بات سےبات ۔۔۔سالانہ امتحانات پر حضرت تھانوی کا ملفوظ

Bhatkallys

Published in - Other

03:13PM Thu 13 Oct, 2022

دو روز قبل ہمارے محترم مولانا محمد طلحہ منیار صاحب نے علم وکتاب گروپ پر ہمارے دینی نظام تعلیم میں امتحانات کے غیر ضروری ہونے پر اپنا ایک نقطہ نظر پیش کیا تھا، اور اس کی تائید میں حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ کا یہ ملفوظ پیش کیا تھا، *حضرت والا کا طریقۂ امتحانِ طلبہ* فرمایا: آج کل جو تحریری امتحان رائج ہے میں تو اس کا مخالف ہوں ۔ اس میں طلباء پر بڑی مشقت و گرانی پڑتی ہے۔ امتحان سے مقصود تو استعداد کا دیکھنا ہے ، سو طالب علمی کے زمانہ میں اس قدر استعداد کا دیکھنا کافی ہے کہ اس کتاب کو یہ اچھی طرح سمجھ بھی گیا یا نہیں ، سو یہ بات کتاب دیکھ کر امتحان دینے سے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔باقی رہا حفظ ہونا یہ پڑھنے پڑھانے سے خود ہو جاتا ہے، بلکہ طالب علمی کے زمانہ کا حفظ یاد بھی نہیں رہتا اور دماغ مفت میں خراب ہو جاتا ہے۔ میرے یہاں کانپور میں ہمیشہ تقریری امتحان ہوتا تھا اور شروح و حواشی دیکھ کر بھی جواب دینے کی اجازت تھی، جس سے سب طلباء دعا دیتے تھے ۔ بس اس قدر دیکھ لے کہ اس مقام کو یہ طالب علم مطالعہ سے یا حواشی و شرح کی اعانت سے حل بھی کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اس سے زیادہ بکھیڑا ہے ۔ اور اس رائے کو میں نے دوسرے مدارس میں بھی پیش کیا مگر آمنا تو ہے لیکن عملنا نہیں ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت": جلد ۱۱، ص ۱۷۴ ) اس ملفوظ کو دیکھ کر پہلے تو ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے اکابر کے افکار وخیالات کے ساتھ ابتک بڑی زیادتی ہورہی ہے،ان کے افکار وخیالات کو مناسب انداز سے دانشور حلقے تک نہیں پہنچایا جارہا ہے، اور اس زیادتی کا بڑا سبب ان کےوہ عقیدت مند ہیں، جو ان کے افکار وخیالات پر عقیدت سے آمنا وصدقنا کہ کر بیٹھنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے ،اس طرح ان کے حلقہ اثر کو اپنے محدود حلقہ سے آگے بڑھنے نہیں دیتے، آج کے دور میں اپنے حلقے سے باہر موثر انداز سے نقد وتبصرہ اور تجزیہ ہی کسی شخصیت کےافکاروخیالات کے پھیلنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔ حضرت حکیم الامت اور نظام تعلیم وتربیت ایک ایسا موضوع ہے جس پر معیاری ڈاکٹریٹ اور یم فل کے مقالات آسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس موضوع پر ابھی تحقیقی وتجزیاتی کہاں تک ہوا؟۔ ہمارے نظام تعلیم میں جہاں تک امتحانات کا تعلق ہے تو یہ ضرور ہے کہ اس سے سال میں کئی ایک بار آموختہ یاد کرنے میں مدد ملتی ہے، اور پڑھا ہوا یاد رہنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔ حضرت حکیم الامتؒ کا یہ قول کہ (طالب علمی کے زمانہ کا حفظ یاد بھی نہیں رہتا اور دماغ مفت میں خراب ہو جاتا ہے) پہلی مرتبہ ہماری نظر سے گذرا ہے، ہماری یہ رائے کافی عرصہ سے ہے کہ طلبہ جس عبارت کو سمجھ نہیں پاتے انہیں ازبر کروانا ان کی محنتوں کا ضیاع ہے،البتہ اس سے قرآن کریم مستثنی ہے، اس سلسلے میں بھی ہماری رائے ہے کہ دوران تعلیم آیات الاحکام کو حفظ کرنے کا رواج ہونا چاہئے، اور قرآن کریم کا ترجمہ مکمل پڑھنے اور فراغت کے بعد حفظ قرآن پر جو محنت کی جاتی ہے، وہ زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں سالانہ امتحانات کا جو نظام ہمارے دینی تعلیم اداروں میں رائج ہے ، اور اس کی بنیاد پر اگلے درجے میں ایک طالب علم کی منتقلی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے، وہ ایک مجبوری کے تحت ہوا ہے، اور یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہو گی کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں کا معیار گھٹنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے، امتحانات اور اس کی بنیاد پر اگلے درجات میں منتقلی کا نظام ہمارے یہاں رائج نصاب تعلیم خاص طور پر درس نظامی میں ٹاٹ کا پیوند ثابت ہورہا ہے۔ دراصل انتظامی نقطہ نظر سے اس وقت دنیا میں دو نظامہا ئے تعلیم رائج ہیں، ایک حکومتی تعلیم کی وزارتوں کے ماتحت یونیورسٹیوں کا نظام ، جس میں زیادہ تر توجہ کتاب پڑھا نے اور حل الفاظ کے بجائے علم وفن سکھانے پر دی جاتی ہے، اس میں کتابوں کی حیثت معاون کی ہے، اس میں بنیادی اہمیت لکچرس، نوٹس اور پروجکٹس کو حاصل ہوتی ہے، اس نظام میں ازبرکے بجائے مذاکرہ ، مشاہدہ اور غور وتفکر کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی اداروں کے فارغین کو اپنی سندیں نہ صرف وطن عزیز میں بلکہ عالم عرب سمیت دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور وزارت تعلیم سے منظور کروانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے، کیونکہ تعلیم کی وزارتوں کا اپنا ایک سانچہ ہوتا ہے، جس میں سند کے ساتھ دسویں سے آخر تک کے نمبرات کی لسٹ دیکھی جاتی ہے، انہیں ہمارے مدارس کے نمبرات دینے کا نظام سمجھ میں نہیں آتا، وہ کہتے ہیں کہ آپ کی سندوں کا سانچہ رائج الوقت سرٹیفکیٹوں کے مطابق نہیں ہے، یہ تو حدیث اور کتابوں کی جو اجازتیں دی جاتی ہیں ان کی طرح کاہے، آپ نے ابتک کون کون سے علوم وفنون پڑھے ہیں ، ان کی مارکس شیٹ لائیں۔ دوسرا نظام ہمارے دینی مدارس کا ہے، اس میں ساری محنت فن کو سمجھنے اور اس کی عملی تطبیق سے زیادہ فن کی کتابیں سمجھنے، ان کا ترجمہ کرنے اور ان کی عبارتیں حل کرنے پر صرف کی جاتی ہے، اس کے نتیجے میں ایک طالب علم مشکل سے مشکل عبارتیں حل کرتا ہے، عبارتوں کے باریک سے باریک رموز تک وہ پہنچتا ہے، لیکن بیس سال تک نحو کی مشکل ترین کتاب شرح ملا جامی کا کامیاب مدرس ہونے کے باوجود سلیس عربی زبان میں ایک درست عبارت لکھ نہیں سکتا، (یہ ایک الگ موضوع ہے، جسے کسی دوسری مجلس پر چھوڑتے ہیں)۔ دینی مدارس میں سالانہ امتحانات، اور اگلے درجات میں طلبہ کی منتقلی کے موجود نظام کے رائج ہونے سے قبل ہمارے یہاں کے قدیم مدرسین کا طریقہ یہ تھا کہ اساتذہ طلب صادق رکھنے والوں ہی کے لئے اپنا وقت قربان کرتے تھے، اور اپنے طلبہ کو فنون کی کتابیں مکمل پڑھایا کرتے تھے، آخری دور میں دہلی کے اساتذہ میں مولانا عبد السلام نیازیؒ ، اور مولانا محمد اسحاق رامپوری کا تذکرہ آتا ہے، چونکہ ان حضرات کی ساری توجہ حل عبارات پر ہوتی تھی ۔ لہذا انہیں تصنیف وتالیف کی مشق نہیں ہوا کرتی تھی،لہذا ان کے تذکرے ہماری تاریخ سے تقریبا مٹ سے گئے ہیں ، ورنہ ان شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت میں منظق وکلام کی امام تھے، تذکروں میں آتا ہے کہ مولانا نیازی سے جب صاحب تفہیم نے عربی زبان منطق وکلام کی کتابیں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو طلب صادق کا امتحان لینے کی غرض سے پہلے معذرت کردی، پھر شرط رکھی کہ تہجد کے اوقات میں صبح کے تین بجے دہلی کی کڑاکے کی سردی میں گھر سے طویل فاصلہ پیدل طے کرکے پڑھنے آئیں، اور صاحب تفہیم نے اس طرح رات کی تاریکی میں محنت کرکے آپ سے بلاغت، منطق فلسفہ وغیرہ کی کتابیں پڑھیں۔ درس نظامی اور رائج الوقت دینی علوم کی تعلیم کا طریقہ یہ تھا کہ طلبہ اساتذہ کے پاس جاتے اور ان سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں حرف بہ حرف مکمل پڑھتے تھے ، طلبہ کو پڑھنے کے لئے آنے سے قبل نئے سبق کو خوب سمجھ کرآنا پڑتا تھا، اور اساتذہ تقریر کے بجائے حل مشکلات پر اپنی توجہ صرف کرتے تھے، مولانا احمد علی لاہوری کے شش ماہی دورہ تفسیر کے سلسلے میں مولانا صبغۃ اللہ بختیاریؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ باقیات الصالحات ویلور نے ہمیں یہی بات بتائی تھی۔اور حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے درس کا انداز بھی یہی تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سال کے آغاز میں کتابوں کے ابتدائی ابواب پر خوب محنت ہوتی ہے، ایک ایک مسئلہ پر کئی کئی روز بحث چلتی ہے، لیکن جب امتحانات قریب آنے لگتے ہیں، توپھردرسیات کو پر لگ جاتے ہیں، کتابوں کے صفحات ایسے پلٹتے ہیں جیسے ہواؤں کی لپٹیں چل رہی ہوں، کسی استاد کے یہاں متوازن انداز سے خوب سمجھ کر کوئی کتاب شاید ہی ختم ہوتی ہو، اس کا نتیجہ ہے کہ نہ فن آتا ہے نہ کتاب سمجھ میں آتی ہے، اس طرح نصاب کی روح ختم ہوجاتی ہے۔ مختلف نصابہائے تعلیم کے نقائص پر تو خوب زبانیں کھلتی ہیں، کبھی اس نظام تعلیم کو بھی کہیں رائج کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ کبھی ترقی یافتہ نہ ہونا ، زندگی کی آسائشوں کی عدم فراہمی، یتیمی کی زندگی بھی نعمت بن جاتی ہے، ہمارے مفتی شاہجہاں صاحب درہ خیبر کے پار کی پہاڑیوں میں اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ان کی بہت ساری باتیں ہمارے پلے نہیں پڑتیں، انہوں نے جو معاشرت دیکھی ہے، اس سے ہم آشنا نہیں ہوئے،وہ جب نصاب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اسی ماحول کی بات کرتے ہیں جو اب عنقا ہوچکا ہے، ان کے ہاتھ میں ہمیشہ صرف صحیح بخاری محشی (قدیم) یا فیض الباری ہمیشہ ہم نے دیکھی،اضواء البیان کے مصنف شیخ محمد امین الشنقیطی کے سلسلے میں مولانا حفیظ الرحمن اعظمی مرحوم نے لکھا ہے، کہ انہیں کبھی کوئی کتاب مطالعہ کرتے نہیں دیکھا گیا، حالانکہ وہ تفسیر ولغت میں امام تھے۔ چونکہ ہمارے مفتی صاحب نے بھی اساتذہ کی چوکھٹ پر جاکر علم کی پیاس بجھائی ہے، اور فن کی کتابیں حرف بحرف مکمل ان سے پڑھی ہیں، لہذا آپ کے سینے میں جو علم محفوظ ہے، اس پر ہم صرف رشک ہی کرسکتے ہیں۔ دراصل ہر نظام تعلیم کی اپنی روح اور تقاضے ہوا کرتے ہیں، ان کے مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں، اس وقت ہمارے مدارس دینیہ میں جو طلبہ زیر تعلیم ہیں، ان کی عمریں اللہ کی امانت ہیں، ان کا حساب دنیا میں نہ سہی، آخرت میں ضرور دینا ہوگا، مدراس دینیہ کو صرف دین کے قلعے اور امید کی آخری کرن وغیرہ کہنے سے اس امانت کا حق پورا نہیں ہوگا، اس کے لئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے کو کن کن صلاحیتوں کے حامل علماء کی ضرورت ہے، اور ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کس طرح ہمیں مختلف ذمہ داریوں کو تقسیم کرکے آگے کو بڑھنا ہوگا، اب کسی مدرسے سے سالانہ سو طلبہ سولہ سال تعلیم پاکر نکلتے ہیں، اور ان میں سے چار پانچ بھی قابل نہیں ہوتے، اور پچانوے فیصد طلبہ کی صلاحیتیں، مناسب ماحول کی عدم فراہمی یا دوسری مجبوریوں سے چند ماہ میں ثانویہ کے معیار تک نیچے اتر جاتی ہے، اور جس قرآن پاک کو تین چار سال دن و رات محنت کرکے ازبر کیا ہے، وہ بھی سینوں سے نکل جاتا ہے ، تو پھر یہ محنتوں اور قربانیوں کا ضیاع ہے، اس ضیاع سے بچنے کے لئے کچھ تو سوچنا ہوگا۔ WA:00971555636151 2022-10-12