بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (تیسری قسط) ۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(....گزشتہ سے پیوستہ) آج کل سنگھی ذہنیت اور ہندوتواوادی سادھوسنتوں کے اجلاس سے خطاب کرتی ہوئی ایک خاتون کا ویڈیو وائرل ہوگیا جس میں اسلام پر جم کر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ طرزفکرکسی ایک سادھو یا سادھوی کی سنک یا خر دماغی نہیں ہے ، بلکہ یہی آر ایس ایس کی اصل آئیڈیا لوجی ہے۔ آر ایس ایس کی طرف سے اپنے کیڈر کی انہی خطوط پر ذہن سازی برسہا برس سے کی جارہی ہے۔اور زندگی کے ہر شعبے میں اس طرح کے تربیت یافتہ زعفرانی بریگیڈس اور اراکین موجود ہیں۔اس کا سابقہ جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں 25 سال پہلے پڑ چکا ہے۔یہ ویڈیو کلپ جنہوں نے دیکھا ہے، ان کے لئے بھی سوالات و جوابات کا یہ سلسلہ استفادے کا سبب ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ میں نے سابقہ قسط میں کہا تھا ،میں تو فسادات کے تعلق سے جوابات دینے کے لئے تیار ہوکرکمیشن میں گیا تھا۔لیکن یہاں کا منظر نامہ ہی بدل گیا تھا۔ سنگھ پریوار کے وکلا آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کے تحت تربیت پائے ہوئے تھے۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر زاویے سے چبھتے ہوئے سوالات کرنے کی پوری تیاری کررکھی تھی۔اور انہوں نے مجھے نشانے پر لے لیا۔ مگر اللہ نے اس وقت میری غیبی مدد کی اور بغیر تیاری کے بھی ذہن میں جوابات جیسے نازل ہوتے گئے۔اس کا اندازہ قارئین کو ان مسلسل قسطوں کے مطالعے سے ہوگا۔ملاحظہ کریں:
وکیل : مسلمان ختنہ بھی کرتے ہیں؟
جواب : ختنہ نہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہو جاتا۔ سنّت ہے اس لئے کیا جاتا ہے۔ اور صحت کے لئے بھی یہ ایک مفید عمل ہو تا ہے۔
وکیل: کیا تم مانتے ہوکہ 99% ہندو بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔
جواب : جی ہاں!
وکیل : اور بت پرستی اسلام میں حرام ہے۔اور مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ جبکہ گائے ہندوؤں کے لئے ایک مقدس جانور ہے۔
جواب : جی ہاں میں مانتا ہوں۔
وکیل : کیا تم مانتے ہو کہ ہندو اپنی پوجا میں آلات موسیقی جیسے ہارمو نیم ، طبلہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اور گاتے بجاتے ہیں؟
جواب : جی ہاں میں مانتا ہوں۔
وکیل : تم لوگ اپنی نماز میں کیا کرتے ہو؟
جواب : ہم لوگ اپنی عبادت میں آلات موسیقی کسی بھی حالت میں استعمال نہیں کرتے۔
وکیل : پھر اذان لاؤڈ اسپیکر پر کیوں دی جاتی ہے؟
جواب : تا کہ اذان یعنی لاؤڈ اسپیکر پر پکارنے کی آواز دور دور تک لوگوں کے کانوں میں پہنچ جائے اور وہ لوگ نماز میں شریک ہو سکیں۔
وکیل : لنگیاں اور ٹوپیاں بھٹکلی مسلمانوں کی مخصوص وضع ہے۔ ہے نا؟
جواب : لنگیاں اور خصو صاً ’’مولانا لنگیاں‘‘ تو بھٹکل میں ہندو بھی پہنتے ہیں۔ پجاریوں اور پنڈتوں کو چھوڑ کر۔
وکیل : نہیں ۔ checks والی لنگیاں اور ٹوپیاں توبھٹکلی مسلمانوں کی خاص علامت ہے۔
جواب : کچھ حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے۔
وکیل : مسلمان لنگیاں اور پاجامے اپنے ٹخنوں سے اوپر پہنتے ہیں جبکہ ہندو لنگیاں اورپاجامے اپنی ایڑیوں تک پہنتے ہیں۔ ہے کہ نہیں؟
جواب : ہاں ایسا ہے۔
وکیل : ہندو مخصوص درختوں کی پوجا کرتے ہیں۔ کیا تمہیں پتہ ہے؟
جواب : جی ہاں ، میں جانتا ہوں ۔
وکیل : اور تم مسلمانوں نے بھٹکل میں فسادات کے وقت ان مقدس درختوں کو کاٹا تھا، اور اس پر پیشاب کر دیا تھا!
