بات سے بات: مولانا محمود حسن خان ٹونکی اور آپ عظیم علمی کارنامہ معجم المصنفین.۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

09:03PM Wed 1 Jul, 2020

گزشتہ دنوں مظہر محمو د شیرانی اللہ کو پیارے ہوئے،  وہ رومانی شاعر اختر شیرانی کے  فرزند تھے،  لیکن ان کے بیٹے کو اپنے نامور دادا محمود خان شیرانی کی نسبت سے پہچان ملی،  آخری دنوں میں ان کے خاکوں کو بڑی شہرت ملی، اپنے والد ماجد پر لکھا ان کا خاکہ بھاوجی اردو کے بہترین خاکوں میں شمار ہوا، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ تحقیق وجستجو کا جو میدان ان کی حقیقی پہچان بننا چاہئے تھا، اس کا کم ہی لوگوں کو علم ہوسکا، حالانکہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فرہنگ دہخدا کے ترجمہ و تلخیص کا جو کام  انہوں نے شروع کیا تھا، اور جس کا علم  ہم جیسے کم علموں کو نہ ہوسکا تھا،  یک فرد کے کرنے کا کام نہیں تھا، یہ ان کا بہت ہی عظیم علمی و لسانی پروجکٹ تھا، کچھ یہی  صورت حال  مشفق خواجہ کے ساتھ پیش آئی ، انہیں مقبولیت اور شہرت ہفتہ وار کالم سخن در سخن ، خامہ بگوش کے قلم سے ہوئی، لیکن انہوں نے سے اپنے لئے کبھی باعث افتخار نہ سمجھا،    چونکہ وہ زندگی بھر خشک علمی کام کرتے آئے تھے تو کبھی کبھار چہروںپر شگفتگی اور لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں طنز  بکھیرنے والے ان کالموں سے  وہ خود اکتاکر اسے بند کردیتے اور  تحقیق وتنقید اور مخطوطات میں پناہ لے لیتے تھے، ابھی کچھ عرصہ قبل حفیظ نعمانی بھی ہم سے جدا ہوئے، ان کا خاکوں کا ایک مختصر مجموعہ  بجھے دیوں کی قطار، اور روداد قفس  ادبی دنیا میں آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہے، ورنہ انہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ یومیہ اور ہفتہ وار صحافت میں گزارا۔

مظہر شیرانی کی وفات پر اظہار تعزیت کے لئے ہم  نے ان کے اعزا واقربا کی تلاش کی  تو پتہ چلا کہ وقار شیرانی صاحب آپ کے عزیز ہیں، اور جب ان سے رابطہ ہوا تو پتہ  چلا کہ  آپ تومولانا  محمود خان شیرانی کے پوتے، اختر شیرانی کے بھتیجے، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے سابق شیخ الحدیث، اور مولانا سید ابوالحسن ندوی، رئیس احمد جعفری، عبد الرشید نعمانی وغیرہ جیسے نامور علماء کے مشفق استاد ومربی مولانا حیدر حسن خان ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی والدہ کے دادا تھے ، اور برصغیر کے عظیم محقق،وماہرکتابیات، مولانا محمود حسن ٹونکی، مولانا  حیدر حسن خان کے بڑے بھائی ۔

