سفرحجاز۔۔۔(۲۹) عرفات نمبر(۱)۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:26AM Mon 19 Jul, 2021

حج کسی مفرد عمل کا نام نہیں، ایک طویل و مسلسل مجموعۂ اعمال کا نام ہے، جن میں کچھ فرائض ہیں اور کچھ واجبات، کچھ سنن ہیں اور کچھ مستحبات، اس مجموعہ کا سب سے اہم جزو یہی ۹/ ذی الحجہ کو عرفات کی حاضری ہے۔ جسے اصطلاح میں ”وقوفِ عرفات“ کہتے ہیں (وقوف کے لفظی معنی ٹھہرنے کے ہیں) کسی شخص نے اگر اور سارے اعمال و مناسک ادا کر لیے اور آج کی تاریخ میں عرفات کی حاضری خدانخواستہ کسی سبب سے رہ گئی تو سرے سے حج ہی رہ گیا۔ دوسرے سال حج کرکے اس قضا کو ادا کرنا ہوگا، آج کی تاریخ دنیا کی تاریخ میں وہ اہم تاریخ ہے اور عرفات کا میدان روئے زمین کے مقامات میں وہ اہم مقام ہے کہ دین خداوندی کے جامع و مکمل ہونے اور اسلام کے آخری اور کامل پیامِ ہدایت ہونے کا باضابطہ اعلان کے لیے اسی سرزمین اور اسی تاریخ کا انتخاب فرمایا گیا تھا، اور آج اور یہیں سے ہمیشہ کے لیے اور ہر قوم کے لیے اس فرمان کی منادی کی گئی تھی کہ۔″ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا″۔

ایک صحابی طارق بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے سیدنا عمر فاروق ؓسے کہا کہ اگر ہمارے اوپر یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم نے اس کے یومِ نزول کو روزِ عید قرار دے لیا ہوتا، آپ نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی تھی، وہ رات جمعہ کی رات تھی (اور وہ سن عرفہ کا دن تھا، اور ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عرفات میں حاضر تھے! (سنن نسائی) یہ کہہ کر آپ نے گویا یہ ارشاد فرمایا کہ وہ دن ہماری سب سے بڑی عید کا تو تھا ہی کسی اور جشن کے مقرر کرنے کی کیا حاجت؟

آج کی رحمتیں بےحساب ہیں، اور آج وہ دن ہے کہ شیطان آج سے زیادہ حقیر و ذلیل، مایوس و پریشان اور کبھی نہیں ہوتا۔

۔″عن طلحة ان رسول اللہ ﷺ قال ما رای الشيطن يوما هو فيه اصغر ولا ادمر ولا احقرو ولا اغیظ منه في يوم عرفۃ ما ذلك الا لما رای تنزل الرحمۃ وتجاوز الله عن الذنوب العظام الا مارای يوم بدر (مؤطا امام مالک)″۔

حضرت  طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ پست اور بے اعتبار اور حقیر و پریشان کسی دن نہیں دیکھا گیا، یہ سب اس لیے کی آج وہ اللہ کی رحمت کا نزول اور بڑے بڑے گناہوں سے اس کے عفو و مغفرت کو دیکھتا ہے، البتہ سوائے ایک یوم بدر کے (کہ اس روز بھی وہ ایسا ہی پریشان و مایوس ہوا تھا)

آج کی رحمتوں کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب، نہ کوئی اندازہ ہے، نہ پیمانہ بڑے سے بڑے مجرم آج رہا کیے جاتے ہیں، سب کو عفو عام کی بشارت ہوتی ہے، وہ جو ہمہ رحمت و مرحمت اور ہمہ شفقت و مغفرت ہے، اس کی تجارت رحمتِ امت کے بڑے سے بڑے تباہ کار کو بھی اپنے آغوش میں لے لیتی ہیں، اور اسی کو وہ مولیٰ اپنے بندوں کے اپنے قریب آجانے سے تعبیر کرتا ہے اور بندوں نے تو اپنے مالک پر خدا معلوم کتنی بار فخر کیا ہی ہوگا، آج وہ دن ہے کہ خود مالک اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے۔

