خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی ۔ ۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

08:38PM Thu 24 Sep, 2020

اسلام آباد سے ایک صحافی نے، جو اب تک خوب سینئر ہوچکے ہیں، پچھلے کالم میں دیے گئے شعر میں تصحیح کی ہے۔ ہم نے مصرع میں ’بیٹے‘ کو ’بچے‘ بنا دیا تھا یعنی ’’کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‘‘۔ قارئین ہوشیار باش، بچے کی جگہ ’’بیٹے‘‘ پڑھا جائے۔ اس سے پہلے کہ منظر عباسی اس سہو کی نشاندہی کریں، اسلام آبادی صحافی نے پکڑ کرلی۔ ان کا شکریہ۔ تاہم انہوں نے جانے کیوں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی ہے حالانکہ ہمارا یہ کالم کسی سرکاری ادارے یا ’’اہم شخصیت‘‘ کے حوالے سے نہیں ہوتا جس کے بارے میں اندر کی خبر دینے والا اپنے نام کی اشاعت نہ کرنے پر زور دیتا ہے کہ کہیں اٹھا نہ لیا جائے۔ بات یہ ہے کہ ہم یہ کام رواروی میں کرتے ہیں اور دوسرے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ موصوف کا خیال ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ زبان کی اصلاح کے حوالے سے ہے اس لیے اس میں شعر بھی صحیح ہونا چاہیے۔ یہ الگ بات کہ کتنے ہی شعر عوام کی زبان پر آکر کچھ سے کچھ ہوگئے۔ مثلاً استاد ابراہیم ذوقؔ کا یہ مصرع کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے یوں ہو گیا ہے پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے ہمارے خیال میں یہ عوامی مصرع ذوقؔ کے اصل مصرع سے زیادہ صاف ہے۔ ایسے اور کئی شعر اور مصرعے ہیں جن کو عوام نے ’’صاف‘‘ کردیا ہے۔ مثلاً یہ شعر جس کا دوسرا مصرع ضرب المثل ہوگیا ہے:۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا اصل شعر کچھ اس طرح ہے:۔ آخر گِل اپنی صرف در میکدہ ہوئی پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو یہ شعر مغل شہزادے میرزا جہاں دار شاہ عرف جواں بخت بہادر، ولی عہد شاہ عالم بادشاہ کا ہے اور ڈاکٹر وحید قریشی کے مرتب کردہ ’’دیوانِ جہاں دار‘‘ میں پہلے مصرع کی صورت مختلف ہے، یعنی ’’آخر گِل اپنے صرف در میکدہ ہوئے‘‘ اس میں گلِ (مٹی) بظاہر مذکر ہے اور ممکن ہے مغل شہزادوں کو گِل مذکر ہوتی ہو، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ابتدا میں یاے معروف اور یاے مجہول میں امتیاز نہیں رکھا جاتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے ضرورتاً دوسرا مصرع بدل دیا، اور وہ اتنا مشہور ہوا کہ پہلا مصرع تو گم ہوگیا، جیسے خسرو کے شعر کا مصرع اولیٰ زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم ایسا ضرب المثل ہوا کہ دوسرا مصرع تلاش کرنا پڑتا ہے۔ انشاء اللہ خان کی بڑی مشہور غزل کا مقطع ہے:۔ کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے، سنا انشا!۔ غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں محمد حسین آزادؔ نے ’’آبِ حیات‘‘ میں پہلا مصرع بدل دیا اور اب یوں ہی مشہور ہے کہ ’’بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا‘‘۔ یہ دلائل اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے نہیں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو اس کی خوشی ہوتی ہے کہ لوگ توجہ سے پڑھ رہے ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں شعر و ادب سے دلچسپی ہے حالانکہ صحافی ہیں۔ جسارت میں ہماری ایک محترم بہن کا خواتین کے حوالے سے بہت عمدہ مضمون شائع ہوا ہے لیکن شاید اُن تک ہماری یہ بات نہیں پہنچی کہ ’’تا کے ساتھ تک‘‘ نہیں آتا۔ 26 جنوری کو شائع ہونے والے اس مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے ’’2002ء تا 2007ء تک۔‘‘ یہاں ’تک‘ کی ضرورت نہیں اور ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر ’’تک‘‘ ایسا ہی ناگزیر ہو تو پھر ’’تا‘‘ کی جگہ ’’سے‘‘ استعمال کرلیا جائے، تحریر کا نقص دور ہوجائے گا۔ جسارت کی بات چلی ہے تو 27 جنوری کے شمارے میں ایک خبر میں حسبِ معمول ’’رفاع عام‘‘ چھپا ہے۔ جانے کیوں لوگ ’’رفاہ‘‘ لکھنے سے گریزاں ہیں! کراچی میں رفاہ عام سوسائٹی ایک معروف بستی ہے لیکن اسے بھی رفاع عام لکھا جاتا ہے۔ پتہ کسی طرح بھی ’’پتا‘‘ ہونے پر تیار نہیں اور لاپتا ہے۔ بازیاب کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایک دلچسپ غلطی پندرہ روزہ نُشور جیسے علمی و ادبی رسالے میں نظر آئی۔ یہ رسالہ تحریک اسلامی کا ترجمان ہے۔ یکم تا 31 جنوری کے شمارے میں (پندرہ روزہ ہوتے ہوئے) کراچی میں سالانہ اجتماع عام کی روداد شائع ہوئی ہے۔ اس میں صفحہ 27 پر ایک جملہ ہے ’’اجتماع کے لیے 21 دسمبر 2014ء بروز اتوار کا دن اور تاریخ طے ہوئی۔ دن تو کمپوزنگ کی غلطی سے دین ہوگیا لیکن یہ ’’بروز اتوار کا دن‘‘ کیا ہے؟ یہ محض نشور کی غلطی نہیں بلکہ اکثر ’بروز‘ کے ساتھ دن سننے میں آتا ہے۔ ایک شادی کارڈ پر بھی ایسا لکھا ہوا دیکھا کہ ’’بروز جمعہ کے دن آپ کی آمد کے منتظر‘‘۔ اور پھر مذکورہ جملے میں جب 21 دسمبر کا دن طے ہوگیا تھا تو پھر کس بات کی تاریخ طے کی جارہی تھی؟ یعنی ایک ہی جملے میں دو غلطیاں۔ یہ کمپوزنگ کی نہیں بلکہ زبان و بیان کی غلطیاں ہیں اور ان کی نشاندہی اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے بچے (یا بیٹے!) ان غلطیوں سے اجتناب کریں۔ اسی رسالے میں ’’مومن کی معیشت‘‘ نامی بڑے اہم مضمون میں ’’رقص و سرور‘‘ موجود ہے۔ آخر ’’سرود‘‘ لکھنے میں کیا پریشانی ہے؟ دینی علمی مضامین لکھنے والوں کو زبان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ کسی کو بتاؤ کہ رقص و سرور صحیح نہیں، رقص و سرود ہے تو وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ یہ سرود کیا چیز ہے؟ انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیراہتمام ماہنامہ ’قومی زبان‘ کا جنوری 2015ء کا شمارہ سامنے ہے۔ اس کی لوح پر بھی وہی غلطی چسپاں ہے جو ہم سے سرزد ہوئی تھی یعنی ’’بانی: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘۔ بابائے لکھنے پر منظر عباسی نے صحیح پکڑ کی تھی کہ ’’ے‘‘ پر ہمزہ نہیں آئے گی۔ لیکن قومی زبان کے نام سے اردو کو فروغ دینے والے اس ماہنامے میں باے کے اوپر ہمزہ موجود ہے جب کہ انجمن ترقی اردو کا شعبہ تحقیق و تالیف و تصنیف بھی ہے اور سرپرستی ادا جعفری اور جمیل الدین عالی کررہے ہیں۔ زیرنظر شمارے کے مہمان مدیر پروفیسر سحر انصاری ہیں، لیکن وہ تو مہمان ہیں، مہمانوں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یوں بھی مہمانوں کے صرف نام ہوتے ہیں، لیکن ڈاکٹر جاوید منظر اور معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی تو ہیں۔ ایک نظر ڈال لیا کریں۔ مذکورہ شمارے میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ڈھاکہ (ڈھاکا) کی یادیں تازہ کی ہیں۔ اس میں انہوں نے ’’باقر خوانی‘‘بیچنے والے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈھاکا میں پشاور کے قصہ خوانی بازار کے مقابلے میں ’’باقر خوانی‘‘ بھی ہوتی ہو۔ ویسے یہ ’’باقر خانی‘‘ ہے، خوانی نہیں۔ رشید حسن خان کی ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ میں اس کا تعارف یوں ہے ’’باقر خانی، شیرمال کے مقابلے میں ہلکی اور کچھ چھوٹی روٹی‘‘۔ نصیر الدین حیدر (شاہ اودھ) کے زمانے میں ’محمدو‘ نامی ایک ولایتی (ایرانی) شخص نے آکے فرنگی محل میں باورچی کی دکان کھولی۔ ایران کے مسلمان خمیری روٹیاں کھاتے اور ہندوستان کی سرزمین میں تنور گاڑتے ہوئے آئے تھے۔ مگر اُس وقت تک ساری روٹیاں تھیں، جن میں گھی کا لگاو نہ ہوتا۔ ہندوؤں کو پوریاں تلتے دیکھ کر مسلمانوں نے توے کی روٹیوں میں گھی کا جز دے کے پراٹھے ایجاد کیے اور پھر ان میں متعدد تہیں اور پرتیں دینا شروع کیں۔ پھر اسی پراٹھے میں پہلی ترقی یہ ہوئی کہ باقر خانی کا رواج ہوا، جو ابتدائً امرا کے دسترخوان کی بہت تکلفی روٹی تھی۔ لکھنؤ میں محمدو نے باقر خانی کو بہت ترقی دے کر شیرمال پکائی جو مزے، بوباس، نفاست اور لطافت میں باقر خانی اور تکلّفی روٹیوں کی تمام اصناف سے بڑھ گئی۔ چند ہی روز میں شیرمال کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ لکھنؤ کی نیشنل روٹی قرار پائی۔ یہاں تک کہ جس دعوت میں شیرمال نہ ہو وہ مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ (شرر۔ گزشتہ لکھنؤ)۔ اس تفصیل سے یہ پتا نہیں چلا کہ باقر خانی کا یہ نام کیوں پڑا۔ عبدالحلیم شرر کو غالباً شیرمال زیادہ پسند تھا۔ البتہ علمی اردو لغت میں ہے کہ باقرخانی خستہ روغنی روٹی جو اپنے موجد باقرخان سے منسوب ہے۔ اور لغت کے مطابق اس کا تعلق ترکی سے ہے۔ چلیے ڈاکٹر فاطمہ حسن کی وجہ سے باقر خانی کے کوائف سامنے آگئے۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ لاہور کے لوہاری دروازے کے اندر جو باقر خانیاں ملتی تھیں، لاجواب ہوتی تھیں۔ اب تو پتا نہیں، لیکن لوگ دور دور سے لینے آتے تھے۔ ممکن ہے اب پھجے کے پایوں کے لیے رش ہوتا ہو۔ عبدالحلیم شرر نے لکھا ہے کہ ایک ولایتی نے فرنگی محل میں باورچی کی دکان کھولی۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اس دکان میں باورچی فروخت ہوتے تھے جیسے کتابوں کی دکان میں کتابیں، جوتوں کی دکان میں جوتے؟ بہ شکریہ : فرائیڈے اسپیشل