سچی باتیں ۔۔۔ افترا پردازیاں ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی ،

Bhatkallys

Published in - Other

02:42PM Sat 21 Oct, 2017

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں  جب بعض منافقین کی شرارت سے امت کی سب سے بڑی مؤمنہ صدیقہ پر ایک نہایت گندی تہمت لگی اور اس کے چرچے پھیلے تو کلام مجید میں  یہ دو آیتیں  نازل ہوئیں۔ ’’لَوْ لَا اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُونَ وَالْمُؤ مِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَقَالُوْا ھٰذَا اِفْک ٌمّبِیْنٌ‘‘(نور۔ع ۔۲) جب تم لوگوں  نے یہ گندی حکایت سنی تھی تو مسلمان مردوں  اور عورتوں  نے اپنے لوگوں  سے متعلق گمان نیک سے کام کیوں  نہ لیا اورچھوٹتے ہی یہ کیوں  نہ کہہ دیا کہ یہ صریح افتراء ہے۔ وَلَوْ اِذْسَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَا یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَان ٌعَظِیْم،یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُ وْا لِمِثْلِہِ أَبَدا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(نور ۔ع ۲) اور جب تمھارے کانوں  تک یہ گندی حکایت پہنچی تھی اسی وقت تم نے یہ کیوں  نہ کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات منہ سے بھی نہ نکالنا چاہیے معاذ اللہ یہ تو بڑی سخت تہمت ہے ،اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو ایسی حرکت پھر ہر گز نہ کرنا۔ خبر کے گڑھنے کا ذکر نہیں ،گڑھی ہوئی خبر کے صرف قبول کرنے اور بے سوچے سمجھے اس کے چرچے کرنے پر یہ ڈانٹ پڑرہی ہے،کسی مسلمان پر افتراء تو کوئی مسلمان کیوں  کرنے لگا کسی افتراء کو قبول کرنا اور اس کی اشاعت میں معین ہونا بھی ہر گز کسی مسلمان کا کام نہیں  ہوسکتا ارشاد ہوتاہے کہ ایسی نامعقول روایتوں  اور حکایتوں  کے سننے کے ساتھ ہی انھیں  ردکردینا چاہیے اور کسی مسلمان کی عزت پر حملہ سن کر اسی وقت اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردینا چاہیے ،وہ مسلمان کیسا جو دوسرے مسلمان کی دیانت پر ،عزت پر ،اخلاق پر حملہ ہوتے ہوئے دیکھے اور چپکا بیٹھا رہے یا یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑالے کہ سنا ایسا ہی تھا اسے تو فورًااس کی تردیدکرنی چاہیے بغیر اس کے وہ مسلمان ہی کیسا اور اس کا ایمان ہی کیا .آج دنیا ئے اسلام کے کسی گوشہ میں  اس پر عمل ہے؟ پبلک جلسے ہوں  یا گھروں  کے اندر تخلیہ کی صحبتیں ،اخبارات کے مقالات ہوں  یا خانگی خطوط،کہاں  یہی چرچے یہی تذکرے نہیں  کہ فلاں  لیڈر قوم کا روپیہ کھا یا گیا ،فلاں  لیڈر انگریزوں  سے مل گیا،فلاں  لیڈر نے ہندؤں  سے رشوت لی ،فلاں  مولانا صاحب چھپے رستم نکلے ،فلاں  شاہ صاحب کی چوری پکڑی گئی،محلہ کے چودھری صاحب کے جوہریوں  کھل رہے ہیں  ،شہر کے قاضی صاحب کی یہ یہ حرکتیں  ظاہر ہوئیں  اس کا گھر جواریوں  کا اڈا ہے، اس کے ہاں  کی بہو بیٹیوں  تک کی عزت کا ٹھیک نہیں؟جہا ں  چار مسلمان جمع ہوئے نہ خدا کا ذکر نہ رسول کا ،نہ موت کی یا ،نہ آخرت کی فکر،بس غیبتیں  ہیں  تو مسلمانوں  کی اور بدگوئیاں  ہیں  تو اپنے ہی بھائی بندوں  کی .ایک ایک گھر کے پترے کھل رہے ہیں ،اور دنیا جہاں  کا کوئی عیب کوئی الزام ایسا نہیں  جو خود مسلمانوں  ہی کی زبان سے مسلمانوں  پر نہ لگ رہا ہو!ہمتیں  تراشنے والے مسلمان ،ان پر یقین کرنے والے مسلمان، انھیں  پھیلانے والے مسلمان،نتیجہ رنجشوں ،مقدمہ بازیوں  ،فوجداریوں  کی صورت میں  روزانہ موجود ،لیکن زبان کو چاٹ ایسی پڑی ہوئی ہے کہ ساری تکلیفیں  گوارہ ،لیکن ان چرچوں  اورتذکروں  سے ہاتھ اٹھانا نا ممکن۔