جواب : مجھے تمہارے اس بے ہودہ سوال پر ہنسی آ رہی ہے ۔ میں کیا جواب دوں؟
وکیل : کیا مسلمان ہندوؤں کے مندروں میں جاتے ہیں؟
جواب : سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ بت پرستی اسلام میں حرام ہے۔
وکیل : اور وہ جو درگاہ پر جاتے ہیں؟
جواب : وہاں کوئی عبادت یا worship کے لئے نہیں جاتا۔ اکثر درگاہ سے متصل مسجد بھی ہوتی ہے، سو وہاں نماز کے لئے جاتے ہیں۔درگاہ کوئی عبادت خانہ نہیں ہے۔
وکیل : ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ جو سیاسی لیڈروں نے لگایا تھا، وہ انڈیا کو اسلامیانےIslamization (اسلامی رنگ دینے) اورہندوؤں کو دھو کا دینے کی ایک سازش تھی۔
جواب : نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا۔
وکیل : دارالاسلام کیا ہے؟
جواب : دارالاسلام ایک پرُامن اسلامی ملک کو کہیں گے۔
وکیل : اسلامی ملک کیا ہے؟
جواب : اسلامی ملک وہ ہوتا ہے، جہاں اسلامی قوانین یعنی شریعت نافذ ہو۔
وکیل : پھر دارالحرب کیا چیزہے؟
جواب : دارالحرب وہ جگہ ہے جہاں اسلامی حکومت اور اسلامی حکومت کے باغیوں کے درمیان جنگ چھڑی ہو۔اور ان باغیوں میں مسلمان بھی شامل رہ سکتے ہیں، جنہیں منافقین کہا گیا ہے! ( اس جگہ غالباً وکیل میرے منھ سے اسلامی حکومت اور کافروں کے درمیان جنگ سننا چاہتے تھے)
وکیل : تو پھر ہندوستان کیا ہے؟ دارالاسلام؟ دارالحرب؟ یا کچھ اور؟
جواب : ( بڑی پریشان کن صورتحال تھی۔ ایک لمحہ کے لئے کچھ سجھائی نہیں دیا۔ پھر سنبھل کر کہا:)یہ ایک الگ صورتحال ہے۔ اسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔ نہ یہ دارالاسلام ہے اور نہ دارالحرب۔ (کیونکہ محض دستوری حیثیت سے ہی سہی، یہ ایک سیکیولر ملک ہے)
وکیل : کیا واقعی اس کے لئے کوئی ٹرمنالوجی نہیں ہے؟
جواب : نہیں کوئی ٹرمنالوجی(اصطلاح) نہیں ہے۔
وکیل : کیا تمہیں پتہ ہے کہ کشمیری دہشت گرد، ہندوستان کو دارالحرب کہتے ہیں؟
جواب : نہیں مجھے پتہ نہیں ہے۔
وکیل : کیا ایک سچے مسلمان کا یہ مذہبی فریضہ نہیں ہے کہ وہ دارالاسلام کے لئے جدوجہد میں لگا رہے؟
جواب : نہیں، یہ عام مذہبی فریضہ نہیں ہے۔ ( حالات کی نزاکت یہاں اسی جواب کی متقاضی تھی)
وکیل : اچھا تو یہ بتاؤ کہ اگر تمہارے سامنے اسلامی مفاد اور اس ملک کا مفاد درپیش ہو تو تم کس چیز کو اوّلیت دوگے؟
جواب : (یہ بھی ایک خطرناک سوال تھا، میں سنّاٹے میں آ گیا... پھر اللہ نے مدد فرمائی... تو میں نے پلٹ کر پوچھا) تم کہنا کیا چاہتے ہو صاف صاف کہو!
وکیل : یہی کہ اسلام کے مفاد اور اس ملک کے مفاد میں تم کسے چنوگے؟
جوا ب : نہیں ۔ مہمل اورمبہم(ambiguous) انداز میں نہیں۔ تم واضح سوال کرو۔
وکیل : فرض کرو کہ کسی اسلامی ملک نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ اس صورت میں؟
جواب : اس وقوت دنیا میں کوئی اسلامی ملک ہے ہی نہیں!
