الراس دبی میں سال کی آخری تراویح۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

01:06PM Sun 1 May, 2022

آج ماہ رمضا ن المبارک کی تیسویں شب تھی، الراس دبی کی مسجد الفطیم میں ہم نے  نماز تراویح ادا کی ، بھٹکل کے نوجوان حافظ  قرآن       (۱  )عبدالحی بن مولانا محمد شعیب ائیکری، (  ۲)محمد  حسن بن محمد اشفاق گوائی،  (  ۳)عبد الدائم بن یاسر ، فکردے، (۴  ) عبدالرحمن زعیم بن سیف اللہ شریف، (  ۵) عبدالرحمن بن محمد رضوان رکن الدین،  نے    باری باری، بیس رکعت تراویح کی امامت کی، روح پرور فضا میں خوشنما تلاوت سن کر دل بھر آیا، اور ذہن ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔امسال اس مسجد میں مذکورہ بالا حفاظ  کرام کے علاوہ بھٹکل  ہی کے (۶  ) حافظ عبد المنعم بن شبیر لونا،   (۷  )تابش بن مشتاق شابندری پٹیل،  (۸  )رائف بن جمیل پیشمام ،  (۸  )عبد القوی بن عبد الرحیم دامدا فقیہ،  (۹  )محمد عبد ان بن غفران دامداابو نے مختلف دنوں میں  تراویح اور قیام اللیل کی امامت کی۔ اور اس کےبالمقابل مسجد بن دلموک میں  حافظ شبیر احمد ڈانگی نے  حافظ محمد حسن کی شراکت میں صلاۃ اللیل کی امامت کی۔

ممکن یہ منظر شاید اب  بہتوں کے لئے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا ہو، لیکن جنہوں نے الراس ، دبی کے اس بابرکت علاقے میں گذشتہ چار دہائیں گذاری ہیں،اور یہا ں کے سرد وگرم موسموں کو دیکھا ہو،ان  کے لئے  یہ جذباتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اتنے طویل عرصے تک اسے دیکھنے والے اب یہاں رہ ہی کتنے گئے ہیں ، مسجد میں نماز پڑھ کر نکلیں تو پرانے شناسا نظر ہی نہیں آتے، جن سے پرانی یادوں کو شیر کیا جاسکے۔

۔۱۹۶۲ء میں دبی میں بھٹکلی احباب کی آمد شروع ہوئی تھی، ۱۹۷۴ء  تک یہ تعداد چار پانچ افراد تک ہی  محدود تھی، پھر تلاش معاش کے لئے یہاں آنے والوں کی رفتار بڑھنے لگی ،اور ۱۹۸۰ء کے دہے کے ساتھ ساتھ اس رفتار میں بہت تیزی آگئی، یہاں آنے والوں کا ایک تانتا لگ گیا، ۱۹۷۰ کی دہائی میں بھٹکلی احباب زیادہ تر بر دبی میں رہتے تھے، لیکن سنہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں الراس کو انہوں نے اپنا مرکز بنادیا، اور سنہ  ۲۰۰۵ ء تک الراس میں پبلک لائبریری سے   لے سونا بازار کی گیٹ تک  نصف کیلومیٹر لمبی الراس اسٹریٹ کے آس پاس کے علاقے میں    (۱۸۶  ) کی تعداد میں ان کے رہائشی فلیٹ پائےجانے لگے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران اب لوگوں نے مختلف اسباب سے  دوسرے علاقوں میں نقل مکانی  شروع کی ہے، اور اب یہاں  ان فلیٹوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی رہ گئی ہے۔

یہ  علاقہ مسجدوں سے آباد ہے ، لیکن الراس اسٹریٹ پر آمنے سامنے واقع  دو مسجدیں  الفطیم ، اور بن دلموک ان کے ملنے جلنے کے مرکز رہے ہیں، اور نماز جمعہ اور دوسری نمازوں سے  فراغت کے بعد جب لوگ نکلتے ہیں  تو وطن عزیز بھٹکل کا سماں سا بندھ جاتا ہے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ان مساجد میں بھٹکل کے جاننے پچاننے والے جتنے یہاں ملتے تھے، وہ بھٹکل میں بھی کسی ایک جگہ پر مشکل سے ملا کرتے تھے۔