عن عائشۃ ان رسول الله ﷺ قال مامن يوم اكثر من ان يعتق الله عز وجل فيه عبدا من النار من يوم عرفۃ وانه ليدنو ثم يباری بھم الملائکۃ فیقول ما اراد ھؤلاء (صحیح مسلم)

حضرت  عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو، جتنا عرفہ کے دن کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوجاتا ہے اور بندوں کا حال فرشتوں پر ظاہر کرکے فخر کرتا ہے اور فرشتوں کو قائل کرنے کے لیے) پوچھتا ہے کہ (بندوں کے اس مجمع کی غرض و غایت کیا ہے)۔

آج اور یہاں رحمت الٰہی سے مایوسی کفر ہے اور آج اس سے بڑھ کر ناشکرا اور گنہگار کوئی نہیں جو یہاں کی حاضری کے بعد بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال کی سیاہیاں رحمت و مغفرت کی بارش سے دھل کر نہیں رہیں، سچے کا ارشاد ہے۔

۔″اعظم الناس ذنبا من وقف بعرفۃ فظن ان الله لم يغفر له ″۔

سب سے بڑھ کر گناہ گار وہ ہے جو عرفات میں وقوف کرے اور پھر بھی یہ سمجھے کہ اللہ نے اس کی مغفرت نہیں فرمائی۔

آج کا دن دعا و مناجات، توبہ و استغفار، الحاح و زاری، جھکنے اور گڑگڑانے کے لیے مخصوص ہے، جتنا اور جہاں تک ممکن ہو وقت اسی میں لگایا جائے جو کچھ مانگنا ہو، اپنے رب سے مانگ لے، مانگے اور مانگتا جائے، بےحساب مانگے اور بےتکان مانگے، جب وہ ہمہ جود و کرم اور ہمہ بخشش و عطا بےحساب دینے والا اور دلانے،  بخشنے اور لٹانے پر آجائے تو خاک کا پتلا جو ہمہ فقر و ہمہ طلب، ہمہ احتیاج و ہمہ درماندگی ہے۔ مانگنے میں اور طلب کرنے میں کوئی کسر کیوں اٹھا رکھے اور دین و دنیا کی نعمتوں کا کوئی ارمان اور کوئی حوصلہ اپنے دل میں کیوں رہنے دے (اللہ رحمتوں سے سیراب رکھے محمد علی جوہر کی تربت کو، کیا مضمون باندھ گیا ہے:

اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل

ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد

افضل الدعاء دعا یوم عرفۃ ۔(عرفات کی دعا سب دعاؤں سے بڑھ کر ہے)۔ یہ اس کا ارشاد ہے جو سب سے زیادہ دعائیں کرنے والا تھا، اور جس کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہونے والی تھیں۔آج کے لیے کسی خاص دعا کا حکم نہیں، جو چاہے مانگتا رہے البتہ ان کلمات کی بڑی فضیلت آئی ہے: لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخیر وهو على كل شيء قدير ۔

جہاں تک ہو ان کلمات کو حضور قلب کے ساتھ بار بار پڑھتا رہے، اور تلبیہ بھی ابھی موقوف نہیں ہوا ہے۔ لبیک لبیک بھی برابر پکارتا رہے، بعض کتابوں میں یہ بھی منقول ہے کہ جب عرفات کو آنے لگے تو راستہ میں یہ دعا پڑھتا ہوا آئے۔

۔″اللهم اليك توجهت وعليك توكلت ووجهك اردت فجعل ذنبی مغفورا وحجی مبرورا وارحمنی و لا تخبيبنى ،مبارك لی فی سفری واقض بعرفات حاجتی انك على كل شیء قدير″۔