مولانا حیدر حسن خان ٹونکی کا ذکر تو کہیں نہ کہیں ان کے لائق وفائق شاگردوں کے طفیل آجاتا ہے، لیکن مولانا محمود حسں ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ کتنے مظلوم تھے کہ ان کا ذکر اہل علم کے یہاں نہ آنے کے برابر ہے، حالانکہ آپ نے جو علمی کارنامہ معجم المصنفین  کی شکل میں انجام دیا ، اس کی مثال برصغیر  کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے، یہ کتاب مولانا نے (۶۰) جلدوں میں ترتیب دی تھی،  یہ بیس ہزار صفحات پر مشتمل تھی، اور چالیس ہزار مصنفین اور ان کی تصانیف کے احوال اس میں درج تھے، صرف احمد نام کے دو ہزار مصنفین کا تذکرہ  اس میں شامل ہے۔ اس کتاب کی ابتدائی چار جلدیں  کوئی ایک صدی قبل۱۳۴۴ھ میں سلطنت آصفیہ حیدرآباد سے شائع ہوئی تھیں۔ اور ہم سنتے آرہے تھے کہ  اس کتاب کے بقیہ اجزاء  تقسیم ہند کے ہنگامے میں ادھر ادھر ہوگئے، اور کتابوں کا یہ عظیم ترین دائرہ معارف اور مرجع  جو منظر عام پر آتا تو اپنے مصنف کو برصغیر کی ہزار سالہ مسلمانوں کی علمی تاریخ  میں شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیتا ، آج گمنام ٹونک کے قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔

آج  وقار شیرانی صاحب سے جب معلوم ہوا کہ حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا تھا کہ تمہارے  جد اعلی کا یہ عظیم سرمایہ ازہر شریف کے کتب خانے میں محفوظ ہے، اس کی ضرور زیارت کرو،  اور انہوں نے مصر جاتے ہوئے اپنے پرنانا کے اس عظیم سرمایہ کی زیارت کی تو زمانے کے گرد وغبار سے بچ کر اس کے محفوظ ہونے کی خبر نے  ہمیں دل کو باغ باغ کردیا۔ اور یہ چند سطریں لکھنے پر مجبور کیا۔

معجم المصنفین صرف ایک کتاب نہیں ہے، یہ ایک ہندی نژاد عالم ومحقق کا ایسا علمی کارنامہ ہے جس کی مثار گزشتہ چودہ سو سال کے اسلامی لٹریچر میں نہیں ملتی ، ازہر سے باہر اس کے کئی الکٹرونک نسخوں کی حصولیابی اور اس کی تحقیق و تدوین کی کوشش اب برصغیر کے اہل علم پر ایک قرض بن جاتی ہے، ہماری یونیورسٹیوں میں اس کی اساس پر کئی سارے  ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے تیار ہوسکتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ برصغیر میں جو  سرکاری ادارے یا افراد  مصر سے اس علمی سرمایہ کے الکٹرونک نسخے، میکروفیلم  حاصل کرنے   کے وسائل رکھتے ہوں ۔ اس فراموش شدہ خزانے کی کھوج میں کوتاہی نہیں کریں گے۔

مولانا محمود حسن خان نجیب آبادی ثم ٹونکی کی ولادت باسعادت ٹونک میں ہوئی تھی،  آپ یہاں  قاضی امام الدین اور قاضی دوست محمد کے زمانے میں مدت تک  رہے، پھر آپ نے رامپور کی راہ لی، جہاں مولانا اکبر علی اور علامہ عبد العلی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ۔ یہاں سے آپ بھوپال تشریف لے گئے اور قاضی حسین بن محسن الانصاری الیمانی سے علم حدیث حاصل کیا۔ پھر آپ نے  طلب علم کے پورے ہندوستان کا دورہ کیا، اور قاری عبد الرحمن بن محمد انصار پانی پتی سے سند لی، پھر حجاز کا قصد کیا ، اور  حج مکمل کرکے  قاہرہ اور بیروت کا سفر کیا ،یہاں سے وطن واپس لوٹے، اور مدت دراز تک حیدرآباد دکن میں مقیم رہے، جہاں آپ شغف علم ومطالعہ اور تصنیف وتالیف سے وابستہ رہے،آپ نے بڑی متواضعانہ اور زاہدانہ زندگی گذاری، کھانا پینا عام لوگوں کی طرح تھا،  آپ کی وفات ۷ شوال ۱۳۶۳ھ کو اپنے شہر ٹونک میں ہوئی۔

اللہ مغفرت کرے۔ اور آپ کے درجات بلند کرے۔

https://telegram.me/ilmokitab/

2020-07-01