۔۱۹۸۲ ء میں مسجد الفطیم  کی تعمیر نو مکمل ہوئی، اس کو تعمیر کرنے والے صاحب خیر تاجر شیخ حمد الفطیم مرحوم   کو میلاد النبی ﷺ وغیرہ  منانے والے افراد پسند۔۔ تھے، ان کےگھر پر بھی  ۱۲ ربیع الاول کی مناسبت سے دبی میں مولود شریف کی بہت بڑی مجلس منعقد ہوا کرتی تھی، مرحوم کا شمار اعیان میں ہوتا تھا، اور آپ  کا اثر و رسوخ  بھی بہت زیادہ تھا، مرحوم بڑے صاحب خیر  شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی  بنائی ہوئی اس مسجد میں ایک بریلوی مکتب فکر کے امام کو رکھا تھا، انہیں وہ بہت پسند کرتے تھے، اور ان کی ہر بات مانتے تھے، جس کی وجہ سے یہ مسجد اس علاقے میں  ربع صدی تک اس مکتب فکر کے لوگوں کا اہم ترین مرکز بن گئی ،  یہاں  اس مکتب فکر کے چوٹی کے خطیب اور نعت خواں آتے تھے،مختلف موسموں میں ان کی سرگرمیوں سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز گونجا کرتی تھی، اس دوران یہاں پر  اس مکتب فکر کے سبھی مشہور عالموں اور خطیبوں ،  مولانا شاہ تراب الحق، محمد شفیع اوکاڑوی، پیر کرم شاہ الازہری، مولانا اختر رضاں خان بریلوی وغیرہ کی مجالس یہاں پر منعقد  ہوئیں، قراء اور نعت خوانوں میں قاری غلام رسول،قاری خوشی محمد ازہری،قاری وحید ظفر قاسمی، صدیق محمد اسماعیل  اور نہ جانے کون کون آتے تھے، ۱۲ ربیع الاول اور ۲۷ویں رمضان وغیرہ میں ایک ہجوم رہتا تھا، اور کراچی اور ممبئی کی مجلسوں کا سماں بندھ جاتا تھا، اس زمانے اسکے بالمقابل مسجد بن دلموک بھٹکلی احباب کا مرکز تھی۔ یہاں پر سرگرمیوں کی اتنی آزادی تو نہیں تھی، باوجود اس کے یہاں کے امام مسعود خمیس مرحوم متعاون  تھے، وقتا فوقتا ہمارے احباب میں سے جناب محمد علی پرواز مرحوم ، اور حافظ شبیر احمد ڈانگی  ان کی غیر حاضری میں آذان وامامت کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔

۔۱۹۸۴ء میں بن دلموک کی تعمیر نو ہوئی، اسے شیخ ماجد الفطیم مرحوم نے اپنے صرفہ پر تعمیر کیا تھا، یہ مسجد اہل بھٹکل کے لئے بڑی بابرکت ثابت ہوئی، مسجد کے افتتاح سے چند ماہ قبل مولانا محمد نظام الدین رانچوی ندوی صاحب کی ۱۹۸۳ء میں مرکز الدعوۃ والارشاد دبی میں تقرری ہوئی، ہم لوگوں کی خواہش پر مولانا نے پہلے  سوق الظلام میں   مرکز عمر بن الخطاب لتحفیظ القرآن کے سامنے واقع  قدیم مسجد بن نایم میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، اور جب مسجد بن دلموک  کا افتتاح ہوا تو پہلے روز سے یہاں پر روزانہ  بعد عشاء تفسیر قرآن کا درس شروع کیا ، کم وبیش یہ پابندی کے ساتھ یہ سلسلہ  (  ۳۵) سال تک جاری رہا، جس میں دور دور سے لوگ مستفید ہونے کے لئے آتے تھے، مولانا نظام الدین صاحب کا جیسا تعارف دعوتی اور علمی حلقے میں ہونا چاہئے وہ نہ ہوسکا، ورنہ ندوۃ العلماء  لکھنو، اور سعودی عرب کی جامعات میں آپ کے معاصرین نے برصغیر میں بڑی شہرت پائی ہے، آپ نے ۱۹۸۲ء میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ۔ الریاض سے ماجستیر کی سند حاصل کی تھی۔سلاست زبان اور قوت خطابت کی مالک  ایسی شخصیات ہم نے شاذ ونادر دیکھی ہیں ، اگر  ذاتی مجبوریاں نہ ہوتیں، اورانہیں وطن  میں علم ودعوت کی خدمات کا موقعہ ملتا تو شاید چار دانگ عالم میں مشہور ہوتے، لیکن مشیت خداوندی  کو یہی منظور تھا۔