اے اللہ میں نے اپنا منہ تیری طرف پھیرا اور تیرے اوپر بھروسہ کیا اور تیری توجہ کی طلب ہے پس میرے گناہوں کو معاف کیجئو اور میرے حج کو قبول کیجئو اور مجھ پر رحم فرمائیو اور مجھے محروم نہ کیجئو، میرے سفر کو مبارک بنائیو اور عرفات میں میری حاجتیں پوری کیجئو، تو تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔

اور عرفات میں داخلہ کے وقت اس کا ذکر مستحب ہونا تو اوپر گزر ہی چکا ہے

سبحان الله والحمد لله ولا الہ الا الله والله اكبر

خود سرور کائنات ﷺ کی زبان مبارک سے عرفات میں کسی دعا کے الفاظ حدیث کی چھ مشہور و مستند کتابوں میں تو درج نہیں البتہ ایک طویل دعا بعض اور حدیث کی کتابوں میں منقول ہے جو اردو خواں ناظرین کو مع ترجمہ کے مولوی منور الدین صاحب دہلوی کی کتاب الحج و الزیارۃ (فتاویٰ عثمانی جلد ۶) میں مل جائے گی، کتب مناسک میں متعدد دعائیں لکھی ہوئی ہیں۔

وقوف عرفات کا وقت، مذہب حنفیہ میں ۹/ کو زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور حنفیہ ہی کی بعض کتابوں میں ہے کہ امام مالکؒ کے نزدیک وقت وقوف بعد طلوع آفتاب شروع ہوجاتا ہے، لیکن خود قاضی القضاء ابن رشد مالکی لکھتے ہیں کہ:۔

۔″واجمعوا علی ان من وقف بعرفۃ قبل الزوال وافاض منھا قبل الزوال انہ لایعتد بوقوفہ  ذٰلک (ہدایۃ المجتہد اول ص: ۲۸۱)″۔

اس پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی عرفات میں قبل زوال وقوف کرے اور قبل زوال ہی وہاں سے روانہ ہوجائے تو اس کا شمار وقوف میں نہ ہوگا۔

بہرحال حاجی کو چاہیئے کہ دوپہر تک یا اس کے قبل یہاں پہونچ جائے اور بہتر ہے کہ اس وقت غسل کرلے ورنہ وضو بھی کافی ہے، اس کے بعد مسجدِ نمرہ میں جس کا دوسرا نام مسجد ابراہیم بھی ہے، اور منیٰ سے آتے ہوئے عرفات کے شرو ع ہی میں پڑتی ہے، حاضر ہوجائے۔ امام کو چاہیئے کہ جوں ہی زوال آفتاب ہو منبر پر آ بیٹھے، اور مؤذن اس کے سامنے آواز دے، جیسا کہ نماز جمعہ میں ہوتا ہے۔اب امام دو خطبے دے گا جس میں مناسکِ حج کی تعلیم و تفصیل ہوگی، اس کے بعد اقامت اور پھر ظہر کی چار فرض رکعتیں، امام کے سلام پھیرنے پر معاً بعد بغیر نوافل وغیرہ کا وقت دیئے دوسری اقامت ہوگی اور اسی وقت اپنے عام و معمولی وقت سے قبل نماز عصر کی چار رکعتیں جماعت کے ساتھ پڑھی جائیں گی اور بس۔اس کے بعد سے شام تک دعا و مناجات تسبیح و استغفار کے لیے اطمینان و یکسوئی کے ساتھ سارا وقت ہی وقت پڑا ہوا ہے، عرفات میں روزہ رکھنا بہتر نہیں کہ  خلافِ سنت ہے، البتہ غذا اگر ہلکی اور مختصر رکھی جائے تو بہت مناسب ہے تاکہ گرانی اور ضعف دونوں سے امن رہے اور اپنے مشاغل کے لیے پوری فرصت بھی نصیب رہے۔دو نمازوں کا ایک وقت میں جمع کرکے پڑھنا حنفیہ کے نزدیک صرف آج ہی جائز اور مستحب ہے۔ اس پر دوسرے حالات و اوقات کو قیاس نہیں کر سکتے۔ مسجد تک پہونچنا، خصوصاً قیام گاہ دور ہے اور موسم گرمی کا ہے، تو ہے ہمت کا کام۔ہر شخص کے لیے پہونچنا اور جماعت میں شریک ہونا ممکن نہیں، ہزارہا آدمی اپنے اپنے خیموں ہی میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور یہ بالکل جائز ہے۔ منفرد اگر جماعت میں نہ شریک ہوسکا اور خیمہ ہی میں نماز پڑھ رہا ہے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق اسے ظہر اور عصر کی نمازیں الگ الگ اپنے معمولی وقتوں پر پڑھنا چاہیئے مگر صاحبین (امام محمد و ابویوسف) کا فتویٰ اس کے برعکس یہ ہے کہ ایسی صورت میں بھی دونوں نمازوں کو جمع تقدیم کے ساتھ پڑھ لینا چاہیئے۔ فقہ کی کتابوں میں دونوں مذہبوں کے جو دلائل منقول ہیں، ان سے تو امام ابوحنیفہ ہی کا قول ہم عامیوں کو زیادہ مضبوط و مدلل معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم و علمہ اتم۔