(اس جواب پر عدالت میں موجودتمام لوگ چونک پڑتے ہیں)
وکیل : کیا؟
جواب : جی ہاں ! کوئی اسلامی ملک نہیں ہے!
جج : (خود مداخلت کرتے ہوئے) پھر پاکستان اور سعودی عربیہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
جواب : وہ سب مسلم ممالک ہیں ، اسلامی ممالک نہیں!
پھر ایک بار جج اور وکیل دونوں چونک پڑتے ہیں اور دونوں بیک وقت سوال کرتے ہیں: اسلامی ملک اور مسلم ملک میں کیا فرق ہے؟
جواب : اسلامی ملک وہ ہے جہاں شریعت نافذ رہتی ہے۔ پھر وہاں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ ہوتا ہے۔
وکیل : اچھا فرض کرو ایسی کوئی صورتحال پیش آ گئی تو؟
جواب : جب ایسی کوئی صورتحال ہے ہی نہیں تو پیش کیسے آ گئی؟
وکیل : اچھافرض کرو کہ پاکستان نے ہندوستان پر حملہ کر دیا؟
جواب : ایسی صورت میں بالکل میں اپنے ملک کا دفاع کروں گا۔ یہ میرا وطن ہے۔ میرا ملک ہے ۔ مجھے یقیناً اس سے محبت ہے۔
وکیل : تو جن لوگوں نے 1947 میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے لئے ووٹ دیا تھا، ان۔۔۔
جواب : (وکیل کی بات کاٹتے ہوئے) وہ لوگ بے وقوف تھے۔ جنہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا۔
وکیل : وہ لوگ بے وقوف تھے یا تم مولانا آزاد کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ پاکستان مت جاؤ، بلکہ ہندوستان میں رہ کر پورے ہندوستان کو پاکستان بنادو؟
جواب : نہیں مولانا آزاد نے کہیں بھی اور کبھی بھی ایسا نہیں کہا۔
جج : ( مداخلت کرتے ہوئے) شاید ان تیس صفحات میں لکھا ہو، جو مولانا کے انتقال کے تیس سال بعد کھولے گئے۔ ( یاد رہے کہ اس وقت یعنی کمیشن میں میرے بیان کے وقت مولانا آزاد کے ان تیس صفحات کا چرچااخباروں کی سرخیوں میں تازہ تازہ تھا)
جواب : نہیں ! میں جانتا ہوں کہ مولانا نے اس میں بھی ایسا نہیں کہا ہے۔
یہاں سیشن کا اختتام کرتے ہوئے کھانے کا وقفہ Lunch Break دیا گیا تو سب سے پہلے ہمارے وکلاء کی ٹیم نے آگے بڑھ کر میری بے باکی اور
بر جستہ معقول جوابات کی دل کھول کر ستائش کی۔ ہماری ٹیم کے ایک سینئر وکیل ایڈوکیٹ مشتاق احمد نے بڑے والہانہ انداز میں مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا: ’’دشمنوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں صاحب! قسم سے، دل خوش ہو گیا!‘‘
ہمارے وکلا کے یہ تاثرات دیکھ کر مجھے بڑی راحت ہوئی اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بر وقت میری مدد فرمائی اور جوابات جیسے الہامی انداز میں مجھ پر اتر تے گئے۔
اس کے بعدجب ہم کھانا کھانے کے لئے لفٹ میں نیچے جارہے تھے تو سنگھ پریوار کے وکلا بھی ہمارے سا تھ ہی تھے۔ انہوں نے بھی میری بر جستگی اور معقول انداز کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ مجھے تنگ کرنے والے وکیل نے بڑی متانت کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا : ’’ دیکھئے ، مجھے غلط مت سمجھئے۔ there is nothing personal, its just professional committment. that's all !
(یہ ہمارا پیشہ ہے ۔ہمارا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ ہم اپنے پیشے کے تئیں وفاداری نباہ رہے ہیں ۔بس!)
میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ کوئی بات نہیں ۔ تم اپنا کام کرو ، انشاء اللہ میں بھی اپنی سی کوشش کروں گا۔
پھر ان میں سے ایک وکیل نے پوچھا کہ : ڈاکٹر صاحب اب آپ سےoff the record پوچھتا ہوں:
کیا واقعی ہندوستان کے لئے دارالحرب یا دارالاسلام جیسی کوئی اصطلاح نہیں ہے یا پھر یہ اس ملک کو دارالا سلام بنانے کا ایکin transit period (منزل مقصود پانے کا درمیانی وقفہ) ہے ؟
میں نے بھی بڑی دلیری سے کہہ دیا :میرا بھی off the recordجواب یہ ہے کہ ’’ ہاں! یوں ہی سمجھو!‘‘
پھر میں سوچتا رہ گیا کہ ان غیر مسلم اور فسطائیت کے علمبردارں کو اسلام کی بنیاد، اس کی روح اور اس کے حقیقی منشاء کا ادراک کس حد تک ہے۔ اوران کا مطالعہ و مشاہدہ کس حد تک گہرا ہے۔ کاش ہم اپنے دین کی بنیادوں سے اس طرح وابستہ رہتے اور حقیقی معنوں میں مومن بنتے تو یقیناًقرآن کے اعلان کے مطابق ہم ہی غالب رہتے!
لنچ کے بعد جب دوبارہ سیشن شروع ہوا تو:
وکیل : کافر کون ہے؟
جواب: جو اللہ یعنی ایک خدا پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔
وکیل : پھر ہندو کون ہے؟
جواب : ہندو سے تمہاری مراد کیا ہے؟ ہندوستان کا باشندہ؟جیسا کے میں اپنے آپ کو ہندی کہہ سکتا ہوں!
وکیل : کیا تم ہندو ہو؟
جواب: نہیں میں ہندی ہوں۔ وطن کے اعتبار سے۔ تم کس معنی میں کہہ رہے ہو؟
وکیل : ہندو۔ یعنی میں خود!۔ میں تمہارے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا!
جواب : اگر ایسا ہے تو پھر تم کافر ہو!
وکیل : قرآن تمہیں کافروں کے ساتھ کیساسلوک کرنے کا حکم دیتا ہے؟
جواب : لکم دینکم ولی الدین۔ تمہارا دین تمہارے لئے ، ہمارا دین ہمارے لئے۔ یا دوسرے الفاظ میں جیو او رجینے دو!
وکیل : ( سورۃ توبہ کی آیت دکھاتے ہوئے ) ۔۔۔اور کافروں کی گردنیں اُڑا دینے کایہ جو حکم ہے؟
جواب : جب کافر ہمارا جینا حرام کر دیں گے۔ اور ظلم کے علمبردار بن جائیں گے تو ہماری طرف سے اپنے دفاع میں جنگ کا اعلان ہے!
وکیل : کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
جواب : میں نے پڑھا بھی ہے، اور سمجھا بھی ہے۔الحمدللہ۔
وکیل : انگری ترجمہ (قرآن کا) کس کا معتبر اور اچھا ہے؟
جواب : عبداللہ یوسف علی کا۔(عدالتوں میں اسی کو ریفر کیا جاتا ہے اکثر)
وکیل : اورمحمد مرمدوق پکتھال Pickthallکاترجمہ؟
جواب : وہ بھی معتبر ہے اور مقبول بھی ہے ۔
وکیل : اسی پکتھال کے ترجمہ سے سورۃتوبہ کی آیت دکھاتے ہوئے، (جس میں کافروں کی گردنیں اُڑانے، انہیں گھیرنے اور انہیں ختم کرنے کا حکم ہے) اس بارے میں کیا کہتے ہو؟
جواب : یہ جنگی احکام ہیں اور حالت جنگ کے لئے ہیں۔
وکیل : اور حالت امن کے لئے کیا ہے؟
جواب : میں نے کہا نا، لکم دینکم ولی الدین! یہی اسلام کی امن پالیسی ہے۔
( پھر میں نے سورۃ کافرون کا پورا متن اور اس کا ترجمہ سنایا تواس پر تبصرے کے لئے سنگھ پریوار کا ایک اور وکیل اٹھ کھڑا ہوتا ہے اورکمیشن کو بتا تا ہے کہ : امن کی اس پالیسی پر یہ لوگ (مسلمان) اس وقت عمل پیرا ہوتے ہیں، جب یہ لوگ دبے اور کچلے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جب ان کے پاس قوت اور تعداد کی قلّت ہوتی ہے۔ اور جہاں انہیں غلبہ حاصل ہوتا ہے ، یہ لوگ غیر مسلموں کو کچل کر رکھ دیتے ہیں۔)
