حاجی جمال محمد (۳)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر عبد الحق کرنولی
کامیابی سے چلتا رہا، اور اس مدرسے سے صدہا نوجوان اپنی تعلیم ختم کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں چلے گئے۔
آج بھی جنوبی ہندکے بعض مشہور افسر، وکلا، ڈاکٹر، پرنسپل اور سیاست دان اسی ہاسٹل کے بورڈروں میں سے ہیں۔ ایک بات ان سب میں مشترک پائی جاتی ہے، اور وہ ان کی مذہبیت اور ملّی حمیت ہے۔ بانی کے خلوصِ نیت کا اثر تھا کہ ان کی اسکیم بڑی کامیاب رہی۔ شاید یہ اور بہت دنوں چلتا، لیکن تجارت کے پلٹاکھانے اور اقتصادی حالت کے عام طور پر بگڑ جانے کی وجہ سے بہ امرِ مجبوری اس اسکیم کو ختم کرنا پڑا۔
ء۱۹۲۴ کے رمضان میں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ بہت دیر تک میرے ساتھ بیٹھے ہوئے گفتگو فرما رہے تھے، اس سلسلے میں ’’ہبرٹ لیکچرز‘‘کا ذکرآگیا اور انھوں نے محسوس کیاکہ آکسفورڈ نے جس طرح اس قسم کے علمی اور مذہبی لیکچرزکا انتظام کیا ہے، ہم کوبھی چاہیے کہ اپنے نوجوانوں کے لیے اسی قسم کا ایک سلسلہ چھوٹے پیمانے پر رائج کریں۔ میں نے کہا ’’یہ کر تو سکتے ہیں لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے اخراجات خاصے ہوں گے۔‘‘۔
جمال محمد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں سالانہ پانچ چھ لیکچرز کے لیے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے تو کیا اخراجات ہوا کریں گے؟ میں نے کہا کم ازکم دوہزار اور زیادہ سے زیادہ تین چارہزار کے قریب بجٹ ہوگا، اور آپ اس اسکیم کے ماتحت ہندوستان کے بہترین اصحاب کو اس سلسلے میں مدعو کرسکتے ہیں۔ جمال محمد صاحب نے فی الفور اس کو منظور کرلیا اور تن تنہا سارے مصارف اپنی جیب سے دینے کا وعدہ کیا، اور صدر انجمن تعلیم مسلمانان جنوبی ہند کی سرپرستی میں ایک کمیٹی بنائی اور انتظام حمید حسن سیٹھ مرحوم کے سپرد ہوا، اور پہلے لیکچررکا انتخاب مجھ ہی پر موقوف رکھا، اور میں نے علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم کا نام پیش کیا کہ ان سے درخواست کی جائے کہ سیرتِ نبوی کے بعض اہم پہلوؤں پر ان کی تقریریں ہوں۔ خط کتابت کے بعد علامہ مرحوم نے ہماری درخواست قبول کرلی اور وہ مدراس رونق افروز ہوئے اور یہاں وہ مشہور خطبے دیے جو بعد میں ’’خطباتِ مدراس‘‘کے نام سے دارالمصنفین سے شائع ہوئے۔ کتاب کی اہمیت اور ان خطبات کی افادیت پر لکھنا تحصیل حاصل ہے، اور یہ لکھنا شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ ان خطبات نے بہت سے نوجوانوں کی زندگی میں انقلاب پیداکردیا۔(ارض دکن کے خطیب بے بد ل نواب بہادر یار جنگ مرحوم کے سلسلے میں مشہور ہے کہ خطبات مدراس نے انہیں سیرت النبی ﷺ کا نامور خطیب بنا یا تھا۔ ع۔م۔م) جمال محمد صاحب مرحوم کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، یہ محسوس ہورہا تھاکہ میں نے جو کچھ کیا وہ بہت کم ہے، اور یہ کامیابی اور شاندار نتیجہ حقیقت میں فضلِ الٰہی ہے۔