حج کا فرض اترجانے کے لیے عرفات کی محض حاضری کافی ہے، خواہ انسان کچھ بھی نہ کرے یہاں تک کہ اگر سو رہا ہو، یا بیہوشی کی حالت میں اور کوئی اسے چند لمحوں کے لیے میدانِ عرفات سے آج کے دن گزار دے تو بھی اس کا حج ہوجائے گا لیکن ظاہر ہے کہ اپنے قصد و ارادہ سے آج کی قیمتی گھڑیوں کو ضائع کرنا کون شخص گوارا کرے گا، سرور کائنات ﷺ نے اس میدان میں اور آج کے دن جو دعا کی ہے اس کا نقشہ حضرت ابن عباس ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:۔

۔″رایتہ علیہ السلام یدعوا بعرفۃ یداہ الی صدرہ کالمستطعم″۔

میں نے حضور ﷺ کو عرفات میں اس طرح دعا مانگتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی بھوکا مسکین اپنا ہاتھ کسی سخی داتا کے آگے پھیلائے ہو!۔

جب رسول معصوم ﷺ کا یہ حال تھا، تو امت کے سیہ کاروں اور تباہ حالوں کو اس دن اور اس جگہ اپنا کیا حال رکھنا چاہیئے؟ الحاح و تضرع، خشوع و خضوع کا کوئی دقیقہ آج اٹھا رکھنا چاہیئے؟ اپنے گناہوں کو یاد کرکے اگر آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں تو کیا پوچھنا، لیکن اگر رونا نہ آئے تو اس پر زیادہ حسرت بھی نہ کرنا چاہیئے، رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ کسی روایت میں نہیں ملتا، دعا کے وقت چشم مبارک سے آنسو بھی جاری تھے۔ (رونا انسان کا فعل اختیاری  نہیں اور کسی عملِ غیر اختیاری کو شریعت نے واجب نہیں قرار دیا ہے)۔ جہاں میدان ختم ہوتا ہے وہاں ایک سمت ایک اونچی پہاڑی ہے، اس کا نام جبلِ رحمت ہے سرور کائنات ﷺ نے اسی کے نیچے وقوف کیا تھا اور یہیں اونٹنی پر سوار ہوکر حجتہ الوداع کا مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا تھا، موقف النبی اور موقف اعظم یہی مقام کہلاتا ہے۔جبل رحمت کے نیچے بڑے بڑے سیاہ پتھر کے بہت سے ڈھیر ہیں، اگر جگہ مل جائے اور ہمت ہو تو یہیں بیٹھ کر فراغت یکسوئی کے ساتھ دعا و مناجات میں مشغول ہوجائے۔سہ پہر کے وقت امام یہیں آتا ہے اور قبلہ رخ اونٹ پر سوار ہوکر خطبہ پڑھتا ہے اور دعائیں مانگتا ہے، لوگوں کو بھی چاہیئے کہ دعا کے وقت حتیٰ الامکان قبلہ رخ ہی رہیں، اگر امام کے قریب پہونچ سکیں تو افضل ہے، ورنہ جہاں کہیں بھی ہوں، وہیں اپنے کام میں لگے رہیں، سارا میدان عرفات بجز وادی عرنہ کے جو مسجد نمرہ سے متصل ہے، موقف ہی موقف ہے۔