وکیل : کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ قرآن مسلمانوں پر غیر مسلموں سے دوستی نہ رکھنے کی پابندی عائد کرتا ہے؟
جواب : نہیں ۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسی کوئی پابندی میرے علم میں نہیں ہے۔
وکیل : تم تنظیم کے انتظامیہ رکن ہو، یہ بتاؤ تنظیم کس قسم کا ادارہ ہے؟
جواب : تنظیم سماجی و ثقافتی socio cultural ادارہ ہے۔ سیاسی ادارہ نہیں ہے۔
وکیل : پھر بھی کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تنظیم سیاسی فیصلے کرتی ہے؟ اور انتخابات میں مسلمان کسے ووٹ دیں اس کا فیصلہ کرتی ہے؟
جواب : ہاں ، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔
وکیل : کیا گزشتہ اسمبلی الیکشن میں تنظیم نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ کس کو ووٹ دیا جائے؟
جواب : ہاں ، تنظیم نے ضرور رہنمائی کی تھی۔
وکیل : کس کے حق میں؟
جواب : یہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ ( اس وقت ہمارے وکلا نے بھی مداخلت کرتے ہوئے اس سوال کی مخالفت اور میری تائیدکی)
وکیل : تم کہتے ہو کہ بھٹکل میں مسلمانوں کی دولت سے ہندو جلتے ہیں۔ (یہ میرے تفصیلی حلفیہ بیان deposition کا حوالہ ہے) اور حسد کے مارے فساد پھیلاتے ہیں۔ یہ بتاؤ کہ بھٹکل کے مسلمانوں میں دولت کی ریل پیل کب سے ہے؟
جواب : ان کے آبا و اجداد کے زمانے ہی سے یہ لوگ دولت مند رہے ہیں ۔
وکیل : ہندو ان کی دولت سے کب سے جلنے لگے؟
جواب : 1980 کے بعد مسلم نوجوان نسل اور زیادہ دولت مند بن گئی اور ہندو نوجوان نسل حسد کا شکار ہو گئی۔ اس سے قبل حسد اور جلن کی یہ شدّت نہیں تھی۔
وکیل : میں یہ کہتا ہوں کہ 1960 کے بعد بھٹکل میں دولت مندوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اور وہ زیادہ سے زیادہ دولت مند بنتے گئے۔ اور یہ دولت محض اسمگلنگ کی وجہ سے حاصل ہوئی۔
جواب : نہیں یہ با لکل غلط ہے ۔
وکیل : نہیں۔ ہندومسلمانوں کی دولت سے نہیں جلتے بلکہ ہندوؤں کے خلاف تم جھوٹا بیان اس لئے دے رہے ہو کیونکہ ، بھٹکل میں ہندو تم لوگوں کو اسمگلنگ کرنے میں مدد اور تعاون نہیں دیتے۔
جواب : نہیں۔ میں اسے نہیں مانتا۔
وکیل : ہندو جاگرن ویدیکے ( HJV)نے جو پمفلیٹ pamphlet شائع کئے تھے، وہ اشتعال انگیز نہیں تھے بلکہ وہ حقائق پر مبنی تھے۔
جواب: نہیں ۔ وہ اشتعال انگیز inflamatory تھے۔
وکیل : تم نے سلطان اسٹریٹ پر اپنے نوجوان ساتھیوں کی مدد سے بنکرس Bunkers (دشمنوں پرحملے کرنے کے لئے خفیہ محفوظ ٹھکانے) قائم کئے تھے اور No Entry for Police کا بورڈ لگوا دیا تھا۔ اور پولیس ایس ، پی ، شری مورتی نے تمہاری سخت پٹائی کرنے کے بعد یہ بنکرس وہاں سے ہٹا ئے تھے۔
جواب : نہیں۔ یہ با لکل جھوٹ ہے۔
وکیل : تم نے سلطان اسٹریٹ کے در و دیوار پر’ گیٹ وے ٹو پاکستان ‘ Gateway to Pakistanکے نعرے لکھوا ئے تھے۔
جواب : نہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ میں اس سے انکار کرتا ہوں۔
haneefshabab@gmail.com
(....سلسلہ جاری ہے .... آئندہ قسط ملاحظہ کیجیے)