سچی باتیں ۔۔۔ عزت کا معیار۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

05:22PM Thu 7 Sep, 2017

کلام مجید ،سورۂ توبہ میں  ایک آیت میں  اُن اہلِ کتاب سے جو اللہ کے دشمن ہیں،جنگ کرنے کا حکم وارد ہوا ہے،اور آیۂ پاک کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے، حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ۔ یہاں  تک کہ وہ جزیہ دینا منظور کریں،اور ذلیل ہوکررہیں،’’صَاغِرُوْن‘‘کے مفہوم میں  وہ لوگ داخل ہیں،جو دب کر،محکوم ہوکر،پست وگمنام ہو کر رہیں۔اس حالت میں  کون لوگ ہیں؟آیۂ کریمہ کے شروع کے الفاظ ہیں:  الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ  وہ لوگ جو اہل کتاب میں  ہیں  مگر نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں  نہ یو م آخرت پر اورنہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں  کو حرام سمجھتے ہیں  اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں۔  قتال کے احکام وشرائط کی تفصیل ایک الگ مسئلہ ہے یہاں  صرف کہنا یہ ہے کہ انسانوں  کی ایک قسم ایسی ہے، جسے حسب  تصریح قرآنی ، مسلمانوں  کی نظر میں  پست وذلیل ،بے عزت و بے قدر ہوکر سہنا چاہیے ،اور وہ کس قسم کے لوگ ہیں؟وہ لوگ ہیں  جن کا ایمان نہ خدا پر ہے نہ آخرت پر اور وہ جو نہ خدا اوررسول کی حرام کی ہوئی چیزوں  کی حرمت کے قائل ہوتے ہیں  اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں۔  قرآن کا حکم ،صاف اور واضح حکم یہ تھااس کے مقابل آپ کا عمل کیا ہے؟آج جو ’’اہلِ کتاب‘‘قومیں  اپنی ترقی کی گھوڑدوڑ میں  نہ توحید کی قائل ہیں  نہ حشر نشرکے عقیدہ پر غوروفکر کے لیے وقت رکھتی ہیں،ان کی بابت آپ کے دماغ کا،آپ کے دل کا،آپ کے نفس کا فتویٰ کیا ہے؟فرانس و انگلستان ،جرمنی واٹلی،روس و امریکہ کی پر قوت قومیں  آج روزانہ کتنے گھنٹے عبادت الٰہی کے لیے وقف رکھتی ہیں؟اپنی زندگی کے کس شعبہ میں  توحید کی قائل نظر آتی ہیں؟حشر ونشر پر اپنے ایمان کا کس گھڑی ثبوت دیتی ہیں؟خدا اور رسول کے احکام کو اپنے ڈاکٹروں،اپنے مہندسوں ،اپنے ستارہ بینوں،اپنے فلسفیوں،اپنے شاعروں،اپنے لیڈروں،اپنے اڈیٹروں،اپنے ایکٹروں،اپنے بازیگروں،اپنے بھانڈوں ،کسی کے اقوال کے برابر بھی جگہ دیتے ہیں؟اور پھر بھی آپ انھیں  کیا اور کیسا سمجھتے رہتے ہیں؟انھیں حقیر و ذلیل ،جاہل بے علم سمجھتے ہیں، یا اس کے بر عکس ان کے علم و فضل کے کلمہ گو ہیں؟ان کی ’’تحقیقات ‘‘کی خوشہ چینی اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں؟ان کے اقبال وچشم سے مرعوب ہیں؟اور ان کے اسکولوں  اور کالجوں  ان کے کتب خانوں  اور یونیورسٹیوں  کو بطور بلند ترین نمونوں  کے اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔  جب تک ان کی علمی وعقلی فضیلت کا یہ جھوٹا رعب دلوں  پر قائم ہے ،جب تک ان کا دل اور ان کا دماغ آپ کو مرعوب کئے ہوئے ہے، جب تک ان کی خوش اقبال و کامرانی آپ کو مسلم ہے ،جب تک زہر کوتریاق اور سیاہ کو سفید سمجھتے رہنے پر آپ کا اصرارقائم ہے،کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کہیں  اپنے ایمان میں  ثابت رہ سکتے ہیں؟اپنا رشتہ اپنے رب سے استوار رکھ سکیں؟اور خود ایک غیور و خود دار غیرت مند و بے حمیت مومن صادق بن سکیں؟