امام غزالی اعمال عرفات کے ذکر میں فرماتے ہیں:۔

در دعا مبالغہ کند کہ سر حج اجتماع  دلہا و ہمتہائے عزیزان است دریں وقت شریف

اس وقت خوب جی لگاکر دعا کرے، اور راز اس کا یہ ہے کہ اس وقت کیسے کیسے مقبول  و برگزیدہ بندے ایک ساتھ دعا میں لگے ہوئے ہیں۔

اللہ اللہ یہ عرفات کا لق و دق ویرانہ، جو نہ انسان کے بسنے کے لائق ہے نہ حیوان کے اور جہاں سال بھر انسانی آبادی تو الگ رہی، پرندہ بھی پر نہیں مارتا، دم کے دم میں آن کی آن میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے، دن بھر کے لیے سینکڑوں نہیں، ہزاروں کا نہیں، لاکھوں کی آبادی کا ایک عظیم الشان شہر آباد ہوجاتا ہے، ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جوان بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی، شہ زور پہلوان بھی اور لب مرگ کمزور و ناتواں بھی، گورے بھی کالے بھی، سانولے بھی پیلے بھی، مشرقی بھی مغربی بھی، جنوبی بھی شمالی بھی، عالم بھی عامی بھی، امیر بھی فقیر بھی، عابد بھی و زاہد بھی، فاسق و فاجر بھی اور یہ سارا مجمع کیوں آپ ہی آپ اکٹھا ہو رہا ہے؟ کوئی دلچسپ تماشہ ہونے والا ہے؟ کوئی بزم مشاعرہ ہے؟ کوئی ہنسنے ہنسانے والی نقل دکھائی جائے گی؟ کوئی گھوڑ دوڑ ہے؟ پولو ہے، ہاکی، فٹ بال کا میچ ہے؟ رستم دوران گاما پہلوان کی کشتی کا دنگل ہے؟ ہالی ووڈ کی کوئی نئی فلم آئی ہوئی ہے؟ کوئی مشہور ایکٹرس بےحجابی کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہونے والی ہے؟ تجارتی مصنوعات کی نمائش ہونے والی ہے؟ ڈربی سویپ ۔(sweep)۔ہے؟ گھوڑوں اور ہاتھیوں کا بازار لگنے والا ہے؟ کسی کانفرنس کسی کانگریس کا افتتاح ہے؟ کسی لیڈر کا لکچر ہو نے والا ہے؟  کسی درگاہ پر عرس ہورہا ہے؟ کسی دیوی دیوتا کی پوجا ہونے والی ہے؟ کوئی گنگا اشنان ہے؟ کوئی کمبھ میلا ہے؟ بجز ایک اللہ کی عبادت کے، بجز ایک اللہ کے حکم کی تعمیل کے، بجز ایک اللہ کے نام پر مرمٹنے کی تمنا کے اور کون سی شے ان ہزارہا بندوں کو، ان لاکھوں کلمہ گویوں کو یہاں اس تپتی ہوئی ریت میں گھسیٹ کر لائی ہیں؟ مجمع دنیا میں اور بہت سے ہوتے رہتے ہیں۔ میلے ٹھیلے خدا معلوم کتنے ہوتے رہتے ہیں، کھیل تماشوں میں ٹھٹ کے ٹھٹ ہر جگہ لگ جاتے ہیں لیکن اللہ کے نام پر جمع ہونے والوں کا لبیک لبیک کی رٹ لگا کر اللہ کا نام جپنے والوں کا، اور محض بن دیکھے مولا و مالک کے آگے رونے اور گڑگڑانے جھکنے اور گرنے والوں کا اتنا بڑا مجمع دریاؤں اور سمندروں کو پارکر کے پہاڑوں کو پھاند کرکے دنیا کے طول و عرض میں کہیں، اور وقت کے کسی حصہ میں کبھی ہوتا ہے؟ دعائیں، ان اللہ والوں کی نہ قبول ہوں گی تو اور کس کی ہوں گی؟ بےحساب رحمتوں اور بیشمار برکتوں کا نزول ان کے سروں پر نہ ہوگا تو کس پر ہوگا؟ مشہور ہے کہ آدم علیہ السلام کی توبہ اسی مقام پر اور آج ہی کے دن قبول ہوئی تھی، یہ روایت صحیح ہو یا نہ ہو لیکن بہرحال بنی آدم اپنے گناہوں کے بخشوانے کے لیے آج سے بہتر تاریخ اور یہاں سے بہتر زمین اور کونسی ڈھونڈ کر لائیں گے؟