مسجد بن دلموک نے بر صغیر کی بہت سی عظیم شخصیات کی مجلسیں دیکھیں، ایک زمانہ تھا کہ دبی میں آنے والی  بر صغیر کی بڑی بڑی بڑی شخصیات کی یہاں پر مجلسیں ضرور ہوا کرتی تھیں، یہاں پر حضرت مولانا ابو السعود احمدؒ ، بانی جامعہ سبیل الرشاد  بنگلور،مولانا  قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ سابق  صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مولانا محمد انظر  شاہ کشمیریؒ شیخ الحدیث وقف دارالعلوم دیوبند، مولانا محمدسالم قاسمیؒ ، مہتمم وقف دارالعلوم دیوبند، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ؒ بانی جامعہ فاروقیہ کراچی، مولانا نثار احمد ؒ سابق نائب صدر یوکے اسلامک مشن لندن، وغیرہ کی دینی مجالس  بارہا   منعقد ہوچکی ہیں۔

عرصہ تک احباب کی تمنا رہی کہ یہاں پر تراویح میں حفاظ سے مکمل قرآن سننے کا نظم ہو، یہاں پر مقیم پرانے بھٹکلی حفاظ میں سے حافظ ارشاد احمد صدیقی، اور حافظ شبیر احمد ڈانگی پرائیوٹ طور پر فلیٹوں وغیرہ میں اس کا انتظام کرتے تھے، لیکن مسجد بن دلموک میں اس کا کوئی نظم نہیں ہو پارہا تھا، اور یہ تمنا عرصہ تک دل ہی دل میں رہی۔  مسجد کے امام مسعود خمیس مرحوم کے اس سلسلے میں تحفظات تھے، ان کی تیز رفتار تراویح بہت مشہور تھی، لوگ دور دور اس میں شریک ہونے کے لئے آتے تھے، مرحوم کا خیال تھا کہ اگر یہاں  تراویح میں تکمیل قرآن کا نظم ہو تو بازار کی جگہ ہونے کی وجہ سے  ، لوگوں کی بڑی تعداد تراویح سے محروم رہ جائے گی، طویل انتظار کے بعد کوششیں رنگ لائیں،  اور ۲۰۰۲ء میں رمضان المبارک میں  بھٹکل کے مایہ ناز حافظ مولوی محمد مصدق ہلارے ندوی کی امامت میں تراویح میں ختم قرآن کا آغاز ہوا، اس موقعہ پر بھٹکل کے ایک اور مایہ ناز حافظ  مولوی محمد عمران اکرمی بھی تراویح کی امامت میں آپ کے شریک ہوئے، پھر حافظ خلیل الرحمن گوائی، حافظ ارشاد احمد صدیقی، حافظ مزمل ہلارے وغیرہ ائمہ تراویح کا ایک سلسلہ چل پڑا، جنہوں نے رمضان مبارک کی راتو  ں میں تراویح اور صلاۃ اللیل کو اپنی پر بہار تلاوتوں سے منور کیا اورانکی برکتوں کو دوبالا کیا، کیا خیال ہے آپ کا ؟ جس کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ دور گزرا ہو، اور جنہیں اللہ تعالی نے اس نیک کام کے لئے کوششوں کی توفیق دی ہو، اور جو رمضان المبارک کی آخری رات میں اپنے سیراب کئے ہوئے شجر کوثمر آور ہوتے دیکھ رہے ہوں، کیا یہ منظر دیکھ کر ان کا  دل بھر نہیں آئے گا،اللہ دبی کو شاد وآباد رکھے۔

+971555636151

2022-05-01