سچی باتیں۔۔۔ سول سرجن کی منطق۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:22AM Sat 26 Feb, 2022

1930-03-07

مولانا حالیؔ مرحوم، بڑے متین، سنجیدہ اور ’’مقطع‘‘ تھے، اکبرؔ مغفور کی طرح ظریف، شوخ نگار، اور ’’ہنسوڑ‘‘ نہ تھے۔ سرکار برطانیہ کے وفادار، ہواخواہ، ودعاگوتھے، باغی اور غوغائی نہ تھے۔ اس کے باوجود، اپنے دیوان میں، یہ روایت بیان کرتے ہیں، کہ ایک مرتبہ ایک صاحب بہادر، اور ایک نیٹو(کالا آدمی)، دونوں سرکاری ملازم بیمار پڑے، اور رخصت بیماری کے لئے ڈاکٹری سرٹیفکٹ حاصل کرنے کو سول سرجن بہادر کے بنگلے کی طرف چلے۔ ’’صاحب‘‘ باوجود بیمار ہونے کے ماشاء اللہ اتنے مضبوط وتواناتھے، کہ بے تکلف پیدل چل سکتے تھے۔ ہندوستانی بیچارہ ایک گھوڑے پر لداہواتھا۔ راستے میں خدامعلوم کیا افتاد پڑی، کہ آپس میں ہُشت مُشت کی نوبت آگئی، اور

کوکھ میں کالے کے، اِک مُکّا دیا گورے نے مار!

ہندوستانیوں کی ’’بڑھی ہوئی تِلّی‘‘ انگریزی قیام حکومت کی ابتداء سے ، ہمیشہ صاحب بہادروں کی ٹھوکروں کی تختۂ مشق چلی آرہی ہے۔ اس غریب کی بھی تلّی پرآئی گئی ہوئی، اور

چوٹ کے صدمے سے غش کالے کو آیا چند بار!۔

پیدل چلنے کے قابل پہلے ہی سے نہ تھے، اب گھوڑے کی سواری سے بھی معذور ہوگئے۔ ڈولی پرلادے گئے، اور سول سرجن بہادر کی کوٹھی پراس شان سے پہونچے ، کہ صاحب بہادر تو ٹہلتے اور اکڑتے ہوئے آگے آگے، اور اُن کے پیچھے وہ پٹاہوا بیمار ہندوستانی ڈولی پر لداہوا۔

آخرش کوٹھی پہ پہونچے جاکے دونوں پیش وپس

ضارب اپنے پاؤں اور مضروب ڈولی میں سوار۔

سول سرجن بہادر نے معائنہ فرمایا، اور مرض کے حالات سُنے ہوں یا نہ سُنے ہوں، لیکن مریضوں کی تازہ سرگزشت بہرحال سُن لی۔ اور مرض کو چھوڑ کر مریضوں کی یہ نہایت صحیح تشخیص فورًا کرلی، کہ گورے کے ضعیف وزارونزار ہونے میں ذرا شک نہیں، ایک کالے آدمی کو اُس نے ٹھونکا، اور وہ پھر بھی نہ مَرا، اِس سے بڑھ کر اس گورے کے بے جان ہونے کی اور کیا شہادت ہوسکتی ہے  ؎

یعنی اِک کالا نہ جس گورے کے مُکّے سے مَرے

کر نہیں سکتا حکومت ہند پر وہ زینہار۔

اور ٹھیک اسی طرح اُس کالے کے ہٹے کٹے اور توانا وتندرست ہونے میں بھی مطلق شبہہ نہیں، اُس کی توانائی اور سخت جانی اسی سے ظاہر ہے کہ اُس نے ’’صاحب‘‘ کی مار کھائی، اور پھر بھی زندہ وسلامت ہے! اور ہرگز اس قابل نہیں، کہ اسے بیماری کا سرٹیفکٹ دیا جائے ؎

ایک کالا پِٹ کے جو گورے سے فورًا مر نہ جائے

آئے بابا اُس کی بیماری کا کیونکر اعتبار!۔

سول سرجن بہادر کا فیصلہ، اور مولانا حالیؔ کا تجربہ آپ نے سُن لیا؟ یہ نظم کچھ آج کی کہی ہوئی نہیں۔ اِسے کہے ہوئے نصف صدی کی مدت ہوچکی۔ اِس نصف صدی میں، ہندوستان کی دنیا، ہندوستان کے کالے آدمیوں اور صاحب بہادروں کی دُنیا کچھ آگے بڑھی؟ سول سرجن بہادر کی منطق نے کچھ ترقی کی؟ حالیؔ مرحوم کی روایت کو چھوڑئیے۔ آپ خود فرمائیے، کہ آپ کا تجربہ اور آپ کا مشاہدہ کیاہے؟سرکار کے ہر محکمہ میں ، دفاتر حکومت کے ہر صیغے میں، ریل کے ہر اونچے درجے میں، اعلیٰ ہوٹلوں میں، اسٹیشنوں کے ویٹنگ روم میں، کلب میں، پارک میں، ہرجگہ اور ہرمقام پر، شب وروز آپ کیا دیکھتے رہتے ہیں، اور خود آپ پر کیا گزرتی رہتی ہے؟