دنیا کی کوئی قوم، روئے زمین کا کوئی مذہب، اس خالص توحید و خالص خدا پرستی کے عظیم الشان مظاہرہ کا نمونہ پیش کرسکتا ہے؟ کسی نے کبھی پیش کیا، کوئی آج پیش کررہا ہے؟ کوئی آئندہ کبھی پیش کرے گا؟ بتوں کے بندے بے شمار، حرص و ہوا کے پرستار لاتعداد، سیر و تماشہ کے سودائی بےگنتی لیکن دنیا آئے، پارکوں اور سبزہ زاروں کی سیر کرنے والی دنیا آئے، بازاروں اور نمائش گاہوں کی گشت لگانے والی دنیا آئے، عجائب خانوں اور چڑیا خانوں میں وقت گزارنے والی، دنیا آئے اور بیسویں صدی عیسوی میں ایک بار ذرا اللہ کی فوج کے ان سپاہیوں کو، اپنے رب کے ان مستوں کو اور دیوانوں کو دیکھے کہ اس چلچاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی ریت کے اوپر ننگے سر اور پسینہ میں شرابور، مٹی میں اٹے ہوئے اور خاک میں لتھڑے ہوئے کس کس طرح جھک جھک کر اور گر گر کر، رو رو کر، گڑ گڑا کر اپنے ان دیکھے مولا و مالک کے آگے مانگنے اور بھیک مانگنے کے لیے کن کن آرزؤں اور تمناؤں کے ساتھ ہجوم شوق و اشتیاق کے ساتھ، اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں! جو سوال ہوگا، پورا ہوگا، لیکن اتنا کرم تو دنیا کے کریم بھی کر دکھاتے ہیں، انھیں تو وہ ملے گا جو ان کے وہم و خیال میں بھی نہیں، یہ تو وہ پائیں گے جس کا سوال ان کے ذہن میں بھی نہیں۔نور کے بنے ہوئے فرشتے ظلوم و جہول انسان کی اس طاعت و اطاعت پر دنگ رہ جاتے ہیں ۔

۔″ان اللہ ینزل الی السماء الدنیا ویباھی بھم الملائکۃ یقول ھؤلاء عبادی جاؤنی شعثا غبرا یرجون رحمتی و یخافون عذابی ولم یرونی فکیف لو راونی″۔

انھیں دکھایا جاتا ہے اور جنھوں نے کبھی کہا تھا کہ انسان روئے ارض پر فتنہ و فساد ہی کرے گا، انھیں دکھا دکھا کر عرفات کی حاضری دینے والوں پر فخر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو خاک کے پتلوں کا ذوق جبیں سائی دیکھو، آج جب اپنے کو اتنے حجاب میں رکھا ہے، اس وقت تو ان کی تمنائے دیدار اور دیوانگی کا یہ حال ہے پھر جس وقت حجابات اٹھ جائیں گے، اس وقت اس شمع رخ پر پروانے کس بے انداز مستی اور دیوانگی سے گریں گے۔