڑھا دیا جائے تو آپ منظور نہیں کریں گے حسرت نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ نہیں۔ اور پھر شعر گنگنانا شروع کردیا۔ ایک مرتبہ انہوں نے ہماری دعوت کی ایک میں اور ایک حسرت ڈیوڑھی میں ایک بوریا بچھ گیا اور خود حسرت اپنے ہاتھ میں ایک سینی لئے ہوئے آئے جس میں روٹی اور چنے کی دال تھی اور ہم دونوں نے کھا لیا۔ ایک بار نواب رام پور نے پوچھا کہ مولانا آپ تھرڈ کلاس میں کیوں سفر کرتے ہیں؟ مولانا نے جواب دیا کہ ’’کیونکہ فورتھ کلاس نہیں ہے؟‘‘ مولانا حسرت موہانی صوبائی صدر کانگریس چنے گئے۔ اجلاس کی صدارت کے لئے جس دن انہیں پہونچنا تھا اس سے پہلی رات کو وہ پہونچ گئے اور پنڈال میں سکریٹری کو تلاش کرنے لگے۔ اجلاس گاہ میں صدر کے لئے الگ خیمہ لگایا گیا تھا اور پروگرام تھا کہ اسٹیشن سے ہار پھول گلے میں بھرکر نعرے لگاتے ہوئے لائیں گے۔ اور مولانا سکریٹری کو تلاش کررہے تھے کہ رات کو سونے کے لئے ایک چار پائی بچھا دو۔ ؂ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا قاضی صاحب کا یہی مضمون تھا جسے پڑھ کر حیات اللہ انصاری نے لکھا ہے کہ عدیل صاحب مضمون نگار بھی اعلیٰ پایہ کے تھے انہوں نے حسرت موہانی پر جو مضمون لکھا ہے وہ شخصیت نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ حسرت موہانی تاجر بھی تھے، لیڈر بھی، شاعر بھی، مصلح بھی اور زبردست مذہبی بھی، ساتھ ساتھ بے حد بکھرے ہوئے بھی اور دنیاوی مسائل سے بہت دور غیرعملی انسان تھے ان پر جو مضامین لکھے گئے ان میں صرف ایک یا دو پہلوؤں کو لیا گیا اس وجہ سے ان میں پورے حسرت سے ملاقات نہیں ہوتی۔ عدیل صاحب کے مضمون میں ایسے حسرت ملتے ہیں جو بھرپور شخصیت ہیں۔ (جاری) Mobile No. 9984247500